کشمیر میں عام لوگوں کی گاڑیاں انڈین فوج کی ’ڈیوٹی‘ کیوں اور کیسے دیتی ہیں؟
اعجاز احمد کو گذشتہ ہفتے ایک بار پھر عدالت جانا پڑا۔ دو سال میں اعجاز احمد اپنی گاڑی کے لیے اتنی بار عدالت جا چکے ہیں کہ اب وہ گنتی تک بھول چکے ہیں۔
سرینگر سے تقریباً 50 کلومیٹر کے فاصلے پر جنوبی کشمیر کا شوپیاں ضلع واقع ہے۔ شوپیاں کو شدت پسندی کا گڑھ سمجھا جاتا ہے اور اس ضلع میں ہی ریشینگری گاؤں ہے جہاں 39 سالہ اعجاز احمد رہتے ہیں۔
اعجاز پیشے کے لحاظ سے کسان ہیں۔ گذشتہ دو برسوں سے ان کی ’ماروتی‘ کار کے دستاویزات بحق سرکار یعنی عدالت میں ضبط ہیں۔
وجہ یہ ہے کہ اُن کی گاڑی کو فوج نے ایک انکاؤنٹر میں استعمال کیا تھا، تحقیقات کے بعد پتہ چلا کہ انکاؤنٹر فرضی تھا۔ اس تصادم کے بارے میں بعد میں بات کریں گے کیونکہ آپ سوچ رہے ہوں گے کشمیر میں سکیورٹی فورسز نے ایک عام آدمی کی گاڑی انکاؤنٹر میں کیوں استعمال کی۔
جنوبی کشمیر کے لوگوں کا کہنا ہے کہ اعجاز احمد اکیلے نہیں ہیں، فوج اکثر شہریوں کی گاڑیاں لے جاتی ہے، بہت سے مقامی لوگوں کا الزام ہے کہ اُن کی گاڑی سکیورٹی فورسز نے ’زبردستی چھین لی۔‘
بی بی سی نے اس معاملے پر انڈین فوج کا موقف جاننے کے لیے فوج کے تعلقات عامہ کے افسر کو ایک تفصیلی ای میل لکھی۔
بی بی سی کی ای میل کا جواب دیتے ہوئے انڈین فوج نے کہا ہے کہ ’دہشت گردی مخالف سرگرمیوں کے لیے فوج نقل و حرکت کے لیے بعض اوقات سول گاڑیاں استعمال کرتی ہے۔ ان گاڑیوں کو مستعار لیا جاتا ہے جس میں مالکان کی مکمل مرضی شامل ہوتی ہے اور اس کے عوض انھیں ادائیگی کی جاتی ہے۔۔۔‘
بی بی سی نے شوپیاں، پلوامہ اور کولگام کے کل 15 دیہات کا دورہ کیا اور ان دیہات کے لوگوں نے ہمیں بتایا کہ فوجی عام لوگوں کی پرائیویٹ گاڑیاں لے جاتے ہیں، جب فوج گاڑی مانگتی ہے تو کوئی انکار نہیں کرتا کیونکہ بہت سے لوگ ڈرتے ہیں۔
جعلی مقابلے اور سول گاڑی کے استعمال کا مقدمہ
سال 2020 میں، شوپیاں کے امشی پورہ گاؤں میں جموں کے تین شہریوں کو ’خطرناک دہشت گرد‘ بتاتے ہوئے ان کا انکاؤنٹر کیا گیا۔
18 جولائی 2020 کو فوج نے اطلاع دی کہ 62 راشٹریہ رائفلز نے ’ایک انکاؤنٹر میں تین دہشت گردوں کو مار ڈالا۔‘
اس واقعے کے بعد جموں کے راجوری میں رہنے والے تین خاندانوں نے اپنے اپنے لڑکوں کی گمشدگی کی رپورٹ درج کروائی۔ گھر والوں نے بتایا کہ آخری بار ان تینوں افراد نے 17 جولائی 2020 کو اپنے گھر والوں سے فون پر بات کی تھی، یعنی امشی پورہ میں انکاؤنٹر سے ایک دن پہلے۔
اس کے بعد معاملے کی جانچ کی گئی تو پتہ چلا کہ یہ جعلی انکاؤنٹر تھا۔ اس مقابلے میں ملوث فوجی افسران کے خلاف رواں سال اپریل میں کورٹ مارشل کی کارروائی کا آغاز کیا گیا تھا۔
بی بی سی نے اس کیس میں چارج شیٹ پڑھی اور اس طرح ہمیں معلوم ہوا کہ اس مقابلے میں اعجاز احمد کی گاڑی فوج نے استعمال کی تھی۔ جعلی مقابلے کے دو سال بعد بھی اعزاز احمد کی گاڑی کی دستاویزات عدالت میں موجود ہیں۔
ڈیوٹی پر گاڑی دینا عام بات ہے
ٹاٹا کمپنی کی گاڑیاں کشمیر کے لوگوں کے لیے سفر کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ ان گاڑیوں کی عوامی سروس کو ’سومو‘ کہتے ہیں اور سومو سٹینڈ ہر شہر میں ملتے ہیں۔ ہمیں تحقیقات میں معلوم ہوا ہے کہ ان سومو سٹینڈز سے گاڑیاں اسی علاقے میں آرمی کیمپ میں بھیجی جاتی ہیں۔ عام زبان میں اسے ’کار کو ڈیوٹی پر دینا‘ کہا جاتا ہے۔
یہ گاڑیاں مقابلوں، انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں سرپرائز فیکٹر کے طور پر بھی استعمال ہوتی ہیں، ایسی گاڑیاں رات کے وقت گشت کے لیے بھی استعمال ہوتی ہیں۔
عدالت میں جج کے سامنے ریکارڈ کرائے گئے بیان میں اعجاز احمد نے کہا ہے کہ ’17 جولائی 2020 کی رات کے آٹھ بجے تھے، دروازے پر دستک کی آواز آئی، جب میں باہر آیا تو فوجیوں نے کہا۔ گاڑی کی چابی دے دو، جب ہم نے چابی دی تو کہا گیا کہ کل کیمپ سے گاڑی لے جانا، اگلی صبح جب ہم گاڑی لینے گئے تو بتایا گیا کہ تمہاری گاڑی انکاؤنٹر پر گئی ہے۔ میں اگلی صبح گیا، چابی دی اور کہا کہ گاڑی تصادم کے مقام پر کھڑی ہے یعنی امشی پورہ میں، میں نے ایک اور کار لی اور اسے باندھا اور اپنی کار کو سیدھا ورکشاپ میں لے گیا، وہاں سے گاڑی کی ضروری مرمت کروائی اور گھر لے آیا۔‘
اعجاز احمد کے ایک قریبی ساتھی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا ’پولیس واقعے کے ساڑھے تین ماہ بعد ستمبر 2020 میں اعجاز کے گھر آئی تھی۔ شوپیان کے ایس پی نے رات 11.30 بجے آ کر فون کیا، ہم اس وقت سو رہے تھے۔ جب فرضی انکاؤنٹر کا معاملہ سامنے آیا تو انھوں نے کہا کہ اپنی استعمال شدہ گاڑی ہمیں دے دو۔ یہ گاڑی چار ماہ سے ہیر پورہ تھانے میں بند رہی، چار ماہ بعد گاڑی واپس دی گئی تو مکمل طور پر خراب ہو چکی تھی اس کے بعد بھی اعجاز احمد کو بتایا گیا کہ گاڑی کے کاغذات بعد میں ملیں گے۔‘
بی بی سی نے ہیر پورہ تھانے کے موجودہ ایس ایچ او سے بات کرنے کی کوشش کی تو انھوں نے اس بارے میں بات کرنے سے انکار کر دیا۔
آج بھی اعجاز احمد دربار حاضری کے لیے جاتے ہیں۔ ان کی گاڑی اب نہیں چلتی کیونکہ گاڑی کی رجسٹریشن سرٹیفکیٹ یعنی آر سی ان کے پاس نہیں بلکہ عدالت کے پاس ہے اور اسی لیے اسے فروخت بھی نہیں کیا جا سکتا۔
اعجاز احمد کہتے ہیں ’جب تک کیس نہیں چلے گا، مجھے آر سی نہیں ملے گی۔ میری گاڑی پھنس گئی ہے۔‘
پچھلے دو برسوں سے اعجاز کو ہر تاریخ پر عدالت جانا پڑتا ہے کیونکہ ان کی گاڑی کو جعلی مقابلے میں استعمال کیا گیا تھا۔ اعجاز اس دوران وکیل کو 10-12 ہزار روپے بھی دے چکے ہیں مگر اب کوئی وکیل اعجاز احمد کا مقدمہ لڑنے کے لیے تیار نہیں۔
کار دھماکے کا واقعہ
ایک دوسرا واقعہ بھی شوپیاں ضلع کا ہی ہے۔
ایک 20 سالہ نوجوان منہاج اللہ بات کرتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھوں سے منھ ڈھانپ لیتا ہے، پھر دھیمی آواز میں کہتا ہے ’سب کچھ میرے دماغ پر ثبت ہو گیا ہے، دور نہیں ہوتا۔‘
رواں برس جون میں، منہاج اللہ کو آٹھ دن کے لیے سپیشل آپریشنز گروپ (SOG) نے اپنی تحویل میں رکھا تھا۔
دو جون کو شوپیاں میں ایک پرائیویٹ نمبر والی گاڑی میں آئی ای ڈی دھماکہ ہوا تھا جس میں ایک فوجی اہلکار ہلاک اور دو افراد زخمی ہوئے تھے۔ شوپیاں پولیس نے ایک بیان میں کہا تھا کہ گاڑی ایک مقامی شخص سے کرائے پر لی گئی تھی۔
یہ ٹاٹا 207 لوڈنگ گاڑی گاؤں کے رہائشی محمد الطاف کی تھی جسے اُن کا 20 سالہ بیٹا منہاج اللہ چلاتا تھا۔
ہم الطاف کے گھر پہنچ گئے۔ الطاف کمرے میں سو رہے ہے اور ہماری آمد کا سُن کر وہ گھبرا گئے۔ چند منٹ ہم سے بات کرنے کے بعد انھوں نے بتایا کہ یکم جون کی شام تقریباً 4 بجے ہوں گے جب اُن کے بیٹے کا ٹیکسی سٹینڈ سے فون آیا کہ انھیں آج گاڑی کیمپ پر ڈیوٹی پر دینا ہو گی۔ اس کے بعد منہاج اللہ اپنی گاڑی لے کر ساداؤ گاؤں کے کیمپ پہنچے۔
یکم جون کو تقریباً 3.30 بجے اس گاڑی میں ایک آئی ای ڈی (دیسی ساختہ بم) پھٹ گیا۔ کشمیر میں انتہا پسند گروہ ایسے بم استعمال کرتے ہیں۔ اس دھماکے میں ایک فوجی ہلاک اور دو زخمی ہو گئے۔
صبح پانچ بجے فوج الطاف کے گھر آئی اور پانچ افراد منہاج اللہ، رقیب، بلال، سیار اور ملائیت کو اٹھا کر صداؤ آرمی کیمپ لے گئی۔ اس کے بعد انھیں گگراں میں واقع سپیشل آپریشن گروپ (SOG) کے کیمپ میں رکھا گیا۔
چونکہ منہاج اس گاڑی کے ڈرائیور تھے اس لیے انھیں آٹھ دن تک ایس او جی کیمپ میں رکھا گیا۔
دو جون کو آئی ای ڈی دھماکے کے بعد، شوپیان کے سپرنٹنڈنٹ پولیس تنوشری نے ایک پریس کانفرنس میں کہا ’جس پرائیویٹ گاڑی میں آئی ای ڈی دھماکہ ہوا، وہ فوج نے کرائے پر حاصل کی تھی۔‘
لیکن الطاف اور ان کے بیٹے منہاج اللہ بتاتے ہیں کہ گاڑی کرائے پر نہیں لی گئی تھی، بلکہ یکم جون کو انھیں گاڑی سدو کیمپ پہنچانے کا کہا گیا تھا۔ چونکہ جنوبی کشمیر کے دیہاتوں میں گاڑی کو فوجی کیمپ تک لے جانا عام بات ہے اسی لیے الطاف اور منہاج کے مطابق انھوں نے گاڑی کیمپ میں دینے سے پہلے کوئی سوال نہیں کیا۔
الطاف کا کہنا ہے کہ انھیں نہ تو گاڑی کے پیسے ملے اور نہ ہی کوئی مدد کی گئی۔
الطاف نے خود اس معاملے میں کوئی شکایت یا ایف آئی آر درج نہیں کروائی۔ وہ کہتے ہیں ’وہ میرے ہی گھر سے پانچ لوگوں کو اٹھا کر لے گئے۔۔۔ آپ بتائیں میں اپنے بیٹے کو بچانے یا گاڑی مانگنے کہاں جاؤں؟‘
الطاف کا کہنا ہے کہ جون میں ہونے والے اس واقعے کے بعد سداؤ کیمپ نے گذشتہ چار ماہ سے اس گاؤں سے عام لوگوں کی گاڑیاں نہیں لی ہیں، لیکن اس سے پہلے ان کے پاس تین ٹاٹا 207 لوڈنگ گاڑیاں تھیں جو باری باری آرمی کیمپ تک جاتی تھیں۔
’کرائے کی کار‘
جن دو واقعات کا ہم نے یہاں ذکر کیا ہے ان میں سکیورٹی فورسز نے خود کہا ہے کہ انھوں نے اپنی کارروائیوں کے لیے عام لوگوں کی گاڑیاں استعمال کی ہیں۔
قانونی دستاویزات جیسے چارج شیٹ اور فوج کی پریس ریلیز سے واضح ہوتا ہے کہ فوج عام لوگوں کی پرائیویٹ گاڑیاں استعمال کرتی ہے حالانکہ ان پریس کانفرنسوں اور دستاویزات میں انھیں ’کرائے کی گاڑیاں‘ قرار دیا گیا ہے۔
لیکن جن مقامی لوگوں کی گاڑیاں لی گئی ہیں اُن کا کہنا ہے کہ ان کی گاڑیاں کرائے پر نہیں لی جاتیں بلکہ انھیں ’ڈیوٹی‘ دینا پڑتی ہے۔
بی بی سی نے اس معاملے پر جنوبی کشمیر کے ایک سینیئر پولیس افسر سے بات کی۔
جب ہم نے اُن سے پوچھا کہ ’کیا پولیس کو اس بات کا علم ہے کہ فوج تقریباً پورے علاقے میں لوگوں کی گاڑیاں لے لیتی ہے؟‘ تو انھوں نے کہا، ’ہاں! یہاں ایک عرصے سے ایسا ہو رہا ہے۔ مجھے معلوم ہے، لیکن اب ایسا پہلے کے مقابلے میں تھوڑا کم ہوا ہے۔ لیکن ہاں، ایسا ہے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ایسا نہیں ہو رہا، لیکن حالیہ آئی ای ڈی دھماکے کے واقعے کے بعد اس میں کمی ضرور آئی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ ’پہلے عسکریت پسندوں کے آپریشن میں سویلین گاڑیاں سرپرائز ہوا کرتی تھیں لیکن اب ایسا نہیں رہا۔۔۔ کوشش ہے کہ ایسا نہ ہو، ہاں، لیکن یہ مکمل طور پر نہیں رکے گا۔‘
ہم نے جنوبی کشمیر کے گھروں پر نمبر لکھے دیکھے، جب ہم نے اس بارے میں مقامی صحافیوں اور لوگوں سے بات کی تو معلوم ہوا کہ یہ نمبر گھروں پر فوج کے لکھے ہوئے ہیں۔ دراصل یہ نمبر اس گھر کی شناخت ہے اور کس نمبر کے گھر میں کتنے لوگ رہتے ہیں، کتنی عورتیں، مرد اور بچے ہیں، گھر میں کتنی اور کون سی گاڑیاں ہیں، ان سب کا حساب اس علاقے کے فوجی کیمپ کے پاس ہے۔ یہاں کے لوگ اسے ’فوج کی مردم شماری‘ کہتے ہیں۔
فوج کن حالات میں گاڑیاں استعمال کر سکتی ہے؟
بی بی سی نے ایک ریٹائرڈ میجر جنرل سے بات کی اور سمجھنا چاہا کہ فوج عام لوگوں کی گاڑی کیسے استعمال کر سکتی ہے؟
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انھوں نے بتایا کہ ’فوج عام لوگوں کی گاڑی کرائے پر لے سکتی ہے، کسی بھی کام کے لیے لے جا سکتی ہے، اس کے لیے فوج میں ہی 20 سال پہلے پالیسیاں بنائی گئی تھیں۔ لیکن ضروری ہے کہ اس کے لیے ہر دن کا کرایہ گاڑی کے مالک کو ادا کیا جائے سب سے اہم بات یہ ہے کہ گاڑی زبردستی نہ لی جائے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’کشمیر میں کئی بار عام لوگوں کی پرائیویٹ گاڑیوں کو سکیورٹی وجوہات کی بنا پر استعمال کیا جاتا ہے، مثال کے طور پر اگر فوج کسی آپریشن کے مقام پر جا رہی ہے اور وہاں انتہا پسند چھپے ہوئے ہیں، تو فوج کی گاڑی کی نقل و حرکت دیکھ کر کوئی بھی مخبری کر سکتا ہے۔ لیکن اگر یہ ایک عام نمبر پلیٹ والی گاڑی ہے، تو فوج کے لیے کامیابی سے گھیراؤ کرنا آسان ہو جاتا ہے۔‘
محکمہ دفاع کے ذرائع نے بی بی سی سے بات چیت میں یہ بھی کہا کہ فوج عام لوگوں کی گاڑیاں استعمال کرتی ہے لیکن اس کے بدلے مالکان کو پیٹرول اور ڈیزل دیا جاتا ہے۔ کوشش ہوتی ہے کہ مہینے میں صرف ایک بار کسی شخص کی گاڑی لی جائے۔
اگرچہ بی بی سی سے بات چیت میں کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ گاڑی نے جتنا فاصلہ طے کیا ہے اس کے مطابق وہ فوجی کیمپ سے پیٹرول اور ڈیزل حاصل کرتے ہیں لیکن زیادہ تر لوگوں کا کہنا تھا کہ ہر بار ایسا نہیں ہوتا۔
پہاڑوں پر کچی سڑک عبور کرنے کے بعد ہم شوپیاں کے ہیر پورہ گاؤں پہنچے۔ اس گاؤں کے شوکت احمد میر کی ٹاٹا سومو کار اس سال اپریل میں چوگام آرمی کیمپ سے لے گئی تھی۔
16 اپریل کو انڈین فوج نے ایک پریس ریلیز میں کہا کہ 14 اپریل کو تصادم کے مقام پر جاتے ہوئے گاڑی الٹ گئی اور اس حادثے میں دو فوجی کانسٹیبل اور ایک صوبیدار ہلاک ہو گئے۔ یہ گاڑی شوکت احمد میر کی تھی۔
جب ہم شوکت کے گھر پہنچے تو وہ گھبرائی ہوئی آواز میں بولے ’ہمارے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہے۔، ہماری گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہوا، اگر فوج کو ضرورت ہو تو ہمیں گاڑی دینا پڑتی ہے۔‘
شوکت بتاتے ہیں کہ ’حادثے کے تقریباً ڈیڑھ دو ماہ بعد فوج نے مجھے دو لاکھ 90 ہزار روپے دیے۔ گاڑی کی مرمت میں میرے تین لاکھ 10 ہزار روپے لگے۔۔۔ ہمارا علاقہ ہے لیکن اس سے پہلے جب بھی گاڑی مانگی جاتی تھی ہمیں دینا پڑتی تھی۔‘
ان 15 دیہاتوں میں اب تک جتنے بھی لوگوں سے ہم ملے ہیں، ان میں سے شوکت پہلے شخص تھے جنھوں نے ہمیں بتایا کہ انھیں نقصان کے بدلے میں مدد ملی۔ لیکن ساتھ ہی وہ یہ بھی واضح الفاظ میں کہتے ہیں کہ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ انھوں نے کیمپ کو گاڑی دی ہو۔ اس سے پہلے جب بھی گاڑی مانگی جاتی تھی، انھیں خود ہی اپنی گاڑی کیمپ میں لانی پڑتی تھی۔
یہ کہانی صرف ایک ضلع کی نہیں بلکہ جنوبی کشمیر کے شوپیاں، پلوامہ اور کولگام اضلاع کی بھی ہے جہاں فوجی کیمپ اسی طرح لوگوں سے گاڑیاں چھین رہے ہیں۔
پولیس، انتظامیہ، فوج کے افسران بھی اس سے واقف ہیں جنھوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ہم سے بات کی، لیکن یہ سچ ہے کہ کوئی بھی اس پر کُھل کر بات نہیں کرنا چاہتا۔