وزیراعظم شہباز شریف نئے آرمی چیف کا اعلان کیوں نہیں کر رہے ہیں؟
پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ خود بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ مدت ملازمت میں مزید توسیع نہیں لیں گے جبکہ فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار بھی متعدد بار توسیع نہ لینے کے فیصلے کی واضح الفاظ میں وضاحت کر چکے ہیں۔
دوسری جانب آرمی چیف نے الوداعی ملاقاتوں کا سلسلہ بھی شروع کر دیا ہے تو پھر ایسے میں وزیراعظم شہباز شریف نئے آرمی چیف کو نامزد کیوں نہیں کر رہے؟ اور کیا یہ ضروری ہے کہ سبکدوش ہونے والے سربراہ کی ریٹائرمنٹ کے دن سے فقط ایک یا دو روز پہلے ہی نئے آرمی چیف کے نام کا اعلان کیا جائے؟
پاکستان میں آرمی چیف کی تعیناتی ایک بڑا موضوع بن گیا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ملک میں فوج اور انٹیلیجینس ایجنسیوں کی پارلیمانی نظام میں براہ راست یا بلاواسطہ مداخلت رہی ہے اور 75 برس کی تاریخ کا بیشتر حصہ باقاعدہ آمریت کا دور بنا رہا۔
دوسری وجہ ’سوفٹ کُو‘ جیسی وہ اصطلاحات ہیں جو حالیہ کچھ برسوں میں جمہوری نظام کے تسلسل کے بیچ اپنا راستہ بناتی رہی ہیں۔ سونے پر سہاگہ سوشل میڈیا ہے جہاں ہر کوئی ہر سیاسی مسئلے کی جڑ آرمی چیف کی تعیناتی اور توسیع کو قرار دیتا نظر آتا ہے۔
اگرچہ ماضی قریب میں حزب اختلاف کے رہنما عمران خان نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ آرمی چیف کی تعیناتی کو فی الحال روکتے ہوئے جنرل باجوہ کو ہی مخصوص مدت کے لیے توسیع دی جائے، نئے عام انتخابات کروائے جائیں اور نیا آنے والا وزیر اعظم یہ اہم تعیناتی خود کرے۔ تاہم اب گذشتہ چند روز کے دوران انھوں نے اپنے متعدد بیانات میں کہا ہے کہ آرمی چیف جو بھی تعینات ہو اس سے انھیں اور ان کی پارٹی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
پاکستان کے سیاسی حلقوں میں یہ تاثر عام ہے کہ نومبر میں لانگ مارچ کی بڑی وجہ جلد انتخابات کے ساتھ ساتھ نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے معاملے پر دباؤ ڈالنا ہے۔ موجودہ حکومت کے مطابق وہ کسی قسم کے دباؤ کو قبول نہیں کریں گے۔ اگر ایسا ہے تو پھر حکومت جلد از جلد نئے آرمی چیف کی تعیناتی کا اعلان کیوں نہیں کر دیتی؟
اس پر بات کرنے سے پہلے ذرا ماضی میں ہونے والی فوجی سربراہان کی تعیناتیوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں کہ نئے فوجی سربراہ کی تعیناتی اور سبکدوش ہونے والے چیف کی ریٹائرمنٹ میں کتنے دن کا وقفہ ہوتا ہے۔ اس حوالے سے بی بی سی نے ریٹائرڈ افسران اور ان تعیناتیوں کو قریب سے دیکھنے والے سیاسی رہنماؤں سے بات کی ہے۔
نئے چیف کی تعیناتی اور سبکدوش ہونے والے سربراہ کی ریٹائرمنٹ میں کتنا وقفہ ہوتا ہے؟
پاکستان میں کسی بھی فوج کے سربراہ یعنی سروس چیف کی تعیناتی کا طریقہ آئین میں درج ہے اور یہ تعیناتی خود وزیراعظم نے کرنی ہوتی ہے۔ مسلح افواج کے سربراہان کی تعیناتی کا اعلان عام طور پر سبکدوش ہونے والے سربراہان کی ریٹائرمنٹ سے کم از کم ایک دن جبکہ زیادہ سے زیادہ ایک ہفتہ پہلے کیا جاتا ہے تاہم اس حوالے سے کوئی پابندی نہیں ہے۔
