پاکستان میں 15 روز میں پیٹرول 37، ڈیزل 40 روپے مہنگا

پاکستان میں 15 روز میں پیٹرول 37، ڈیزل 40 روپے مہنگا

پاکستان میں 15 روز میں پیٹرول 37، ڈیزل 40 روپے مہنگا وجہ عالمی منڈی میں قیمتوں میں اضافہ ہے یا کچھ اور؟

پاکستان میں نگران حکومت نے اپنے قیام کے پہلے ہی ہفتے میں ملک میں پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں بالترتیب ساڑھے سترہ اور بیس روپے اضافے کا اعلان کرتے ہوئے ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچا دیا ہے۔

رواں ماہ یعنی اگست کے آغاز کے بعد سے اب تک مجموعی طور پر پیٹرول کی قیمت میں 37 روپے 45 پیسے جبکہ ڈیزل کی قیمت میں لگ بھگ 40 روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔

حالیہ اضافے سے قبل یکم اگست کو کیا جانے والا اضافہ ن لیگ کی سربراہی میں قائم مخلوط حکومت نے کیا تھا۔

حکومت کی جانب سے کیے جانے والے اضافے کے بعد ملک میں ایک لیٹر پیٹرول کی قیمت 272.95 سے 290.45 روپے ہو گئی ہے جبکہ ڈیزل کی قیمت 273.40 سے بڑھ کر 293.40 روپے فی لیٹر تک پہنچ گئی ہے۔

رواں ماہ دو اقساط میں ہونے والے اس بڑے اضافے کے بعد جہاں ورکنگ کلاس پر ایندھن کی مد میں مزید بوجھ پڑنے اور مہنگائی میں اضافے کے حوالے سے بحث ہو رہی ہے وہیں یہ سوال بھی کیا جا رہا ہے کہ اس اضافے کی وجوہات کیا ہیں؟

ڈیزل و پٹرول کی قیمتوں میں ہونے والے بے تحاشا اضافے کی وجہ کیا ہے؟

پاکستان کی وفاقی وزارتِ خزانہ کی جانب سے پیٹرول و ڈیزل کی قیمت میں اضافے کے لیے جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ’بین الاقوامی منڈی میں تیل مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے جس کا وجہ سے پاکستان میں بھی ان کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے۔‘

وزارت خزانہ کی جانب سے ڈیزل و پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کی جو وجہ دی گئی ہے اس سے تیل کے شعبے پر نظر رکھنے والے ماہرین اتفاق کرتے ہیں تاہم ان کے مطابق یہ واحد وجہ نہیں ہے۔

ان کے مطابق گذشتہ پندرہ دنوں میں ڈالر کی قیمت میں اضافے نے بھی تیل کی مقامی قیمتوں پر منفی اثر ڈالا ہے کیونکہ پاکستان پیٹرولیم مصنوعات کی ضرورت کے لیے 80 فیصد سے زیادہ درآمد کرتا ہے۔

تیل کے شعبے سے منسلک ماہر اور پاکستان ریفائنری لمیٹڈ کے چیف ایگزیکٹیو افسر زاہد میر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں کی پندرہ روز کی اوسط دیکھی جائے تو نظر آئے گا کہ قیمتوں میں کافی اضافہ ہوا ہے۔

پیٹرول

انھوں نے کہا کہ ’تازہ ترین اضافہ اگست کے پہلے پندرہ روز کی اوسط قیمت پر کیا گیا ہے جس میں خام تیل کی قیمت 90 ڈالر فی بیرل تھی (جو اس سے پہلے کے پندرہ دنوں میں 85 ڈالر فی بیرل تھی)۔ اسی طرح ڈیزل کی بین الاقوامی منڈی میں قیمت اس دوران 115 ڈالر فی بیرل ہو گئی، جو پہلے 102 ڈالر تھی۔‘

پیٹرول کی قیمت بھی اس عرصے میں 97 ڈالر فی بیرل ہو گئی جو اس سے پہلے 93 ڈالر تھی۔

انھوں نے کہا کہ ’پاکستان میں پیٹرول و ڈیزل کی قیمتوں کا تعین بین الاقوامی مارکیٹ میں ان مصنوعات کی قیمتوں سے کیا جاتا ہے جس کے لیے ’امپورٹ پیریٹی پرائس‘ فارمولہ ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ یہ حققیت ہے کہ عالمی منڈی میں قیمت کافی بڑھ گئی ہے تاہم پاکستان میں ڈالر کی قیمت نے بھی اس پر کافی اثر ڈالا ہے کیونکہ ان پندرہ دنوں میں ڈالر ریٹ میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

ڈیزل اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی کی شرح پر کیا اثر پڑے گا؟

image

پاکستان میں مہنگائی کی شرح اس وقت ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر موجود ہے جس کی ایک بڑی وجہ ملک میں ڈیزل و پٹرول کی قیمتوں میں تسلسل سے ہونے والا اضافہ ہے۔

پاکستان میں مہنگائی کی شرح جانچنے کے لیے ادارہ شماریات کے وضع کردہ سسٹم میں ٹرانسپورٹ کا شعبہ اہم ہے اور ماہانہ مہنگائی کی شرح کو ناپنے کے پیمانے میں اس کا حصہ چھ فیصد ہے۔

پاکستان میں مہنگائی کی شرح کو دیکھا جائے تو ڈیزل اور پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے نے جہاں لوگوں کے ایندھن کے اخراجات کو بڑھایا ہے تو اس کے ساتھ ڈیزل کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے کھیتوں، منڈیوں، فیکٹریوں اور بندرگاہوں سے مال لے جانے والی ٹرانسپورٹ کے اخراجات میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا۔

تاہم رواں ماہ کے حوالے سے حتمی اعداد و شمار اس ماہ کے آخر میں سامنے آئیں گے۔

یہ سترہ روپے پچاس پیسے ہماری لائف لائن کا حصہ ہیں

پیٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی قیمتیں عوام کی مشکلات میں اضافہ کر رہی ہیں۔

صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے محمد سہیل ایک سرکاری ہسپتال میں کام کرتے ہیں، اُن کے چار بچے ہیں جو پرائیویٹ سکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں جبکہ سہیل کی تنخواہ 48 ہزار روپے ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اس تنخواہ میں تو پہلے بھی گزارہ نہیں ہو رہا تھا۔ اب پیٹرول کی قیمتوں میں آئے روز اضافے کے بعد سے یہ سوچ رہا ہوں کہ خود کھانا کھائیں یا موٹر سائکل کی ٹینکی میں پیٹرول ڈالیں۔ یہ سترہ روپے پچاس پیسے کا اضافہ ہم پر کتنا بھاری ہے ہم ہی جانتے ہیں۔‘

سہیل اپنے دفتر جانے، بچوں کو سکول پہنچانے اور واپس لانے اور گھر کے روزمرہ کے چھوٹے موٹے کاموں کو سرانجام دینے کے لیے موٹرسائیکل پر ہی انحصار کرتے ہیں۔

سہیل نے بتایا کہ ’میرے موٹر سائکل میں روزانہ لگ بھگ دو لیٹر پیٹرول استعمال ہو جاتا ہے۔ ہمارے شہر ڈیرہ اسماعیل خان میں تو پیٹرول پمپ مالکان ایک لیٹر پر ڈیڑھ ، دو روپے ویسے ہی زیادہ لیتے ہیں۔ حکومت کے لیے تو صرف اعلان کرنا ہوتا ہے مگر ہمارے لیے ایک ایک پیسہ انتہائی اہم ہے۔‘

’اب سوچتا ہوں کہ گزارہ کیسے کریں۔ کھانا پینا تو پہلے ہی کم کر چکے ہیں۔ بچوں کی تعلیم کے اخراجات پر سمجھوتہ کرنا ہو گا، سوچتا ہوں کہ کوئئ پارٹ ٹائم کاروبار کروں گا لیکن موجودہ حالات میں تو ایک ملازمت نہیں ملتی، پارٹ ٹائم جاب یا کاروبار کا تو سوال ہی مشکل ہے۔‘

سہیل سے ہی ملتی جلتی مشکل کا شکار پشاور کے شہری بہزاد بھی ہیں جو مارکیٹگ کے شعبے سے وابستہ ہیں۔

بہزاد بتاتے ہیں کہ ’میں ایک دن میں ورسک روڈ سے یونیورسٹی روڈ پر واقع اپنے دفتر کے تین، چار چکر لگاتا ہوں، بچوں کو سکول چھوڑنا پھر دفتر آنا اور پھر بچوں کو گھر لے جانا اور دفتر آنا۔ اس دوران مارکٹنگ کے لیے کلائنٹس سے الگ ملنے جانا پڑتا ہے۔ چند ماہ پہلے تک موٹر سائکل پر روزانہ کا خرچہ 500 سے 600 روپے تک تھا مگر حالیہ اضافوں کے بعد یہ بڑھ کر ایک ہزار روپے تک ہو گیا ہے۔‘

’خدا ہی ہماری مڈل کلاس پر رحم کرے کیونکہ حکمرانوں کو تو کوئی احساس نہیں‘

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد سوشل میڈیا پر روایتی طور پر ایک ہی طرح کا ردِعمل دیکھنے کو ملتا ہے جس کا احاطہ ہم اس سے قبل بھی کئی تحریروں میں کر چکے ہیں۔

تاہم اس مرتبہ کیونکہ یہ اضافہ نگران حکومت نے اپنے دورِ حکومت کے آغاز میں کیا ہے اس لیے صارفین اس بارے میں بات کر رہے ہیں۔

سماجی کارکن عمار علی جان کا کہنا ہے کہ ’گذشتہ پانچ سالوں میں ہر حکومت نے ایسے فیصلے کیے کہ ہمیں پچھلی حکومت بہتر لگنے لگی۔ نگران حکومت کی جانب سے پیٹرول بم بھی اسی قسم کا پیغام بھیجنے کی کوشش ہے۔‘

’ہمیں اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ یہ کسی فرد کی نہیں پورے نظام کی بات ہے جو تنخواہ دار اور مزدور پیشہ طبقے کے خلاف ہے۔‘

ایک صارف نے لکھا کہ ’شکر ہے میں گھر سے کام کرتا ہوں، لیکن پھر بھی یہ اضافہ بہت زیادہ ہے۔‘

ماہرِ معیشت شہباز رانا کا کہنا تھا کہ ’چاہے حکومت میں جو بھی ہو، اکثریت پاکستانیوں کی زندگیاں بدتر ہوتی چلی جائیں گی۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’یہ معاملہ یہاں تک رکنے والا نہیں ہے کیونکہ ڈالر کی قیمت کنٹرول میں نہیں ہے۔‘

ہارون نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’پیٹرول کی قیمت میں اچانک اضافہ اور بجلی کے بلوں میں بھی اضافے کے بعد خدا ہی مڈل کلاس پر رحم کرے کیونکہ اس ملک میں حکمرانوں کو تو کوئی احساس نہیں۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *