ورلڈ ٹی 20 میں انڈیا بمقابلہ پاکستان ’جِگرے‘ والی کرکٹ سے ذرا بچ کے
جس وقت عامر سہیل نے پرساد کو چوکا لگایا، سکور بورڈ پر عامر سہیل کے رنز 55 ہو گئے۔ سنہ 1996 کی ون ڈے کرکٹ میں وہ قریب 120 کے سٹرائیک ریٹ پر بیٹنگ کر رہے تھے اور اس سٹروک سے پہلے کے سبھی شاٹس میں بھی ایک خاص جارحیت اور شوخی جھلک رہی تھی۔
کرکٹ کی زبان میں اسے ’دن‘ کہا جا سکتا ہے۔ وہ ’دن‘ جب ایک کھلاڑی اپنے اُس خاص زون میں ہوتا ہے جسے کسی مراقبہ نما کیفیت سے تعبیر کیا جا سکتا ہے، جہاں مکمل دھیان ایک نقطے پر مرکوز ہوتا ہے اور ارد گرد کی دنیا سے ایک بے خبری سی طاری ہوتی ہے۔
لیکن جس لمحے عامر سہیل نے چوکے کے بعد پرساد کو باؤنڈری کے باہر پھینکنے کا اشارہ کیا، اسی لمحے ان کا ’دن‘ ختم ہو گیا۔ اسی ایک لمحے میں یہ دن پلٹ کر وینکتیش پرساد کا دن بن گیا۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب سب کچھ اتنا اچھا جا رہا تھا تو عامر سہیل نے ایسا کیوں کیا؟
سنہ 2010 کے ایشیا کپ کا پاک انڈیا میچ جاری ہے۔ پاکستان ایک معقول ہدف کا دفاع کر رہا ہے۔ آخری اوورز ہیں اور وکٹ کالم کی صورت حال کے ساتھ ساتھ مطلوبہ رن ریٹ بھی پاکستان کے لیے امکانات روشن کر رہا ہے۔
شعیب اختر بولنگ کے لیے آتے ہیں، جو پورا دن وکٹ حاصل نہ کر سکنے کے باوجود دھونی کے بلے بازوں کے لیے تر نوالہ بھی ثابت نہیں ہوئے۔ ان کا اکانومی ریٹ پانچ سے ذرا نیچے ہی ہے۔ ہربھجن سنگھ سٹرائیک پر ہیں۔
شعیب اختر سپیڈ دکھاتے ہیں، ہربھجن پُل شاٹ کھیلتے ہیں، کیچ کا سا گماں ہوتا ہے مگر گیند مڈ وکٹ سے ذرا پہلے باؤنس ہو جاتی ہے اور شعیب اختر بھی ایک لمحے کے لیے ’عامر سہیل‘ بن جاتے ہیں۔
وہ ہربھجن سنگھ کو اپنی رفتار سے متعلق کچھ کڑوے بول سناتے ہیں، جواباً ہر بھجن غصے میں کچھ بھناتے ہیں اور اگلی ہی گیند پر ایسی ٹائمنگ سے بلا گھماتے ہیں کہ یکایک گیند لانگ آف باؤنڈری کے پار جا گرتی ہے۔
سوچنے کی بات پھر وہی ہے کہ جب سب کچھ ٹھیک جا رہا تھا تو شعیب اختر کو یہ سب کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ جب بغیر کسی غیر ضروری جارحیت اور بے مغز جذباتیت سے گریز کر کے، صرف تھوڑی سی سمجھ داری والی کرکٹ کھیل کر باآسانی میچ جیتا جا سکتا تھا تو پھر ایسا کیوں؟
انہی سوچوں میں غلطاں و پیچاں پاکستانی کرکٹ شائقین کی تیسری نسل آج بھی یہ سوال لیے بیٹھی ہے کہ پاکستان کبھی بھی انڈیا کو ورلڈ کپ میں ہرا کیوں نہیں پایا۔
کسی دانا نے کہا تھا کہ جب آپ کھیل سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں تو کھیل یکایک پلٹ کر آپ کو اُچک لینے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ اور عموماً کھیل سے آگے بڑھنے کا انجام وہی ہوتا ہے جو وینکتیش پرساد نے عامر سہیل کا کیا، یا پھر وہی جو ہربھجن سنگھ نے شعیب اختر کا کیا۔
دونوں مثالوں میں تمام تر مروجہ کرکٹنگ دانش کی رُو سے یہ پیش گوئی صادر کی جا سکتی تھی کہ متعلقہ سیاق و سباق میں پاکستان واضح جیت کے لیے بالکل درست سمت میں جا رہا تھا مگر اچانک ایک لمحے کی جذباتیت نے سب کچھ پلٹ دیا۔
جب بھی عالمی مقابلوں میں کوئی پاک انڈیا میچ آتا ہے تو اس کو بیچنے کے لیے ہمہ قسمی میڈیا پر ایسا ہنگامہ مچایا جاتا ہے کہ ڈھول کی تھاپ میں ناچتے گاتے دونوں جانب کے شائقین کسی میدانِ جنگ کی تصویر بن جاتے ہیں اور کرکٹرز کو محاذ پر کھڑے فوجی سمجھ لیا جاتا ہے۔ گویا وہ ماضی کی پاک انڈیا عسکری مہم جوئیوں کا حساب بے باق کرنے کو میدان میں اترے ہوں۔
گو کرکٹ بیچنے کو تو یہ چورن اچھا ہے مگر اس شور شرابے میں یہ کوئی یاد ہی نہیں رکھنا چاہتا کہ پچھلے 10 سال میں ہوئے ایسے تمام میچز میں مسابقت کا معیار کیا رہا؟ جہاں ہر بار فاتح ٹیم اور مفتوح کی صلاحیتوں اور سکور کارڈز کے بیچ گہری خلیج دکھائی دی۔
مگر پھر بھی ’قوم‘ کی جانب سے بابر اعظم کے لیے توقعات یہی ہوں گی کہ وہ بازی پلٹ دیں اور تاریخ ہمیشہ کے لیے بدل دیں۔ اور یہی ہے وہ ناجائز خواہشات کا بوجھ کہ جس کے وزن میں ہر کھلاڑی ایک خاص طرح کی، ’جگرے‘ والی کرکٹ کھیلنے لگ جاتا ہے اور قومی ہیرو بننے کے چکر میں سیدھے سادے میچ کو جُوئے شیر بنا دیتا ہے۔
گو افرادی قوت و صلاحیت اور دبئی کی کنڈیشنز میں تازہ تجربے کی روشنی میں ورات کوہلی کی ٹیم ہی فیورٹ ہے لیکن اگر بابر اعظم، محمد رضوان، فخر زمان، حسن علی اور شاہین شاہ آفریدی جذباتیت سے بچ نکلے اور ’جگرے‘ والی کرکٹ کے بجائے سمجھدار کرکٹ دکھانے میں کامیاب ہو گئے تو پھر تاریخ بدلنا یا نہ بدلنا شاید اتنا اہم سوال ہی نہ رہے۔