بلوچستان میں بارشیں اور سیلاب: سیلابی پانی

بلوچستان میں بارشیں اور سیلاب: سیلابی پانی

بلوچستان میں بارشیں اور سیلاب: سیلابی پانی میں محصور بلوچ دیہاتی اور مسافر امداد کے منتظر

خدارا ہمیں کھانے پینے کی اشیا فراہم کی جائیں۔ اگر سرکاری سطح پر فراہمی ممکن نہیں تو ہم خود پیسہ دینے کے لیے بھی تیار ہیں۔‘

بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کے علاقے اوڑکی سے تعلق رکھنے والے خیر محمد بلوچ پیر کے روز دو بجے سے اپنے خاندان کی خواتین اور بچوں سمیت سیلابی ریلے میں پھنسے ہوئے ہیں اور 48 گھنٹے سے زیادہ وقت گزر جانے کے باوجود تاحال امداد کے منتظر ہیں۔

بلوچستان میں حالیہ شدید بارشوں سے خضدار، لسبیلہ اور جھل مگسی سمیت آس پاس کے علاقوں میں سیلابی صورتحال ہے۔ لسبیلہ میں صورتحال سنگین ہے جہاں کئی دیہی علاقے اس وقت پانی میں گھرے ہوئے ہیں۔

پیر سے متعدد ویڈیوز سوشل میڈیا پر شیئر ہو رہی ہیں جن میں پھنسے ہوئے لوگ مدد کے کی اپیل کر رہے ہیں۔

ایک ایسی ہی ویڈیو میں ایک خاندان جس میں خواتین اور نوعمر بچے بھی شامل ہیں اپنی جھگی کی چھت پر بیٹھا ہے اور خاندان کے سربراہ قرآن مجید اٹھائے مدد کی اپیل کر رہے ہیں۔

حکومت کی جانب سے ہیلی کاپٹر سے ریسکیو آپریشن کا اعلان کیا گیا تاہم بدھ تک یہ شروع نہیں ہو سکا تھا۔

سیلاب، بارش

’لوگ درختوں پر چڑھ گئے ہیں‘

خیر محمد بلوچ نے فون پر بی بی سی کو بتایا کہ اوڑکی کے علاقے میں ان کے خاندان کے 100 کے قریب لوگ سیلابی ریلے کے باعث پھنسے ہوئے ہیں اور سیلابی پانی کی وجہ سے ان کے لیے نکلنا ممکن نہیں۔

وہ پیر کے روز دوپہر دو بجے کے قریب سیلابی ریلے میں پھنس گئے تھے جس میں نہ صرف ان کے گھر اور جھگیاں زیر آب آ گئیں بلکہ کھانے پینے کی اشیا بھی برباد ہو گئیں۔

’ہمارے خاندان کے لوگوں کے پاؤں ایک سڑک کی وجہ سے پھر بھی زمین پر ٹکے ہیں لیکن کچھ فاصلے پر لوگ پانی سے بچنے کے لیے درختوں پر چڑھے ہوئے ہیں۔‘

بیلہ کے رہائشی عاصم لاسی کا کہنا ہے کہ شہ ندی کی صورتحال سنگین ہے، یہاں سے یہ سارا پانی اوڑکی کی طرف جاتا ہے۔

’وہاں سینکڑوں لوگ پھنسے ہوئے ہیں، جن سے کوئی رابطہ نہیں ہو رہا۔ کل جب موبائل نیٹ ورک کام کر رہا تھا تو متاثرین رابطے میں تھے۔ اس وقت تو نیٹ ورک بھی کام نہیں کر رہا۔‘

غلام علی لاسی نے بتایا کہ پچاس سے ساٹھ لوگوں کو وہ اپنی مدد آپ کے تحت باہر لائے ہیں جبکہ حکومت کی طرف سے کوئی ریسکیو ٹیم نہیں آئی۔

’بعض مقامی لوگ سیلابی ریلے میں اُترے اور رسے باندھ کر لوگوں کو باہر نکال کر لائے۔‘

سیلاب، بارش

سندھ اور بلوچستان کا رابطہ منقطع

سیلاب سے رابطہ سڑکیں متاثر ہوئی ہیں جن سے کیچ، گوادر، لسبیلہ، جھل مگسی اور کچھی میں نہ صرف متعدد علاقوں کے رابطے، ایک دوسرے سے سڑکوں اور پلوں کو پہنچنے والے نقصان کے باعث منقطع ہوئے بلکہ ضلع لسبیلہ میں سیلابی ریلوں کی وجہ سے بلوچستان کا کراچی سے بھی زمینی رابطہ منقطع ہوا ہے۔

کراچی سے کوئٹہ اور گوادر و تربت جانے والی آمد و رفت گذشتہ کئی گھنٹوں سے معطل ہے۔

حب سے صحافی اسماعیل ساسولی نے بی بی سی کو بتایا کہ حب دریا کے پُل کے چار پِلر گر گئے ہیں جس کی وجہ سے کراچی اور حب میں آمدورفت متاثر ہے، اس کے علاوہ گڈانی کے مقام پر باگڑی ندی اور اوتھل کے مقام پر لنڈا پل سیلابی پانی سے متاثر ہیں۔

آر سی ڈی روڈ، اوتھل اور بیلہ کے درمیان 6 کلومیٹر تک زیر آب آگئی ہے جس کے باعث بیلہ اور دوسری طرف خضدار جانے والی ٹریفک معطل ہے۔ اسی طرح ہنگول ندی میں بھی تغیانی ہے جس سے کوسٹل ہائے وے زیر آب آ گئی اور گوادر اور تربت اس وقت زمینی راستے سے منقطع ہیں۔

خضدار رتو ڈیرو سی پیک سڑک بھی بارشوں سے محفوظ نہیں جبکہ ڈپٹی کمشنر خضدار کے مطابق سڑک کو بحال کرنے میں ایک ہفتے سے زیادہ وقت درکار ہو گا۔

سیلاب، بارش

بارش میں محصور مسافر

کراچی سے بلوچستان کے دیگر علاقوں کی طرف جانے والی کوچوں، کاروں کے مسافر اور گڈز ٹرانسپورٹر اس وقت اوتھل، خضدار اور ھنگول میں پھنسے ہوئے ہیں، جن کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ ان علاقوں میں کھانے پینے کی اشیا بھی ختم ہو چکی ہیں۔

نور خان کوئٹہ سے آ رہے ہیں اور بیلہ کے مقام پر پھنس گئے۔ دو روز وہاں گزار اب اپنی مدد آپ کے تحت یہاں پہنچ چکے ہیں۔

’راستے میں نہ کھانے اور نہ پینے کی سہولت موجود تھی۔ کچھ بسیں تو واپس کوئٹہ روانہ ہو رہی تھی سینکڑوں لوگ وہاں پھنسے ہوئے ہیں۔‘

عثمان بلوچ پنجگور سے آ رہے ہیں۔ انھیں بیلہ پہنچنے میں چار دن لگ گئے ہیں۔ بیلہ میں راستہ بند تھا۔

سیلاب، بارش

انھوں نے چار پانچ آٹو رکشے اور گاڑیاں تبدیل کیں اور یہاں تک پہنچے ہیں۔ اس کے لیے انھیں پانی میں بھی چلنا پڑا تاہم انتظامیہ کی جانب سے کوئی مدد نہیں ہو رہی ہے۔

کوئٹہ سے کوچ میں کراچی آنے والے چوہدری الیاس کا کہنا تھا کہ ’ڈی سی بیلہ نے وعدہ کیا تھا کہ کوئیک ریسپانس ہو گا لیکن کچھ نہیں ہوا۔ کم از کم واپس کوئٹہ تو لے کر جائیں۔‘

انھوں نے ایک بچے کو دیکھتے ہوئے کہا کہ کیا ہمارا فرض نہیں کہ اس بچے کو کچھ کھانے پینے کے لیے دے سکیں۔

’ان کی والدہ وہاں بیٹھیں ہیں۔ یہاں ایسے سینکڑوں بچے اور خواتین زمین پر بیٹھ کر رات گزار رہے ہیں۔‘

فوج، ایف سی اور حکومت ریسکیو میں سرگرم

آئی ایس پی آر

ISPRبلوچستان کے 34 اضلاع میں سے اکثر میں طوفانی بارشوں سے جانی اور مالی نقصان ہوا ہے۔

قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے پی ڈی ایم اے کی جانب سے 26 جولائی تک جاری کیے جانے والے اعدادوشمار کے مطابق 13 جون سے اب تک بارش اور سیلابی ریلوں سے مجموعی طور پر 105 لوگ ہلاک ہوئے جن میں 41 مرد، 30 خواتین اور 34 بچے شامل ہیں۔

اس عرصے میں چھ ہزار گھر مکمل اور جزوی طور پر متاثر ہوئے جبکہ دو لاکھ ایکڑ اراضی پر فصلوں کو بھی نقصان پہنچا۔

بلوچستان حکومت کے ترجمان فرح عظیم شاہ نے فون پر بی بی سی کو بتایا کہ لسبیلہ میں لوگوں کو ریسکیو کرنے اور ان کو ریلیف کی فراہمی کے لیے نہ صرف آرمی کے ہیلی کاپٹر استعمال کیے جا رہے ہیں بلکہ وزیر اعلیٰ نے حکومت بلوچستان کے طیارے کو بھی اس مقصد کے لیے حوالے کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ساری انتظامیہ، فوج اور ایف سی کے اہلکار لوگوں کو ریسکیو کرنے اور انھیں ریلیف کی فراہمی میں لگے ہوئے ہیں اور ہر جگہ پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ’موسم کی وجہ سے تھوڑی بہت تاخیر ہو سکتی ہے لیکن امدادی ٹیمیں ہر فرد تک پہنچیں گی اور کسی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جائے گا۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *