بلیو اکانومی کیا ہے اور پاکستان اس میں انڈیا سے

بلیو اکانومی کیا ہے اور پاکستان اس میں انڈیا سے

بلیو اکانومی کیا ہے اور پاکستان اس میں انڈیا سے پیچھے کیوں ہے؟

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے حال ہی کراچی میں منعقد ہونے والی انٹرنینشل میری ٹائم کانفرنس میں اعلان کیا کہ حکومت بلیو اکانومی کو فروغ دینے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔ پاکستان کے نیول چیف ایڈمرل امجد نیازی نے اس سلسلے میں کہا کہ پاکستان میری ٹائم سکیورٹی ایجنسی کو حکومت کی جانب سے بلیو اکانومی کو ترقی و فروغ دینے کے لیے اہم کردار ادا کرنا ہو گا۔

پاکستان کے اعلیٰ سول و فوجی عہدیداروں کی جانب سے بلیو اکانومی کو فروغ و ترقی دینے کے اعلانات کے علاوہ پاکستان کی وزارت بحری امور نے گذشتہ برس 2020 کو بلیو اکانومی کا سال منانے کا اعلان بھی کیا تھا تاہم ملک میں کورونا وائرس کی وجہ سے اس کا سرکاری سطح پر اجرا نہیں ہو سکا۔

پاکستان میں بلیو اکانومی کی ترقی کا مقابلہ اگر خطے کے دوسرے ممالک سے کیا جائے جن میں خاص طور پر بنگلہ دیش اور انڈیا شامل ہیں تو پاکستان ان دونوں سے بلیو اکانومی اور اس سے ملنے والے مالی فوائد سمیٹنے میں پیچھے ہے۔

بلیو اکانومی اور بحری امور کے ماہرین کا پاکستان میں اس سلسلے میں ترقی نہ ہونے کے بارے میں کہنا ہے کہ اس متعلق آگاہی کا نہ ہونا اور مطلوبہ انفراسٹرکچر کی عدم دستیابی کے ساتھ حکومتوں کی عدم توجہی اور اس کے لیے ضروری بھاری سرمایہ کاری نہ ہونا بڑی وجوہات ہیں۔

بلیو اکانومی کیا ہے اور یہ کیسے کام کرتی ہے؟

ڈائریکٹر میری ٹائم سٹڈی فورم ڈاکٹر انیل سلمان نے بتایا کہ پانی سے جڑی معیشت کو بلیو اکانومی کہتے ہیں۔

’جب سے انسان نے معاشی سرگرمیوں کا آغاز کیا، تب سے پانی کے ذریعے تجارت کا کلیدی کردار رہا۔ آج دنیا کی 90 فیصد تجارت پانی کے ذریعے ہی ہوتی ہے اور اس میں دریا اور سمندر دونوں شامل ہیں۔‘

سمندر
آج دنیا کی 90 فیصد تجارت پانی کے ذریعے ہی ہوتی ہے اور اس میں دریا اور سمندر دونوں شامل ہیں

ڈاکٹر انیل نے کہا کہ صرف سمندر اور دریا کے ذریعے سامان کی تجارت اس میں شامل نہیں بلکہ بلیو اکانومی کا تصور بہت وسیع ہے کہ جس میں ماہی گیری اور اس میں پکڑی جانے والی سمندری پراڈکٹس کی پراسیسنگ اور ان کی تجارت اور برآمدات شامل ہیں۔ اس میں جہاز رانی کا شعبہ اور شپ بریکنگ انڈسٹری بھی شامل ہے۔ بلیو اکانومی مینگرووز کا بھی احاطہ کرتی ہے اسی طرح ساحلی علاقے اور اس کی سیاحت کا شعبہ بھی اس میں شامل ہے۔ اس میں آف شور آئل بلڈنگ تو سمندر کی تہہ سے تیل نکالنا بھی شامل ہے۔ اسی طرح میرین بائیو ٹیکنالوجی بھی اس میں شامل ہے۔

ڈاکٹر انیل نے بتایا کہ جس طرح کسی ملک کی معیشت کا اندازہ اس کے جی این پی یعنی گراس نیشنل پراڈکٹ سے لگایا جاتا ہے کہ اس کی مجموعی مالیت کتنی ہے تو بلیو اکانومی کی ویلیو معلوم کرنے کے لیے گراس میرین پراڈکٹ یعنی جی ایم پی کا اطلاق کیا جاتا ہے۔

ڈاکٹر انیل نے کہا کہ دنیا میں بلیو اکانومی کی جی این پی 2.5 ٹریلین ڈالر یعنی 2500 ارب ڈالر ہے۔

پاکستان کی بلیو اکانومی کی صورتحال کیا ہے؟

ڈاکٹر انیل سلمان نے بتایا کہ پاکستان میں بلیو اکانومی کی صورتحال زیادہ حوصلہ افزا نہیں۔

’پاکستان کی بلیو اکانومی کی جی ایم پی صرف 1.5 ارب ڈالر کے قریب ہے اور یہ دنیا کے مقابلے میں بلیو اکانومی کے بہت سارے شعبوں کے مقابلے میں صرف چند شعبوں تک محدود ہے۔ ان میں فشریز، شپنگ، شپ بریکنگ انڈسٹری، مینگرووز اور نہ ہونے کے برابر ساحلی پٹی پر سیاحت شامل ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ بلیو اکانومی کے بہت سارے شعبے پاکستان میں سرے سے ہی غائب ہیں کہ جس کے باعث اس کی ترقی و فروغ نہیں ہو سکی۔

Elements of Blue Economy نامی کتاب کے مصنف وائس ایڈمرل (ریٹائرڈ) افتخار احمد راؤ نے ملک میں بلیو اکانومی کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ سنہ 2007 میں پاکستان میں دو نئے شپ یارڈ بنانے کا اعلان ہوا تھا لیکن آج تک اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ملک میں اس کا فروغ کیسے نہیں ہو سکا۔

سمندر
بلیو اکانومی میں ماہی گیری اور اس میں پکڑی جانے والی سمندری پراڈکٹس کی پراسیسنگ اور ان کی تجارت اور برآمدات بھی شامل ہیں

خطے کے مقابلے میں پاکستان کہاں کھڑا ہے؟

بلیو اکانومی کے شعبے میں اگر پاکستان کا مقابلہ خطے کے ممالک سے کیا جائے تو اس میں بھی ملک کی صورتحال قابل ذکر نہیں۔ پاکستان کے مقابلے میں بنگلہ دیش اور انڈیا بلیو اکانومی میں زیادہ آگے ہیں۔

ڈاکٹر انیل سلمان نے بتایا کہ بلیو اکانومی کے پیمانے جی ایم پی کے لحاظ سے بات کی جائے تو پاکستان کا جی ایم پی 1.5 ارب ڈالر ہے جبکہ اس کے مقابلے میں بنگلہ دیش کا جی ایم پی چھ ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے اور انڈیا بھی چھ ارب ڈالر تک پہنچا ہوا ہے۔

ڈاکٹر انیل نے کہا کہ انڈیا نے خود کو ’بلیو نیشن‘ بنانے کے لیے ایک 15 برس کا ماسٹر پلان تیار کیا جسے انھوں نے ’ساگر مالا‘ کا نام دیا، جس کے ذریعے وہ بلیو اکانومی کے مختلف شعبوں کو فروغ دے سکے۔ اسی طرح بنگلہ دیش نے بھی بہت سارے ایسے اقدامات اٹھائے جن کی وجہ سے ان کی بلیو اکانومی بہترین طریقے سے چل رہی ہے اور اسے اپنے پانچ سالہ منصوبے کا ایک اہم حصہ بنایا جس میں مچھلی کی صنعت کی ویلیو ایڈیشن چین کو بہتر بنایا گیا۔

ڈاکٹر انیل نے بتایا کہ پاکستان اور خطے کے دوسرے ممالک میں مقابلے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستانی مچھلی بیرون ملک دو سے تین ڈالر فی کلوگرام کے لحاظ سے فروخت ہو رہی ہے جب کہ بنگہ دیش اور انڈیا سے جانے والی مچھلی چھ سے سات ڈالر فی کلو گرام فروخت ہوتی ہے۔ جس کی وجہ ہمارے ہاں مچھلی کی پراسیسنگ کا ناقص نظام ہے اور ان ممالک میں اس پر خصوصی توجہ دی گئی۔

افتخار راؤ نے بھی تصدیق کی کہ انڈیا اور بنگلہ دیش بلیو اکانومی میں پاکستان سے آگے ہیں تاہم یہاں یہ بات مد نظر رکھنی چاہیے کہ انڈیا کا سائز بڑا ہے اور اگر اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اس کی ترقی بھی اتنی شاندار نہیں تاہم پاکستان سے ان کی حالت بہتر ہے۔

انھوں نے کہا ’جہاں تک بنگلہ دیش کی بات ہے تو وہاں ترقی تو ہوئی ہے لیکن ان کے ہاں لیبر قوانین نے اس میں بہت مدد کی ہے کیونکہ وہاں یہ قوانین نرم ہیں۔‘

پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش سے کیا سیکھ سکتا ہے؟

انیل سلمان نے کہا کہ پاکستان کو بلیو اکانومی کو قومی ترجیحات میں اہمیت دینی ہوگی۔

’جس طرح انڈیا نے اسے اپنی معاشی پالیسی میں اہم جگہ دی اور بنگلہ دیش نے اپنی منصوبہ بندی کی پالیسی میں اسے ترجیح دی پاکستان کو بھی ان خطوط پر کام کرنا ہوگا۔‘

ڈاکٹر انیل نے کہا کہ ’انڈیا‘ کے ’ساگر مالا‘ منصوبے میں نجی شعبہ آگے نظر آتا ہے۔ پاکستان کو بھی نجی شعبے کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی کیونکہ اس کے بغیر اس شعبے میں موجود صلاحیت سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا۔

انھوں نے کہا کہ انڈیا اور بنگلہ دیش کی طرح ہمیں اس شعبے میں پرائیویٹ سیکٹر کو مدد بھی دینی ہوگی۔

’ان دو ممالک میں مائیکرو فنانس کے ذریعے فشریز کے شعبے کو سستے قرضے دیے جاتے ہیں لیکن پاکستان میں ایسی کوئی صورتحال نہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ کیٹی بندر کے دورے کے دوران انھیں پتا چلا کہ یہاں بہت سارے ماہی گیروں کے پاس شناختی کارڈ ہی نہیں تو انھیں کیسے قرضے ملیں گے۔

بلیو اکانومی
پاکستان میں پورٹس اینڈ شپنگ کے سرکاری ادارے کے سابقہ ڈائریکٹر جنرل کیپٹن انور شاہ نے کہتے ہیں کہ بلیو اکانومی کو ترقی و فروغ دینے کے لیے سب سے پہلے مطلوبہ انفراسٹرکچر قائم کرنا ہو گا

پاکستان میں بلیو اکانومی کی راہ میں کیا رکاوٹیں ہیں؟

افتخار احمد راؤ نے اس بارے میں کہا کہ اس سلسلے میں سب سے بڑا مسئلہ تو یہی ہے کہ پالیسیوں کا اعلان تو ہوتا ہے لیکن ان پر عمل درآمد نہیں ہوتا لیکن ان کے خیال میں سمندر سے عدم واقفیت بھی اس سلسلے میں بہت بڑی وجہ ہے اس لیے ہمارے ہاں کبھی سمندر کی اہمیت اور اس سے جڑی معیشت کی ضرورت کو سمجھا نہیں گیا۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان کے 80 فیصد لوگوں نے تو سمندر دیکھا ہی نہیں اور جنھوں نے دیکھا وہ بھی ساحل سے دیکھا۔ اسی طرح جب ملک میں ساٹھ کی دہائی اور اس کے بعد انڈسٹریلائزیشن ہوئی تو ساحلی علاقوں کو اس سے باہر رکھا گیا۔ ساری توجہ جی ٹی روڈ پر رکھی گئی۔

ڈاکٹر انیل سلمان نے بتایا کہ پاکستان میں میری ٹائم پالیسی تو بنی لیکن اس کا رابطہ معیشت کی دوسری پالیسیوں سے ہی نہیں جبکہ دنیا میں مربوط پالیسی ہوتی ہے۔

انھوں نے کہا اسی طرح ساحلی علاقوں کو دیکھا جائے تو وہاں پر کوئی انفراسٹرکچر نہیں کہ سیاحوں کے لیے وہاں پر کوئی کشش ہے ہو اس کے ساتھ یہاں سکیورٹی کا بھی ایشو ہے کہ جہاں سیاح آرام سے جا سکیں۔

انھوں نے کہا کہ بلیو اکانومی میں بھاری سرمایہ کاری ضرورت ہے، اس میں سرمایہ کاری مہنگی ہوتی ہے جس میں حکومت کے علاوہ نجی شعبے کو بھی آگے آنا پڑتا ہے۔

افتخار راؤ نے کہا یہ بات صحیح ہے کہ بلیو اکانومی کے لیے مہنگا سرمایہ چاہیے اور اس میں منافع کی واپسی بھی طویل مدتی ہوتی ہے جبکہ جلد منافع کمانے کا آپشن کم ہوتا ہے۔

تاہم انھوں نے کہا کہ ساحلی علاقوں پر سکیورٹی کا مسئلہ بڑا نہیں اور یہاں بھی سکیورٹی کے وہی مسائل ہیں جو پاکستان کے کسی دوسرے علاقے میں ہو سکتے ہیں۔

ڈاکٹر انیل نے کہا کہ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ جب بھی ملک میں بلیو اکانومی اور ساحلی علاقے کی بات ہوتی ہے تو فوری طور پر پاکستان نیوی کا ذکر ہوتا ہے جبکہ دوسری جانب اگر انڈیا کے منصوبے ’ساگر مالا‘ کی بات کی جائے تو اس میں نجی سرمایہ کاری پر زور دیا گیا ہے۔

افتخار راؤ نے اس تاثر کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نیوی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ ان کے خیال میں نیوی کا کردار اور زیادہ ہونا چاہیے کیونکہ ساحلی علاقے میں وہ اور پاکستان کوسٹ گارڈ سرمایہ کاروں کو تحفظ دے سکتے ہیں۔

بلیو اکانومی کو کیسے فروغ دیا جا سکتا ہے؟

پاکستان میں پورٹس اینڈ شپنگ کے سرکاری ادارے کے سابقہ ڈائریکٹر جنرل کیپٹن انور شاہ نے اس سلسلے میں کہا کہ سب سے پہلے بلیو اکانومی کو ترقی و فروغ دینے کے لیے مطلوبہ انفراسٹرکچر قائم کرنا ہوگا۔

اس کی مثال دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’اگر صرف ساحلی علاقوں پر سیاحت کو فروغ دینے کا شعبہ ہی لیا جائے تو ساحلی علاقے میں بیرون سیاحوں کو راغب کرنے کے لیے ان سہولیات کو فراہم کرنا ہو گا جو ان کی ضرورت ہیں۔‘

اس سلسلے میں انھوں نے کہا کہ ’سیاحوں کو اچھی رہائش گاہیں چاہیے تو اس کے ساتھ روڈ کا ایسا نیٹ ورک چاہیے کہ وہ با آسانی وہاں آ جا سکیں۔ اسی طرح انھیں اپنی مرضی کے کھانے اور مشروبات چاہییں۔ ان سہولیات کی عدم موجودگی میں وہ کیوں کسی علاقے میں آئیں گے۔

انیل سلمان نے کہا کہ سب سے پہلے تو میری ٹائم پالیسی کو دوسری پالیسیوں سے مربوط کرنے کی ضرورت ہے۔

’اسی طرح حکومت کو سب سے پہلے خود آگے بڑھنا ہو گا کیونکہ بلیو اکانومی میں مہنگی سرمایہ کاری کے لیے حکومت خود قدم بڑھائے گی تو اسی صورت میں نجی سرمایہ کاری آئے گی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *