بلوچستان عوامی پارٹی میں بحث اصل صدر میں ہوں، نہیں آپ ہٹ چکے ہیں اب میں ہوں
بلوچستان سے اسمبلیوں میں نمائندگی کی بنیاد پر سب سے بڑی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کا اصل صدر کون ہے؟ اس تنازعہ کو سابق وزیر اعلیٰ جام کمال خان نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ایک خط کی بنیاد پر ایک مرتبہ پھر چھیڑا ہے۔
انھوں نے ایک ٹویٹ میں پارٹی کے سینئر وزیر کو مخاطب کر کے کہا کہ ’الیکشن کمیشن کا خط یہ ثابت کرتا ہے کہ پارٹی کا اصل صدر میں ہوں۔‘
جواب میں میر ظہور بلیدی نے کہا: ’جام صاحب آپ صدر نہیں بلکہ آپ نے تو استعفیٰ دیا تھا۔ پارٹی نے تو مجھے عبوری صدر بنایا ہے۔‘
سینئر تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار کہتے ہیں کہ 2018 میں نواز لیگ کو توڑ تاڑ کریہ پارٹی تو بنائی گئی لیکن اختلافات کے باعث دوسری مدت کے لیے اس میں انٹرا پارٹی الیکشن نہیں ہو سکے۔
ایک اور تجزیہ کار سید علی شاہ کا کہنا ہے کہ ’ملکی سطح پر جس طرح نئے پاکستان کے ماڈل کا تجربہ ناکام ہوا، اسی طرح 2018 کے اوائل میں بلوچستان کی سطح پر بلوچستان عوامی پارٹی کے نام سے جو نئی سیاسی جماعت بنائی گئی اس کا ماڈل بھی ناکام دکھائی دے رہا ہے۔‘
تاہم پارٹی کے رہنما سینیٹر انوار کاکڑ اس سے اتفاق نہیں کرتے کہ یہ ایک ناکام ماڈل ہے بلکہ اسے ایک کامیاب ماڈل قرار دیتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ اس سے بڑھ کر کامیابی اور کیا ہو سکتی ہے کہ یہ بلوچستان کی سب سے بڑی پارٹی ہے۔
الیکشن کمیشن نے جام کمال کو کیوں خط لکھا؟
بلوچستان عوامی پارٹی 2018 کے اوائل میں بنی اور اسی سال ہونے والے عام انتخابات میں حصہ لیکر اراکین اسمبلی کے لحاظ سے یہ بلوچستان کی سب سے بڑی جماعت بن گئی۔
اگرچہ اسمبلیوں کی حد تک یہ بلوچستان کی سب سے بڑی پارٹی تو بن گئی لیکن اس کی تنظیم سازی کی جانب کوئی توجہ نہیں دی گئی، یہاں تک کہ اس میں انٹرا پارٹی الیکشن بھی نہیں ہو سکے۔
سینئر تجزیہ کار سید علی شاہ نے پارٹی میں اختلافات اور اس کے تنظیمی ڈھانچے کی جانب عدم دلچسپی کی سب سے بڑی وجہ اس میں نظریاتی اساس کے نہ ہونے کو قرار دیا۔
ان کا کہنا ہے کہ جو سیاسی جماعتیں کسی سوچ اور نظریے کی بنیاد پر بنتی ہیں تو ان میں تنظیم سازی کی جانب زیادہ توجہ دی جاتی ہے لیکن ان کے بقول بلوچستان عوامی پارٹی انتخاب جیتنے والی شخصیات کی بنیاد پر بنائی گئی، جن کے نزدیک تنظیم سازی کی کوئی خاص اہمیت نہیں۔
انٹرا پارٹی الیکشن نہ ہونے پر کمیشن نے پہلے پارٹی کے صدرکے طور پر جام کمال خان کو رواں سال 10 ستمبر اور دوسری مرتبہ 11نومبر کو نوٹسز جاری کیے۔ لیکن وہ اس کے باوجود انتخابات نہیں کرا سکے جس پر انھیں اب الیکشن کمیشن نے 18 جنوری 2022 کو ذاتی طور پر پیش ہونے کی ہدایت کی ہے۔
الیکشن کمیشن نے خبردار کیا ہے کہ اگر قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے تو پارٹی انتخابی نشان کے لیے نااہل قرار دی جائے گی اور نتیجہ اس کی الیکشن میں نااہلی کی صورت میں نکل سکتا ہے۔
اگرچہ الیکشن کمیشن نے جام کمال کو صدر کے طور پر طلب کیا ہے لیکن پارٹی کی اکثریت انھیں صدر نہیں مانتی۔
پارٹی کے ترجمان سردار عبدالرحمان کا کہنا ہے کہ شاید الیکشن کمیشن کے اہلکاروں کو جام کمال کے پارٹی کی صدارت سے استعفے کے اعلان اور اس کے نتیجے میں دوسرے صدر کے آنے کے بارے میں پتہ نہیں ہوگا، اس لیے انھوں نے پہلے ریکارڈ کی بنیاد پر جام کمال کو نوٹس جاری کر دیا ہو گا۔
واضح رہے کہ اختلافات کی وجہ سے پارٹی جام کمال کی قیادت میں متحد نہیں رہی بلکہ بعد میں پارٹی کے اراکین بلوچستان اسمبلی کی بغاوت کی وجہ سے انھیں وزارت اعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا۔
وزارت اعلیٰ کے عہدے سے مستعفی ہونے سے قبل انھوں نے یکم اکتوبر کو پارٹی کی صدارت کو چھوڑنے کا اعلان کیا اور پارٹی کے مرکزی آرگنائزر میر جان محمد جمالی اور سیکریٹری جنرل منظور کاکڑ کو کہا کہ وہ پارٹی کے انتخابات فوری طور پر کرائیں۔
اس موقع پر انھوں نے ایک ٹویٹ کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ ’میں نے تین سال تک پارٹی کے صدر کی حیثیت سے اچھی خدمت کی اور آج پارٹی کی صدارت کو چھوڑ رہا ہوں۔‘
ان کی پارٹی کی صدارت کو چھوڑنے کے اعلان کے فوراً بعد ان کے مخالفین نے پارٹی کے رہنما اورموجودہ سینیئر وزیر میر ظہور بلیدی کو پارٹی کا صدر بنا دیا۔ لیکن جام کمال نے پارٹی کی صدارت چھوڑنے کے اعلان کے بارہویں روز پارٹی کی صدارت سے دستبرداری کے فیصلے کو یہ کہہ کر واپس لے لیا کہ ’پارٹی کے پارلیمیینٹرینز، ڈویژنز کے صدور اور اراکین نے ان پر اعتماد کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ استعفیٰ نہ دیں، ۔اس لیے ان کے کہنے کے مطابق صدر کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں کو جاری رکھوں گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پارٹی کی صدارت سے مستعفی ہونے کا ایک قانونی طریقہ ہے اور جب تک اسے اختیار نہ کیا جائے تو سابق پوزیشن برقرار رہتی ہے، اس لیے وہ صدر کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں کو جاری رکھیں گے۔
اب الیکشن کمیشن کی جانب سے آنے والے خط کو اپنی صدارت کی سند کے طور پر استعمال کرتے ہوئے انھوں ظہور بلیدی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
جام کمال نے الیکشن کمیشن کے نوٹس پر ظہور بلیدی کوکیا کہا؟
جام کمال نے نوٹس کو ٹیگ کرتے ہوئے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کی موجودہ خط سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی کا اصل صدر کون ہے۔
’ظہور صاحب، آپ نے نہ صرف اخلاقیات، پارٹی نظم و ضبط، طریقۂ کار کی خلاف ورزی کی ہے بلکہ بہت سے غلط معاملات بھی کیے ہیں۔ پارٹی کے سیکریٹری جنرل منظور کاکڑ کی طرف سے اپنے متعلق صدر کے طور پر اعلان کروانا، پھر اراکین کو نوٹس جاری کرنا اور بہت سے غلط کام کرنا۔‘
ان کا جواب دیتے ہوئے میر ظہور بلیدی نے کہا کہ ’مجھے پارٹی کا صدر اس وقت بنایا گیا جب آپ نے صدارت سے استعفیٰ دیا۔‘
’جام صاحب پارٹی (جو کہ بلاشبہ کسی کی جاگیر نہیں ) نے مجھے عبوری صدارت کی ذمہ داری دی ہے۔ اسی طرح پارٹی کی پارلیمانی گروپ نے بھی آپ پر اپنے عدم اعتماد کا اظہار کیا لیکن آپ اپنی کسی بات پر قائم نہیں رہے۔‘
اگرچہ جام کمال پارٹی کی صدر کی حیثیت سے دعویدار ہیں لیکن پارٹی کی اکثریت ان کو صدر تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
پارٹی کے ترجمان سردار عبد الرحمان کھیتراں نے کہا کہ جام کمال نے چونکہ استعفیٰ دیا تھا اس لیے پارٹی نے ظہور بلیدی کو صدر بنا دیا۔
انھوں نے کہا کہ پارٹی کے نئے صدر اور وزیر اعلیٰ دونوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ انٹرا پارٹی الیکشن کی طرف جارہے ہیں اور پارٹی نے جس کو بھی صدر منتخب کیا وہی صدر ہو گا۔
ان کا کہنا تھا کہ جام کمال صاحب آئیں الیکشن لڑیں۔’اگر وہ جیت گئے تو ہم انھیں تسلیم کریں گے اور اگر کوئی اور جیت گیا تو جام صاحب کو چاہیئے کہ انھیں تسلیم کریں۔‘
تاہم پارٹی کے رہنما سینیٹر انوار کاکڑ کا کہنا ہے کہ جام کمال ہی پارٹی کے آئینی اور قانونی صدر ہیں، اس لیے الیکشن کمیشن نے ان کو نوٹس جاری کیا۔
ان کا ماننا ہے کہ جام کمال نے پارٹی کی صدارت سے استعفے کا اعلان کیا، لیکن ساتھیوں کے مشورے پر انھوں نے اپنے فیصلے کو واپس لیا۔ اس لیے وہ پارٹی کے بدستور صدر ہیں اورپارٹی میں عبوری صدر کا کوئی تصور نہیں ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم انٹرا پارٹی الیکشن کرائیں گے اور جو بھی جیت گیا وہی پارٹی کا صدر ہو گا۔
پارٹی کی صدارت کے دعویدار دو مگر اصل اختیارات کس کے پاس ہیں؟
پارٹی کی صدارت کے دو دعویداروں میں سے با اختیار کون؟ اس سوال پر پارٹی کے ترجمان اور وزیر برائے مواصلات و تعمیرات سردار عبدالرحمان نے کہا کہ چونکہ جام کمال کے استعفیٰ کے بعد پارٹی نے ظہور بلیدی کو صدر مقرر کیا اس لیےاختیارات ظہور بلیدی اورپارٹی کے سیکریٹری جنرل سینیٹر منظور کاکڑ کے پاس ہیں۔
سینئر تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار کا کہنا تھا کہ بلوچستان عوامی پارٹی اس وقت انارکی کا شکار ہے۔’اگر اختیارات کی بات کرتے ہیں تو سینیٹرز، اراکین قومی اسمبلی اور بلوچستان اسمبلی کی اکثریت جام کمال کے ساتھ نہیں ہیں اس لیے جام کمال کے مقابلے میں پارٹی میں صادق سنجرانی، قدوس بزنجو، سعید احمد ہاشمی اور جان محمد جمالی زیادہ بااختیار ہیں، جبکہ حکومت بھی ان کے ساتھ ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ صادق سجرانی کی لابی بہت زیادہ مظبوط ہے اور یہ ساری تبدیلی مقتدر قوتوں کے ساتھ مل کر انھوں نے لائی ہے۔ انھوں نے جام کمال سے اپوزیشن کی ناراضی کو بھی بہتر طریقے سے استعمال کیا ہے۔
’جام صاحب کے پاس اکثریت نہیں ہے۔ کارکنان بھی اس طرف دیکھتے ہیں جہاں اکثریت ہو اور حکومت ہو۔
’چونکہ پہلے حکومت جام کمال کے پاس تھی تو پارٹی کے لوگ اور اختیارات بھی ان کے ہاتھ میں تھے لیکن اب وہ صورتحال نہیں رہی۔‘
اختلافات کے باعث مبصرین بلوچستان عوامی پارٹی کی مستقبل کے بارے میں بھی سوالات اٹھا رہے ہیں۔
بلوچستان عوامی پارٹی کے ماڈل پر بحث
جو لوگ آج بلوچستان عوامی پارٹی کے پلیٹ فارم پر جمع ہیں وہ اس سے قبل مسلم لیگ (ن) کا حصہ تھے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ان میں بعض ایسے لوگ تھے جن کے خاندان طویل عرصے سے مسلم لیگ میں تھے اور وہ پرانے مسلم لیگی ہونے پر فخر بھی کرتے تھے، لیکن انھوں نے مسلم لیگ کو ایسے خیر باد کہا کہ نئی بنائی جانے والی پارٹی کے ساتھ مسلم لیگ کاکوئی لاحقہ یا سابقہ لگانا بھی گوارا نہیں کیا۔
نواز لیگ نے پارٹی کے اراکین پر پارٹی کو چھوڑنے کے لیے دباﺅ ڈالنے اور نئی پارٹی بنانے کا الزام خفیہ اداروں پر عائد کیا تھا۔
شہزادہ ذوالفقار نے کہا کہ جو مقتدر ادارے ہیں ان کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ یہ ووٹ بینک رکھنے والی شخصیات کو ہانکتے رہتے ہیں اور کبھی کہتے ہیں کہ فلاں پارٹی میں جائیں اور کبھی کسی اور میں۔
’1999میں جب جنرل پرویز مشرف آئے تو پہلے تین سال ویسے ہی نکل گئے۔ بعد میں جب محسوس کیا گیا کہ انھیں سیاسی حمایت کی ضرورت ہے تو ق لیگ بنا دی گئی۔ سب نے دیکھاکہ ووٹ بینک رکھنے والی شخصیات کس طرح دوسری پارٹیوں سے نکلنا شروع ہو گئیں اور ق لیگ میں شامل ہو گئیں۔‘
انھوں نے کہا کہ 2018 میں بلوچستان میں ان میں سے بعض شخصیات پیپلز پارٹی کی جانب جارہی تھیں لیکن ان کو روک دیا گیا کہ نہ جائیں۔ پہلے اس پارٹی کے لیے جو نام زیر غور تھا وہ پاکستان نیشنل پارٹی کا تھا، پھر کہا نہیں نام بلوچستان عوامی پارٹی رکھ دو تاکہ اس پر بلوچستان کا رنگ ہو۔‘
’مداخلت تو ہوتی ہے۔ حکومت کی حالیہ تبدیلی کو دیکھیں کہ کتنی بڑی مداخلت ہو رہی ہے۔‘
تجزیہ کار سید علی شاہ کا کہنا تھا کہ اس بات سے قطع نظر کہ بلوچستان عوامی پارٹی کیسے بنی وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اصل میں یہ ماڈل بھی ناکام رہا۔
’وفاقی سطح پر نئے پاکستان کا ماڈل لایا گیا اور یہاں بلوچستان عوامی پارٹی کا ماڈل لایا گیا مگر یہ دونوں ناکام رہے۔‘
تاہم سینیٹر انوارالحق کاکڑ کا کہنا ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی ایک کامیاب ماڈل ہے اور پارٹیوں میں اختلافات ہوتے رہتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اس پارٹی میں تمام لوگوں کی حیثیت مثاوی ہے اور کوئی بھی کارکن جام کمال خان کی جگہ پر صدر بن سکتا ہے۔
’کیا بی این پی (مینگل)، پشتونخوا میپ، جے یو آئی (ف)، پیپلز پارٹی اور نواز لیگ میں کوئی عام کارکن پارٹی کا سربراہ بن سکتا ہے؟‘
ان کا کہنا تھا کہ اس پارٹی کے قیام کامقصد ایک بہتر گورننس اور وفاق کے ساتھ شراکت داری کے ذریعے بلوچستان کے مسائل کو حل کرنا تھا۔
انھوں نے کہا کہ اختلافات کے باوجود پارٹیاں چلتی رہتی ہیں۔ ’ہم نے دیکھا کہ بلوچستان نیشنل پارٹی اپنے قیام کے فوراً بعد دو حصوں میں تقسیم ہو گئی ۔ایک وقت ایسا آیا کہ اس کے پاس دو اراکین تھے ۔اب وہ پھر کھڑی ہوگئی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ق لیگ بھی ختم نہیں ہوئی اور آج بھی پنجاب میں سپیکر کا تعلق ق لیگ سے ہے۔
انھوں نے کہا کہ ہماری پارٹی نہ صرف بلوچستان میں سب سے بڑی پارٹی کے طور پر ابھری بلکہ پی ڈی ایم اپنی ایڑھی چوٹ کا زور لگانے کے باوجود اس کے چیئرمین سینٹ کو نہیں ہٹا سکی۔