ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کیا فوج نے خود کو عمران خان کے بیانیے سے دور کر لیا ہے؟
جمعرات کی سہ پہر پاکستان کی فوج کے ترجمان ادارے کے سربراہ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار کی پریس کانفرنس کئی لحاظ سے کافی اہمیت کی حامل تھی۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ حالیہ چند دنوں میں عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد پاکستان میں سڑکوں سے لے کر سوشل میڈیا تک فوجی قیادت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جس سے کئی سوالوں نے جنم لیا ہے۔
اپنی پریس کانفرنس میں جنرل بابر افتخار نے کئی اہم معاملات پر لب کشائی کی جن میں ایک مبینہ غیر ملکی سازش کا معامل تھا جسے عمران خان اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ سے پہلے اور اب حکومت جانے کے بعد بھی اپنے حق میں استعمال کر رہے ہیں۔
عمران خان کی طرف سے اپنی حکومت کے خاتمے کو ’بین الاقوامی سازش‘ قرار دینے کا بیانیہ ان کے حامیوں میں بظاہر زور پکڑتا نظر آ رہا ہے اور اس سب کے درمیان ان کی حکومت کی کارکردگی پر بحث کہیں دب کر رہ گئی ہے۔
ایسے میں جہاں کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ فوجی ترجمان کی پریس کانفرنس اس حوالے سے ضروری تھی کہ اُنھوں نے خود پر ہونے والی تنقید کے حوالے سے بات کی ہے تاہم کچھ کا یہ بھی خیال ہے کہ یہ باتیں کہنے میں تھوڑی سی تاخیر ہوئی ہے۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہی ایک مناسب وقت تھا اور فوج نے خود کو اس معاملے کے کافی سارے پہلوؤں سے دور کر لیا ہے۔
تو کیا فوج نے خود کو عمران خان کے بیانیے سے بہت دور کر لیا ہے؟
اس کا جواب جاصل کرنے کے لیے پاکستان میں حالیہ سیاسی ہلچل سے متعلق بعض اہم نکات کے پسِ منظر، اس پر فوج کے مؤقف اور اس موقف کی اہمیت جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
مبینہ غیر ملکی سازش کا معملہ
11 فروری کو متحدہ اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان کیا تھا اور آٹھ مارچ کو یہ تحریک قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرائی گئی جس پر 86 اراکین قومی اسمبلی کے دستخط موجود تھے۔
یہ تحریک جمع ہونے سے صرف دو روز قبل سابق وزیراعظم عمران خان نے پنجاب کے ضلع میلسی میں ایک جلسے سے خطاب میں کہا تھا کہ ‘کیا اپوزیشن نے یہ سوچا ہے کہ اگر تحریک ناکام ہو گئی تو میں اُن کے ساتھ کیا کروں گا؟’
تاہم سابق وزیر اعظم عمران خان نے 27 مارچ کو اسلام آباد میں ایک جلسہ عام سے خطاب کے دوران اپنی جیب سے ایک مبینہ خط نکالا اور اُسے لہراتے ہوئے دعویٰ کیا کہ متحدہ اپوزیشن ایک ‘بیرونی سازش’ کے ذریعے اُن کی حکومت کو گرانے کی کوشش کر رہی ہے اور یہ خط اس مبینہ سازش کا ثبوت ہے۔
بعد میں کہا گیا کہ یہ خط دراصل ایک سفارتی مراسلہ ہے۔
اس جلسے کے بعد انھوں نے متعدد مواقع پر بارہا یہ دعویٰ کیا کہ اس مراسلے کے مطابق ایک امریکی سفارتکار نے پاکستانی سفیر سے ایک سرکاری ملاقات کے دوران مبینہ طور پر یہ کہا تھا کہ اپوزیشن کی جانب سے لائی گئی تحریک عدم اعتماد ناکام ہو گئی تو پاکستان کو مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
عمران خان کہتے رہے کہ سات مارچ کو ہونے والی اِس ملاقات کے وقت تک تحریک عدم اعتماد کا کوئی وجود نہیں تھا۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ اپوزیشن کئی ہفتے پہلے یہ اعلان کر چکی تھی کہ وہ عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کو ہٹائیں گے۔
اپوزیشن کے ارکان کی جانب سے مسلسل تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ کے مطالبات کے بعد ڈپٹی سپیکر نے قومی اسمبلی کا اجلاس اتوار تین اپریل کو بلایا اور اس دن ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے، جو سپیکر اسد قیصر کے خلاف عدم اعتماد آنے پر اجلاس کی صدارت کر رہے تھے، اس قرارداد کو مسترد کر دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘عدم اعتماد کی تحریک آئین، قانون اور رولز کے مطابق ہونا ضروری ہے۔ کسی غیر ملکی طاقت کو حق نہیں کہ سازش کے تحت پاکستان کی منتخب حکومت کو گرائے۔‘
اس کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے مختصر خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ انھوں نے صدر عارف علوی کو تجویز دی ہے کہ اسمبلی تحلیل کر دی جائے اور ایسا کر دیا گیا۔
ڈپٹی سپیکر کے اقدام کے خلاف اپوزیشن سپریم کورٹ گئی اور سپریم کورٹ نے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کرانے کا حکم دیا جس کے نتیجے میں عمران خان کی حکومتی ختم ہوگئی لیکن وہ پھر بھی اپنے خلاف سازش کے بیانیے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔
یاد رہے کہ ڈپٹی سپیکر کی 3 اپریل کی رولنگ سے پہلے سابق وزیراعظم عمران خان نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ امریکہ میں تیار ہونے والی یہ ‘سازش’ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں’بے نقاب’ کی گئی جہاں فوجی سربراہوں کی موجودگی میں اس سازش کی تفصیل بتائی گئی۔ انھوں نے کہا تھا کہ ‘نیشنل سکیورٹی کمیٹی کی میٹنگ کے مِنٹس میں یہ بات لکھی گئی کہ یہ جو عدم اعتماد آئی ہے اس کی سازش باہر تیار ہوئی۔’
فوج کا موقف: ’اعلامیہ میں سازش کا لفظ استعمال نہیں ہوا‘
عمران خان کی جانب سے ان کی حکومت کو ہٹانے کے لیے مبینہ غیر ملکی سازش اور اس حوالے سے ہونے والے قومی سلامتی کے اجلاس کی کارروائی سے متعلق جواب دیتے ہوئے میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ فوج نے اس حوالے سے اپنا موقف میٹنگ میں دیا جس کے بعد ایک اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں واضح ہے کہ میٹنگ میں کیا کہا گیا تھا۔
انھوں نے کہا کہ ‘اعلامیے کے اندر بڑے واضح الفاظ میں لکھا ہوا ہے کہ کیا تھا اور کیا نہیں تھا، آپ واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ کیا سازش کا لفظ ہے اس اعلامیے میں، میرا نہیں خیال۔’
انھوں نے کہا کہ اس اجلاس کے مِنٹس کو حکومت ڈی کلاسیفائی کر سکتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ خفیہ ادارے دن رات سازشوں کے خلاف کام کر رہے ہیں ‘اور اگر کسی نے پاکستان کے خلاف کوئی بھی سازش کرنے کی کوشش کی تو انشااللہ اس کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے’۔
اس کے بعد جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر غیر ملکی سازش نہیں تو دفتر خارجہ نے مبینہ دھمکی آمیز مراسلے پر دیمارش کیوں جاری کیا تھا؟
اس پر ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ‘دیمارش (احتجاجی مراسلے) صرف سازش پر نہیں دیے جاتے بلکہ یہ سفارتی عمل کا حصہ ہے۔’
سازش کا لفظ نہ ہونے کا فوجی اعلان کیا معنی رکھتا ہے؟
سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار و صحافی سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ ایسا ہی ہے۔
بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ تحریکِ عدم اعتماد آتے وقت یہ واضح نہیں تھا کہ فوج کا مؤقف کیا ہے مگر اب اس حوالے سے فوج کا مؤقف اور عدلیہ کا فیصلہ آ چکا ہے چنانچہ مبینہ امریکی سازش کے بیانیے میں زیادہ وزن نہیں رہا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ عمران خان کی حکومت کے خاتمے میں تحریکِ عدم اعتماد اور بعد میں عدلیہ کے فیصلے نے کردار ادا کیا ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا یہ بیانیہ ان کی انتخابی کامیابی کا سبب بن سکتا ہے تو اُن کا کہنا تھا کہ جمعرات کی’ پریس کانفرنس کے بعد عمران خان کا بیانیہ کمزور پڑے گا کیونکہ جب دھول بیٹھے گی تو یہ بات دیکھنے والی ہو گی کہ الیکٹیبلز کس جانب کھڑے ہوتے ہیں، کیا وہ اسٹیبلشمنٹ کے مخالف لائن لیں گے؟‘
