ٹائٹن کی تباہی اور مسافروں کی ہلاکت کی تصدیق

ٹائٹن کی تباہی اور مسافروں کی ہلاکت کی تصدیق

ٹائٹن کی تباہی اور مسافروں کی ہلاکت کی تصدیق رابطہ منقطع ہونے کے کچھ دیر بعد امریکی بحریہ نے دھماکے سے ہم آہنگ آواز ریکارڈ کی تھی

امریکی بحریہ کے ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ بحرِ اوقیانوس میں ٹائٹینک کے ملبے کے پاس تباہ ہونے والی تفریحی آبدوز ٹائٹن سے رابطہ منقطع ہونے کے کچھ دیر بعد کسی دھماکے سے ہم آہنگ ایک غیر معمولی آواز ریکارڈ کی گئی تھی جو ممکنہ طور پر آبدوز کے تباہ ہونے سے پیدا ہوئی تھی۔

امریکی ٹی وی چینل سی بی ایس نیوز سے بات کرتے ہوئے اہلکار نے بتایا کہ ان معلومات کو فوری طور پر امریکی کوسٹ گارڈ کو فراہم کیا گیا جنھوں نے اسے اپنی تلاش کا دائرہ محدود کرنے کے لیے استعمال کیا۔

تاہم یہ واضح نہیں کہ یہ معلومات پہلے عام کیوں نہیں کی گئیں۔

خیال کیا جاتا ہے کہ دھماکے سے ہم آہنگ آواز امریکی بحریہ کے خفیہ لانگ رینج سونار نظام نے ریکارڈ کی تھی۔ صوتی نگرانی کا نظام 1950 کی دہائی میں سرد جنگ کے دوران بحر اوقیانوس کی دور دراز گہرائیوں میں سوویت آبدوزوں کی موجودگی کا پتا لگانے کے لیے بنایا گیا تھا۔

ٹائٹن نامی تفریحی آبدوز اتوار کو بحرِ اوقیانوس میں 3800 میٹر گہرائی میں موجود تاریخی بحری جہاز ٹائٹینک کے ملبے تک تفریحی سفر پر روانہ ہوئی تھی لیکن سفر کے آغاز کے پونے دو گھنٹے بعد اس سے رابطہ منقطع ہو گیا تھا۔

چار دن سے زیادہ عرصے تک جاری رہنے والی کثیرالقومی امدادی کارروائی کے بعد جمعرات کو امریکی کوسٹ گارڈز نے تصدیق کر دی تھی کہ لاپتہ آبدوز تباہ ہو چکی ہے اور اس پر سوار دو پاکستانی نژاد برطانویوں سمیت پانچوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

اس تفریحی سفر کا انتظام کرنے والی اوشیئن گیٹ کمپنی، جس کے بانی بھی ٹائٹن آبدوز میں سوار تھے، نے ایک بیان میں کہا کہ ‘ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے سی ای او سٹاکٹن رش، شہزادہ داؤد، ان کے بیٹے سلیمان داؤد، ہمیش ہارڈنگ اور پال ہینری، کھو چکے ہیں۔’

اس بیان سے قبل امریکی کوسٹ گارڈ کی جانب سے تصدیق کی گئی تھی کہ ٹائٹن کی تلاش کے دوران سمندر کی تہہ میں ٹائٹینک کے ڈھانچے کے قریب سے کچھ ملبہ ملا ہے۔

mauger
امریکی کوسٹ گارڈ کے ریئر ایڈمرل جان ماگر نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ جمعرات کی صبح ٹائٹن آبدوز کی دم ٹائٹینک کے ملبے سے تقریبا 1600 فٹ دور سے ملی۔

ٹائٹن آبدوز میں سوار مسافروں کے ایک دوست اور غوطہ خوری کے ماہر ڈیوڈ میرنز نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ اس ملبے میں ٹائٹن آبدوز کا لینڈنگ فریم بھی شامل ہے۔

امریکی کوسٹ گارڈ کے ریئر ایڈمرل جان ماگر نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ جمعرات کی صبح ٹائٹن آبدوز کی دم ٹائٹینک کے ملبے سے تقریبا 1600 فٹ دور سے ملی۔ انھوں نے بتایا کہ تلاش کے دوران اضافہ ملبہ بھی دریافت ہوا۔

امریکی کوسٹ گارڈز کے مطابق ریموٹلی آپریٹڈ وہیکلز (آر او ویز) سمندر کی تہہ میں ہی موجود رہیں گے اور مزید معلومات اکھٹا کرنے کی کوشش کریں گے۔ حکام کا کہنا ہے کہ ‘شاید ہلاک ہونے والوں کی لاشوں کو ڈھونڈنا ممکن نہ ہو سکے کیونکہ اس مقام پر سمندری ماحول انتہائی خطرناک ہوتا ہے۔’

ٹائٹینک کا ملبہ سمندر کے جس حصے میں موجود ہے اسے ‘مڈنائٹ زون’ کہا جاتا ہے کیونکہ وہ درجہ حرارت منجمد کر دینے والا اور وہاں گھپ اندھیرا ہوتا ہے۔ماہرین کے مطابق زیر سمندر جس جگہ ٹائٹن آبدوز گئی، وہاں کا ماحول اور حالات زمین کے بیرونی خلا جیسے سخت اور مشکل ہیں۔

شہزادہ اور سلیمان

’سانحے کے باعث لوگوں کا بہترین اور بھیانک کردار نمایاں ہوا‘

داؤد خاندان کی جانب سے ٹوئٹر پر جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’انتہائی افسوس کے ساتھ ہم شہزادہ اور سلیمان داؤد کی موت کا اعلان کرتے ہیں۔

’ہمارے پیارے بچے اوشن گیٹ کی ٹائٹن آبدوز پر موجود تھے جو زیرِ سمند غرقاب ہوئی۔ وفات پانے والوں اور ہمارے خاندان کو اس مشکل موقع پر اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔‘

بی بی سی کو دیے گئے بیان میں خاندان کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’اس نوعیت کے کسی بھی سانحے کی طرح اس نے بھی لوگوں کے بہترین اور بھیانک کردار کو عیاں کیا۔‘

’کچھ ایسے موقعوں پر اپنی استطاعت سے بڑھ کر سہارا دیتے ہیں اور کچھ ایسے موقعوں کو اپنے ذاتی فائدے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ایسے میں کون کیسا رویہ دکھاتا ہے یہ دراصل ان کے اپنے کردار کی عکاسی کرتا ہے۔‘

بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم صحیح معنوں میں شکرگزار ہیں ان افراد کے جنھوں نے ریسکیو آپریشن میں حصہ لیا، ان کی ان تھک کوششیں اس مشکل وقت میں ہمارے لیے ہمت کا ذریعہ تھیں۔

’ہم اپنے دوستوں، خاندان، ساتھ کام کرنے والوں اور پوری دنیا میں ہمارے لیے نیک تمنائیں رکھنے والوں کے شکرگزار ہیں جو اس مشکل وقت میں ہمارے ساتھ کھڑے ہوئے۔ اس بے پناہ پیار اور اس دوران ملنے والے سہارے سے ہم اس ناقابلِ تصور نقصان سے نمٹنے کی کوشش کر سکے ہیں۔‘

داؤد خاندان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ہم ٹائٹن آبدوز میں موجود دیگر مسافروں کے خاندانوں سے بھی افسوس کرتے ہیں۔‘

خاندان کی جانب سے کہا گیا ہے ان کی آخری رسومات کے حوالے سے جلد اعلان کر دیا جائے گا۔

گہرائی میں پانی کا دباؤ کیسے ہلاکت خیز ہوتا ہے؟

titan

آپ جتنی گہرائی میں جائیں گے، اتنا ہی آپ کے اوپر موجود پانی آپ کو دباتا ہے۔

یہ واضح نہیں ہے کہ ٹائٹن آبدوز کے پھٹنے کی اصل وجہ کیا ہے، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اس کے بیرونی ڈھانچے میں معمولی سی کمزوری کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے۔

سطح سمندر پر محسوس ہونے والے دباؤ کو ’ون ایٹموسفیئر‘ یا تقریباً 6.6 کلو گرام فی مربع انچ دباؤ کہا جاتا ہے۔

پانی کی گہرائی کے ہر 10 میٹر کے بعد یہ دباؤ دگنا ہوتا جاتا ہے۔ لہٰذا تین ہزار میٹر کی گہرائی میں تقریباً جہاں آبدوز تباہ ہوئی دباؤ سطح کے دباؤ سے تقریباً 300 گنا زیادہ تھا۔

ٹائٹینک کا ملبہ اس مڈ نائٹ زون میں پڑا ہوا ہے، جسے باضابطہ طور پر بیتھیپلیجک زون کہا جاتا ہے، جو تین ہزار تین سو فٹ سے 13 ہزار ایک سو فٹ کے درمیان واقع ہے۔ یہاں کا درجہ حرارت تقریباً چار سینٹی گریڈ ہوتا ہے اور دباؤ سطح سمندر سے کم از کم 100 گنا زیادہ ہے۔

بہت کم جاندار ایسے ہیں جو اس گہرائی میں زندہ رہنے اور انتہائی دباؤ، اندھیرے اور سردی سے بچنے کے قابل ہیں اور جب انھیں سطح پر لایا جاتا ہے تو وہ جلد ہی مر جاتے ہیں۔

تلاش کا محور کون سا مقام تھا؟

visual

ٹائٹن آبدوز میں موجود افراد کا سطح آب پر موجود بحری جہاز پولر پرنس سے رابطہ اتوار کو زیرِ آب سفر شروع کرنے کے ایک گھنٹہ 45 کے بعد منقطع ہو گیا تھا۔

آبدوز میں موجود افراد کے پاس آکسیجن کی اضافی سپلائی جمعرات کو پاکستانی وقت کے مطابق چار بجے ختم ہونا تھی۔

ٹائٹینک کا ملبہ سینٹ جانز نیوفاؤنڈ لینڈ سے 435 میل جنوب میں واقع ہے۔

امریکہ اور کینیڈا کی ایجنسییاں، بحریہ اور کمرشل کمپنیاں جو سمندر کی گہرائی میں کام کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اس ریسکیو آپریشن کا حصہ بنیں۔ اس آپریشن کو بوسٹن میساچوسٹس سے چلایا گیا اور اس میں فوجی طیاروں اور سونار بوئے کی مدد لی گئی ہے۔

ان بحری جہازوں میں سے کچھ میں ’ریموٹلی آپریٹڈ وہیکلز‘ (آر او ویز) موجود تھے جنھیں سمندر کی تہہ میں اس آبدوز کو ڈھونڈنے کے لیے استعمال کیا گیا۔

پروفیسر ایلیسٹیئر گریگ یونیورسٹی کالج لندن میں آبدوزوں کے حوالے سے تحقیق کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان مسائل میں سب سے اہم مسئلہ یہ تھا کہ ریسکیو کرنے والوں کو یہ معلوم نہیں کہ انھیں اس آبدوز کو سطح سمندر پر ڈھونڈنا ہے یا سمندر کی تہہ میں کیونکہ اس بات کا ’امکان بہت کم ہے‘ کہ یہ کہیں درمیان میں موجود ہو۔

visual

شہزادہ داؤد کون ہیں؟

پاکستان کے ایک بڑے کاروباری خاندان کے رکن اور برطانیہ میں ’پرنس ٹرسٹ چیریٹی‘ کے بورڈ ممبر 48 سالہ شہزادہ داؤد اور اُن کے 19 سالہ بیٹے سلیمان بھی اُس لاپتہ آبدوز میں سوار تھے۔

آبدوز لاپتہ ہونے کے بعد داؤد فیملی کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا تھا کہ ’ہمارے بیٹے شہزادہ داؤد اور اُن کے بیٹے سلیمان نے بحر اوقیانوس میں ٹائیٹینک کی باقیات کو دیکھنے کے لیے سفر کا آغاز کیا تھا۔ فی الحال، اُن کی سب میرین کرافٹ (چھوٹی آبدوز) سے رابطہ منقطع ہو چکا ہے اور اس کے بارے میں دستیاب معلومات محدود ہیں۔‘

داؤد خاندان کا شمار پاکستان کے امیر ترین خاندانوں میں ہوتا ہے لیکن ان کے برطانیہ کے ساتھ بھی گہرے روابط ہیں۔

شہزادہ داؤد اینگرو کارپوریشن کے نائب چیئرمین تھے۔ یہ کمپنی کھاد، کھانے پینے کی اشیا اور توانائی کے شعبے میں کام کرتی ہے۔ ان کے بیٹے سلیمان یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم تھے۔

خاندان کے ترجمان کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ ’سلیمان سائنس فکشن لٹریچر کے بڑے مداح ہیں اور انھیں نئی نئی چیزیں سیکھنے کا شوق ہے۔‘

