پاکستان بمقابلہ زمبابوے بابر اعظم کا ستارہ روشن ہے اور پاکستان کا بھی
پاکستان وقت بچانا چاہتا تھا۔ زمبابوے اس گھڑی کو موخر کرنا چاہتا تھا جو ہزیمت بھرے اس دورے پہ مہرِ ختم ثابت ہوتی۔ اس گھڑی کی لڑائی دونوں نے اپنے اپنے تئیں لڑی۔
جیت بہر حال پاکستان کی ہوئی مگر زمبابوے کی ٹیم اپنے ارمانوں کی یہ مہین سی تلافی تو کر ہی گئی کہ کم از کم یہ میچ چوتھے دن تک تو چلا۔ بھلے چوتھے دن کا کھیل بیس ہی منٹ میں سمٹ گیا مگر شکست کی تاریخ تو بہرحال مختلف ہو گئی۔
بجائے خود یہ کوئی تشفی بخش بات نہیں ہے۔ کیونکہ اگر کل شام کا سورج کچھ پل اور افق پہ ٹھہر جاتا اور سائے یوں طویل نہ ہوتے تو بابر اعظم کے ڈریسنگ روم کو فتح کے انتظار میں ایک رات اور نہ کاٹنا پڑتی۔ ٹرافی کے ہمراہ عید کے لیے واپسی کا موقع بھی ایک روز پہلے مل جاتا۔
گو یہ کہنا مشکل ہے کہ زمبابوین بلے بازی پاکستان سے کمزور رہی یا پاکستانی بولر بلیسنگ مزربانی کے احباب سے بہتر نکلے مگر اس شکست کی پوٹلی میں فریقین کے ارمان برابر ہی ہیں۔
عابد علی کی اس بڑی اننگز کے آگے ٹیلر کے بولروں کے حوصلے تو پست ہوئے ہی تھے، ان کے بلے بازوں جرات بھی کم تر ہو گئی اور درمیان کی مثبت کرکٹ سے بٹ کر دھیان صرف انتہائی مدافعت اور انتہائی جارحیت کے بیچ ہی اٹکا رہ گیا۔
پہلی اننگز میں زمبابوین بلے بازوں کی مدافعانہ اپروچ ایسی انتہا پہ تھی کہ گویا چوتھے دن تک اسی اننگز کو گھسیٹ کر لے جائیں گے۔ لیکن جب حسن علی کی تیکھی لائن اور تنوع ان کے لیے دردِ سر ہوئے تو پوری اننگز ہی چکرا کر دھڑام سے گر گئی۔ جیسی تیسی بھی بیٹنگ لائن ہوتی، کم از کم 510 کے جواب میں دو سو رنز تو کرتی۔ مگر ٹیلر کی ٹیم ڈیڑھ سو رنز بھی نہ جوڑ پائی۔
کوئی بھی اور ٹیم ہوتی تو بابر اعظم فالو آن کروانے کی بجائے شاید اپنی برتری میں کچھ برق رفتار سو، ڈیڑھ سو رنز کے اضافے کا سوچتے اور اپنے بولرز کی تھکاوٹ کے مداوے کی بھی فکر کرتے۔ مگر زمبابوے کی اس بیٹنگ لائن پہ پاکستانی بولرز کی جرات اور مہارت کا ایسا خوف سوار تھا کہ بابر نے ایک ہی جست میں قصہ تمام کرنے کا فیصلہ کیا۔
دوسرے ٹی ٹونٹی کے بعد کل کی دوسری زمبابوین اننگز وہ دوسرا موقع تھا کہ جب ٹیم صحیح انداز میں کاؤنٹر اٹیک کرتی نظر آئی۔ نعمان علی کو ہدف بنا لیا گیا اور نعمان نے بھی یہ لڑائی پوری طرح قبول کی۔ انھوں نے زمبابوین بلے بازوں کی متوقع لائن پہ گیندیں پھینکیں اور انھیں باؤنڈریز بٹورنے کا موقع بھی دیا۔
لیکن اسی بیچ وہ اِکا دُکا متغیر گیندیں بھی پھینکتے گئے جن کے جال میں یکے بعد دیگرے سبھی آتے گئے۔ دوسرے اینڈ سے شاہین شاہ آفریدی ایسے ردھم میں آئے کہ ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں اٹھائیس سال بعد کسی ایک ہی ٹیم کے تین بولرز نے پانچ وکٹیں فی کس حاصل کیں۔
پاکستان کی ٹیسٹ تاریخ میں یہ پہلا ریکارڈ موقع تھا۔
رواں آئی سی سی ٹیسٹ چیمپئین شپ کے تناظر میں اس دورے کی اہمیت گو اتنی زیادہ نہیں مگر اگلے سائیکل کے پہلے دورۂ کریبین کے حوالے سے یہ جیت بہت کلیدی ثابت ہو سکتی ہے۔
اگرچہ پاکستانی بیٹنگ کو ابھی کئی سوالوں کے جواب دینا ہیں مگر بولرز نے جو اعتماد یہاں حاصل کیا، محمد عباس کی متوقع واپسی کے بعد یہ ویسٹ انڈین کنڈیشنز میں بہت بار آور ثابت ہو گا۔
لگ بھگ ڈیڑھ ماہ پہ محیط اس افریقی دورے کا ثمر واقعی شیریں ہے کہ پاکستان نے اس میں کوئی بھی سیریز ہاری نہیں۔ اور ٹیسٹ کرکٹ میں رواں سال میں پاکستان کے متواتر دوسرے کلین سویپ سے کواکب یہی نظر آتے ہیں کہ بابر اعظم کی قیادت کا ستارہ روشن ہے اور ان کے ساتھ پاکستان کا بھی۔