مرتضیٰ وہاب کے جواب پر عدالت کی برہمی

مرتضیٰ وہاب کے جواب پر عدالت کی برہمی

مرتضیٰ وہاب کے جواب پر عدالت کی برہمی، فوری برطرف کرنے کا حکم اور بعد میں معافی قبول

پاکستان سپریم کورٹ نے کراچی کے ایڈمنسٹریٹر مرتضیٰ وہاب کی معافی قبول کرلی ہے اور ہدایت کی ہے کہ وہ سیاست سے بالاتر ہوکر کام کریں۔

کراچی میں سپریم کورٹ غیر قانونی تجاوزات کے بارے میں مقدمات کی سماعت کر رہی ہے۔ گٹر باغیچے پر کے ایم سی کی ہاؤسنگ سوسائٹی کے معاملے پر سماعت کے موقع پر کمشنر کراچی اقبال میمن نے عدالت کو بتایا کہ 168 ایکڑ اراضی میں سے 50 ایکڑ پر قبضہ ہے۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ وقت آگیا کے ایم سی کی ساری سوسائٹیز ختم کر دی جائیں۔ ’کے ایم سی والوں نے سوچا، سب بیچو مرضی سے، رفاہی پلاٹس بیچ کر خوب مال بنایا گیا ہے۔‘

جسٹس قاضی محمد امین کا کہنا تھا کہ ایک چھوٹے آفس میں بیٹھا افسر وائسرائے بن جاتا ہے، یہی ہمارا المیہ ہے۔

چیف جسٹس نے مرتضیٰ وہاب کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ کو تمام پارکس بحال کرنا ہوں گے، کس نے سوچا کہ رفاہی پلاٹس پر تعمیرات ہو سکتی ہیں، تاقیامت بھی رفاہی پلاٹ رفاہی ہی رہیں گے۔

مرتضی وہاب نے انھیں جواب دیا کہ اس شہر میں مشکلات کو آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں، چیف جسٹس نے انھیں جواب دیا کہ پارک بحال کرنے کے لیے آپ کو ہمارے کسی فیصلے کی ضرورت نہیں۔

مرتضیٰ وہاب عدالت کے باہر
مرتضیٰ وہاب عدالت کے باہر

گٹر، باغیچے پر کے ایم سی افسران کی سوسائٹی پر چیف جسٹس گلزار احمد نے ایڈمنسٹریٹر مرتضیٰ وہاب سے پوچھا کہ سندھ حکومت کے ایم سی کی زمین کیسے الاٹ کرسکتی ہے۔

مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ حکومت کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ الاٹمنٹ کرسکتی ہے، اوپن کورٹ میں حکومت کے خلاف بڑی بڑی آبزرویشن پاس کر دی جاتی ہے، جس پر چیف جسٹس نے انھیں کہا کہ آپ ایڈمنسٹریٹر کے بجائے سیاست دان کے طور پر ایکٹ کر رہے ہیں، غیر جانبدار طریقہ اختیار نہیں کر سکتے تو عہدے پر نہیں رہ سکتے۔ مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ اگر سیاست اتنی بری چیز ہے تو چھوڑ دیتے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گیٹ آؤٹ۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے وزیر اعلیٰ کے لیے حکم جاری کیا کہ مرتضی وہاب کو فوری طور پر عہدے سے ہٹا کر غیر جانبدار اور اہل شخص کو ایڈمنسٹریٹر لگایا جائے۔

ان احکامات کے بعد سپریم کوٹ میں وقفہ ہوگیا۔ مرتضیٰ وہاب نے بعد میں عدالت سے معذرت کی جس کو عدالت نے قبول کرتے ہوئے اپنا فیصلہ واپس لے لیا اور انھیں ہدایت کی کہ وہ سیاست سے بالاتر ہو کر کام کریں۔

اس سے قبل ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو گذارش کی کہ مرتضی وہاب کے حوالے سے حکم واپس لیا جائے، وہ نوجوان ہیں معافی بھی مانگ چکے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کے سامنے سیاسی ایجنڈہ لے کر آتے ہیں، لوگوں کے سامنے کیا کرتے ہوں گے، مائی باپ بنے ہوئے ہوں گے۔

شہری تنظیم کے رکن امبر علی بھائی نے بھی مرتضی وہاب کی حمایت کی اور کہا کہ وہ ایک مناسب آدمی ہیں انھیں ایک اور موقع دیا جائے۔

نسلہ ٹاور کیس

ٹیسلا ٹاور
عدالت کی جانب سے حکم کے بعد نسلہ ٹاور کو مسمار کیا جا رہا ہے

سپریم کورٹ میں کمشنر کراچی اقبال میمن نے رپورٹ پیش کی اور بتایا کہ پانچ فلور گرا دیئے گئے ہیں اور اس کے لیے چار سو مزدور کام کر رہے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے ان سے سوال کیا کہ چار سو لوگوں سے ایک بلڈنگ نہیں ختم ہو رہی؟ کمشنر نے جواب دیا کہ اندر سے انفراسٹرکچر ختم ہوچکا ہے صرف باہر سے نظر آرہا ہے۔

چیف جسٹس نے کمشنر سے پوچھا کہ آپ نے لکھا ہے کہ سندھ بلڈنگ اتھارٹی نے رکاوٹ ڈالی ہے؟ جسٹس قاضی امین نے کہا کہ اگر کوئی مداخلت کر رہا ہے تو یہ توہین عدالت ہے ۔ ڈی جی سندھ بلڈنگ اتھارٹی نے واضح کیا کہ انھوں نے کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی، وہ رپورٹ کو چیلنج کرتے ہیں۔

عدالت کے حکم پر ڈی جی ایس بی سی اے نے رپورٹ پڑھ کر سنائی، جس پر چیف جسٹس نے انھیں توہین عدالت کا نوٹس دینے کا حکم جاری کیا۔

اس رپورٹ کے مطابق ایس بی سی اے نے کنٹریکٹر سے رشوت بھی مانگی تھی، عدالت نے اینٹی کرپشن کو ڈی جی ایس بی سی اے کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم جاری کیا اور تحقیقات کر کے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت جاری کی۔

عدالت نے ایک بار پھر کمشنر کراچی کو ایک ہفتے میں تمام سرکاری وسائل بروئے کار لا کر نسلہ ٹاور کو منہدم کرنے کا حکم جاری کیا۔

سپریم کورٹ، کراچی
سپریم کورٹ، کراچی

اس موقعے پر اٹارنی جنرل نے متاثرین کو معاوضہ ادائیگی کے حکم پر عمل درآمد یقینی بنانے کی استدعا کی اور کہا کہ انہدام کے ساتھ زمین کو بھی تحویل میں لینے کا حکم جاری کیا جائے۔ عدالت نے نسلہ ٹاور کی 780 مربع گز زمین کو ضبط کرنے کا حکم دیا، سندھ ہائی کورٹ کے آفیشل اسائنی کو زمین تحویل میں لینے اور فروخت روکنے کا حکم جاری کیا اور نسلہ ٹاور کا بلڈنگ پلان منظوری دینے والے افسران کے خلاف کارروائی اور ملوث افسران کے خلاف الگ مقدمہ درج کرنے کی ہدایت جاری کی۔

عسکری پارک سے متعلق کیس کی سماعت

کراچی کی پرانی سبزی منڈی پر عسکری پارک کی تعمیر اور اس کی کے ایم سی کے حوالگی کے بارے میں کیس کی سماعت بھی ہوئی۔ کراچی میں ملٹری کے فائیو کور کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ کے ایم سی کے ساتھ ننانوے سال کا ایگریمنٹ ہوا تھا۔

چیف جسٹس نے انھیں مخاطب کر کے کہا کہ آپ کو اس لیے دیا تھا کہ کوئی اور قبضہ نہ کر لے، ‎38 دوکانیں بنی ہوئی ہیں، شادی ہال بنا ہوا ہے۔

عدالت نے حکم جاری کیا کہ ایڈمنسٹریٹر کے ایم سی پارک کا انتظام سنبھالیں اور پارک کو عوام کے لیے استعمال کیا جائے اور کوئی چارجز وصول نہ کیے جائیں۔

عدالت نے یہ بھی حکم جاری کیا کہ پارک کی زمین پر شادی ہال، دکانیں بھی ختم کرا دی جائیں، کے ایم سی اپنے جھولے لگائے اور کور فائیو کے جھولے واپس کیے جائیں۔

کارونجھر کی کٹائی کی گونج

سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ پر گزشتہ کئی دنوں سے زیر بحث ننگرپارکر کے پہاڑ کارونجھر کا معاملہ بھی سپریم کورٹ میں زیر بحث آیا۔ دوران سماعت ایک درخواست گذار کھڑا ہو گیا اور شکایت کی کہ کارونجھر پہاڑ پر نایاب پتھروں کی کٹائی ہو رہی ہے، اس طرح ننگر پارکر کی خوبصورتی کو تباہ کیا جارہا ہے۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے سوال کیا کہ کون کاٹ رہا ہے کارونجھر کو؟ درخواست گذار کا کہنا تھا کہ محکمہ مائینز اینڈ منرلز والے کاٹ رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے درخواست گذار کو ہدایت کی کہ وہ تحریری درخواست عدالت میں جمع کرائیں جس پر سماعت ہوگی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *