ڈی جی آئی ایس آئی کی پریس کانفرنس عمران خان کے بیانیے اور اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات کا مستقبل کیا؟
دو روز پہلے پاکستان کی فوج کی جانب سے تحریک انصاف حکومت گرائے جانے کی مبینہ بیرونی سازش کو ’کھوکھلی اور من گھڑت کہانی‘ قرار دیے جانے کے بعد کیا پاکستان کی سیاست میں بیانیے کی جنگ حتمی مراحل میں داخل ہو چکی ہے یا ابھی اور ایسے مراحل باقی ہیں؟ اور کیا عمران خان جلد انتخابات کے انعقاد کے مقصد میں کامیاب ہو سکیں گے؟
اس سوال کا دارو مدار اس نکتے پر ہو گا کہ سابق وزیر اعظم اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کا مؤقف اور بیانیہ ڈی جی آئی ایس پی آر اور ڈی جی آئی ایس آئی کی پریس کانفرنس سے عوامی سطح پر کس حد تک متاثر ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ یہ معاملہ اس وقت شروع ہوا جب رواں سال مارچ کے مہینے میں عمران خان نے 27 مارچ کو اعلان کیا تھا کہ ان کی حکومت گرائے جانے کی سازش کی جا رہی ہے جس میں بیرونی طاقت اور اپوزیشن جماعتیں شامل ہیں۔
اس مؤقف کو انھوں نے حکومت گرنے کے بعد بار بار دہرایا اور دبے الفاظ میں فوج کو بھی مورد الزام ٹھہرایا۔
ان کی اسی تنقید کا جواب گذشتہ روز فوج کی جانب سے دیا گیا جب غیر معمولی طور پر آئی ایس آئی کے سربراہ نے ایک پریس کانفرنس میں شرکت کی۔
اس پریس کانفرنس کے دوران غیر ملکی سازش کے معاملے پر کہا گیا کہ ’ہمارے لیے یہ حیران کن تھا جب 27 مارچ کو اسلام آباد کے جلسے میں کاغذ کا ایک ٹکڑا لہرایا گیا اور ڈرامائی انداز میں ایک ایسا بیانیہ دینے کی کوشش کی گئی جس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں تھا۔‘
ان کے مطابق اس سے قبل آرمی چیف نے 11 مارچ کو کامرہ میں سابق وزیر اعظم سے خود اس کا تذکرہ کیا تھا جس پر ’انھوں نے فرمایا یہ کوئی بڑی بات نہیں۔‘
عمران خان نے گذشتہ روز صحافی عامر متین کو دیے جانے والے انٹرویو میں اس دعوے کو جھوٹا قرار دیا اور یہ دعویٰ کیا کہ ’اگر میں جواب دینا شروع ہو جاؤں تو میرے ملک کو نقصان پہنچے گا۔ ملک کو نقصان سے مطلب میری فوج کو نقصان پہنچے گا کیوںکہ مجھے پتا ہے کہ دنیا، ہمارے دشمن چاہتے ہیں کہ ہماری فوج کمزور ہو۔‘
تاہم سائفر کے حقائق سے بالاتر یہ معاملہ اب سیاسی میدان میں مقبولیت اور طاقت کے اظہار کا ہے جس میں پی ٹی آئی، پی ڈی ایم اور فوج تین فریق بن چکے ہیں۔
ایسے میں چند سوال نہایت اہمیت کے حامل ہیں جن میں سرفہرست تو یہ ہے کہ کیا عمران خان کے بیانیے کو، جس پر وہ اب بھی قائم ہیں، دھچکہ پہنچے گا؟
دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ سے صرف ایک ماہ قبل اس پریس کانفرنس کے بعد ملک کے اہم ادارے اور ایک بڑی سیاسی جماعت کے درمیان تناو کے اثرات کیا ہوں گے؟
ان سوالوں کے جواب جاننے کے لیے بی بی سی نے چند تجزیہ کاروں سے بات چیت کی جس کی تفصیلات پیش کی جا رہی ہیں۔
’فوج سے الیکشن کا مطالبہ غیر آئینی نہیں‘
واضح رہے کہ گذشتہ روز کی پریس کانفرنس میں ڈی جی آئی ایس پی آر اور ڈی جی آئی ایس آئی کی جانب سے کہا گیا کہ فوج نے بطور ادارہ فیصلہ کیا کہ وہ آئینی حدود میں رہ کر کام کرے گی اور سیاسی کردار ادا نہیں کرے گی۔ ان کے مطابق فوج پر تنقید کی وجہ بھی یہی ہے کہ غیر قانونی کام کرنے سے انکار کیا گیا۔
اس تناظر میں انھوں نے یہ کہا کہ ’عمران خان رات کی تاریکی میں ملاقاتوں میں غیر آئینی خواہشات کا اظہار کرتے رہے ہیں‘ جس پر تحریک انصاف کی جانب سے اور خود عمران خان کی جانب ملاقات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ صرف الیکشن کی بات کی گئی اور فوج سے الیکشن کا مطالبہ کرنا اور اس مقصد کے لیے اثر ورسوخ استعمال کرنے کی بات کرنا غیر آئینی نہیں۔
عمران خان نے گذشتہ روز ایک انٹرویو میں کہا کہ ’ہماری میٹنگ ہوئی ایوان صدر جہاں عارف علوی بیچ میں تھے اور میں نے ایک ہی بات کہی تھی کہ ملک کو دلدل سے نکالنا ہے تو سوائے صاف اور شفاف الیکشن کے اور کوئی راستہ نہیں۔‘
تاہم دعووں اور جوابی دعووں کے درمیان سوال یہ ہے کہ کیا گذشتہ روز فوج کی پریس کانفرنس سے عمران خان کا بیانیہ ایک عام آدمی کی نظر میں متاثر ہو گا اور کس حد تک؟ کیا عام سپورٹر عمران خان کی حمایت کے بارے میں ازسرنو غور کرنے پر مجبور ہو گا؟
عمران خان کا بیانیہ ایک عام آدمی کی نظر میں متاثر ہو گا؟
عاصمہ شیرازی کے خیال میں پریس کانفرنس سے ’عمران خان اور تحریک انصاف کے بیانیے کو نقصان تو پہنچا ہے لیکن اس کے اثرات لانگ مارچ میں کیسے واضح ہوتے ہیں، یہ دیکھنا باقی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ جی ٹی روڈ سے لانگ مارچ کی اسلام آباد آمد، جو تاریخی اعتبار سے فوجی اہمیت رکھنے والا علاقہ ہے، بھی اہم ہے‘ تاہم ان کے مطابق ’وہ سوئنگ ووٹر جو مسلم لیگ ن یا پیپلز پارٹی سے ناراض ہو کر تحریک انصاف کا حصہ بنا، اس کو اب نئے حقائق معلوم ہو رہے ہیں اور میری ایسے چند لوگوں سے گفتگو ہوئی جو مایوسی کا اظہار کر رہے ہیں۔ ‘
’اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے کو یوں نقصان پہنچا کہ لوگوں کو یہ علم ہو رہا ہے کہ عمران خان تو آرمی چیف کو ایکسٹینشن دے رہے تھے، رات کے اندھیروں میں مل رہے تھے اور صبح میں ایک الگ بات کرتے تھے ‘ تاہم اس کے اثرات کیا ہوں گے؟
ان کا کہنا ہے کہ ’اس بات سے قطع نظر کہ لانگ مارچ میں کتنے لوگ آتے ہیں، پی ٹی آئی کافی حد تک دفاعی پوزیشن میں نظر آئی ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ ان پر کافی اثر ہوا ہے۔‘
تجزیہ کار ضیغم خان اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’عمران خان کے بیانیے کا مقابلہ کرنے یا اس کو غلط ثابت کرنے کا وقت گزر چکا ہے کیوںکہ لوگ اس کو تسلیم کر چکے ہیں۔ ‘
’اکیسویں صدی میں پاپولسٹ رہنماؤں کے بیانیے کو حقائق سے کاؤنٹر کرنا مشکل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا بیانیہ اسی پیرائے میں بنایا گیا ہے جس کو پاکستان میں سرکاری سطح پر، یعنی امریکہ مخالف بیانیہ، بہت عرصے تک پروان چڑھایا گیا۔ ‘
’تو اس سے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ان کی مقبولیت پر زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔ کچھ حد تک شاید پڑ جائے۔‘
’وہ لوگ جو فوج کے قریب رہے ہیں، جنھوں نے عمران خان کی سائیڈ لی، وہ شاید سؤنگ کر جائیں اور وہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ فوج نے اپنے اور پی ٹی آئی کے درمیان ایک لکیر کھِنچ دی ہے کہ یہ بیانہ ان کے ساتھ ٹکراؤ میں ہے۔‘
تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات کا مستقبل کیا؟
تحریک انصاف اور خود عمران خان حکومت میں فوج کے ساتھ ایک پیج کی تکرار کرتے رہے ہیں تاہم گذشتہ روز کی پریس کانفرنس کے بعد یہ تاثر جو پہلے ہی زائل ہو چکا تھا، اب اس مقام پر پہنچ چکا ہے جہاں یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا آئندہ ایک پیج پر آنا ممکن رہا ہے یا نہیں؟
گذشتہ روز ڈی جی آئی ایس آئی نے پریس کانفرنس میں تحریک انصاف کو یاد دلایا کہ ’آپ کا چیف اگر غدار ہے تو آپ ان کی تعریفیں کیوں کرتے تھے؟ ‘
اہم بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کی جانب سے جوابی پریس کانفرنس میں تاثر دیا گیا کہ وہ اب بھی فوج سے بطور ادارہ بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں اور ان کی جانب سے الیکشن کے لیے اثرورسوخ استعمال کرنے کے لیے فوج سے رابطے کو درست قرار دیا۔
واضح رہے کہ ایک انٹرویو میں عمران خان کا کہنا تھا کہ ’میری کوشش ہوتی ہے کہ میں تعمیری تنقید کروں تاکہ اس کا فائدہ ہو۔ میں بہت محتاط رہ کر ایک دائرے کے بیچ میں بولتا ہوں۔ اشاروں سے بھی بات کرتا ہوں۔ کبھی ایکس کہہ دیتا ہوں، کبھی وائی کہہ دیتا ہوں اور اب یہ ڈرٹی ہیری ہے، یہ بھی کہہ دیتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں یہ فرد ہیں، یہ غلطیاں کر رہے ہیں، میرا ادارہ بچا رہے، میں فوج کو بچانے کی کوشش کرتا ہوں۔‘
ضیغم خان کا کہنا ہے کہ جس بیانیے کو عمران خان اب تک مبہم انداز میں چلا رہے تھے فوج نے واضح کر دیا کہ یہ ہمارے بارے میں ہے تاہم ان کا خیال ہے کہ تعلقات کی بحالی ممکن ہے۔
’جب بھی کسی سیاسی جماعت نے اسٹیبلشمنٹ سے جھگڑا مول لیا تو اس جماعت کے ساتھ اچھا نہیں ہوا لیکن اسٹیبلشمنٹ نے بار بار واضح کیا کہ ہم سیاسی طور پر کسی کا راستہ نہیں روکیں گے سوائے ان لوگوں کے جو براہ راست حملے کر رہے ہیں۔ ‘
’اگر یہ پالیسی جاری رہتی ہے اور تحریک انصاف الیکشن جیت گئی تو پھر اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے درمیان کوئی نئی ڈیل ہو سکتی ہے۔‘
تاہم ان کا ماننا ہے کہ اس وقت اسٹیبلشمنٹ کے لیے عمران خان ایک بڑا چیلنج ہیں۔
’عمران خان کا معاملہ نواز شریف سے الگ ہے۔ نواز شریف فوج کو آئینی کردار ادا کرنے کا کہہ رہے تھے لیکن عمران خان کہہ رہے ہیں کہ صرف ان ہی کی حمایت کی جائے، وہ ابھی تک کسی اور سیاسی جماعت کو ماننے کو تیار نہیں۔ جیسے وہ کہتے ہیں کہ موجودہ وزیر اعظم کو تو آرمی چیف لگانے کا اختیار ہی نہیں اور جلدی انتخابات ہوں حالانکہ ان کے پاس کوئی آئینی اختیار نہیں۔ ‘
’اس طرح کی کنفرنٹیشن (تصادم) بہت مختلف ہے جس کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ کو یہ مسئلہ درپیش ہے کہ اس سے کیسے نمٹا جائے۔‘
عاصمہ شیرازی کا کہنا تھا کہ ’اس پریس کانفرنس میں ڈی جی آئی ایس آئی کا خود آنا اس بات کا ثبوت تھا کہ تحریک انصاف اور فوج کے درمیان جو تعلق تھا وہ ٹوٹ چکا ہے یعنی طلاق ہو گئی ہے۔ ‘
’ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس تعلق میں جو دراڑ آ گئی ہے اس کو پر کرنا یا پرانی جگہ پر لانا ناممکن تو نہیں لیکن ناممکن حد تک مشکل ضررو ہو گیا ہے۔ ‘
’ایک ادارے کے سربراہ کا ریکارڈ پر آنے کے مطلب یہ تھا کہ آپ اپنی غلطی مان لیں اور ہم آئندہ یہ غلطی نہیں کریں گے اور یہ کہ ہم آپ کا ساتھ نہیں دینے والے۔ ‘ پنجابی میں جو کہتے ہیں چٹی ناں، وہ انھوں نے کر دی ہے۔‘