پاکستانی فینز کےعرفان پٹھان سے چُن چُن کر بدلے: ’پڑوسیوں جیت آتی جاتی رہتی ہے لیکن فائنل آپ کے بس کی بات نہیں‘
انڈیا کے سابق کرکٹر اور فاسٹ بولر عرفان پٹھان کو پاکستانی ٹیم پر طنز اور تنقید خاصی مہنگا پڑ گئی ہے کیونکہ انگلینڈ کے خلاف سیمی فائنل میں انڈیا کی شکست کے بعد اب پاکستانی مداح عرفان پٹھان سے ان کی ٹویٹ پر گن گن کر بدلے لے رہے ہیں۔
ہوا کچھ یوں کہ جب پاکستان نے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کے پہلے سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ کو شکست دے کر فائنل کے لیے کوالیفائی کیا تو عرفان پٹھان نے ٹویٹ کی کہ ’پڑوسیوں جیت آتی جاتی رہتی ہے لیکن ’گریس‘ یعنی وقارآپ کے بس کی بات نہیں۔‘
انھوں نے یہ بھی لکھا کہ ان کا تبصرہ کھلاڑیوں کے بارے میں نہیں، جس کے بعد عرفان پاکستان میں ٹرینڈ کرنے لگے۔
پاکستانی کرکٹ کے مداح ابھی اس معاملے پر عرفان پٹھان کو برا بھلا کہہ ہی رہے تھے کہ انڈیا سیمی فائنل میں انگلینڈ کے خلاف میچ دس وکٹوں سے ہار گیا۔
بس پھر کیا تھا، غصے اور انتقام میں بھرے پاکستانیوں نے عرفان پٹھان کو کٹہرے میں لا کھڑا کیا۔
صحافی وجاہت کاظمی نے لکھا: ’انڈین ٹوئٹر سے غائب ہو گئے ہیں۔‘
انھوں نے عرفان پٹھان کی ٹویٹ کو کاپی کرتے ہوئے مزید لکھا کہ ’ہار جیت ہوتی رہتی ہے پڑوسیوں، عرفان پٹھان سے تھوڑا گیان لیں اور تھوڑا سا گریس دکھائیں۔۔۔‘
پاکستان کے سماجی کارکن جبران ناصر نے انگلینڈ اور انڈیا کے درمیان سیمی فائنل پر تبصرہ کرتے ہوئے عرفان پٹھان کو بھی نشانہ بنایا اور لکھا کہ ’انگلینڈ نے بالکل بھی گریس کا اظہار نہیں کیا اور انڈین ٹیم کی بولنگ کو ذبح کر ڈالا۔ چھکوں کی بارش ہو رہی ہے۔‘
علیشہ نامی صارف نے لکھا کہ ’عرفان آخر کار قدرت کے نظام پر راضی ہو گئے۔‘
اس ساری بحث میں جہاں پاکستانی اداکاروں اور شائقین کرکٹ نے خوب بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، وہیں پاکستان میں ٹرانسپورٹ سروس مہیا کرنے والی کمپنی کریم نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔
کریم نے اپنے آفیشل اکاؤنٹ سے ٹوئٹر پر لکھا: ’پڑوسیوں جیت آتی جاتی رہتی ہے لیکن فائنل آپ کے بس کی بات نہیں۔۔۔‘
کچھ صارفین نے عرفان پٹھان کو نیوزی لینڈ کے کپتان سے ’گریس‘ سیکھنے کا مشورہ بھی دے ڈالا۔
’گریس‘ اور عرفان پٹھان میں یہی فرق ہے‘
بہت سے صارفین نے الزام لگایا کہ عرفان پٹھان نے یہ بیان سستی شہرت کے لیے دیا جبکہ کچھ صارفین نے اسے سیاسی رنگ دینے کی کوشش بھی کی۔
سعد قیصر نامی صارف نے لکھا ہے کہ دکھ ہے کہ انڈین مسلمان ہندوؤں کی گڈ بک میں رہنے کے لیے اس طرح کی باتیں کرتے ہیں۔
ایک اور صارف نے لکھا کہ عرفان بھائی۔ جیت اور ہار آتی جاتی رہے گی لیکن پھر بھی آپ کو ہندوتوا حکومت سے حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ نہیں ملے گا۔
منتصر خان نے شاہین شاہ آفریدی کی ایک تصویر شیئر کی، جس میں وہ اپنے ایک انڈین مداح کو انڈیا کے جھنڈے پر آٹوگراف دے رہے ہیں۔
انھوں نے لکھا ’گریس‘ اور عرفان پٹھان میں یہی فرق ہے‘۔
اس سب کے درمیان عرفان نے ٹویٹ کر کے بابر اعظم اور محمد رضوان کی تعریف بھی کی۔
انھوں نے لکھا کہ ان دونوں کھلاڑیوں نے صحیح وقت پر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔
لیکن اس کے باوجود پاکستانی صارفین کا غصہ کم نہ ہوا اور اس کی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ عرفان نے چند روز پہلے بھی پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے لیے طنزیہ ٹویٹ کی تھی۔
عرفان پٹھان نے لکھا تھا کہ ’ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاکستان کا پیچھے سے آنے کا سفر قابل تعریف ہے۔‘