پی ایس ایل 6 ابوظہبی میں بقیہ میچز میں تاخیر، پاکستان کرکٹ بورڈ کی بےبسی یا بدانتظامی؟
پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے جب پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے ملتوی شدہ بیس میچوں کے انعقاد کے لیے ابوظہبی کا انتخاب کیا تھا تو اس وقت کسی نے بھی نہ سوچا ہوگا کہ یہ معاملہ اتنا پیچیدہ ہوجائے گا۔
پاکستان سپر لیگ 6 کا آغاز کراچی میں 20 فروری کو ہوا تھا لیکن چار مارچ کو اسے ملتوی کرنا پڑا جب شریک ٹیموں کے چند کھلاڑیوں کے کووڈ ٹیسٹ مثبت آئے تھے، اُس وقت تک لیگ کے 14 میچز کھیلے جا چکے تھے۔
تاہم پی سی بی نے بتایا تھا کہ بقیہ میچ ابوظہبی میں منعقد کرنے کی ’مکمل منظوری مل گئی ہے۔‘
اور اب تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ پی سی بی ابھی تک پی ایس ایل میں شریک کھلاڑیوں اور آفیشلز کی سفری دستاویزات سے متعلق مشکلات سے ہی نہیں نکال پایا ہے کہ پی ایس ایل کے شیڈول کا اعلان کرسکے۔ اس دوران متحدہ عرب امارات میں آئی پی ایل کے بقیہ میچز ستمبر اور اکتوبر میں منعقد ہونے کا اعلان بھی سامنے آچکا ہے۔
پی سی بی نے جب پی ایس ایل کے میچوں کے لیے ابوظہبی کا رخ کیا تھا تو اس کا یہ خیال تھا کہ لیگ کو یکم یا دو جون سے شروع کر کے ہر حال میں بیس جون تک ختم کردیا جائے گا کیونکہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کو لیگ کے فوراً بعد انگلینڈ کے دورے پر روانہ ہونا ہے۔ لیکن ابھی تک شیڈول کو حتمی شکل نہیں دی جاسکی ہے۔
سرفراز احمد کے ویزے کا مسئلہ
اس تمام صورتحال میں سب سے چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے کپتان سرفراز احمد جب اتوار کی علی الصبح کراچی ایئرپورٹ پہنچے تو انھیں ابوظہبی روانگی کی اجازت نہیں مل سکی اور انھیں واپس ہوٹل جانا پڑا۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ سرفراز احمد کے ساتھ موجود دیگر پانچ افراد کو آخری لمحات میں سفر کے لیے درکار ضروری اجازت مل گئی۔ مقامی میڈیا پر گردش کرتی خبروں کے مطابق اس پر کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے مالک ندیم عمر کا ایک جذباتی بیان سامنے آیا جس میں انھوں نے کہا کہ سرفراز کے بغیر یہ ٹیم پی یس ایل میں حصہ ہی نہیں لے گی۔
مگر پھر یہ بات سامنے آئی کہ سرفراز احمد کے ویزے میں مسئلہ ان کے پرانے اقامے کی وجہ سے ہوا تھا اور اب ان کا ویزا جاری ہوگیا ہے۔
دوسری جانب لاہور ایئرپورٹ پر پہنچنے والے دس افراد کو بھی روانگی کی اجازت نہ ملی سکی۔ ان میں کرکٹرز عمر امین، ذیشان اشرف اور زید عالم شامل تھے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کا اتوار کی شب یہ اعلان فینز کے لیے حیران کن تھا کہ کراچی اور لاہور کے ہوٹلوں میں آئسولیشن کرنے والے 13 کھلاڑیوں اور آفیشلز کو اب ان کے گھر بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جن میں سرفراز احمد بھی شامل ہیں۔
اس فیصلے کی وجہ ویزوں کے اجرا میں مزید تاخیر بتائی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ جیسے ہی ان کے ویزے جاری ہوجائیں گے ان کے پی سی آر ٹیسٹ کرا کر انھیں پہلی دستیاب کمرشل فلائٹ سے ابوظہبی روانہ کیا جائے گا۔
پی سی بی کبھی یہ کہتا رہا ہے کہ تمام کھلاڑیوں اور آفیشلز کے ویزے اسے مل گئے ہیں اور اب اس کا کہنا ہے کہ ویزوں کے اجرا میں مزید تاخیر ہوئی ہے۔
پاکستان سپر لیگ کے ضمن میں پچھلے دو ہفتے متضاد خبروں اور بے یقینی صورتحال کی وجہ سے شہ سرخیوں میں رہے ہیں۔
پاکستان سے کھلاڑیوں اور آفیشلز کو پروگرام کے مطابق 22 مئی کو ابوظہبی روانہ ہونا تھا لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ نے 19 مئی کو فرنچائزز کو مطلع کیا تھا کہ اس نے ابوظہبی کے حکام سے جنوبی افریقہ اور انڈیا سے تعلق رکھنے والے براڈ کاسٹرز کے عملے کے ابوظہبی میں داخلے اور غیرملکی کرکٹرز کو ویکسینیشن سے مستثنی قرار دینے کی اجازت مانگی ہے اور اس سلسلے میں وہ چوبیس گھنٹے انتظار کرے گا۔
پاکستان کرکٹ بورڈ نے 20 مئی کو یہ نوید سنائی تھی کہ تمام معاملات طے پاگئے ہیں لیکن جب چارٹرڈ فلائٹس کا وقت آیا تو کہا گیا کہ ویزے جاری نہیں ہوئے ہیں اور 26 مئی کو چارٹرڈ فلائٹس روانہ نہ ہوسکی تھیں۔
اس بے یقینی صوترتحال کا اندازہ اس طرح لگایا جاسکاتا ہے کہ کھلاڑیوں اور آفیلشز کو کراچی اور لاہور کے ہوٹلوں میں قرنطینہ کے لیے چیک ان ہونا تھا لیکن انھیں روک دیا گیا تھا۔
اس تمام تر صورتحال میں کبھی یہ کہنا کہ معاملات طے پاگئے ہیں اور کبھی ویزوں کے اجرا میں تاخیر کی بات کرنا، کیا پاکستان کرکٹ بورڈ کے اعلی حکام کی ابوظہبی حکومت کے سامنے بے بسی کو ظاہر کرتا ہے یا ان کی اپنی بدانتظامی کو؟
پاکستان کرکٹ بورڈ کے آٹھ افسران عید سے پہلے ہی سے ابوظہبی میں ہیں۔ عید کی چھٹیوں کے بعد وہ ابوظہبی حکومت اور امارات کرکٹ بورڈ سے رابطے میں رہے ہیں لیکن یہ افسران اس اہم معاملے کو حل کرنے میں کامیاب نہیں ہوپائے ہیں اور ہر روز ویزوں کے حصول میں ناکامی اور تاخیر کی خبریں میڈیا کی زینت بن رہی ہیں۔
سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین احسان مانی منظرنامے سے غائب ہیں۔
ان کے عہدے کی معیاد اس سال ستمبر میں ختم ہورہی ہے جبکہ چیف ایگزیکٹیو وسیم خان بھی صورتحال کو ’ورک فرام ہوم‘ (یعنی گھر سے کام کر کے) نمٹانے کے کئی روز بعد ابوظہبی پہنچے۔
کچھ حلقے یہ خیال ظاہر کرتے ہیں کہ پی سی بی کے اعلیٰ افسران میں آپس کے رابطے کے فقدان کی وجہ سے یہ معاملات حل نہیں ہو پائے ہیں یا ان میں تاخیر ہوئی ہے۔
سینئر صحافی عبدالماجد بھٹی کا کہنا ہے کہ ’اسے آپ غیر پیشہ ورانہ انداز اور بد انتظامی کہہ سکتے ہیں۔‘
’ہر معاملے کی ہر روز نئی دلیل دی جاتی رہی ہے۔۔۔ پاکستان سپر لیگ کو جلدبازی میں منعقد کرانے کی کوشش کی گئی ہے۔ غالباً اس کی وجہ وقت کی کمی ہے تاہم اسے بہتر انداز میں ہینڈل کیا جاسکتا تھا۔‘
پی سی بی کی جانب سے مختلف راستے زیر غور
پاکستان کرکٹ بورڈ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کرائے گئے آئسولیشن کا متحدہ عرب امارات کے آئسولیشن سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
’یہاں کھلاڑیوں کو اس لیے آئسولیشن کرایا گیا تھا کہ کوئی بھی ایسا شخص جہاز پر سوار نہ ہوجائے جو کووڈ مثبت ہو۔ جہان تک متحدہ عرب امارات کا تعلق ہے تو وہاں کے قواعد و ضوابط کے مطابق ہر شخص کو چاہے وہ کمرشل فلائٹ یا چارٹرڈ فلائٹ سے وہاں پہنچے اسے ہر صورت میں سات دن قرنطینہ میں گزارنے ہوں گے۔‘
پاکستان کرکٹ بورڈ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ یہ تاثر درست نہیں ہے کہ کھلاڑیوں کو گھر بھیجنے سے بائیو سکیور ببل برسٹ ہوگیا ہے۔
’اب یہ کھلاڑی کمرشل فلائٹ کے ذریعے ابوظہبی جارہے ہیں لہذا انھیں فلائٹ سے اڑتالیس گھنٹے قبل لازمی طور پر پی سی آر ٹیسٹ کرانا ہوگا اور اس کی منفی رپورٹ آنے کی صورت میں ہی انھیں جہاز پر سوار ہونے کی اجازت ہوگی۔‘
پاکستان سپر لیگ میں شریک کھلاڑیوں اور آفیشلز کی اکثریت ابوظہبی پہنچ چکی ہے اس کے علاوہ براڈکاسٹرز کا عملہ بھی ابوظہبی میں داخلے کی اجازت ملنے کے بعد وہاں پہنچ گیا ہے۔
لیکن انتظار شیڈول کے اعلان کا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ لیگ کے تاخیر سے آغاز لیکن وقت پر مکمل کرنے کی کوشش کے طور پر مختلف آپشنز پر بھی غور جاری ہے۔
ان میں میچوں کی تعداد میں کمی اور سیمی فائنلز، فائنل جیسی تجاویز بھی شامل ہیں۔