ارشد ندیم نے ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپیئن شپ کی تاریخ

ارشد ندیم نے ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپیئن شپ کی تاریخ

ارشد ندیم نے ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپیئن شپ کی تاریخ میں پاکستان کو پہلا تمغہ دلوا دیا

پاکستان کے ارشد ندیم نے ہنگری کے دارالحکومت بوڈاپسٹ میں منعقد ہونے والی ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپئین شپ میں جیولن تھرو کے فائنل مقابلے میں چاندی کا تمغہ حاصل کر لیا ہے۔

یہ پہلا موقع ہے کہ کسی پاکستانی ایتھلیٹ نے ان مقابلوں کی تاریخ میں کوئی بھی تمغہ جیتا ہو۔

اتوار کی شب ہونے والے فائنل میں ارشد نے اپنی بہترین تھرو 87.82 میٹر دور پھینکی اور یہ رواں سیزن میں ان کی بہترین تھرو بھی تھی۔

اس مقابلے میں طلائی تمغہ انڈیا کے نیرج چوپڑا نے حاصل کیا جن کی 88.17 میٹر کی پہلی تھرو ہی انھیں پہلی پوزیشن دلوانے کے لیے کافی ثابت ہوئی

نیرج چوپڑا اور ارشد ندیم
نیرج چوپڑا اور ارشد ندیم مقابلے کے بعد ایک ساتھ

اس سے پہلے جمعے کو ہونے والے جیولن تھرو کے ابتدائی مقابلوں میں ارشد ندیم نے 86.79 میٹر کی تھرو کی بدولت نہ صرف فائنل میں جگہ بنائی تھی بلکہ سنہ 2024 میں فرانس میں ہونے والے اولمپکس کے لیے بھی کوالیفائی کر لیا تھا۔

ارشد ندیم چوٹ کی وجہ سے تقریبا ایک سال سے کسی قومی یا بین الاقوامی ایونٹ میں شریک نہیں ہو سکے تھے اور صحت یابی کے بعد یہ ان کا پہلا عالمی مقابلہ تھا۔

ارشد اس ایونٹ سے قبل پاکستان کے لیے سنہ 2018 میں ایشین گیمز میں کانسی جبکہ 2022 میں ہونے والی کامن ویلتھ گیمز میں سونے کا تمغہ جیت چُکے ہیں۔

ارشد ندیم

میاں چنوں کے گاؤں کا کرکٹر ایتھلیٹ کیسے بنا؟

ارشد ندیم کا تعلق میاں چنوں کے نواحی گاؤں چک نمبر 101-15 ایل سے ہے۔

ان کے والد راج مستری ہیں لیکن اُنھوں نے اپنے بیٹے کی ہر قدم پر حوصلہ افزائی کی۔ ارشد ندیم کے کریئر میں دو کوچز رشید احمد ساقی اور فیاض حسین بخاری کا اہم کردار رہا ہے۔

رشید احمد ساقی ڈسٹرکٹ خانیوال ایتھلیٹکس ایسوسی ایشن کے صدر ہونے کے علاوہ خود ایتھلیٹ رہے ہیں۔ وہ اپنے علاقے میں باصلاحیت ایتھلیٹس کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی میں پیش پیش رہے ہیں۔

کچھ عرصہ قبل رشید احمد ساقی نے بی بی سی کے نامہ نگار عبدالرشید شکور سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ارشد ندیم جب چھٹی ساتویں جماعت کے طالبعلم تھے، اُنھیں وہ اس وقت سے جانتے ہیں۔ ’اس بچے کو شروع سے ہی کھیلوں کا شوق تھا۔ اس زمانے میں ان کی توجہ کرکٹ پر زیادہ ہوا کرتی تھی اور وہ کرکٹر بننے کے لیے بہت سنجیدہ بھی تھے لیکن ساتھ ہی وہ ایتھلیٹکس میں بھی دلچسپی سے حصہ لیا کرتے تھے۔ وہ اپنے سکول کے بہترین ایتھلیٹ تھے۔‘

رشید احمد ساقی کہتے ہیں ‘میرے ارشد ندیم کی فیملی سے بھی اچھے مراسم ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دن ان کے والد میرے پاس آئے اور کہا کہ ارشد ندیم اب آپ کے حوالے ہے، یہ آپ کا بیٹا ہے۔ میں نے ان کی ٹریننگ کی ذمہ داری سنبھالی اور پنجاب کے مختلف ایتھلیٹکس مقابلوں میں حصہ لینے کے لیے بھیجتا رہا۔ ارشد نے پنجاب یوتھ فیسٹیول اور دیگر صوبائی مقابلوں میں کامیابیاں حاصل کیں۔’

وہ کہتے ہیں ʹیوں تو ارشد ندیم شاٹ پٹ، ڈسکس تھرو اور دوسرے ایونٹس میں بھی حصہ لیتے تھے لیکن میں نے ان کے دراز قد کو دیکھ کر اُنھیں جیولن تھرو کے لیے تیار کیا۔’

تصویر

رشید احمد ساقی بتاتے ہیں ʹمیں نے ارشد ندیم کو ٹریننگ کے لیے پاکستان ایئر فورس بھیجا لیکن ایک ہفتے بعد ہی واپس بلا لیا۔ اس دوران پاکستان آرمی نے بھی ارشد ندیم میں دلچسپی لی بلکہ ایک دن آرمی کی گاڑی آئی اور اس میں موجود ایک کرنل صاحب میرا پوچھ رہے تھے۔

‘میں گھبرا گیا کہ کیا ماجرا ہے؟ لیکن جب اُنھوں نے ارشد ندیم کی بات کی تو میری جان میں جان آئی۔ کرنل صاحب بولے ارشد ندیم کو آرمی میں دے دیں، لیکن میں نے انکار کر دیا۔ کرنل صاحب نے وجہ پوچھی تو میں نے بتایا کہ آپ لوگ اس کی ٹریننگ ملٹری انداز میں کریں گے۔ بہرحال اس کے بعد میں نے ارشد ندیم کو واپڈا کے ٹرائلز میں بھیجا جہاں وہ سلیکٹ ہو گئے۔‘

ارشد ندیم شادی شدہ ہیں ان کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے۔

رشید احمد ساقی نے بتایا تھا کہ ’میں ارشد ندیم کو مذاقاً کہتا تھا کہ اولمپکس میں شرکت کا خواب پورا ہو جائے تو پھر شادی کرنا، لیکن آپ کو پتہ ہی ہے کہ گاؤں میں شادیاں کم عمری اور جلدی ہو جایا کرتی ہیں۔‘

بہت جلدی سیکھنے والا شاگرد

ارشد ندیم

ارشد ندیم کا سفر میاں چنوں کے گھاس والے میدان سے شروع ہوا جو اُنھیں انٹرنیشنل مقابلوں میں لے گیا۔

ارشد ندیم کے کوچ فیاض حسین بخاری ہیں جن کا تعلق پاکستان واپڈا سے ہے۔ وہ خود بین الاقوامی ایتھلیٹکس مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں۔

فیاض حسین بخاری نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ارشد ندیم ایک سمجھدار ایتھلیٹ ہیں جو بہت جلدی سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو کام ایک عام ایتھلیٹ چھ ماہ میں کرتا ہے ارشد وہ کام ایک ماہ میں کر لیتے ہیں۔‘

اُن کے مطابق دو سال قبل ہونے والی ساؤتھ ایشین گیمز سے قبل اُن دونوں نے یہ عہد کر لیا تھا کہ اولمپکس میں وائلڈ کارڈ کے ذریعے نہیں جانا بلکہ کارکردگی کے ذریعے کوالیفائی کریں گے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *