وخان کوریڈور افغانستان کا وہ الگ تھلگ خطہ جہاں کے مناظر آج بھی صدیوں پرانے لگتے ہیں
چین، ایران، پاکستان، تاجکستان، ترکمانستان، اور ازبکستان سے ملتی سرحدیں یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ افغانستان کو ایشیا میں وہی مقام حاصل ہے جو انسانی جسم میں دل کو۔ تین کروڑ بیس لاکھ سے زائد آبادی والے اس ملک میں تقریباً ایک چوتھائی لوگ بڑے بڑے شہروں جیسا کہ مزارِ شریف میں رہتے ہیں۔
مزار شریف دارالحکومت کابل سے 320 کلومیٹر جنوب مشرق میں واقع ہے۔
ملک کے چوتھے بڑے اس شہر کا مرکزی مقام ’حضرت علی کا مزار‘ ہے جو کہ مقامی روایت کے مطابق پیغمبرِ اسلام کے داماد اور اسلام کے چوتھے خلیفہ کی آخری آرام گاہ ہے۔ یہ مزار اسلامی طرزِ تعمیر کا ایک ماسٹر پیس ہے اور یہ سفید رنگ کی فاختاؤں کے لیے بھی مشہور ہے۔
مقامی لوگوں کا ماننا ہے کہ اگر کسی پرندے کے کسی اور رنگ کے پر ہوں گے اور وہ اس مزار کے احاطے میں داخل ہو جائے تو اس کے پر شفاف اور سفید ہو جاتے ہیں۔
مزارِ شریف سے تقریباً 600 کلومیٹر مشرق میں وخان کوریڈور ہے جو کہ باقی ملک سے ثقافتی اور جغرافیائی اعتبار سے بالکل مختلف ہے۔ بدخشاں خطے میں واقع 350 کلومیٹر طویل حصہ دنیا کے تین بڑے پہاڑی سلسلوں ہندوکش، قراقرم اور پامیر کے ملنے کے مقام پر واقع ہے۔
اس علاقے میں سیاحتی دورے کروانے والی چند کمپنیوں میں سے ایک ’انٹیمڈ بارڈز ڈاٹ کام‘ کے جیمز ولکاکس کہتے ہیں کہ ’آپ افغانستان کی ٹریفک، شور، سکیورٹی معاملات، اور آذان سے اس سے زیادہ دور نہیں جا سکتے۔ یہاں زیادہ آبادی نہیں ہے اور یہاں پہنچنا مشکل ہے۔ کچھ ہی لوگوں کو معلوم ہے کہ یہ ایک ایسی جگہ ہے۔ یہ دنیا میں دور دراز ترین اور خوبصورت ترین مقامات میں سے ایک ہے۔‘
دیہی زندگی
وخان کوریڈور میں چھوٹی چھوٹی دیہی آبادیاں رہتی ہیں جیسے کہ ’خاندد‘ جن میں سادہ پتھر، کیچڑ اور لکڑی سے گھر بنے ہوتے ہیں۔ ان میں سے کچھ بڑے دیہات ہیں جو ایک کچے راستے سے آپس میں منسلک ہوتے ہیں۔ اس کچے راستے کو اکثر دریائے پنج کا پانی ناقابل استعمال بنا دیتا ہے۔
اس کوریڈور کے مغربی کونے سے 80 کلومیٹر دور قصبے اشکاشم کے رہائشی اعظم ضیاعی کہتے ہیں کہ ’وخان نامی اس پورے خطے میں بہت تھوڑے لوگوں کے پاس کاریں ہیں مگر ہمارے پاس کمیونٹی ٹرانسپورٹ ہے، گدھے ہیں، اور اپنے پاؤں تو ہیں ہی!‘
’مگر پھر بھی وخان دیگر علاقوں سے کٹا ہوا ہے۔ کچھ دیہات تو اکاشم سے چار روز کی مسافت پر ہیں۔ یہاں سے قریب ترین بڑا شہر دشانبے ہے جو تاجکستان کا دارالحکومت ہے اور یہاں سے تین دن کی مسافت پر ہے۔ یہ اتنا دور ہے کہ یہ علاقہ جیسے ایک ٹائم کیپسول بن گیا ہے۔ ہم جب سرحد پار تاجکستان میں سڑکیں، فون، اور بجلی وغیرہ دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ ایسا ہے کہ مستقبل میں جھانکنا۔‘
وخائی کا گھر
تقریباً 2500 برسوں سے وخان کوریڈور وخائی برادری کا گھر ہے۔
اس وقت ان کی آبادی تقریباً 12 ہزار افراد پر مشتمل ہے۔ اگرچہ زیادہ تر افغان قدامت پسند سنی مسلمان ہوتے ہیں مگر وخائی اسمائیلی ہیں جو کہ اسلام کے شعیہ مسلک کا ایک فرقہ ہے۔
یہاں خواتین برقعہ نہیں پہنتیں اور نہ ہی یہاں مساجد ہیں۔ اس کی جگہ وخائی جماعت خانے ہیں جو کہ عبادت گاہ کے ساتھ ساتھ کمیونٹی سینٹر کا کام بھی کرتے ہیں۔
ولکاکس بتاتے ہیں کہ ’اسمائیلیوں کو سنیوں کے مقابلے میں قدرے نرم مزاج مانا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر وخان میں ایک مغربی مرد سیاح بغیر اجازت کے وخائی خاتون کی تصویر کھینچ سکتا ہے اور اس پر کوئی ناراض نہیں ہوتا۔ افغانستان کے دوسری علاقوں میں آپ ایسا سوچ بھی نہیں سکتے۔‘
’سنی انتہا پسندی کی عدم موجودگی اور اس خطے کا دور دراز ہونا مل کر اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ داعش اور طالبان جیسی تنظیمیں یہاں نہیں پہنچ سکی ہیں اسی لیے جب باقی سارے ملک میں جنگ چھڑی ہوتی تھی تو وخان میں اس کے اثرات نہیں آئے۔‘
زندگی کی تال
وخائی کسان اس نیم بنجر خطے میں گندم، جو، مٹر، آلو، سیب اور خوبانی کی کاشت کرتے ہیں۔ ان کے کھیت گلیشئرز کے پگھلتے پانی سے سیراب ہوتے ہیں۔ امیر خاندانوں کے پاس بھیڑ بکریاں ہوتی ہیں اور کچھ اونٹ، گھوڑے یا گدھے بھی۔
اعظم ضیاعی بتاتے ہیں کہ ’ہر جون میں وخائی اپنے جانور لے کر گرمیوں میں سبزے والے علاقوں میں چلے جاتے ہیں جن کی بلندی 45 ہزار میٹر تک ہو سکتی ہے۔ اس ہجرت کو ’کچھ‘ کہا جاتا ہے۔ جو کی کٹائی کے موقع پر اگست کے اوائل میں یہاں ‘چنیر‘ کا میلہ بھی منعقد ہوتا ہے۔ افغانستان کے دوسرے علاقوں میں دن کی پانچ نمازیں آپ کو دن کی ترتیب دیتی ہیں مگر یہاں ہمارا زمین کے ساتھ بہت زیادہ تعلق ہے۔ اسی لیے زندگی کی تال، کھیتوں، موسم اور قدرت پر زیادہ منحصر ہے۔ ‘
کئی صدیوں پرانی روایات
وخان کی قدرے مخصوص روایات میں سے ایک یہاں کا کئی صدیوں پرانا بزکشی کا کھیل ہے جسے آپ گھوڑوں پر سوار ہو کر رگبی کے طرح کھیل سکتے ہیں۔ اس کھیل میں بکری کے جسم کو گیند بنا کر کھیلتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ پولو کا کھیل بزکشی سے نکلا ہے۔ بزکشی میں کوئی قوانین نہیں ہیں اور نہ ہی کوئی ٹیمیں ہوتی ہیں۔ اور اس میں ‘فیئر پلے‘ کا بھی کوئی خیال نہیں رکھا جاتا کیونکہ کھلاڑی ایک دوسرے کو مکے، ٹانگیں مار کر بھی اس بکری کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس کھیل میں ہڈیاں ٹوٹنا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ ’وخائی دیہات ایک دوسرے کے ساتھ یہ کھیل کھیلنا بہت پسند کرتے ہیں، خاص کر نوروز کے موقع پر۔ مگر افغانستان کے دوسرے علاقوں میں بزکشی زیادہ سیاسی ہے، جہاں اشرافیہ کی طاقت دکھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، مگر یہاں اس کھیل کا محور مقابلہ اور برادری ہے۔ یہ ان چیزوں میں سے ایک ہے جو وخان کو اس قدر انوکھا بناتا ہے۔‘
سیاحت نے بھی اسے چھوا نہیں
اگرچہ افغانستان کی سکیورٹی صورتحال کا تقاضہ یہ ہے کہ یہ ملک غیر ملکیوں کے لیے موزوں نہیں۔ وخان کوریڈور میں قدرے امن، خوبصورت پہاڑ اور وخائی ثقافت کی وجہ سے گذشتہ چند سالوں میں یہ بہت سے سیاحوں کی چوائس رہا ہے۔
