پاکستان میں بجلی کے بلوں سے تنگ افراد کے لیے

پاکستان میں بجلی کے بلوں سے تنگ افراد کے لیے

پاکستان میں بجلی کے بلوں سے تنگ افراد کے لیے سورج امید کی کرن، مگر اس پر کتنا خرچہ آتا ہے؟

پاکستان میں بجلی کے بھاری بلوں سے ستائے عوام جہاں ملک بھر میں سراپا احتجاج ہیں وہیں کچھ گھر ایسے بھی ہیں جہاں بجلی کا بل اتنا نہیں آیا کہ وہ جیب پر بھاری پڑے۔

یہ ان افسران یا سرکاری اہلکاروں کے گھر ہرگز نہیں جہاں مفت بجلی کی سہولت دستیاب ہے بلکہ یہ آپ کے گلی محلے کے وہ گھر ہیں جن کی چھتوں پر آپ کو سولر پینلز دکھائی دیتے ہیں۔

یہ گھر یوں تو عموماً ایسے علاقوں میں زیادہ نظر آتے ہیں جہاں خوشحال گھرانے بستے ہیں لیکن کافی عرصے سے متوسط اور تنخواہ دار طبقے کی آبادیوں میں بھی ایسے گھروں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

دنیا بھر کی طرح پاکستان میں رواں صدی کے آغاز میں جہاں ٹیکنالوجی بوم آیا وہیں بجلی کی طلب میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا جبکہ دوسری جانب بدقسمتی سے ملک میں بجلی کی پیداوار اتنی تیزی سے نہ بڑھ سکی اور یوں طویل لوڈ شیڈنگ کے باعث ملک بھر میں عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

اس کے بعد سے ملک بھر میں لوگوں نے جنریٹرز کی بجائے یو پی ایس خریدنا شروع کیے اور یوں بیٹریوں اور انورٹیرز کی مارکیٹ وقت کے ساتھ مضبوط ہونا شروع ہوئی اور اب یہ ہر گھر کی ضرورت بن چکی ہے۔

تاہم جہاں گذشتہ دہائی کے وسط میں وقت کے ساتھ لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ دور ہونا شروع ہوا مگر مصیبت یہ ہوئی کہ بجلی کی قیمتوں میں لگاتار اضافہ دیکھنے کو ملا۔ گذشتہ دو تین سالوں میں بجلی کی فی یونٹ قیمت میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے اور اب بات لوڈ شیڈنگ سے بچنے کے طریقے ڈھونڈنے سے بجلی کے بلوں کی ادائیگی کی استطاعت رکھنے تک پہنچ گئی ہے۔

تو اگر واپڈا سے آنے والی بجلی مہنگی ہے تو اس کا متبادل کیا ہو سکتا ہے؟ فی الحال سولر پینلز ہی اس کا سب سے موزوں حل دکھائی دیتے ہیں لیکن کیا یہ عام آدمی کے پہنچ میں بھی ہیں؟

اس بارے میں ہم نے سولر پینلز لگانے کی سروس دینے والے افراد کے ساتھ ساتھ ایسے افراد سے بات کی ہی جنھوں نے حال ہی میں سولر پینلز لگوائے ہیں۔

solar

کم سے کم قیمت پر سولر انرجی سسٹم نصب کرنے پر کتنی لاگت آتی ہے؟

اس بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سولر پینلز کی سروسز دینے والے عبدالستار صدیقی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سولر پینلز کی مقامی مینوفیکچرنگ نہ ہونے کے برابر ہے، اس لیے جتنے بھی پینلز اور انورٹر درآمد کیے جاتے ہیں وہ زیادہ تر چین سے ہی آتے ہیں۔

’ان میں چین کی اپنی کمپنیوں کے علاوہ دیگر ممالک کی کمپنیوں کی مصنوعات بھی بنائی جاتی ہیں۔‘

اب یہاں مسئلہ یہ ہے جب کوئی چیز درآمد کی جاتی ہے تو اس کی قیمت ڈالر کی قیمت سے جڑ جاتی ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ایک سولر پینل کی فکس پرائس جو آج سے لگ بھگ دس دن پہلے تک 37 ہزار روپے تھی آج 46 ہزار ہو گئی ہے۔

عبدالستار کہتے ہیں کہ ایسی صورتحال میں سولر انرجی غریب یا متوسط طبقے کی پہنچ سے دور ہی رہے گی جب پاکستان میں روپے کی قدر بہتر نہیں ہو جاتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ حالانکہ عالمی سطح پر سولر پینلز کی قیمتوں میں کمی آئی ہے لیکن اس کے برعکس پاکستان میں یہ قیمت آئے روز بڑھ رہی ہے۔

وہ مثال دے کر بتاتے ہیں کہ آپ کم از کم دو پلیٹس بھی لگاتے ہیں تو آپ کو ایک لاکھ 12 ہزار تو ایک طرف رکھنا ہو گا، اس میں اگر آپ ایک کلو واٹ کا انورٹر بھی خریدتے ہیں جو معیاری بھی نہیں ہے تو وہ بھی اس وقت آپ کو لگ بھگ 80 ہزار تک کا پڑ جائے گا۔ اس میں بیٹری کی قیمت بھی شامل کر لیں تو بات سوا دو سے ڈھائی لاکھ تک پہنچ جاتی ہے۔

سروس دینے والوں کے مطابق یہ سسٹم عموماً دو سے تین پنکھوں اور کچھ لائٹس کا بوجھ اٹھا سکے گا اور بیٹری میں انرجی سٹوریج کے حساب سے پورے دن میں اس کا استعمال کیا جا سکے گا۔

اس میں نیٹ میٹرنگ کی سہولت بھی نہیں ہو گی اور بیٹری کی سکت کے مطابق ہی اس میں انرجی سٹور کی جا سکے گی۔

اس بارے میں سولر انرجی سروسز فراہم کرنے والی کمپنی کے سربراہ عثمان ایک اور اہم چیز کی جانب توجہ دلاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’فی الحال اس بارے میں وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ ایسے سسٹمز کی عمر کتنی طویل ہے۔

’کمپنیاں دعوے تو کر رہی ہیں کہ یہ 10 سال سے 12 سال تک چلیں گی لیکن فی الحال ہم وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ یہ واقعی اتنا چلیں گی یا نہیں اور کمپنی معیاری نہیں ہے تو پھر تو بالکل بھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔‘

اس طرح تین کلو واٹ کا سسٹم لگانے میں جس میں چھ پلیٹس لگتی ہیں، لگ بھگ سات لاکھ روپے لگ جاتے ہیں۔ چار کلو واٹ میں سات پلیٹس کے ساتھ نو لاکھ اور پانچ کلو واٹ کے سسٹم کے لیے نو پینلز کے ساتھ لگ بھگ 11 لاکھ روپے لاگت آتی ہے۔

سروس فراہم کرنے والے عبدالستار کا کہنا تھا کہ ’تین کلو واٹ کا سسٹم جس میں آپ کے سات لاکھ روپے لگ رہے ہیں اس میں آپ کا ایک اے سی بھی چل سکتا ہے لیکن صرف کچھ گھنٹوں کے لیے۔ اس کے علاوہ موٹر اور دیگر چیزیں چلائی جا سکتی ہیں۔‘

solar

سولر انرجی فنانسنگ: پاکستانی بینک کن شرائط پر قرضے دے رہے ہیں؟

اب سوال یہ ہے کہ اگر کسی کی یک مشت رقم ادا کرنے کی استطاعت نہ ہو پاکستان میں بینکوں کی جانب سے بھی سولر پینل فراہم کرنے کے لیے قرضے فراہم کرنے کی آفر موجود ہے۔

اس حوالے سے مختلف بینکوں کی شرائط میں کم سے کم چھ فیصد مارک اپ یا شرح سود ہوتی ہے اور کل رقم کا لگ بھگ 25 سے 30 فیصد آغاز میں ادا کرنا ضروری ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ عموماً یہ قرضے حاصل کرنے میں تنخواہ دار طبقے، ٹیکس فائلرز اور کریڈٹ کارڈ ہولڈرز کو آسانی ہوتی ہے۔ اس حوالے سے کون سے دستاویزات کی تفصیل مذکورہ بینکوں کی ویب سائٹس پر درج ہیں۔

اس حوالے سے بینکس کی جانب سے ایک پراسیسنگ فیس بھی لی جاتی ہے۔

آن گرڈ اور آف گرڈ سسٹم اور نیٹ میٹرنگ کا کیا مطلب ہے؟

اس حوالے سے سولر انرجی سے جو سب سے بڑا فائدہ صارفین حاصل کر سکتے ہیں وہ آن گرڈ سسٹم کا ہے جس میں انھیں نیٹ میٹرنگ کی سہولت بھی حاصل ہوتی ہے۔

نیٹ میٹرنگ سے مراد یہ ہے کہ آپ سولر پینلز کی جانب سے سورج کی روشنی سٹور کرنے کے بعد حاصل ہونے والی بجلی کو تو استعمال کر رہے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ آپ واپڈا کو اضافی بجلی بھی دے رہے ہوتے ہیں۔

تاہم یہ سہولت عام طور پر چھوٹے سکیل پر استعمال ہونے والے سولر انرجی سسٹمز کے لیے ممکن نہیں ہوتی ہے۔

یہاں آف گرڈ سسٹمز کی بات ہوتی ہے جو صرف دن کے وقت چلتے ہیں اور رات میں واپڈا کی بجلی پر آجاتے ہیں اور پھر لوڈ شیڈنگ کی صورت میں آپ کو یو پی ایس کا سہارا لینا پڑتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *