گجہ جو گوادر کے سمندر کو ’بانجھ‘ کر رہا ہے ہم ٹرالر مافیا کا مقابلہ نہیں کر سکتے، ان کے پاس بندوقیں ہوتی ہیں
گوادر میں مچھلیاں کم ہوتی جا رہی ہیں مگر دوسری جانب غیر قانونی ٹرالنگ بڑھتی ہی جا رہی ہے۔‘
یہ شکوہ گوادر کے تقریباً ہر دوسرے مچھیرے کی زبان پر ہے۔ اگرچہ ’حق دو تحریک‘ کے رہنما مولانا ہدایت الرحمان کا دھرنا ختم ہو چکا ہے اور اب وہ زیرِ حراست ہیں مگر کئی دنوں تک جاری رہنے والے اس دھرنے کے شرکا کا سب سے اہم مطالبہ یہی تھا کہ ’گوادر کے ساحل سے غیر قانونی ٹرالنگ کو ختم کیا جائے۔‘
تو آخر یہ کتنا بڑا مطالبہ ہے جو پورا نہیں ہو سکتا؟
مگر اس پر بات کرنے سے پہلے ذرا گوادر کے شہریوں کا احوال لیتے ہے۔
گوادر کے شہریوں کے مطابق یہاں پر اب بھی غیر قانونی طور پر مچھلی نکالنے کا کام جاری ہے تاہم حکام اس کی پرزور تردید کرتے ہیں۔
گوادر کے شاہی بازار میں موجود شہریوں کا ماننا ہے کہ اگر حکام چاہیں ’تو یہ غیرقانونی ٹرالنگ ایک دن میں ختم ہو سکتی ہے اور اگر نہ چاہیں تو بہانے بہت۔‘
گوادر کے شہریوں کے مطابق ٹرالنگ عمومی طور پر رات ایک بجے سے صبح چھ بجے کے دوران ہوتی ہے۔ مقامی ماہی گیر محمد مسلم نے بتایا کہ ’رات کے وقت جب ہم کام ختم کر کے سو جاتے ہیں تو اُسی دوران تقریباً 10 سے 12 ٹرالرز (بعض اوقات اس سے بھی زیادہ) ایک جھُنڈ کی شکل میں ساحل کے پاس آ کر مچھلیوں کے لیے جال پھینک جاتے ہیں۔‘
’اس جال میں بڑی مقدار میں چھوٹی، بڑی مچھلیاں چلی جاتی ہیں جو اگلے کچھ عرصے کے لیے سمندر کو بانجھ کر دیتی ہیں۔‘
اس کی مثال دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’میں نے صبح دس بجے جال ڈالا تھا اور اب دن کے بارہ بجے ہیں اور صرف چند چھوٹی مچھلیاں ہی ہاتھ آئی ہیں۔ یہ صرف ہزار، پندرہ سو روپے کا مال ہے جو میں اگر منڈی میں لے جاؤں تو اس کی قیمت کچھ بھی نہیں۔‘
ٹرالنگ جو ’سمندر کو بانجھ کر دیتی ہے‘
ٹرالنگ بڑی مقدار میں مچھلیوں کو پکڑنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ جبکہ ٹرالر اس بڑی ماہی گیری کی کشتی کو کہا جاتا ہے جس میں مچھلیوں کو پکڑنے کے لیے باریک اور بڑے جال موجود ہوتے ہیں۔
یہ غیر قانونی عمل پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک کے ساحلِ سمندر پر بھی عام ہے اور ماضی میں اِس کو روکنے کے لیے کئی مہمات کا آغاز کیا گیا ہے۔ مگر جہاں کچھ ممالک اسے روکنے میں کچھ حد تک کامیاب ہوئے ہیں، وہیں پاکستان کا ساحل اب بھی اس غیر قانونی عمل سے متاثر ہے اور متاثرہ شہری گذشتہ بہت عرصے سے اس کے خلاف لگاتار احتجاج کرتے رہے ہیں۔
ٹرالنگ کے ذریعے مچھلیوں کو پکڑنے کے کام میں نہایت ہی باریک جال کا استعمال ہوتا ہے جسے عام زبان میں ’گجہ‘ بھی کہا جاتا ہے۔
اس باریک جال کو سمندر کے ساحل کے قریب پھینکا جاتا ہے، جہاں سے بڑی اور چھوٹی مچھلیوں کے ساتھ ساتھ پیدا ہونے والی مچھلیوں کی نئی نسل بھی شکار کر لی جاتی ہے جسے مقامی افراد ’سمندر کو بانجھ‘ کرنا کہتے ہیں۔
ماہی گیروں کے مطابق ان چھوٹی مچھلیوں کی ضرورت اس لیے پڑتی ہے تاکہ بڑی مچھلیاں انھیں کھانے کے لیے ساحل کے قریب آ سکیں اور ماہی گیر انھیں پکڑ سکیں۔
لیکن ٹرالر کے پھینکے ہوئے جال میں آ کر تمام تر چھوٹی مچھلیاں بھی سمندر کی تہہ سے نکال لی جاتی ہیں۔ اس تمام تر عمل کو گوادر کے ماہی گیر مچھلیوں کی نسل کشی کا نام دیتے ہیں۔
اس سے پہلے ایک مہم چینی ٹرالرز کو سمندر سے نکالنے کے لیے جولائی 2021 میں شروع ہوئی تھی جس کے بعد نیشنل پارٹی کے سینیٹر طاہر بزنجو نے اُس وقت صحافیوں کو بتایا تھا کہ ’حکومت اب چینی ٹرالرز کو مچھلیاں پکڑنے کے لیے اجازت اور لائسنس دینے کی بات سے انکار کر رہی ہے، جس کی بڑی وجہ سیاسی جماعتوں کی طرف سے اس معاملے پر شور شرابا ہے۔‘
عام طور پر یہ دیکھا گیا تھا کہ چینی ٹرالر بلوچستان کے ساحلی علاقوں کی طرف سمندر سے ایک ہی جھٹکے میں سینکڑوں ٹن مچھلیاں چین لے جاتے تھے مگر دوسری جانب انھیں روکنے والا کوئی نہیں تھا کیونکہ بقول ان ٹرالرز کے عہدیداروں کے ان کے پاس پاکستان کی حکومت کے جانب سے دیے گئے اجازت نامے موجود تھے۔
اس کے بعد سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی 2021 میں ماہی گیروں کی یقین دہانی کے لیے گوادر کے دورے کے دوران کہا تھا کہ کسی کو بھی ٹرالنگ کے لائسنس نہیں دیے گئے ہیں تاہم ماہی گیروں کی تنظیم نے دعویٰ کیا تھا کہ چینی ٹرالرز کو پچاس سے زائد لائسنس دیے گئے تھے۔
ڈائریکٹر جنرل فشریز سیف اللہ کیتھران نے بی بی سی کو بتایا کہ چینی ٹرالرز اب بلوچستان کے سمندر میں نہیں آتے تاہم اب ایک بڑا مسئلہ سندھ کی جانب سے آنے والے ٹرالرز کا ہے جو وہ ہی کام کر رہے ہیں جو اس سے پہلے چینی ٹرالرز کرتے تھے۔
انھوں نے بتایا کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ’تاحال 80 سے نوے فیصد تک ٹرالنگ ختم ہو چکی ہے اور اب ہم سمندر کو غیر قانونی ٹرالرز سے پاک رکھنے کے لیے کوسٹ گارڈ سے مدد لے رہے ہیں۔‘
قانون اور محکمہ فشریز کے قواعد کے مطابق، بلوچستان کے سمندر میں 12 ناٹیکل مائلز (یعنی 30 کلومیٹر سے باہر) مچھلیاں پکڑنے کی اجازت ہے اور اس اجازت کی آڑ میں ٹرالرز مچھلیوں کا شکار کرتے کرتے رات گئے ساحل کے پاس آ کر بھی مچھلیوں کا شکار کرتے ہیں۔
تاہم ماہی گیروں سے جب اس کے بارے میں بات کی تو انھوں نے ڈی جی فشریز کے بیان کو رد کرتے ہوئے بتایا کہ ’سندھ سے آنے والے ٹرالرز اب بھی آدھی رات کو آتے ہیں۔ اور مچھلیاں پکڑ کر لے جاتے ہیں، اس میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔‘
دوسری جانب سندھ ٹرالرز ایسوسی ایشن کے ترجمان نے غیر قانونی ٹرالنگ کرنے والوں کی موجودگی سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے پاس رجسٹرڈ ٹرالرز کی تعداد 1600 ہے اور یہ تمام تر ٹرالرز حکومتِ بلوچستان کی جانب سے مختص کردہ جگہ سے ہی مچھلی پکڑتے ہیں۔‘
مزید اعداد و شمار کھوجنے پر پتا چلا کہ بلوچستان کے محکمہ ماہی گیری کے پاس 9211 کشتیاں رجسٹرڈ ہیں جبکہ بلوچستان میں 1600 رجسٹرڈ فشنگ ٹرالرز ہیں۔ اس کے علاوہ غیر قانونی طور پر آنے والے ٹرالرز کا کوئی ریکارڈ کسی ادارے کے پاس دستیاب نہیں ہے۔
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق سالانہ دو لاکھ 19 ہزار میٹرک ٹن مچھلیاں اور جھینگے پکڑے جاتے ہیں۔
مسلم نے کہا کہ ’قواعد کے مطابق اگر مچھلی پکڑی جائے تو ہمیں سندھ سے آنے والوں سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن ضرورت سے زیادہ مچھلی اگر ایک پارٹی لے جائے گی تو ہم کیا کریں جن کا گزر بسر ہی سمندر کی مچھلی پر ہے؟‘
مسلم نے کہا کہ ان جیسے ماہی گیر ٹرالر مافیا کا سامنا نہیں کر سکتے کیونکہ ’اُن کے پاس بندوقیں ہوتی ہیں۔‘
مقامی صحافیوں اور ماہرین کے مطابق غیر قانونی ٹرالنگ کا معاملہ آج بھی زیرِ بحث صرف اس لیے ہے کیونکہ اس کے خلاف سیاسی سطح پر مزاحمت جاری ہے۔ اس کی ایک بڑی مثال مولانا ہدایت الرحمان کا دھرنا ہے۔
پروین ناز ایک سماجی کارکن ہونے کے ساتھ ساتھ ماہی گیروں کو درپیش مسائل کے لیے ہر وقت پیش پیش رہتی ہیں۔ مولانا ہدایت الرحمان کے اگست 2021 کے دھرنے میں بھی وہ کراچی کے علاقے لیاری، کیماڑی اور منوڑہ سے ماہی گیروں کی ایک بڑی تعداد لے کر گوادر پہنچی تھیں۔
پروین نے کہا کہ یہ معاملہ 1990 کی دہائی سے شروع ہوا تھا۔ ’آپ سوچ نہیں سکتیں کہ ان ٹرالروں کی بناوٹ سے لے کر انھیں سمندر میں رکھنے پر ہی صرف ڈیڑھ کروڑ کا خرچہ آتا ہے۔ تو منافع کتنا ہوتا ہو گا؟ اس کے بعد جو لوگ اس غیر قانونی عمل کی سرپرستی کرتے ہیں وہ کیوں اسے رکنے دیں گے؟‘
گوادر کے چند مقامی صحافی اور ماہرین بیشک اس معاملے کو سیاسی طور پر سامنے لانے کی حمایت کرتے ہیں مگر وہ ساتھ ہی ٹرالنگ کے معاملے پر جماعتِ اسلامی کے مولانا ہدایت الرحمان کی جانب سے ’عجلت میں لیے گئے چند اقدامات کی نشاندہی بھی کرتے ہیں۔‘
ایک مقامی صحافی نے رواں ماہ کے شروع میں ہونے والے ایک واقعے کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ’مولانا کو یہ خبر ملنے پر کہ سمندر میں چند ٹرالرز موجود ہیں کسی نے بندوق تھما دی اور وہ کشتی میں بیٹھ کر ان کی تلاش میں گئے۔ یہ صرف بات کرنے کے لیے نہیں کہہ رہا بلکہ اس کی ویڈیو بھی موجود ہے۔‘
جبکہ ایک اور صحافی کے مطابق ایک اور غلطی سی پیک روڈ بند کرنے کی تھی۔ ’اس وقت یہ بات کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ غیر قانونی ٹرالنگ کی روک تھام کے لیے لوگوں کی نظر مولانا پر ہے۔ یا تو وہ اسی روز جب سی پیک روڈ بند کر کے بیٹھے تھے، گرفتاری دے دیتے اور اٹھ کر جاتے نہیں۔‘
جب گوادر کی سوِل کورٹ میں مولانا ہدایت الرحمان سے اس کے بارے میں سوال کیا، تو انھوں نے اس کا جواب کچھ یوں دیا ’میرا سرمایہ گوادر کے عوام ہیں اور میں ان کے لیے کسی بھی طاقت سے لڑ جاؤں گا۔ ٹرالر مافیا کا معاملہ پیچیدہ بنا دیا گیا ہے جبکہ اگر وفاقی اور صوبائی حکومت اسے حل کرنا چاہیں تو کچھ دنوں میں کر سکتی ہے۔ انھیں بلوچستان چاہیے، بلوچ نہیں۔‘
اور اس خیال پر کہ گوادر میں سیاسی خلا کو پُر کرنے کے لیے انھیں جماعتِ اسلامی کی طرف سے لایا گیا ہے۔ تو انھوں نے بتایا کہ ’میں کسی کی طرف سے نہیں لایا گیا۔ یہ میری اپنی جنگ ہے۔‘
یہ بات کرنے کے کچھ ہی لمحوں بعد مولانا کو پولیس گرفتار کر کے لے گئی۔ جبکہ ماسی زینب نے کہا کہ ’مولانا ہمارے ساتھ ہوں یا جیل میں ہوں ہم لوگ غیر قانونی ٹرالرز کے خلاف بولتے رہیں گے۔ ہمیں جانوروں کی طرح مارا گیا حالانکہ مطالبہ صرف اتنا کیا تھا کہ اس سمندر سے ہمیں رزق ملتا ہے اسے ختم مت کرو۔ بس۔