یونیورسٹی آف لاہور لڑکی کی مجمعے کے سامنے لڑکے کو شادی کی پیشکش، سوشل میڈیا پر دلچسپ تبصرے
میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی۔ یہ محاورہ تو زبان زدِ عام ہے مگر بظاہر اس مرتبہ ’قاضی‘ کو لڑکے اور لڑکی کا راضی ہونا پسند نہیں آیا ہے۔
ہوا کچھ یوں ہے کہ یونیورسٹی آف لاہور کے دو طلبا کو اس بات پر یونیورسٹی سے خارج کر دیا گیا ہے کیونکہ ایک طالبہ نے ایک طالبِ علم کو سب کے سامنے گھٹنے کے بل جھک کر پھول پیش کیے جس کے جواب میں لڑکے نے لڑکی کو گلے لگا لیا۔
یہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد واقعہ ہے کیونکہ پاکستان کے معاشرے میں اکثر عوام کے سامنے پیار محبت کا اظہار کرنا اب بھی ایک شجرِ ممنوعہ سمجھا جاتا ہے۔
اور پھر یہ تو ہوا بھی ایک یونیورسٹی میں دیگر طلبا کے سامنے، چنانچہ یونیورسٹی نے اس پر ’فوری ایکشن‘ لیتے ہوئے دونوں کو یونیورسٹی سے برخاست کر دیا۔
یونیورسٹی نے اپنے نوٹیفیکیشن میں کہا ہے کہ مذکورہ طلبا کو انضباطی کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کے لیے کہا گیا تھا مگر وہ پیش نہ ہوئے۔ نوٹیفیکیشن میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ انھوں نے یونیورسٹی کے ضوابط کی خلاف ورزی کی ہے۔
علاوہ ازیں ان دونوں طلبا کے یونیورسٹی آف لاہور اور اس کے تمام ذیلی کیمپسوں میں داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
بی بی سی نے دونوں طلبا سے اُن کا مؤقف جاننے کے لیے رابطہ کیا ہے تاہم اب تک انھوں نے جواب نہیں دیا ہے۔
لیکن بظاہر اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹس میں دونوں نے اپنی بائیو میں ایک دوسرے کو مینشن کر رکھا ہے اور ٹویٹس میں کہا ہے کہ انھوں نے کچھ غلط نہیں کیا۔
سوشل میڈیا پر اس حوالے سے کافی دلچسپ ردِعمل دیکھنے میں آ رہا ہے اور اس معاملے پر پاکستان ہی نہیں بلکہ سرحد پار سے بھی کئی لوگوں نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔
کئی لوگ اس کی مذمت کرتے نظر آئے تو کئی لوگوں نے انھیں سراہتے ہوئے یونیورسٹی پر تنقید کی۔
ماہرِ قانون ایمان زینب مزاری حاضر نے کہا کہ اس ملک میں یونیورسٹیاں کیمپس میں کیا چیز برداشت کرتی ہیں؟ جنسی ہراسانی، مشتعل ہجوم کا تشدد، اور (طلبہ کو بلیک میل کرنے کے لیے) سرویلینس کیمرے۔
اُنھوں نے کہا کہ رضامندی رکھنے والے دو بالغ اگر ایک دوسرے کو گلے لگائیں تو یہاں لکیر کھینچ دی جاتی ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان میں متعدد تعلیمی اداروں سے ایسے واقعات سامنے آ چکے ہیں جہاں طالبات کو اساتذہ یا یونیورسٹی کے اہلکاروں کے ہاتھوں جنسی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا۔
اس کے علاوہ سنہ 2017 میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں مردان کی باچا خان یونیورسٹی میں ایک طالبِ علم مشعال خان ہلاک ہوئے تھے۔ اُنھیں توہینِ مذہب کا الزام لگا کر اتنا زد و کوب کیا گیا کہ وہ جانبر نہ ہوسکے۔
اس کے علاوہ کئی یونیورسٹیوں میں طلبہ کی مختلف سیاسی اور مذہبی تنظیموں کے درمیان پُرتشدد ٹکراؤ کے بھی متعدد واقعات پیش آ چکے ہیں۔
کرکٹ تجزیہ کار ڈینس فریڈ مین جو برِصغیر بالخصوص پاکستان کے کرکٹ سمیت بیشتر سیاسی اور معاشرتی امور پر بات کرتے نظر آتے ہیں، نے ٹوئٹر پر اپنا نام بدل کر ڈینس لاہور یونیورسٹی رکھ لیا اور اس جوڑے پر تنقید کرنے والے ٹوئٹر صارفین کو ایک کے بعد ایک بھرپور جواب دیتے ہوئے نظر آئے۔
جب ایک صارف نے لکھا کہ یونیورسٹیاں میرج بیورو نہیں، ان اداروں کو اپنا کام کرنے دیں، تو ڈینس نے جواباً کہا کہ ٹھیک ہے، کیمپس میں کھانے کی بھی اجازت نہیں ہونی چاہیے کیونکہ یہ ریستوران نہیں ہوتے