دفاعی تجزیہ کار و لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) طلعت مسعود کے نزدیک فوج کے اس مؤقف سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ’فوج کے نزدیک یہ بات ایک سیاسی آلے کے طور پر استعمال ہو رہی تھی اور اُنھوں نے اب اس بات کا برملا اظہار کر دیا ہے کہ اُن کے نزدیک اس معاملے میں ایسا کچھ نہیں تھا۔‘
اس مراسلے کے معاملے پر دفاعی امور کی تجزیہ کار و مصنف ڈاکٹر عائشہ صدیقہ بھی یہی سمجھتی ہیں کہ یہ پریس کانفرنس بیانیے کا رخ موڑنے کی کوشش ہے۔
تاہم اُنھوں نے کہا کہ اس حوالے سے کچھ تاخیر ہوئی ہے اور فوج کا اس واضح انداز میں مؤقف اسی وقت آنا چاہیے تھا جب عمران خان نے یہ بیانیہ آگے بڑھانا شروع کیا تھا۔
اُنھوں نے کہا کہ عمران خان کے حامی عوام فی الوقت یہ بات تسلیم کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں کہ کوئی سازش نہیں ہوئی۔
تین آپشنز کا معاملہ
3 اپریل کو اسمبلی تحلیل کرنے کی تجویز دینے سے پہلے سابق وزیراعظم عمران خان نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اسٹیبلشمینٹ نے اُنھیں اپوزیشن کی طرف سے تین آفرز دیں، عدم اعتماد کا سامنا کریں، استعفیٰ دیں یا پھر اپوزیشن عدم اعتماد واپس لے گی اور وزیراعظم انتخابات کروائیں۔
اپنے سامنے موجود آپشنز کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ (قبل از وقت) انتخابات سب سے بہترین طریقہ تھا اور وہ آخری لمحے تک تحریکِ عدم اعتماد کا مقابلہ کریں گے۔
فوج کا موقف: وزیر اعظم آفس نے ‘بیچ بچاؤ’ کے لیے آرمی چیف سے رجوع کیا
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل بابر افتخار نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ عمران خان کے سامنے اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے کوئی آپشنز نہیں رکھی گئی تھیں۔
انھوں نے کہا کہ جب سیاسی ڈیڈ لاک برقرار تھا تو سابق وزیر اعظم کے آفس کی جانب سے آرمی چیف کو مدد کے لیے رجوع کیا گیا کہ ‘اس میں کوئی بیچ بچاؤ’ کی بات کریں۔
انھوں نے کہا کہ ‘بدقسمتی سے ہماری سیاسی جماعتوں کی قیادت اس وقت ایک دوسرے سے بات کرنے پر تیار نہیں تھی’۔
انھوں نے کہا اس لیے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی وزیراعظم آفس گئے جہاں پر ان تین آپشنز پر بات ہوئی۔
انھوں نے بتایا کہ تین آپشنز یہ تھیں کہ عدم اعتماد پر کارروائی ہو، دوسرا یہ کہ وزیر اعظم استعفیٰ دے دیں اور تیسرا یہ کہ اپوزشین تحریک واپس لے لے اور وزیراعظم اسمبلی تحلیل کر کے نئے الیکشن کی طرف چلے جائیں۔
انھوں نے بتایا کہ ‘اس وقت وزیراعطم نے کہا کہ یہ تیسری آپشن قابل قبول ہے’ اور کہا کہ آرمی چیف جا کر اپوزیشن سے بات کریں جس کے بعد آرمی چیف اس وقت کی اپوزیشن کے پاس گئے۔
انھوں نے بتایا کہ اپوزشین نے اس سے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ اپنے منصوبے کے مطابق آگے بڑھیں گے۔
عمران کی جانب سے فوج کو بحران حل کرنے کی دعوت کی اہمیت؟
کیا فوج کو بیچ میں آنے کی دعوت دینا سیاست میں فوج کا کردار از خود بڑھانے کے مترادف نہیں؟
اس حوالے سے ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ سیاسی جماعتوں کا ایک دوسرے سے براہِ راست بات کرنا ضروری ہے ورنہ یہ ’کاہل سیاست‘ ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ یہ پورا معاملہ فوج کو کسی بھی انداز میں بیچ میں شامل کیے بغیر بھی پورا ہو سکتا تھا تاہم ایسا نہیں ہوا ہے جس کی وجہ سے اب فوج کو وضاحت جاری کرنی پڑی ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) طلعت مسعود کے نزدیک بھی ایسا ہی ہونا چاہیے۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سات دہائیوں کی تاریخ سے یہ واضح ہے کہ فوج کی سیاست میں مداخلت ملک کے لیے ٹھیک ہے نہ فوج کے لیے، اسی لیے سیاسی جماعتوں کو اپنے معاملات پارلیمنٹ میں حل کرنے چاہییں بجائے اس کے کہ فوج سے مسائل حل کروانے کے لیے کہا جائے۔
آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع
پاکستان میں آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کا قضیہ ہر کچھ عرصے بعد کھڑا ہوتا ہے اور اس حوالے سے افواہوں کا بازار بھی گرم رہتا ہے۔
جنرل باجوہ کو نومبر 2019 میں ریٹائر ہونا تھا لیکن ان کی مدتِ ملازمت میں توسیع کا اعلان ریٹائرمنٹ سے دو ماہ قبل ہی کر دیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ اگست 2019 میں پاکستان کے اس وقت کے وزیرِاعظم عمران خان نے بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کی تھی۔ ان کی ملازمت کی مدت میں تین برس یعنی ‘فل ٹرم’ کی توسیع کی گئی تھی۔
اس وقت وزیراعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ جنرل باجوہ کی ملازمت میں توسیع کا فیصلہ خطے میں سکیورٹی کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے فوج کی کمان نومبر 2016 میں سنبھالی تھی۔ انھیں اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے فوج کی سربراہی کے لیے تعینات کیا تھا۔ جنرل باجوہ کو فوج کی کمان جنرل راحیل شریف سے منتقل ہوئی تھی۔
جنرل راحیل شریف کے دور میں بھی یہ افواہیں اس قدر پھیلیں کہ آئی ایس پی آر کو باضابطہ طور پر کہنا پڑا کہ وہ توسیع نہیں لیں گے اور جنرل قمر باجوہ کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔
کچھ حلقے گذشتہ چند ہفتوں میں شدید ہوتی سیاسی ہلچل کو بھی جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع سے جوڑ رہے تھے۔
فوج کا موقف: جنرل باجوہ مدت ملازمت میں توسیع نہیں چاہتے
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ مدت ملازمت میں توسیع نہیں چاہتے اور نہ ہی انھوں نے ایسا کوئی مطالبہ کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘جنرل باجوہ مدت ملازمت میں توسیع قبول نہیں کریں گے اور رواں سال نومبر کے آخر میں ریٹائر ہوجائیں گے۔`
جنرل باجوہ کے توسیع نہ لینے کے اعلان کی کیا اہمیت ہے؟
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ جمعرات کے اعلان سے فوج نے ایک طرح سے یہ وضاحت کر دی ہے کہ حالیہ عرصے کا پورا معاملہ مدتِ ملازمت میں توسیع کا نہیں تھا۔
ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو غیر ملکی سفارت کار نہایت قابل جنرل سمجھتے ہیں تاہم کچھ حلقوں کی فوج کے خلاف مہم درحقیقت جنرل باجوہ کے خلاف مڑتی جا رہی ہے چنانچہ یہ بہتر اور بروقت فیصلہ ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ آنے والے وقتوں میں بہت سے اہم سٹریٹجک فیصلے لیے جانے ہیں اور ایسا ایک نئے آرمی چیف کی موجودگی میں زیادہ بہتر ہو گا۔
جنرل (ریٹائرڈ) طلعت مسعود کے نزدیک بھی یہ ایک درست فیصلہ ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ فوج کا نظریہ کسی ایک شخص یا کسی ایک چیف پر منحصر نہیں ہوتا اور جہاں اُن کا فیصلہ آخری ہوتا ہے، وہیں اس میں بطور محکمہ فوج کے تمام کور کمانڈرز کی رائے اور مشورہ بھی شامل ہوتا ہے۔
جنرل مسعود نے کہا کہ حکومت کے جانے کے بعد جس انداز میں افواہوں اور تنقید کا بازار گرم ہے، وہاں یہ فیصلہ اور اس کا بروقت اعلان ایک درست اقدام تھا۔