دو ہزار روپے کی حکومتی سبسڈی ` آپ کو غریبوں کا ووٹ

دو ہزار روپے کی حکومتی سبسڈی ` آپ کو غریبوں کا ووٹ

دو ہزار روپے کی حکومتی سبسڈی ` آپ کو غریبوں کا ووٹ اور امیروں کی سپورٹ چاہیے

حکومت کی جانب سے 40 ہزار سے کم آمدن والے افراد کی مدد کے لیے دو ہزار روپے دیے جانے کے اعلان کے فوراً بعد عوام کی ایک بڑی تعداد نے 786 پر فون کرنا شروع کر دیا۔ اس پر کئی لوگوں نے سوشل میڈیا پر اپنے اکاؤنٹس پر بتایا کہ کیسے ان کو فون کرنے کے بعد کوئی جواب موصول نہیں ہو رہا۔ جبکہ کئی لوگوں نے اپنی فون کال کی سکرین شاٹ بھی شیئر کیں۔

ان شکایات کے جواب میں حکومت کی جانب سے یہ واضح کیا گیا کہ اس نمبر پر فون نہیں بلکہ ٹیکسٹ میسج کے ذریعے اپنے شناختی کارڈ کے نمبر کا اندراج کروانا ہے تا کہ ان کی تفصیلات سبسڈی کے لیے جمع ہو جائیں۔

خیال رہے کہ پاکستان کی وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کرتے ہوئے ان تمام لوگوں کے لیے دو ہزار روپے کی سبسڈی مختص کی ہے جن کی تنخواہ 40 ہزار سے کم ہے۔

وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ یہ سبسڈی ان شہریوں کے لیے ہے جن کی ماہانہ آمدنی کم ہے اور پیٹرول کی بڑھتی قیمتوں سے جن کا خرچہ مزید بڑھ جائے گا۔

اس سکیم کے لیے خود کو رجسٹر کرنے والے خواہشمند افراد کو اپنے فون سے 786 پر اپنی تفصیلات کا اندراج کرنے کو کہا گیا۔

حکومت کا کہنا ہے کہ سبسڈی کا مقصد کم تنخواہ پر مامور افراد کو ریلیف دینا ہے۔

مستحق افراد اس سبسڈی سے کیسے مستفید ہو سکتے ہیں؟

حکومتی ترجمان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہ سبسڈی بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا حصہ ہے۔ جس پر پہلے کام کیا گیا ہے۔ پہلے سے انکم سپورٹ پروگرام میں جن کا اندراج ہو چکا ہے انھیں تو یہ رقم ملے گی ہی، ساتھ ہی جو اندراج کرانے کے خواہشمند ہیں ان کے لیے تفصیلات واضح کردی گئی ہیں۔

ترجمان نے بتایا کہ `یہ سبسڈی اسی طرز پر ملے گی جس طرح سے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے درج شدہ افراد کو ملتی ہے۔ اس میں بینکوں کو شامل کیا جائے گا تاکہ پیسوں کی بروقت فراہمی کو منظم طریقے سے ممکن بنایا جا سکے۔‘

ترجمان کا کہنا تھا کہ اس سبسڈی کے لیے بجٹ میں 28 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قسم کی سبسڈی سکیم کا کوئی فائدہ بھی ہے؟

موجودہ معاشی صورتحال کے پیشِ نظر سبسڈی دینے کے اس اقدام کو زیادہ تر ماہرین خوش آئند سمجھ رہے ہیں کیونکہ اس سے عوام کو رعایت ملے گی۔

دوسری بات یہ بھی ہے کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت ٹارگیٹڈ سروے کیے گئے تھے تا کہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ کس طبقے کی کیا ضرورت ہے اور اسے کیسے اور کتنی رعایت دی جائے۔ اس سروے کا ایک فائدہ یہ ہوا ہے کہ عوام کی ضروریات کا اندازہ لگا کر یہ سبسڈی پروگرام متعارف کیا گیا ہے۔

اس کے دوسرے پہلو پر بات کرتے ہوئے ماہرِ معاشیات ہارون شریف نے بتایا کہ ایسی سبسڈی کا ایک مقصد اپنے حلقے کے لوگوں کا ووٹ حاصل کرنا بھی ہے۔

انھوں نے کہا کہ `پاکستان پیپلز پارٹی چاہے گی کہ وہ عوام دوست منصوبے کے تحت مزید آمدنی بحال کرنے میں عوام کی مدد کرے جبکہ مسلم لیگ نون کا بنیادی مقصد تاجروں کی بقا ہے تو وہ ایسے منصوبے لانا چاہیں گے جن سے تاجر محفوظ رہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ اگر ‘آپ تمام سیاسی جماعتوں کا تجزیہ کریں تو پچھلی حکومت نے امیروں اور بیوروکریٹس کو تقریباً 1عشاریہ 75 کھرب کی ٹیکس رعایتیں دی تھیں۔ امیروں پر ٹیکس عائد کیے بغیر آپ عوام کو دیرپا فوائد نہیں پہنچا سکتے۔ اس کا حل یہی ہے کہ امیروں سے لے کر غریبوں کے لیے گنجائش بنائیں۔’

لیکن کیا موجودہ معاشی صورتحال میں عوام کو فائدہ پہنچانے اور ساتھ ہی امیروں پر ٹیکس لگانے جیسے اقدامات کو یقینی بنایا جاسکتا ہے؟

ہارون شریف سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال اس کی اجازت نہیں دیتی۔

‘اس وقت آپ کو غریبوں کا ووٹ اور امیروں کی سپورٹ چاہیے۔ امیر طبقے سے زیادہ ٹیکس لینا پڑے گا ورنہ غریبوں کو دی جانے والی یہ معاشی رعایت موجودہ وقت میں تو ٹھیک چلے گی لیکن یہ دیرپا نتائج نہیں دے سکے گی۔ اور اسے ختم کرنا پڑے گا۔’

جبکہ ماہرِ معاشیات اسد سعید کہتے ہیں کہ پاکستان میں اس سے پہلے بھی بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت غریبوں کی مدد کی جاتی رہی ہے۔ ‘لیکن اس کے بارے میں کوئی مصدقہ ڈیٹا نہیں ہے جس کو دیکھ کر بتایا جا سکے کے اس امداد کے تحت لوگوں کی زندگی پر کیا واضح فرق پڑا ہے۔’

لیکن اس کے ساتھ ہی انھوں نے یہ واضح کیا کہ خواتین اور بچوں کی نشونما اور تعلیم کے اخراجات میں مدد ہوئی ہے۔

‘اس وقت جو معاشی بحران ہمارے سامنے ہے اس میں عوام کی مدد کرنے کے لیے یہ (سبسڈی) ایک اچھا اقدام ہے۔ آگے جا کر بھی یہ چلتا رہے گا کیونکہ اب تک ایسے پروگرامز کے نتائج اچھے ہی ملے ہیں۔’

اسی سلسلے میں اس وقت انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ یعنی آئی ایم ایف کا پچھلے ایک ہفتے سے ہونے والا جائزہ بھی معنی خیز ہے۔

آئی ایم ایف نے پاکستان کی جانب سے بجٹ متعارف کرنے کے بعد حکومت سے جواب طلب کیا ہے کہ وہ بجٹ کے تحت سرکاری ملازموں کی تنخواہوں میں اضافے کو کیسے پورا کریں گے۔ یعنی اس کے لیے رقم کہاں سے آئے گی؟

inflation

اس جائزہ اجلاس میں اٹھنے والے سوالوں سے ایک تاثر تو یہ ملتا ہے کہ پاکستان نے بجٹ پیش کرنے سے پہلے آئی ایم ایف کو اعتماد میں نہیں لیا تھا۔ اور ماہرین کا کہنا ہے کہ بجٹ پیش کرنے سے پہلے آئی ایم ایف سے معاملات طے کر لینے چاہیے تھے اور پھر بجٹ پیش کرنا چاہیے تھا۔

ہارون شریف نے کہا کہ ‘اب آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ پاکستان کو اپنا بجٹ آئی ایم ایف کے بتائے ہوئے مقاصد کے مطابق ڈھالنے کی مزید ضرورت ہے۔ جبکہ پاکستان 9 کھرب روپے کے بجٹ کے تحت آئی ایم ایف سے مزید بیل آؤٹ پیکج لینا چاہتا ہے۔ تاکہ بگڑتی ہوئی معیشت کو سنبھال سکے۔’

inflation

دوسری جانب آئی ایم ایف نے ابتدا میں ہی کہہ دیا ہے کہ بجٹ میں پیش ہونے والے نکات حقیقت پسندانہ نہیں ہیں۔

ہارون شریف نے کہا کہ ‘اس وقت پاکستان کو یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ امیروں کو مزید ٹیکس کی چھوٹ دینا مناسب ہے یا پھر عوام کو مہنگائی سے نمٹنے کے لیے کچھ رعایتیں دینا ضروری ہے۔’

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *