بائیڈن نے پوتن کو ’قاتل‘ کہا تو جواب ملا ’وہی پہچان سکتا ہے جو خود ویسا ہو
روسی صدر ولادیمیر پوتن کا امریکی صدر جو بائیڈن کے اس بیان کے بعد شدید ردعمل سامنے آیا ہے جس میں جو بائیڈن نے کہا تھا کہ وہ پوتن کو ایک ’قاتل‘ تصور کرتے ہیں۔
صدر پوتن نے روسی ٹی وی پر ایک بیان میں کہا ہے کہ ’وہی پہچان سکتا ہے جو خود ویسا ہو۔‘ صدر پوتن نے صدر بائیڈن کو لائیو ٹی وی پر مکالمے کا چیلنج بھی کیا۔
صدر پوتن ان الزامات کی تردید کرتے ہیں کہ ان کی سکیورٹی فورسز نے حزبِ اختلاف کے سیاستدان الیکسی نوالنی کو قتل کرنے کی کوشش کی تھی۔
صدر بائیڈن نے اے بی سی نیوز کو انٹرویو میں یہ بھی کہا تھا کہ پوتن کو 2020 کے امریکی صدارتی انتخاب میں مبینہ مداخلت کی قیمت ادا کرنا ہوگی۔
س بیان کے بعد روس نے امریکہ سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا ہے تاکہ دونوں ممالک کے تعلقات کو ’ناقابلِ تلافی نقصان‘ پہنچنے سے بچانے کے لیے بات کی جا سکے۔
روسی حکومت کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے مابین تعلقات اب ایک بند گلی میں پہنچ چکے ہیں۔
جو بائیڈن اس امریکی انٹیلیجنس رپورٹ کا حوالہ دے رہے تھے جس میں کہا گیا ہے کہ صدر پوتن نے گذشتہ سال نومبر میں امریکی انتخاب میں مداخلت کی ایک مہم کی منظوری دی تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ روس نے کوشش کی کہ امریکی صدارتی انتخاب میں ڈونلڈ ٹرمپ کامیاب ہو جائیں۔
اس رپورٹ کی بنیاد پر توقع کی جا رہی ہے کہ امریکہ آنے والے دنوں میں روس کے خلاف پابندیاں عائد کرے گا۔
صدر پوتن نے کیا کہا ہے؟
صدر بائیڈن کے الزامات مسترد کرتے ہوئے پوتن نے روس میں بچوں میں مقبول ایک کہاوت کا استعمال کیا جس کا لفظی ترجمہ ہے ‘جو کہتا ہے وہی ہوتا ہے‘ جسے انگریزی زبان کے محاورے ‘ٹیکس ون ٹو نو ون‘ یعنی ‘کسی کو پہچاننے کے لیے خود ویسا ہی ہونا ہوتا ہے‘ کے تناظر میں دیکھ سکتے ہیں۔
سرکاری ٹی وی پر نشر ہونے والے اپنے بیان میں اُنھوں نے کہا، ’مجھے یاد ہے کہ بچپن میں جب ہم کھیل کے میدان میں بحث کرتے تھے تو کہتے تھے کہ ’کسی کو پہچاننے کے لیے ویسا ہی ہونا پڑتا ہے۔‘
صدر پوتن نے کہا کہ ‘اور یہ محض اتفاق کی بات نہیں ہے، یا صرف بچوں کی کہاوت یا مذاق ہی نہیں ہے۔ اس کے گہرے نفسیاتی معنی ہیں۔ ہم اپنی خصوصیات دوسروں میں دیکھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ وہ ایسے ہی ہیں جیسے اصل میں ہم ہیں۔ اسی تناظر میں ہم لوگوں کے اقدامات کو دیکھ کر اپنی رائے دیتے ہیں۔‘
صدر پوتن نے امریکہ پر الزام لگایا کہ اس نے امریکہ کی مقامی آبادی کی نسل کشی کی اور دوسری عالمی جنگ میں ایٹم بموں کے استعمال سے لاکھوں عام شہریوں کا قتلِ عام کیا۔
جمعرات کی شام صدر پوتن نے امریکی صدر کو براہِ راست مکالمے کے لیے جمعے یا پیر کا چیلنج بھی دیا۔
انھوں نے کہا کہ ‘ایک کھلی براہِ راست بحث‘ امریکی اور روسی عوام کے لیے دلچسپ ہوگی۔
اس سے قبل روسی صدر کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا تھا کہ امریکہ کے حالیہ الزامات بے بنیاد ہیں اور دو طرفہ تعلقات کو نقصان پہنچائیں گے۔
ادھر اپنا سفیر واپس بلانے کے اعلان کے ساتھ روسی وزارتِ خارجہ نے کہا تھا کہ ‘ہمارے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ روس اور امریکہ کے تعلقات کو ٹھیک کیسے کیا جائے کیونکہ واشنگٹن نے انھیں واقعتاً ایک بند گلی میں لا کھڑا کیا ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ اس کے کیا نتائج ہوں گے تو ان کا کہنا تھا کہ ‘آپ کو جلد نظر آ جائیں گے۔‘ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ صدر پوتن ’ایک قاتل‘ ہیں تو انھوں نے کہا ’ہاں، میں ایسا ہی دیکھتا ہوں۔‘
اس کے بعد وائٹ ہاؤس کی ترجمان جین ساکی نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ روس اور امریکہ کے تعلقات اب صدر ٹرمپ کے دورِ حکومت کے مقابلے میں مختلف ہوں گے۔
انھوں نے کہا کہ ’یقینی طور پر روسیوں کو ان کے اقدامات کے لیے حساب دینا ہوگا۔‘
کیا یہ پوتن اور بائیڈن میں پہلی تلخ کلامی ہے؟
آج سے 10 سال پہلے جب جو بائیڈن صدر اوباما کے نائب صدر تھے اور ولادیمیر پوتن اس وقت عارضی طور پر روسی وزیرِاعظم کی ذمہ داریاں نبھا رہے تھے تو دونوں کے درمیان ماسکو میں ملاقات ہوئی تھی۔
چند سال بعد جو بائیڈن نے نیو یارکر کو انٹرویو میں اس ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ‘میں نے اس وقت ان سے کہا تھا کہ جنابِ وزیراعظم میں آپ کی آنکھوں میں دیکھ رہا ہوں اور مجھے نہیں لگتا کہ آپ کی کوئی روح ہے۔ انھوں نے واپس مجھے دیکھا اور مسکراتے ہوئے کہا کہ ہم ایک دوسرے کو سمجھتے ہیں۔‘
گذشتہ سال اپنے انتخاب سے قبل جو بائیڈن نے صدر پوتن کو ’کے جی بی کا غنڈہ‘ کہہ کر بھی پکارا تھا کیونکہ پوتن سوویت سیکریٹ سروس میں کام کر چکے ہیں۔
امریکی انٹیلیجنس رپورٹ میں کیا ملا تھا؟
منگل کے روز شائع کی گئی اس 15 صفحاتی انٹیلیجنس رپورٹ میں روس اور ایران کی جانب سے ’اثر و رسوخ قائم کرنے کی مہم‘ کی تفصیلات بتائی گئی ہیں۔
رپورٹ کا دعویٰ ہے کہ روس سے منسلک لوگوں نے تین نومبر کو صدارتی انتخاب سے قبل جو بائیڈن کے بارے میں جھوٹے دعوے پھیلانے کی کوشش کی۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ گمراہ کُن معلومات پھیلانے کی ایک مہم شروع کی گئی تھی جس کا مقصد انتخابی مرحلے پر عوام کے اعتماد کو ختم کرنا تھا۔
اس امریکی رپورٹ کے مطابق روسی انٹیلیجنس سے منسلک کچھ لوگوں نے میڈیا، سینیئر حکام اور صدر ٹرمپ کے اتحادیوں کو بائیڈن مخالف بیانیہ بھی بھیجا۔