یہ وزیر اعظم کی صوابدید ہے کہ وہ کب نئے چیف کا اعلان کریں۔ اگر تاریخ دیکھی جائے تو گذشتہ چند دہائیوں میں ایک مخصوص طریقہ کار تو نظر آتا ہے مگر یہ بھی ہوا کہ فوجی سربراہ کی تعیناتی چند گھنٹوں سے چند مہینوں کے وقفے تک کے دوران بھی کی گئی ہے۔ اب تک صرف ایک بار ایسا ہوا ہے جب نئے آرمی چیف دو ماہ پہلے تعینات کر دیے گئے تھے۔
سنہ 1991 میں جب نواز شریف کی ہی حکومت تھی تو اس وقت کے آرمی چیف جنرل آصف نواز کی تعیناتی کا اعلان پرانے آرمی چیف کی سبکدوشی سے دو ماہ پہلے کر دیا گیا تھا مگر نواز شریف نے ہی ایئر فورس کے سربراہ ایئرچیف مارشل ریٹائرڈ سہیل امان کی تعیناتی سبکدوش ہونے والے ایئرچیف کی ریٹائرمنٹ سے چند گھنٹے پہلے کی تھی۔
لیکن یہاں ہم فی الحال صرف پاکستان آرمی کی بات کرتے ہیں۔ یہ روایت بن گئی ہے کہ بحریہ اور فضائیہ کے چیفس کی تعیناتی کے برعکس پاکستان آرمی سے ہر تین سال بعد پاکستان آرمی سے دو فور سٹار جنرلز ترقی پاتے ہیں۔
ان میں سے ایک چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے عہدے پر تعینات ہوتا ہے جبکہ دوسرا آرمی چیف بنتا ہے۔
سابق سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ آصف یاسین کے مطابق چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے عہدے کے لیے اصولی طور پر تینوں مسلح افواج سے افسر تعینات ہونے چاہییں جو اس عہدے کا مقصد بھی تھا اور ایسا ماضی میں ہوا بھی تاہم اب یہ روایت بن گئی ہے کہ یہ عہدہ بھی پاکستان آرمی کے حصے میں آتا ہے۔
سات اکتوبر 2007 کو جنرل پرویز مشرف نے جنرل اشفاق پرویز کیانی کو وائس چیف آف دی آرمی سٹاف اورجنرل طارق مجید کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی تعینات کیا تھا۔
تاہم اس تعیناتی کے ڈیڑھ مہینے بعد یعنی 28 نومبر کو پرویز مشرف کو آرمی چیف کا عہدہ چھوڑنا پڑا اور یوں جنرل اشفاق پرویز کیانی سینیئر ترین اور وائس چیف ہونے کی وجہ سے آرمی چیف تعینات ہو گئے۔
یہاں ان دونوں عہدوں پر تعیناتی جو عام طور پر ایک ہی دن ہوتی تھی، اب بدل گئی۔
سنہ 2010 میں جنرل طارق مجید سات اکتوبر کو اپنے عہدے کی مدت پوری کر کے ریٹائر ہوئے اور اسی دن ان کی جگہ جنرل ریٹائرڈ خالد شمیم نے لے لی تاہم اس بار جنرل اشفاق پرویز کی توسیع کا اعلان اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اسی سال جولائی میں قوم سے خطاب میں بھی کیا تھا۔
تقریبا چار ماہ بعد 28 نومبر کو جنرل ریٹائرڈ اشفاق پرویز کیانی کی مدت ملازمت مکمل ہونے پر انھیں مزید تین سال کی توسیع دے دی گئی۔
سنہ 2013 میں جب نواز شریف ملک کے وزیر اعظم تھے تو سات اکتوبر کو جنرل خالد بھی ریٹائر ہو گئے لیکن جنرل اشفاق پرویز کیانی کی بطور آرمی چیف مدت ملازمت مکمل ہونے میں ابھی اکتوبر اور نومبر کے مہینے باقی تھے۔
اس موقع پر نواز شریف نے فیصلہ کیا کہ ان دونوں عہدوں کی تاریخ ایک ہی کر دی جائے گی۔ چنانچہ انھوں نے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے نام کا اعلان مؤخر کر دیا۔
سات اکتوبر سے 27 نومبر 2013 تک یہ عہدہ خالی رہا۔ 27 نومبر یعنی آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ سے محض دو دن قبل نواز شریف نے جنرل راشد محمود کو چیئرمین جوائنٹ چیفس اور جنرل راحیل شریف کو آرمی چیف کے لیے نامزد کر دیا۔
چونکہ مسلح افواج میں عہدے پر تعیناتی عہدہ خالی ہوتے ہی ہو جاتی ہے، اسی لیے اس بار بھی جنرل راشد محمود کو اگلے دن ہی چارج سنبھالنا پڑا جبکہ راحیل شریف نے جنرل اشفاق کی ریٹائرمنٹ کا انتظار کرتے ہوئے 29 نومبر کو عہدے کا چارج سنبھالا۔
یہی وجہ ہے کہ آج ان دونوں فور سٹار عہدوں پر تعیناتی کی تاریخ مختلف ہے۔
اسی طرح 26 نومبر کو نواز شریف نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو آرمی چیف اور جنرل زبیر محمود حیات کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی نامزد کیا جنھوں نے دو دن بعد عہدے کا چارج سنبھالا۔
تین سال بعد جنرل قمر جاوید باجوہ کو اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے تین سال کی توسیع دی اور ساتھ ہی 28 نومبر کو جنرل ندیم نے چیئرمین کا عہدہ سنبھال لیا۔
اب 28 نومبر کو نئے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جبکہ 29 نومبر کو آرمی چیف عہدہ سنبھالیں گے۔ اس طرح اب تک کی ان تعیناتیوں کے اعلان میں چند دن ہی نظر آتے ہیں۔
اس کی وجہ کوئی قانونی یا آئینی رکاوٹ نہیں۔ اس بارے میں بات کرتے ہوئے سابق لیفٹیننٹ جنرل امجد شعیب کہتے ہیں کہ اس کی ایک وجہ سبکدوش ہونے والے چیف کا احترام ہے۔
’یہ خیال کیا جاتا ہے کہ نیا آرمی چیف نامزد ہو گیا تو سبکدوش ہونے والے سربراہ کی پوزیشن کچھ ’آک ورڈ‘ ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔
’وہ ان دنوں الوداعی تقریبات میں شرکت کر رہے ہوتے ہیں تو اسی احترام میں فوج کی خواہش بھی یہی ہوتی ہے کہ نئے سربراہ کے نام کا اعلان ان کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ کے قریبی دنوں میں ہی کیا جائے۔‘
تاہم اس کی دوسری وجہ کسی حد تک ’آپریشنل‘ ہے۔ امجد شعیب کے مطابق ’فوجی سربراہ کا عہدہ کمانڈنگ عہدہ ہے اور پالیسی تیار کرتا ہے۔ ایک وقت میں دو سربراہان ہونا مفاد میں نہیں۔‘
ان کے مطابق اس سے یہ خدشہ بھی رہتا ہے کہ پالیسی معاملات پر افسران نئے آرمی چیف کی رائے کو زیادہ وقعت دے سکتے ہیں کہ اب آئندہ تین سال تو نئے سربراہ کی پالیسی اور سوچ نمایاں ہو گی۔ ’اسی وجہ سے اس عہدے کی نامزدگی میں جان بوجھ کر تاخیر برتی جاتی ہے، کوشش کی جاتی ہے کہ سبکدوش ہونے والے سربراہ کی الوداعی ملاقات مکمل ہونے کے بعد اعلان کیا جائے۔‘
مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ یہ فیصلہ وزیراعظم کی صوابدید پر منحصر ہے اور وزیر اعظم ہی فیصلہ کرتے ہیں۔
سابق لیفٹیننٹ جنرل آصف یاسین کے مطابق آئین میں آرٹیکل 243 سروسز چیفس کی تعیناتی سے متعلق ہے اور ’کہیں بھی کوئی ٹائم فریم نہیں۔ جیسا کہ تاریخ میں ریٹائرمنٹ سے تین ماہ سے چند گھنٹے پہلے تک بھی نامزدگیوں کا اعلان کیا گیا ہے۔ تو سبکدوشی سے ایک گھنٹہ پہلے بھی یہ اعلان ہو تو یہ غیر آئینی نہیں ہو گا۔‘
جنرل آصف یاسین سیکریٹری دفاع کے عہدے پر تعینات رہ چکے ہیں اور مسلح افواج کے سربراہان کی تعیناتی کی سمری سیکریٹری دفاع کے دفتر سے ہی وزیراعظم کو بھیجی جاتی ہے۔ اُن کے دور میں جنرل راحیل شریف اور جنرل راشد محمود کی تعیناتی کے ساتھ ساتھ دیگر مسلح افواج کے سربراہان بھی تعینات ہوتے رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اس سارے عمل میں یہ روایت بھی موجود ہے کہ عام طور پر اگر ایک ’آسامی ہے تو تین نام بھیجے جاتے ہیں اور اگر دو عہدے ہیں تو پانچ نام بھیجے جاتے ہیں مگر ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جب خود نواز شریف نے ہی سمری میں شامل ناموں کی بجائے خود فیصلہ کیا کہ کس افسر کو سربراہ کے عہدے پر تعینات کرنا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’موجودہ سیاسی انتشار میں نئے آرمی چیف کی نامزدگی کا اعلان جلد از جلد کر دینا چاہیے۔ میرے خیال میں تو یہ کل ہی ہو جانا چاہیے تھا۔ آرمی کو بھی کوشش کرنی چاہیے کہ یہ تنازع ختم ہونا چاہیے کیونکہ جنرل باجوہ نے تو کہہ دیا ہے کہ انھیں توسیع نہیں چاہیے۔‘
’مگر اب ایسا لگتا ہے کہ یہ طاقت کا کھیل بنتا ہے جس میں ایک نام شہباز شریف، دوسرا عمران خان اور تیسرا نام جنرل قمر باجوہ کا آتا ہے۔ ہر کوئی کہتا ہے کہ یہ سب آرمی چیف کی تعیناتی کی وجہ سے ہے مگر میرے خیال میں ایسا نہیں، یہ طاقت حاصل کرنے کی کوشش ہے۔ ایسی صورتحال میں میرا مشورہ تو یہی ہو گا کہ اس تعیناتی کا اعلان جلد از جلد کر دیا جائے تاکہ ایک مسئلہ تو ختم ہو۔‘
اسی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے سینیئر صحافی سلیم صافی بھی سمجھتے ہیں کہ تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔
لیکن بعض تجزیہ کار یہ بھی سمجھتے ہیں کہ خود فوج پر بھی منحصر ہے کہ وہ کب یہ اعلان چاہتے ہیں اور عام طور پر اس رائے کا احترام کیا جاتا ہے، اس سوال پر صحافی سلیم صافی کے مطابق ’سیاسی میدان میں جاری ہلچل اور عمران خان کی سرگرمیاں دراصل نئے آرمی چیف کی تعیناتی ہے۔ اس لیے یہ فیصلہ جس قدر جلد اور میرٹ پر ہو جائے، اتنا ہی جلدی یہ سیاسی گرد و غبار بیٹھ جائے گا۔‘
تاہم سلیم صافی یہ نہیں سمجھتے ہیں کہ اس تعیناتی کے بعد تحریک انصاف یا عمران خان کی طرف سے حکومت کے لیے کوئی آسانی پیدا ہونے کا امکان ہے۔
’اس تعیناتی کے اعلان کا فائدہ صرف یہ ہو گا کہ آج کل جو بے یقینی پھیلی ہے وہ ختم ہو جائے گی اور دوسرا پاکستانی سیاست کا رخ متعین ہو جائے گا۔ سیاستدان اپنے مسائل پر بات کریں گے، اور فوجی سربراہ اپنا کام کریں گے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک غلط تاثر ہے کہ ’جو آرمی چیف بنے گا وہ ہمارا بندہ ہو گا۔ ایسا بالکل نہیں ہوتا۔ نیا آرمی چیف فوج کا مفاد اور اپنے کور کمانڈرز کو دیکھتا ہے۔‘
واضح رہے کہ ذرائع کے مطابق تاحال وزارت دفاع سے سمری وزیراعظم ہاؤس نہیں پہنچی تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اس سمری کو محض ایک رسمی کارروائی سمجھا جاتا ہے۔
یہ تمام حقائق اور ماہرانہ تجزیے اپنی جگہ، اس بات پر سب ہی متفق ہیں کہ یہ وزیراعظم کا حتمی فیصلہ ہو گا کہ وہ نئے فوجی سربراہ کا اعلان کب کرتے ہیں مگر آئندہ تین ہفتوں میں یہ ضرور واضح ہو جائے گا کہ کیا عمران خان کے لانگ مارچ کے پیچھے نئے فوجی سربراہ کی تعیناتی ہی اصل مسئلہ ہے یا وہ موجودہ اتحادی حکومت کے لیے درد سر بنے رہیں گے۔