برطانوی میڈیا کے مطابق شہزادہ داؤد پاکستان میں پیدا ہوئے تھے لیکن بعد میں برطانیہ منقتل ہو گئے جہاں انھوں نے یونیورسٹی آف بکنگھم سے شعبہ وکالت میں تعلیم حاصل کی جبکہ انھوں نے گلوبل ٹیکسٹائیل مارکیٹنگ میں فلاڈیلفیا یونیورسٹی سے ایم ایس سی بھی کی۔

پاکستان

شہزادہ داؤد خلا میں ریسرچ کرنے والے ایک کمپنی ’ایس ای ٹی آئی‘ انسٹیٹیوٹ کے ٹرسٹی بھی تھے اور اس ادارے کی ویب سائیٹ پر ان سے متعلق کچھ تفصیلات فراہم کی گئی ہیں۔

ان تفصیلات کے مطابق شہزادہ داؤد اپنی اہلیہ کرسٹین اور اپنے بچوں سلیمان اور علینا کے ہمراہ برطانیہ میں مقیم تھے۔ انھیں فوٹو گرافی کا شوق تھا اور وہ جانوروں سے محبت کرنے والے شخص کے طور پر جانے جاتے تھے۔

شہزادہ داؤد ’داؤد ہرکولیس کارپوریشن‘ کے وائس چیئرمین تھے۔ ’داؤد ہرکولیس کارپوریشن‘ داؤد گروپ کا حصہ ہے اور یہ خاندان گذشتہ ایک صدی سے زائد عرصے سے کاروبار کی دنیا میں مصروف عمل ہے۔ شہزادہ داؤد سنہ 1996 میں خاندانی کاروبار میں شامل ہوئے جہاں ان کی مہارت کارپوریٹ گورننس اور پاکستان میں صنعتی شعبے کی تجدید میں ہے۔

داؤد ہرکولیس کارپوریشن صنعتوں کے ایک متنوع سلسلے کا انتظام و انصرم سنبھالتی ہے جہاں شہزادہ داؤد توانائی، زرعی و غذائی اشیا، خوراک، پیٹرو کیمیکلز اور ٹیکسٹائل جیسے شعبوں کے انضمام اور ترقی و اختراع کے مواقع تلاش کرنے میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔

شہزادہ داؤد اینگرو کارپوریشن لمیٹڈ اور داؤد لارنس پور لمیٹڈ کے بورڈز میں بطور شیئر ہولڈر ڈائریکٹر بھی شامل تھے۔

ٹائٹینک کے ملبے کو دیکھنے کی مہم کیا ہے؟

ٹایٹینک

اوشیئن گیٹ کمپنی کی اشتہاری مہم کے مطابق آٹھ دن کا یہ سفر عام زندگی سے نکل کر کچھ غیر معمولی دریافت کرنے کا موقع ہے۔

کمپنی کی ویب سائٹ کے مطابق 2024 میں بھی دو مہمات بھیجنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔

اس چھوٹی سی آبدوز میں ایک پائلٹ کے علاوہ تین مہمان مسافر ہوتے ہیں جو ٹکٹ کی ادائیگی کرتے ہیں۔ ان کے علاوہ کمپنی کے مطابق ایک ماہر بھی آبدوز میں سوار ہوتا ہے۔

اس مہم کا آغاز نیو فاؤنڈ لینڈ میں سینٹ جونز سے ہوتا ہے۔

کمپنی کی وی سائٹ کے مطابق اس کے پاس تین آبدوزیں ہیں جن میں سے صرف ٹائٹن نامی آبدوز اتنی گہرائی تک جانے کی صلاحیت رکھتی تھی۔

اس آبدوز کا وزن 10432 کلو تھا اور ویب سائٹ کے مطابق یہ 13100 فٹ کی گہرائی تک جا سکتی ہے۔ اس آبدوز میں 96 گھنٹے تک کے لیے لائف سپورٹ موجود ہوتی ہے۔

واضح رہے کہ ٹائٹینک اپنے وقت کا سب سے بڑا بحری جہاز تھا جو 1912 میں نیو یارک جاتے ہوئے اپنے پہلے ہی سفر پر ایک برفانی تودے سے ٹکرا کر ڈوب گیا تھا۔ اس جہاز پر سوار 2200 مسافروں اور عملے کے اراکین میں سے 1500 سے زیادہ ہلاک ہو گئے تھے۔

اس جہاز کا ملبہ 1985 میں پہلی بار دریافت ہوا تھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *