ویکسین سیاحت جب اپنے ملک میں ویکسین ملنے کی امید نہ ہو تو کیا بیرون ملک جانا اخلاقی طور پر صحیح ہے؟
یہ اپریل 2021 کے وسط کی بات ہے۔ ماسکو میں گھومنے والے سیاحوں کا ایک گروہ آگے پروگرام کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔ اس کے پروگرام میں ایک جگہ کا ذکر بھی تھا جو سیاحت کے لیے عجیب سمجھا جاسکتا تھا۔
وہ ایک نجی میڈیکل کلینک جانے والے تھے۔ ان سیاحوں کو ماسکو کے عالمی سطح کے سیاحتی مراکز میں دلچسپی نہیں تھی بلکہ وہ روس کی مشہور کووڈ ویکسین ‘سپوتنک وی’ چاہتے تھے۔
سیاحوں کے اس گروہ میں زیادہ تر افراد جرمنی سے تھے۔ یہ لوگ اپنے وطن میں کووڈ ویکسینیشن کی سست رفتار کے بارے میں مایوس تھے۔ ان میں ایک اینو لینزے بھی تھا۔
برلن کے رہائشی اینو لینزے نے بی بی سی کو بتایا ’مجھے جرمنی میں ویکسین لگنے کی کوئی امید نہیں تھی۔ جب میں نے اپنے ڈاکٹر سے پوچھا کہ میری باری کب آئے گی تو انہوں نے کہا شاید اکتوبر یا نومبر میں۔
ناروے کی ٹریول ایونٹ ٹور کمپنی ‘ورلڈ وزٹر’ روس کے لیے ان ‘ویکسینیشن ٹرپ’ کا اہتمام کرتی ہے۔ اس میں سیاحوں کی ہر ضرورت کا خیال رکھا جاتا ہے جیسے میڈیکل کلینک سے لے کر ویکسینیشن سنٹر تک ان کے آنے جانے کے انتظامات۔
یہ کمپنی ویکسین کی ہر خوراک کے لیے سیاحوں کے قیام و طعام کا پیکیج دیتی ہے اور اگر کوئی سیاح دوسری خوراک کے لیے روس میں رہنا چاہتا ہے تو اس کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔
روس آنے والے لوگوں کو ریپڈ کووڈ ٹیسٹ کا سرٹیفکیٹ دینا ہوتا ہے جو منفی ہونا چاہیے اور یہ ٹیسٹ رپورٹ 72 گھنٹوں سے زیادہ پرانی نہیں ہونی چاہیے۔ روس میں باہر سے آنے والے لوگوں کے لیے قرنطینہ کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔
ٹریول اینٹ ٹور کمپنی کے مالکان میں سے ایک، البرٹ سیگل نے بی بی سی کو بتایا کہ 43 سیاحوں کی پہلی کھیپ 16 اپریل کو روس پہنچی تھی اور اس کے بعد سے انھوں نے 600 سے زیادہ بکنگ لی ہیں۔
’الجھانے والے قواعد‘
اینو لینزے ‘برلن سٹوری’ میوزیم کے ڈائریکٹر ہیں۔ وہ عراق کے علاقے کردستان کا اکثر سفر کرے ہیں جہاں کورونا انفیکشن کے کیسز بہت زیادہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مہاجرین کی امداد کام بھی ان کے ذمے ہوتا ہے۔
اگرچہ جرمنی میں امدادی کاموں سے وابستہ لوگوں کو ویکسین لگانے کے عمل میں ترجیح دینے کا انتظام ہے، اینو لینزے کا کہنا ہے کہ انھیں یہ ویکسین نہیں ملی کیونکہ وہ یہ کام ایک رضاکار کی حیثیت سے کرتے ہیں۔
اینو لینزے نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’قواعد بعض اوقات بہت ہی عجیب ہوتے ہیں۔ مجھے ویکسین نہیں ملتی تھی۔‘
جب انھوں نے ماسکو کے لیے بکنگ کروائی تب تک ان کے 70 سالہ والد کو بھی یہ ویکسین نہیں مل سکی تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ جرمنی میں ویکسین دینے کی ترجیحی فہرست میں کوئی خرابی نہیں لیکن اس سے حفاظتی ٹیکوں کا عمل غیرمعمولی طور پر سست پڑجاتا ہے۔
تاہم ویکسین حاصل کرنے میں مبینہ ‘عدم توازن’ کے بارے میں دنیا بھر کے لوگوں سے شکایات ہیں۔ جن کے پاس پیسہ ہے ان کے پاس یہ اختیار بھی موجود ہے کہ وہ کہیں بھی جاکر ویکسین لیں۔
ایسے ممالک کی فہرست میں سربیا، امریکہ، متحدہ عرب امارات اور یہاں تک کہ مالدیپ جیسے ممالک کے نام بھی شامل ہیں۔
مالدیپ سیاحوں کے لیے ٹریول پیکیج سکیم پر بھی کام کر رہا ہے جس میں ‘تھری وی’ یعنی ‘وزٹ، تعطیل اور تعطیل’ مسافروں کو پیش کی جارہی ہے۔ یعنی مالدیپ آئیں، ویکسین لگائیں اور چھٹیاں منائیں۔
مالدیپ کی وزارت سیاحت نے بی بی سی کو ایک ای میل میں بتایا کہ ’تھری وی مہم مالدیپ آنے کا فیصلہ کرنے والے سیاحوں کو شکریہ ادا کرنے کا طریقہ ہے تاکہ جب وہ یہاں سے وطن واپس آئیں تو وہ کہہ سکتے ہیں کہ انھیں ٹیکے لگ گئے ہیں اور سرٹیفکیٹ بھی موجود ہے۔‘
’ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمارے جزائر جغرافیائی طور پر الگ تھلگ ہیں اور اچھے معیار کا کووڈ پروٹوکول نافذ ہے۔‘
کچھ عرصہ پہلے تک سربیا غیر ملکیوں کو اضافی کووڈ ویکسین کی بچی ہوئی سپلیمنٹس دے رہا تھا، لیکن حکومت نے اپنی آبادی کی ویکسینیشن کو ترجیح دینے کے مقصد سے اس پر پابندی عائد کر دی ہے۔
اس کے علاوہ امریکہ میں، جہاں کیلیفورنیا ، ٹیکساس اور نیویارک میں تارکین وطن اور جائز دستاویزات کے بغیر افراد کی بڑی تعداد آباد ہے، ویکسین لینے کی کوشش کرنے والے افراد کی تعداد اچانک بڑھ گئی ہے۔
ان میں کینیڈا اور لاطینی امریکہ سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شامل ہیں جو یہاں ویکسین لگانے کے آسان اصولوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اس بارے میں بھی ایک تنازع کھڑا ہو چکا ہے۔
فلوریڈا میں بہت سے دولت مند امریکی اور غیر ملکی مقیم ہیں۔ یہاں 65 سال سے اوپر کے لوگوں کو ویکسین میں ترجیح دی جارہی ہے اور یہ نہیں دیکھا جاتا ہے کہ وہ کہاں سے ہیں۔
حال ہی میں میکسیکو سے تعلق رکھنے والے 73 سالہ ٹی وی میزبان وان جوزے اوریگل نے ٹوئٹر پر اپنے 1.3 ملین فالوورز کو بتایا کہ میامی میں کووڈ ویکسین ملنے سے وہ کتنے خوش اور پرسکون محسوس کر رہے ہیں۔
انھوں نے جنوری میں ٹوئٹر پر کہا کہ ’امریکہ کا شکریہ، کتنے افسوس کی بات ہے کہ میرے ملک نے مجھے یہ تحفظ نہیں دیا۔‘
اُس وقت تک میکسیکو میں میڈیکل عملہ اور فرنٹ لائن ورکرز بھی کورونا ویکسین کے لیے اہل نہیں تھے۔
’اخلاقیات کا سوال’
لیکن جو لوگ ویکسین سیاحت کے بارے میں سوشل میڈیا پر تشہیر کر رہے ہیں ان پر بھی ہر طرف تنقید ہورہی ہے۔
دنیا بھر میں ویکسین کی تقسیم کی غیر مساوی صورتحال کے پیش نظر، ‘گلوب ٹرینڈر’ نے اس رجحان پر اخلاقی سوال اٹھایا ہے۔
جنوری میں یہ بات منظر عام پر آئی تھی کہ لندن کی مشہور ٹریول ایجنسی ‘نائٹس برج سرکل’ دبئی میں لگژری ویکسینیشن دورے کروا رہی ہے اور اس کے لیے 40 ہزار پاؤنڈ میں بکنگ لی جا رہی تھی۔
لیکن یہ خدمت خصوصی طور پر ‘نائٹس برج سرکل’ کے ممبروں کے لیے مخصوص تھی جنھوں نے کمپنی کے سفر اور طرز زندگی کی خدمات کے لیے25 ہزار پونڈ ممبرشپ فیس ادا کرتے تھے۔
‘اخلاقی طور پر کچھ بھی غلط نہیں’
عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں وبا کے پھیلاؤ کو دیکھتے ہوئے صحت کے کارکنوں کو کووڈ ویکسین فراہم کرنے میں ترجیح دی جانی چاہیے۔
اس کے علاوہ، ڈبلیو ایچ او کے رہنما خطوط کے مطابق، بزرگ اور انفیکشن کا خطرہ زیادہ ہونے والوں کو ترجیح دی جانی چاہیے۔
ضروری خدمات سے وابستہ افراد جن کو سفر کرنا پڑتا ہے ان کو بھی اس ترجیحی فہرست میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ ڈبلیو ایچ او کا یہ بھی کہنا ہے کہ مقامی سطح پر انفیکشن کے بڑھتے ہوئے واقعات کی صورت میں ویکسین کی مناسب فراہمی برقرار رکھنی چاہیے۔
تاہم وہ ممالک جو اپنے زائرین کو ویکسین پیش کررہے ہیں، وہ یہ نہیں سوچتے کہ فراہمی میں کوئی پریشانی ہے یا نہیں۔