ایڈ سمرز ایک سیاحتی گائیڈ ہیں جنھوں نے وخان کے نو دورے کیے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ‘پہلے یہاں مٹھی بھر لوگ آتے تھے۔ گذشتہ دس سالوں میں یہ تعداد بڑھ کر 600 سیاح فی سال تک پہنچ گئی ہے۔ کسی ایسی جگہ جانا جو کہ روایتی سیاحتی کارروائیوں سے اس قدر دور ہو، اس تک جانا ایک آسائش ہے۔ یہاں آپ ایسے لوگوں سے ملتے ہیں جنھیں اپنا روایتی طرزِ زندگی پسند ہے۔ جب آپ وخان میں سفر کر رہے ہوتے ہیں تو یہ نہ صرف ایک خوبصورت جگہ ہے بلکہ ہر قدم ایسے ہے کہ ایک دلچسپ تاریخ کی کتاب کا ورق پلٹنا۔‘
شاہراہِ ریشم کا حصہ
چین کو بحیرہ روم سے جوڑنے کے لیے پہلی اور دوسری صدی عیسوی میں بننے والی شاہراہِ ریشم پر کئی سالوں تک وخان کوریڈور ایک اہم راستہ تھا۔ ایڈ سمرز کہتے ہیں کہ ’یہاں تاجر چینی ریشم، رومی سونا اور اس خطے سے نکالا گیا افغان قیمتی پتھر لے کر جاتے تھے۔‘
’کہا جاتا ہے کہ اس علاقے سے 13ویں صدی میں مارکو پولو گزر کر چین گیا اور سکندرِ اعظم بھی یہیں سے گزرے۔‘ آپ کو ان قدیم راستوں کے نشانات، راستے میں ٹھہرنے کے مقامات اور بدھ بت کے نشانات نظر آتے ہیں۔
ایک سٹریٹیجک مقام
19ویں صدی میں برطانیہ اور روس کے درمیان گریٹ گیم میں وخان نے اہم کردار ادا کیا۔
ولکاکس کہتے ہیں کہ ’جب روس اور برطانیہ وسطی ایشیا کی لڑائی لڑ رہے تھے تو افغانستان انتہائی اہم تھا۔ وخان کی موجودہ سرحدیں اس وقت پر ایک بفر زون کے طور پر بنائی گئی تھیں تاکہ دونوں حریفوں کی سرحدیں ایک دوسرے سے نہ ملیں۔ اس نے ایک پرانے تجارتی راستہ کو گول چکر میں تبدیل کر دیا جہاں سے کوئی گزر نہ سکا۔ ماضی قریب میں وخان سرد جنگ میں اہم رہا۔ مگر اب ہو سکتا ہے کہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو کی وجہ سے ایک مرتبہ پھر یہ معروف تجارتی راستہ بن جائے۔‘
نئی تعمیرات
کچھ عرصہ پہلے تک اشکاشم سے کچی سڑک صرف سرحدِ بروگل تک پہنچتی تھی جو کہ اس کوریڈور کے وسط میں واقع ہے۔
اس کے بعد مشرق کی جانب سفر کرنے کے لیے آپ کو پیدل جانا پڑتا تھا یا پھر جانوروں پر۔ اب بیلٹ اینڈ روڈ کی تعمیرات کی وجہ سے یہ راستہ 75 کلومیٹر اور بڑھا دیا گیا ہے اور بوزائی گمباز کے گاؤں تک پہنچتا ہے جو کہ وخان کے کل طول کا تین چوتھائی حصہ بن جاتا ہے۔
سمرز بتاتے ہیں کہ ’یہ ایک پرانے راستے پر بنایا گیا ہے جو کہ کرگز خانہ بدوش استعمال کیا کرتے تھے۔ اب بلڈوزر آئے ہیں اور انھوں نے ایک چھوٹا سا ٹریک ہی بنایا ہے مگر اس میں بڑی سڑک کا امکان بھی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ چینی ایک سڑک بنائیں گے جو ان کی سرحد کو بوزائے گمباز سے جوڑ دے گی۔ آخرکار یہ چین کو وسطی ایشیا کی مارکیٹوں تک رسائی دے گا۔‘
ملے جلے جذبات
اعظم ضیاعی کہتے ہیں کہ وخان کے لوگوں کے چینی تعمیرات کے بارے میں ملے جلے خیالات ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ہمارے لیے کچھ چیزیں اچھی ہوں گی۔ ہم چین سے بکریاں خرید سکیں گے جو کہ اشکاشم کی مارکیٹ کے مقابلے میں کہیں سستی ہوں گی۔ ہمیں بہتر نطامِ صحت کی امید بھی ہے۔ ابھی ہماری سہولیات بہت محدود ہیں۔ مگر ہمیں پریشانی ہے وخائی ثقافت کی، جو کہ ہمیشہ کے لیے بدل جائے گا۔ ہمیں اس خاموشی اور ان خوبصورت قدرتی مناظر سے پیار ہے۔ ہمیں ٹریفک کی آلودگی سے خوف آتا ہے۔ پہاڑوں میں سڑک بنانے میں بہت وقت لگتا ہے مگر ہمارے خیال میں یہ آئندہ سال مکمل ہو جائے گا۔ دونوں چینی اور افغان حکومت یہ کرنا چاہتی ہیں۔ وقت ہی بتائے گا کہ ہمارے مستقبل میں کیا ہے۔