کووِڈ 19 کے بڑھتے ہوئے واقعات کے سبب انڈیا کورونا وائرس کے خلاف جنگ کے ’نازک مرحلے‘ میں
انڈیا میں کووڈ 19 کے کیسز میں کئی ماہ تک نمایاں کمی کے بعد فروری میں بعض ریاستوں میں اچانک تیزی آگئی ہے۔
فروری کے آغاز پر ممبئی سے تقریباً 700 کلو میٹر دور ضلع امراوتی میں ڈاکٹروں نے کووڈ 19 میں مبتلا افراد کی تعداد میں اچانک تیزی دیکھی۔ کورونا وائرس کی پہلی لہر کے بعد گرمیوں میں ریاست مہاراشٹر کے اس غربی ضلع میں زندگی معمول پر آ گئی تھی۔ سرکاری اور نجی ہسپتالوں میں موجود آئی سی یو کے تقریباً تمام بستر خالی ہو چکے تھے۔
ایک مقامی صحافی انیل جادیو کہتے ہیں ’فروری میں سب کچھ بدل گیا۔ اور اب ضلع میں افراتفری ہے۔‘
فروری کے آغاز سے امراوتی میں کووڈ کی وجہ سے 10 ہزار سے زیادہ نئے کیسز اور 66 سے زیادہ رپورٹ ہوئی ہیں۔ اس ہفتے ایک ہزار سے زیادہ افراد کا علاج کیا جا رہا تھا اور ٹیسٹوں کے مثبت ہونے کی شرح دس سے زیادہ ہے۔ امراوتی اور ریاست کے بعض دوسرے اضلاع میں پھر سے لاک ڈاؤن نافذ کر دیا گیا ہے۔
مقامی لوگوں کے مطابق پچیس لاکھ افراد والے اس ضلع میں گنجان آباد شہری علاقوں میں وبا زوروں پر ہے۔
ضلعی سول سرجن ڈاکٹر شیام سندر نیکم کہتے ہیں کہ ’ہمیں اس تیزی کی وجہ نہیں معلوم۔ زیادہ فکر کی بات یہ ہے کہ پورے پورے خاندان ایک ساتھ وبا کا شکار ہو رہے ہیں۔ یہ بالکل ایک نیا رجحان ہے۔‘
چند قریبی اضلاع میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور جمعرات کو ماہراشٹر میں 9 ہزار کیسز رپورٹ ہوئے۔ گذشتہ چار ماہ کے دوران ایک روز میں پہلی بار اتنا اضافہ ہوا ہے۔ اسی روز کووڈ کی وجہ سے 80 اموات بھی واقع ہوئیں۔
ڈاکٹر سنجے اوک نے بی بی سی کو بتایا کہ ’لوگ یہاں ماسک نہیں پہن رہے تھے۔ وہ شادی اور انتخابی اجتماعات میں بغیر کسی احتیاط کے شریک ہو رہے تھے۔ لوگ ایک دوسرے سے آزادانہ مل رہے ہیں اور وائرس کے حامل افراد کو الگ تھگ نہیں کیا جا رہا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ حالات اس نہج پر آگئے ہیں۔‘
ماہراشٹر ہی واحد ریاست نہیں جہاں کیسز میں اصافہ ہوا ہے۔ کیرالا، کرناٹکا، تلنگانا، مدھ پردیش، چھتیس گڑھ اور پنجاب کے بعض حصوں میں بھی کورونا وائرس کے متاثرین میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب ملک کے بیشتر حصوں میں کمی واقع ہو رہی ہے اور گذشتہ سال سمتبر میں روزانہ 90 ہزار کیسز کے مقابلے میں اب 20 ہزار سے بھی کم واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں۔
اس صورتحال نے سائنسدانوں اور دوسرے ماہرین کو حیران کر دیا ہے۔ اس کی وجوہ وہ ہی بیان کی جا رہی ہیں جو ماہراشٹر میں اضافے کا سبب سمجھی جاتی ہیں۔
کیا انڈیا میں کووِڈ کی نئی لہر آ رہی ہے؟
وبائی امراض کے ماہر ڈاکٹر للِت کانت کہتے ہیں کہ ’عمومی حالت کا جھوٹا احساس ملک کو لے ڈوبا ہے۔
’ہم احتیاط کا دامن نہیں چھوڑ سکتے کہ بڑے اجتماعات والی جگہوں کو پھر سے کھول دیں۔ ہر ریاست میں آئسولیشن، ٹسٹنگ اور ٹریسنگ کو وسیع پیمانے پر لاگو کرنا پڑے گا۔ ہم حالات کے مزید بگڑنے کا انتظار نہیں کر سکتے۔‘
ڈاکٹر کانت کہتے ہیں کہ اضافے کی توقع تو تھی کیونکہ یہ ایک عالمی رجحان ہے۔ ’دو تین ماہ کے سکون کے بعد ہم نے کئی ملکوں میں اضافہ دیکھا ہے۔‘
مگر سوال یہ ہے کہ یہ تیزی صرف چند ریاستوں تک کیوں محدود ہے۔ ماہرین اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ بعض ریاستوں میں نگرانی زیادہ مؤثر ہے، جیسا کہ ماہراشٹر میں۔ ممکن ہے دوسری جگہوں پر بھی تیزی آئی ہو مگر اس کا پتا نہ چل سکا ہو۔
ماہرین کے مطابق ایک دوسری وجہ میوٹیشن یا وائرس کا اپنی ہییت میں تبدیلی لانا ہو سکتی ہے۔ وائرس اکثر اپنے جینیاتی کوڈ بدلتے رہتے ہیں۔ میوٹیشن کی وجہ سے وائرس تیزی سے پھیلتا ہے اور بعض اوقات تو جسم کے مدافعتی نظام کو غیر مؤثر کر دیتا ہے۔
ایسا برطانیہ، جنوبی افریقہ اور برازیل میں دیکھنے میں آیا ہے جہاں ویریینٹس یا متغیرات ( وائرس کی ترمیم شدہ شکلیں) بڑی آبادیوں میں تیزی سے پھیلے۔ یہ متغیرات انڈیا میں بھی پائے گئے ہیں، مگر ایسی کوئی شہادت نہیں کہ یہ آبادی میں پھیل گئے ہوں۔ ماہرین اسے اچھی اور بری خبر قرار دیتے ہیں۔ اچھی اس لیے کہ یہ بہت زیادہ سرعت سے پھیلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور پہلے انفیکشن سے پیدا ہونے والی دفاعی صلاحیت یا امینونیٹی کو چیر کر نکل جاتے ہیں۔ بری خبر اس لیے کہ ہمیں یہ اندازہ نہیں ہو سکے گا کہ انڈین متغیرات کا طرزِ عمل کیسا ہوگا۔
کئی ریاستوں نے نئے متغیرات کے جینیاتی نقشے بنانا شروع کر دیے ہیں۔ حکام کے مطابق سینکڑوں نئے متغیرات کی نشاندہی کی جا چکی ہے۔
نامور وائرولوجسٹ ڈاکٹر شاہد جمیل کا کہنا ہے کہ ’اضافے کو میوٹیشن (تغیر) سے جوڑنا کافی نہیں ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ میوٹیشن کے اِکا دُکا واقعات تو ہوتے رہے ہیں، مگر ہمیں کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے کے لیے مزید معلومات اور تحقیق درکار ہے۔ ’جب تک ہمارے پاس کافی معلومات جمع نہیں ہو جاتیں، ہم کسی اضافے کی وجہ میٹیشن کو قرار نہیں دے سکتے۔‘
اس لیے ڈاکٹر جمیل کے مطابق فی الحال امراوتی اور دوسری جگہوں پر اضافے کے لیے میوٹیشن کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ یہ سب دنوں میں تبدیل ہو سکتا ہے۔‘
کیرالا میں کووڈ ٹاسک فورس کے رکن، ڈاکٹر فتح اللہ، کا کہنا ہے کہ وہاں گزشتہ چند ہفتوں کے دوران کوروناوائرس کے متاثرین میں اضافے کا سبب ٹسٹنگ کی سہولیت میں آنے والی بہتری ہے۔ ان کے بقول آر ٹی – پی سی آر ٹسٹنگ کو دنیا بھر میں معیاری مانا جاتا ہے اور ریاست میں تقریباً 75 فیصد ٹسٹنگ کے لیے یہ ہی طریقہ اختیار کیا جا رہا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ دوسری ریاستوں کو بھی یہ طریقہ اختیار کرنا چاہئے۔ ’نئے کیسز سامنے نہ آنے کا مطلب یہ تو نہیں کہ کووڈ کی وبا ختم ہوگئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وائرس ایسے لوگوں کو ڈھونڈ رہا ہے جو ضعیف ہوں یا ان میں پہلے سے کوئی مرض موجود ہو۔‘
ڈاکٹر فتح اللہ کہتے ہیں کہ ’اس میں شک نہیں کہ اسپتال پہلے سے زیادہ تیار ہیں، مگر ہم اس وقت ایک نازک مرحلے پر ہیں اور کوئی بھی لغزش پھر سے صحت عامہ کے نظام اور آبادی پر دباؤ کا سبب بن سکتی ہیں۔
’امید ہے کہ وہ وقت نہیں آئے گا۔