ڈاکٹر عبدالقدیر خان کیا پاکستان کے جوہری سائنسدان دنیا

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کیا پاکستان کے جوہری سائنسدان دنیا

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کیا پاکستان کے جوہری سائنسدان دنیا کے سب سے خطرناک آدمی تھے؟

11 دسمبر 2003 کو امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے اور برطانوی انٹیلیجنس ایجنسی ایم آئی سکس کے افسران کا ایک گروپ لیبیا میں ایک خصوصی طیارے پر سوار ہونے کو تھا جب انھیں خاکی لفافوں کا ایک پلندہ تھمایا گیا۔

یہ ٹیم لیبیا کے حکام کے ساتھ انتہائی اہم مذاکرات کے ایک خفیہ مشن کے اختتام کے قریب تھی۔ جب انھوں نے جہاز میں سوار ہو کر ان خاکی لفافوں کو کھولا تو انھیں علم ہوا کے انھیں وہ اہم شواہد دیے گئے ہیں جن کی انھیں اشد ضرورت تھی۔ ان خاکی لفافوں میں ایٹمی ہتھیاروں کے ڈیزائن تھے۔

ان ڈیزائنز کے علاوہ جوہری پروگرام سے متعلقہ پرزہ جات پاکستان کے ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے مہیا کیے تھے۔ ڈاکٹر قدیر اتوار کو 85 برس کی عمر میں وفات پا چکے ہیں۔

گذشتہ نصف صدی میں عالمی سلامتی کے حوالے سے عبدالقدیر خان ایک اہم ترین شخصیت تھے۔ ان کی ذات دنیا کی خطرناک ترین ٹیکنالوجی کے حوالے سے جاری لڑائی، جہاں یہ ٹیکنالوجی رکھنے والے اور اس کو حاصل کرنے والے خواہشمند آمنے سامنے ہیں، اس کہانی کا ایک اہم محور تھی۔

سابق سی آئی اے ڈائریکٹر جارج ٹینٹ نے اے کیو خان کو ’کم از کم اسامہ بن لادن جتنا خطرناک‘ قرار دیا تھا۔ انھوں نے یہ موازنہ اس وقت پیش کیا تھا جب یہ پتہ لگ چکا تھا کہ اسامہ بن لادن نائن الیون حملوں کے ماسٹر مائنڈ ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اگرچہ ڈاکٹر اے کیو خان کو مغربی جاسوس دنیا کا سب سے ’خطرناک انسان‘ قرار دیتے ہیں لیکن اپنے وطن پاکستان میں انھیں ایک قومی ہیرو کے طور پر سراہا جاتا ہے۔ یہ چیز آپ کو نہ صرف ان کی شخصیت کی پیچیدگی کے بارے میں بہت کچھ بتاتی ہے بلکہ یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ دنیا ایٹمی ہتھیاروں کو کس نظر سے دیکھتی ہے۔

ستر کی دہائی میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان یورپ میں ایٹمی جاسوس بن کر نہیں آئے تھے لیکن وہ ایک جاسوس بن گئے تھے۔

وہ 1970 کی دہائی میں نیدرلینڈ میں کام کر رہے تھے جب ان کے ملک پاکستان نے 1971 کی جنگ میں شکست کے بعد اور انڈیا کی ایٹمی ترقی سے خوفزدہ ہو کر ایٹمی بم بنانے کی مہم شروع کی تھی۔

عبدالقدیر

ڈاکٹر خان ایک یورپی کمپنی میں یورینیم افزودگی کے لیے سینٹری فیوجز بنانے کے کام میں شامل تھے۔

افزودہ یورینیم کو ایٹمی توانائی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے اور اگر اسے ایک حد سے زیادہ افزودہ کیا جائے تو اس سے ایٹمی بم بنایا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان اس دور کے جدید سینٹری فیوجز کے ڈیزائن نقل کرنے میں کامیاب ہوئے اور اپنے ملک واپس لوٹ آئے جہاں انھوں نے ایک خفیہ نیٹ ورک تشکیل دیا جس میں بیشتر یورپی کاروباری افراد تھے جو انھیں ایٹمی بم اور سینٹری فیوجز کی تیاری کے لیے اہم ترین اجزا (خام مال) سپلائی کرتے تھے۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو اکثر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا ’بانی‘ بھی کہا جاتا ہے لیکن درحقیقت وہ اس پروگرام کے انتہائی اہم ارکان میں سے ایک تھے۔

مگر انھوں نے نہایت احتیاط کے ساتھ اپنی ایک کہانی تیار کی جس نے انھیں انڈیا کے خطرے کے خلاف پاکستان کی حفاظت کے لیے ایٹم بم تیار کرنے والے قومی ہیرو کا درجہ دے دیا گیا۔

ڈاکٹر عبدالقدیر کے اور کیا کام تھے جس نے انھیں اتنا اہم بنا دیا؟ انھوں نے ایٹمی ہتھیاروں کے اجزا فراہم کرنے والے اپنے خفیہ نیٹ ورک کو درآمد سے برآمد کی طرف موڑ دیا، اور وہ دنیا بھر میں گھومنے والی ایک شخصیت بن گئے اور انھوں نے کئی ممالک کے ساتھ معاہدے اور سودے کیے۔ ان میں سے بہت سے ممالک کو مغربی ممالک ’باغی ریاستیں‘ سمجھتے تھے۔

ایران کے شہر نطنز میں ایٹمی پروگرام کے لیے سینٹری فیوجز کی تیاری کا پروگرام جو حالیہ برسوں میں شدید عالمی سفارتکاری کی ایک وجہ بنا رہا ہے، اس کا نمایاں حصہ عبدالقدیر کے فراہم کردہ ڈیزائن اور مواد سے بنایا گیا تھا۔

ایک ملاقات میں عبدالقدیر خان کے نمائندوں نے ایران کو ایک ایٹمی پروگرام کی تیاری میں استعمال ہونے والے مواد اور اجزا کی ایک فہرست فراہم کی تھی جس میں قیمتیں بھی درج تھیں اور ایرانی حکام اس کے مطابق مال کا آرڈر دے سکتے تھے۔

عبدالقدیر خان نے ایک درجن سے زائد دورے شمالی کوریا کے بھی کیے تھے جہاں سے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ایٹمی ٹیکنالوجی کے بدلے میزائل ٹیکنالوجی کی مہارت حاصل کی گئی تھی۔

ڈاکٹر عبدالقدیر

ان تمام سودوں کے ساتھ ایک اہم راز ہمیشہ رہا کہ کیا عبدالقدیر خان یہ سب کچھ اکیلے کر رہے تھے یا وہ اپنی حکومت کے احکامات کے تحت کام کر رہے تھے، خاص طور پر شمالی کوریا کے ساتھ معاہدہ کے معاملے میں۔

کبھی یہ بھی کہا گیا کہ عبدالقدیر خان یہ سب کچھ پیسوں کے لالچ میں کر رہے تھے لیکن یہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ وہ اپنے ملک کی قیادت کے ساتھ مل کر کام کرنے کے ساتھ ساتھ جوہری ہتھیاروں پر مغربی ممالک کی اجارہ داری کو توڑنا چاہتے تھے۔

انھوں نے ایٹمی ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی پر مغربی ممالک کی اجارہ داری کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے مغربی منافقت قرار دیا تھا اور سوال کیا تھا کہ چند ممالک کو اپنے تحفظ و دفاع کے لیے یہ ہتھیار رکھنے کی اجازت کیوں دی جانی چاہیے اور دوسروں کو کیوں نہیں۔

ایک مرتبہ انھوں نے کہا تھا کہ ’میں پاگل یا بیوقوف انسان نہیں۔ وہ مجھے ناپسند کرتے ہیں اور وہ میرے خلاف ہر طرح کے من گھڑت اور بے بنیاد الزامات لگاتے ہیں کیونکہ میں نے ان کے سٹرٹیجک منصوبوں کو خراب کر دیا ہے۔‘

ان کے نیٹ ورک میں شامل دوسرے افراد جن سے میں نے اس وقت ملاقات کی تھی جب میں عبدالقدیر خان کے متعلق کتاب لکھ رہا تھا، تو مجھے ایسا لگا کہ وہ پیسوں کے لالچ میں یہ کام کرتے محسوس ہوئے تھے۔ 1990 کی دہائی میں لیبیا کے ساتھ ہونے والے ان کے جوہری پروگرام کے معاہدے نے جہاں ان کو زیادہ پیسے دیے تھے وہی ان کے زوال کو بھی تیز تر کر دیا تھا۔

برطانوی انٹیلجنس ایجنسی ایم آئی سکس اور امریکی سی آئی اے نے عبدالقدیر خان کی نگرانی شروع کر دی تھی، انھوں نے ان کے بین الاقوامی دوروں پر نظر رکھنا شروع کی، ان کی فون کالز کو ٹیپ اور پکڑنا شروع کر دیا اور ان کے نیٹ ورک میں گھس گئے اور اس کے لیے انھوں نے اے کیو خان کے نیٹ ورک میں شامل افراد کو بھاری رقوم کی پیشکش بھی کی۔ بعض مواقع پر کم از کم دس لاکھ ڈالرز تک رقم کی پیشکش کی گئی تاکہ ان کے نیٹ ورک کے ارکان کو اپنا ایجنٹ بنایا جا سکے اور ان کے رازوں کو حاصل کیا جا سکے۔

ایک سی آئی اے اہلکار کا کہنا تھا کہ ’ہم ان کے گھر کے اندر تھے، ہم ان کے دفاتر میں تھے، ہم ان کے کمروں میں تھے۔ نائن الیون کے حملوں کے بعد خطرہ بڑھ گیا تھا کہ دہشت گرد بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں اور یہ ہی مشکل اور پیچیدگی پاکستان سے نمٹنے اور اسے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے خلاف کارروائی کرنے پر آمادہ کرنے میں تھی۔‘

قدیر

مارچ 2003 میں جب برطانیہ اور امریکہ عراق پر بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی وجہ سے حملہ کر رہے تھے، جن کا بعدازاں کوئی وجود نہیں نکلا، لیبیا کے رہنما کرنل قذافی نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ انھیں اپنے ایٹمی پروگرام کے منصوبے سے چھٹکارا حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ منصوبہ ایم آئی سکس اور سی آئی اے کے خفیہ دورے کی وجہ بنا اور جلد ہی اس معاہدے کے عوامی اعلان کے بعد اس نے امریکہ کو ایک اہم موقع فراہم کیا کہ وہ پاکستان پر زور دے کہ وہ عبدالقدیر خان کے خلاف کارروائی کرے۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو اس کے نتیجے میں گھر میں نظر بند کر دیا گیا اور انھیں ٹی وی پر آ کر اعتراف جرم کرنے پر بھی مجبور کیا گیا۔ انھوں نے اپنی بقیہ زندگی ایک عجیب صورتحال میں بسر کی جہاں وہ نہ آزاد تھے نہ ہی قید۔ انھیں آج بھی پاکستانی عوام کی جانب سے ایٹم بم بنانے پر ملکی ہیرو قرار دیا جاتا ہے۔ انھیں بیرونی دنیا کا سفر کرنے اور بات کرنے سے روک دیا گیا۔

انھوں نے کیا کیا تھا اور کیوں کیا تھا شاید اس کی اصل کہانی کبھی معلوم نہ ہو سکے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *