پی ٹی آئی رہنماوں کے خلاف ’متنازع‘ مقدمات کے پیچھے کون ہے اور اس کے ملک پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
پاکستان میں قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کی بالادستی کی صورتحال اور اس سے متعلق دعوے ہمیشہ سے زیر بحث رہے ہیں۔ موجودہ حالات میں بھی نو مئی کے واقعات کے بعد جس طرح پے در پے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سمیت پارٹی رہنماؤں پر مقدمات قائم کیے گئے اور انھیں گرفتار کیا گیا اس نے ملک کے احتساب کے نظام، قانون کی حکمرانی اور جمہوری اقدار پر بہت سے سوالات اٹھا دیے ہیں۔
اگر پاکستان تحریک انصاف کے صدر اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہی کا ذکر کریں تو گذشتہ چند ماہ سے ایک کے بعد ایک متعدد مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں اور پاکستان کی مختلف عدالتوں سے درجن سے زائد بار رہائی کا حکم ملنے کے باوجود انھیں رہائی نہ مل سکی۔
عدلیہ نے انھیں اپنے احکامات کے تحت رہا نہ کرنے پر سول بیوروکریسی اور پولیس افسران کی سرزنش، جرمانے اور توہین عدالت تک کی کارروائی کا آغاز کیا مگر پرویز الٰہی ہیں کہ بار بار ضمانت ملنے کے باوجود اب تک جیل سے باہر نہیں آ سکے۔
چوہدری پرویز الہی کو ماضی میں بھی مقدمات کا سامنا رہا مگر کم از کم گذشتہ دو دہائیوں میں کسی مقدمے میں انھیں کسی نے ہاتھ تک نہیں لگایا۔
ان کے خلاف سنہ 2018 میں سپریم کورٹ نے سرکاری زمینیں غیر قانونی طور پر نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کو دینے کا فیصلہ سناتے ہوئے متعلقہ اداروں کو تحقیقات آگے بڑھانے کا کہا تھا مگر نیب سمیت کوئی ادارہ انھیں گرفتار تو دور کی بات شامل تفتیش تک نہ کر سکا۔
مگر جب انھوں نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی اور چند دن وزیراعلیٰ پنجاب رہنے کے بعد اب وہی پرویز الٰہی ایک مقدمے سے دوسرے مقدمے، ایک عدالت سے دوسری عدالت اور ایک جیل سے دوسری جیل میں نظر آتے ہیں۔
اس وقت پرویز الٰہی متعدد تحقیقاتی اداروں کو متعدد مقدمات میں مطلوب ہیں۔ ان کے خیال میں ان پر یہ برق عمران خان کی جماعت میں شمولیت اختیار کرنے پر گرائی گئی۔
پرویز الٰہی کو جب بھی کسی مقدمے میں عدالت کے سامنے پیش کیا جاتا ہے تو وہ میڈیا کے نمائندوں سے یہی بات کرتے ہیں کہ ’یہ لوگ‘ کچھ بھی کر لیں وہ تحریک انصاف نہیں چھوڑیں گے۔
نگراں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مرتضیٰ سولنگی میڈیا پر حکومت کی طرف سے یہ مؤقف دے چکے ہیں کہ ’پرویز الٰہی کی گرفتاری کا معاملہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدلیہ کے درمیان ہے، قانون نافذ کرنے والے ادارے ملکی قوانین کے تحت کام کرتے ہیں، اگر کہیں قانون کی خلاف ورزی ہوئی ہے تو ملک میں عدلیہ بھی آزاد ہے اور میڈیا بھی۔‘
ماہرین کے مطابق جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول خاص طور پر سیاست میں ایک عرصے سے چلا آ رہا ہے اور سیاست دانوں پر اچھے اور برے دن کا ’سائیکل‘ ایک مستقل فیچر کی شکل اختیار کر گیا ہے۔
کل کا وزیر آج کا قیدی اور آج جیل میں تو کل ایوان اقتدار میں۔ مگر اس سب کے پیچھے کون ہے اور یہ گھن چکر کہاں جا کر رکے گا اور اس کے ملک پر کیا اثرات مرتب ہوں سکتے ہیں؟
’جنرل کیانی کے دور میں کافی حد تک فوج کو ان کاموں سے نکال دیا تھا‘
سابق سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل خالد نعیم لودھی نے بی بی سی کو بتایا کہ اس وقت ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے تو کہیں بہتر ہے کہ ’کچھ لوگ‘ کھل کر کسی نئے نظام کا اعلان کر دیں تا کہ سب کو پتہ چل سکے کہ اس وقت ملک میں کس کا اور کون سا نظام رائج ہے۔
یہ سب کون کروا رہا ہے؟ اس سوال کے جواب میں جنرل خالد نعیم نے کہا کہ ’اس وقت جو لوگ ان معاملات کو دیکھ رہے ہیں وہ بھی ہمارے ہی جتنے پڑھے لکھے ہیں، انھوں نے بھی ہمارے ہی جتنے کورس کیے ہوئے ہیں۔‘
جنرل خالد کے مطابق ’اپنے اپنے ادوار میں ہم نے بھی کوئی اتنے اچھے کام نہیں کیے ہیں‘۔ تاہم ان کے مطابق ’ہم نے سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے دور میں فوج کو کافی حد تک ان کاموں (سیاسی معاملات) سے نکال دیا تھا۔‘
ان کارروائیوں کے اثرات سے متعلق بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ان کے پاس انٹیلیجنس ہے شاید انھیں زیادہ درست معلومات حاصل ہوں اور ممکن ہے کہ ہمیں بتانے والے سب جھوٹ بتا رہے ہوں، مگر جو کچھ سامنے ہے وہ سنگین حالات کا پتا دے رہا ہے۔‘
تحریک انصاف کے رہنماؤں کے خلاف مقدمات سے متعلق جنرل خالد نے کہا کہ ہمیں تاریخ سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس طرح سے کسی سیاسی جماعت کو ختم نہیں کیا جا سکتا ہے۔
ان کے مطابق ماضی میں عوامی نیشنل پارٹی، پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کو بھی تمام تر کوششوں کے باوجود ختم نہیں کیا جا سکا ہے۔
کسی ادارے یا شخصیت کا نام لیے بغیر سابق سیکریٹری دفاع نے کہا کہ ’جب کوئی شخص گھوڑے پر سوار ہو جائے تو اس کو لگتا ہے کہ یہ اس کی طاقت ہے مگر جب وہ گھوڑے سے اترتا ہے تو پھر معلوم ہوتا ہے کہ یہ گھوڑے کی طاقت تھی۔‘
ان کے مطابق ’جو لوگ حال ہی میں گھوڑوں سے اترے ہیں ان کا حال دیکھیں کہ اب وہ کہاں ہیں اور کدھر گئی ان کی وہ طاقت۔‘
جنرل خالد نعیم لودھی کی رائے میں اسٹیبلشمنٹ صرف ملٹری کا نام نہیں ہے بلکہ اس میں بیوروکریسی، پولیس اور دیگر کردار بھی شامل ہیں جو اسے ملٹری اسیبلشمنٹ سے کہیں بڑی اسٹیبلشمنٹ بنا دیتے ہیں۔ ان کے مطابق پنجاب میں اس وقت نگراں حکومت کا بھی خاصا ’ہولڈ‘ ہے، جو باقاعدہ ایک حکومت کے طور پر سب منصوبوں کو دیکھ رہی ہے۔
جنرل خالد نعیم کی رائے میں جب پنجاب اور خیبر پختونخوا میں 90 دن کے اندر انتخابات کا انعقاد نہیں ممکن بنایا گیا تب سے ملک کا نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور اس وقت نظام گھسٹ گھسٹ کر آگے بڑھ رہا ہے۔
خالد نعیم لودھی نے کہا کہ ان کارروائیوں کے اگر نفسیاتی پہلو پر بات کی جائے تو جو لوگ اس وقت اس وقت حد سے زیادہ ناجائز کر رہے ہیں وہ ایک جماعت اور اس کے رہنما کو مزید شہرت کی بلندیوں پر پہنچا رہے ہیں۔ ان کے مطابق اس سارے کھیل میں قانون کا مذاق بن رہا ہے اور ملک کا نقصان ہو رہا ہے۔
ان کے خیال میں ’جس وقت تک عوام کی رائے کو مقدم نہیں مانا جائے گا اس وقت تک ملک کی میعشیت کو بہتر نہیں کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی سیاسی استحکام کی منزل تک پہنچا جا سکتا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ اگر عوام کی مرضی کے بغیر جو مرضی کر لیں اور کوئی بھی نظام لے آئیں ملک کو دلدل سے نہیں نکالا جا سکتا ہے۔
’عدلیہ کا اصل امتحان اب شروع ہوا ہے‘
سپریم کورٹ کے ایک وکیل نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ یہ عدلیہ کی تاریخ کا سیاہ ترین دور چل رہا ہے۔ تاہم ان کے مطابق بابر ستار جیسے ججز بھی ہیں جو امید کی کرن بنے ہوئے ہیں۔
سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل فیصل صدیقی کی رائے مختلف ہے۔
ان کے مطابق یہ کہنا درست نہیں ہے کہ عدلیہ کی ساکھ متاثر ہوئی ہے یا عدلیہ کے فیصلوں پر عملدرآمد نہیں ہوا ہے۔
فیصل صدیقی کے مطابق اگر عدلیہ نے 12 مرتبہ پرویز الٰہی کی رہائی کے احکامات دیے ہیں تو 12 مرتبہ ہی پرویز الٰہی رہا ہوئے ہیں۔ ان کے مطابق اب عدلیہ جب ضمانت دیتی ہے تو پھر وہ یہ نہیں کہتی کہ ملزم کو کسی اور مقدمے میں گرفتار نہ کیا جائے۔
تاہم ان کے مطابق جب عدلیہ کو یہ لگتا ہے کہ ریاست بدنیت ہے اور وہ کسی کو ہر صورت جیل میں رکھنا چاہتی ہے تو پھر ایسے میں عدلیہ ایسے آرڈر دیتی ہے کہ ملزم کو عدالت کی اجازت کے بغیر کسی بھی اور مقدمے میں گرفتار نہ کیا جائے۔
فیصل صدیقی کے مطابق جب لاہور ہائی کورٹ نے پرویز الٰہی کو رہا کرنے کا حکم دیا اور انھیں کسی اور مقدمے نہ گرفتار کرنے کی بھی ہدایت کی تو پھر ایسے میں اسلام آباد پولیس کے انسپکر جنرل نے لاہور ہائی کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی میں انھیں لاہور سے جا کر گرفتار کر لیا۔
ایڈووکیٹ فیصل صدیقی کے مطابق عدالت نے آئی جی اسلام آباد اکبر ناصر خان کے خلاف ناقابل ضمانت گرفتاری کے احکامات جاری کیے اور توہین عدالت کی کارروائی شروع کر دی تو اب یہ مرحلہ ہے جہاں سے عدلیہ کا امتحان شروع ہوا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں فیصل صدیقی نے بتایا کہ عدلیہ ان لوگوں کے خلاف ہی کارروائی کرتی ہے جو اس کے آرڈرز کی خلاف ورزی کرتی ہے۔ ان کے مطابق یہ تو بات ہر کوئی جانتا ہے کہ آئی جی کو آرڈر دینے والے انٹیلیجنس ایجنسیاں ہوتی ہیں مگر عدلیہ نے یہ دیکھنا ہے کہ ان کے احکامات کی خلاف ورزی کس نے کی ہے۔
فیصل صدیقی کے مطابق اب عدلیہ نے اگر کارروائی منطقی انجام تک نہ پہنچائی تو پھر یہ کہا جا سکتا ہے کہ عدلیہ کی رٹ اور ساکھ متاثر ہوئی ہے۔
’ملک میں آئین موجود ہے اور نہیں بھی ہے‘
پاکستان بار کونسل کے وکیل رہنما عابد ساقی کے خیال میں اس وقت سیاسی صورتحال سب کے سامنے ہے، قانون کی کوئی عزت نہیں رہ گئی ہے اور عدالتیں اپنی ساکھ کھو چکی ہیں۔
ان کے مطابق قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی مرضی کے مطابق لوگوں کو اٹھا لیتے ہیں اور کھلم کھلا قانون کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔
عابد ساقی کا کہنا ہے کہ کسی کو بھی گرفتاری کے بعد 24 گھنٹوں تک عدالت کے سامنے پیش کرنا ضروری ہوتا ہے کیونکہ آئین میں درج ہے کہ عدالتیں شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق کی ضامن ہیں۔
ان کے مطابق ’اب صورتحال ایسی ہو گئی ہے کہ ملک میں آئین موجود بھی ہے اور نہیں بھی ہے، عدالتیں حقوق کی ضامن ہیں بھی اور نہیں بھی۔‘
وکیل رہنما کے مطابق اب کسی عدالت سے ریلیف کا پروانہ جاری ہوتا ہے تو کہیں سے گرفتاری کے احکامات موصول ہو جاتے ہیں، کہیں عدالتی احکامات نے ماننے پر توہین عدالت کی کارروائی چل رہی ہے تو کہیں مزید ایسی خلاف ورزیوں کو تحفظ فراہم کرتے ہوئے ملزمان کو ہی جان بخشی کے لیے پریس کانفرنس کرنے کے مشورے دیے جا رہے ہوتے ہیں۔
ان کے مطابق انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر پامالی کا سلسلہ جاری ہے۔
تحریک انصاف کے رہنماؤں کی گرفتاریوں پر اپنے ردعمل میں تحریک انصاف کے ایڈیشنل سیکریٹری جنرل عمر ایوب نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’یہ ایک ایس او پی ہے، جس کے تحت تحریک انصاف کے رہنماؤں کو اغوا کیا جاتا ہے اور پھر انھیں کئی دنوں تک غیرقانونی حراست میں رکھا جاتا ہے۔‘
ان کے مطابق ان رہنماؤں کو صرف اس صورت میں رہائی ملتی ہے جب وہ طویل ذہنی اور جسمانی تشدد کا سامنا کرنے کے بعد تحریک انصاف سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں۔
’ایسی کارروائیوں سے قانون کی حکمرانی اور جمہوریت پر حرف آتا ہے‘
پاکستان میں انسانی حقوق پر کام کرنے والی تنظیم ایچ آر سی پی کی چیئرپرسن حنا جیلانی نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی تنظیم کا ایم پی او (نقص امن) کے تحت کی جانے والی گرفتاریوں سے متعلق بہت واضح موقف ہے کہ کسی کو بھی اس کے تحت گرفتار نہیں کیا جانا چاہیے۔ ان کے مطابق اگر کسی کے خلاف بھی مقدمات ہیں تو پھر ان کا ٹرائل عدالتوں میں ہونا چاہیے۔
حنا جیلانی کے مطابق ایچ آر سی پی ’پری-ٹرائل ڈیٹنشن‘ کے بھی خلاف ہے یعنی کسی پر مقدمہ ثابت ہونے سے قبل اسے طویل عرصے کے لیے قید میں نہیں رکھا جا سکتا۔
ان کا کہنا ہے کہ ایچ آر سی پی یہ سمجھتی ہے کہ سب کو فیئرٹرائل اور انصاف کے حصول تک شفاف رسائی ملنی چاہیے۔
ان کے مطابق ان کی تنظیم کسی ایک شخصیت یا پارٹی سے متعلق تو تبصرہ نہیں کرتی مگر یہ ضرور ہے کہ چاہے نو مئی جیسے واقعات ہوں یا کوئی اور معاملہ بہرحال حکومت اورعدالتوں کو اپنے دائرہ اختیار کو مدنظر رکھ کر کسی کے خلاف کارروائی آگے بڑھانی چاہیے۔
ان کے مطابق ٹرائل سے پہلے ہی گرفتاری انسانی حقوق کی پامالی ہے۔ حنا جیلانی کے مطابق ’آربیٹریری ڈیٹنشن‘ اور جبری گمشدگیوں جیسی پریکٹسز سے ’رُول آف لا‘ متاثر ہوتا ہے۔
ایچ آرسی پی کی چیئرپرسن کے مطابق جو سیاسی نوعیت کے کریک ڈاؤن ہیں یہ جمہوریت پر اثر انداز ہوتے ہیں اور ملک میں مزید انتشار بڑھتا ہے۔
حنا جیلانی کے مطابق یہ سلسلہ پرانا ہے صرف سیاسی کردار بدل جاتے ہیں۔ ان کے مطابق آج کا متاثرہ سیاستدان کل کا بینفشری ہو گا مگر رول آف لا کے اثرات عام عوام پر صحیح معنوں میں مرتب ہوتے ہیں۔
ان کے مطابق یہ سلسلہ دیرپا نہیں ہے اور اب لاٹھی کے استعمال کے طریقے بھی بدل چکے ہیں۔ ان کے مطابق اب لاہور قلعے کا دروازہ کھلا نہیں ہے جہاں برف کی سِلوں پر سیاسی کارکنان اور رہنماؤں کو لٹا کر کوڑے مارے جاتے تھے۔
ان کے مطابق جدوجہد سے فرق پڑتا ہے اور کہیں نہ کہیں جا کر رول آف لا کا دباؤ بڑھتا ہے۔ ان کے مطابق رول آف لا یہ بھی ہے کہ جب کسی نے جرم کیا ہو تو پھر اسے اس کے کیے کی سزا بھی ملنی چاہیے۔ حنا جیلانی کے مطابق نو مئی کو جلاؤ گھیراؤ ہوا اور اس بحث سے ہٹ کر کہ وہ فوجی تنصیبات تھیں جہاں آگ لگی مگر وہ غیرقانونی عمل ہی تھا۔
ان کے مطابق اب رول آف لا کے تحت ان کارروائیوں میں ملوث افراد کو سزا دی جانی عین قانون کی حکمرانی ہے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ نو مئی کے بعد چار ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ وہ خود متعدد مقدمات میں عدالتوں کے سامنے پیش ہوتی ہیں اور ابھی تک نو مئی کے واقعات میں گرفتار کیے جانے والے ملزمان کا ٹرائل تک شروع نہیں ہو سکا۔
حنا جیلانی کا کہنا ہے کہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ رول آف لا کا معاملہ نہیں ہے بلکہ غصہ نکالا جا رہا ہے۔ یہ نہ ختم ہونے والا سلسلہ نہیں ہے، اب ایسی ناانصافیوں، قانون کو عزت نہ دینے اور عدلیہ کی بے توقیری کرنے جیسے اقدامات کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں۔
پرویز الٰہی کو کب کس مقدمے میں گرفتار کیا گیا؟
نو مئی کے واقعات پیش آنے کے بعد پرویز الٰہی کو پہلی بار یکم جون کو لاہور میں ان کی رہائش گاہ کے باہر سے انسدادِ بدعنوانی کے حکام نے مبینہ طور پر ترقیاتی منصوبوں میں مالی فائدہ حاصل کرنے کے الزام میں حراست میں لیا تھا۔
تاہم گرفتاری کے اگلے ہی روز یعنی دو جون کو لاہور کی مقامی عدالت نے انھیں ضمانت پر رہا کرنے کے احکامات جاری کیے۔ شومئی قسمت کے رہائی کے فوراً بعد انھیں گوجرانوالہ کے علاقے میں درج ایک اور انسداد بدعنوانی کے مقدمے میں گرفتار کر لیا گیا۔
تین جون کو گوجرانوالہ کی مقامی عدالت نے انھیں کرپشن کے متعلق ان دونوں مقدمات میں بری کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر ان کی رہائی کے احکامات جاری کیے۔ اس کے بعد پنجاب اسمبلی میں غیرقانونی بھرتیوں کے کیس میں وہ دوبارہ حراست میں لیے گئے جبکہ اسی دوران قومی احتساب بیورو (نیب) نے گجرات اور منڈی بہاؤالدین میں ترقیاتی منصوبوں میں غبن میں مبینہ طور پر ملوث ہونے پر پرویز الٰہی کے خلاف ایک اور تحقیقات کا آغاز کر دیا۔
12 جون کو سیشن کورٹ نے غبن کے مقدمے میں پرویز الٰہی کی بریت کے جوڈیشل مجسٹریٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جس کے اگلے ہی روز انھیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا۔ 20 جون کو پرویز الٰہی کو بالآخر لاہور کی انسداد بدعنوانی کی عدالت سے ریلیف ملا لیکن ان کی رہائی اس وجہ سے ممکن نہ ہو سکی کیونکہ اُن کی رہائی کے احکامات جیل انتظامیہ کو نہیں پہنچائے گئے تھے۔
اسی روز وفاقی تحقیقاتی ادارے نے منی لانڈرنگ کے الزام میں ان کے خلاف مقدمہ قائم کیا اور انھیں جیل سے ہی دوبارہ تحویل میں لے کر دوبارہ 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا۔
جون کے مہینے میں ہی ان کی عدالت سے رہائی اور پھر کسی نہ کسی مقدمے کی کارروائی جاری رہی۔ رواں ماہ یکم ستمبر کو جب لاہور ہائی کورٹ نے بدعنوانی کے مقدمے میں ان کی رہائی کا حکم دیا تو اسلام آباد پولیس نے رہائی کے فوراً بعد انھیں نقض امن کے خطرے کے تحت حراست میں لیا۔
پانچ ستمبر کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے نظربندی کے احکامات معطل کرتے ہوئے انھیں رہا کرنے کا حکم دیا۔ تاہم پانچ ستمبر کو رہائی کے فوراً بعد انھیں جوڈیشل کمپلیکس میں توڑ پھوڑ کے الزامات کے تحت دوبارہ گرفتار کر لیا۔
8 سمتبر کو اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے جوڈیشل کمپلیکس توڑ پھوڑ کیس میں چوہدری پرویز الہٰی کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔
پھر 15 سمتبر کو اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے جوڈیشل کمپلکس توڑ پھوڑ کیس میں چوہدری پرویز الہٰی کی ضمانت منظور کر لی مگر پھر انھیں یعنی 16 ستمبر کو اڈیالہ جیل سے ہی بدعنوانی کے ایک اور مقدمے میں گرفتار کر لیا گیا۔
پرویز الٰہی کی ضمانت اور رہائی کا یہ سلسلہ ابھی جاری ہے کیونکہ وہ ابھی بھی جیل میں ہی ہیں۔