نپولین بونا پارٹ ایک ’عملیت پسند‘ فوجی آمر جن کی میراث دو صدیوں بعد بھی فرانس کو تقسیم کر رہی ہے
جنوبی فرانس میں مونٹاؤبان کے وسط میں ایک مصروف سڑک کے ساتھ فٹ پاتھ پر کام ہو رہا ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جسے فرانس کے آخری آمر کا ایک نیا مجسمے لگانے کے لیے چُنا گیا ہے۔
ایک دور میں یہ یورپ کا سب سے بڑا مسئلہ تھا مگر نپولین بونا پارٹ کی موت کے 200 سال بعد بھی فرانس کے لیے یہ آمر ایک مخمصے اور تذبذب کا باعث ہیں۔
نپولین ایک زبردست فوجی جرنیل تھے، جنھوں نے جدید فرانسیسی ریاست کی بنیاد رکھی۔ انھوں نے ٹولوز سے ایک گھنٹہ کی مسافت سے کم دوری پر ہونے کے باوجود سنہ 1808 میں مونٹاؤبان کو اپنی کاؤنٹی دی۔
لیکن کیا یہ سب اُن کی آمریت اور جارحیت کے دور سے صرف نظر کرنے کے لیے کافی ہے۔
مونٹاؤبان کے ڈپٹی میئر فلیپے بکیڈ نے کہا کہ ‘کسی تاریخی شخصیت کے دور کے کچھ پہلو دوسرے پہلوؤں کی نسبت زیادہ بھیانک ہوتے ہیں۔‘ اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر آپ صرف ایک پہلو کو پرکھیں گے تو پھر کسی بھی شخصیت کی مذمت کرنا بہت آسان ہو گا۔ آج کل ہم سیاسی طور پر درست بات کہنے والے آمرانہ دور سے گزر رہے ہیں، اور میں ان لوگوں میں شامل ہوں جو اس کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔‘
تو پھر 21ویں صدی میں آپ نپولین کی یاد کس طرح منا سکتے ہیں؟
دو گھنٹوں کے فاصلے پر ایک روشن گودام میں ایمانوئل مشیل نامی شخص نے شہنشاہ کی محضوص انداز والی ٹوپی پہنے مجسمے سے پردہ اٹھایا، جو سرخ مٹی سے بنا ہوا تھا۔
چہرہ کسی سوچ میں مبتلا نظر آتا ہے اور آنکھیں نیچی ہیں۔
پچاس سال قبل جب نپولین کی پیدائش کے دو سو سال کا موقع آیا تب ہی سے فرانس اس بارے میں منقسم ہے کہ نپولین کو کس طرح یاد کرنا چاہیے۔ اور اب اس موضوع پر بحث میں زیادہ تر توجہ ان کی جانب سے کیریبیئن اور بحر ہند کے جزیروں میں غلامی کو دوبارہ متعارف کروانے پر ہے۔
فرانس کے ایک ادارے ’فاؤنڈیشن فار دا میموری آف سلیوری‘ سے منسلک مورخ پروفیسر میلک گھاشم کہتے ہیں کہ ‘نپولین ایک عملیت پسند فوجی تھے۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’ان کے لیے اور ان جیسے بہت سے دوسرے لوگوں کے نزدیک فرانس اور فرانسیسی معیشت کے لیے کیریبیئن میں بڑے پیمانے پر غلامی پر مبنی سلطنت کا ہونا اچھا تھا۔ لیکن کیا اس بحث کو خود نپولین کی ذات پر مرکوز کرنا بامعنی ہے؟ اگر آپ کو لگتا ہے کہ نپولین وہ شخص تھے جن کے اشاروں پر سب کچھ ہو رہا تھا اور وہ واقعات جنھوں نے حالات کو شکل دی تو ضروری نہیں کہ آپ فرانسیسی تاریخ کو جس نظر سے دیکھتے ہیں وہ بدل جائے۔‘
نپولین بونا پارٹ کی زندگی کی اہم تاریخیں
- سنہ 1769 ۔ ایجاشیو، کورسیکا میں نپولین کی پیدائش ہوئی
- سنہ 1785 ۔ وہ پیرس میں فوجی اکیڈمی سے فارغ التحصیل ہوئے
- سنہ 1795 ۔ پیرس میں شاہی باغیوں کو شکست دینے والے فرانسیسی انقلابی فوجیوں کی انھوں نے کمانڈ کی
- سنہ 1802- 1796 ۔ آسٹریا، پرشیا اور دیگر فوجوں کے خلاف اہم جنگیں جیتیں
- سنہ 05-1804 ۔ شہنشاہ کے طور پر اپنی تاج پوشی کی اور پھر آسٹرلٹز میں آسٹریا اور روسی فوجیوں کو شکست دی
- سنہ 14-1812 ۔ روس میں مہم کے نتیجے میں بری طرح پسپائی ہوئی اور ایلبا جزیرے پر معزولی اور جلاوطنی پر مجبور ہوئے
- سنہ 1815 ۔ ایلبہ سے فرار اور پھر واٹرلو میں برطانوی اور پروشیائی فوج کے ہاتھوں شکست ہوئی
- سینٹ ہیلینا میں جلاوطن رہے جہاں 1821 میں وفات ہوئی
سنہ 2005 میں شہنشاہ کی حیثیت سے نپولین کی تاجپوشی کی 200 ویں برسی کے موقع پر اس وقت فرانسیسی صدر اور وزیر اعظم دونوں ملک سے باہر پائے گئے۔ اس وقت کے وزیر داخلہ نکولا سرکوزی سمیت کابینہ کے دیگر ارکان نے کسی بھی تقریب میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
بہت سے سیاست دانوں کی نظر میں اگر وہ اپنے آپ کو نپولین کے بہت نزدیک پائیں تو ان کے کیریئر تباہ ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔
لیکن صدر ایمانوئل میخواں کی نظر میں شاید ایسا نہیں، وہ بدھ کے روز نپولین کے مقبرے پر پھولوں کی چادر چڑھائیں گے اور اس کے بعد نپولین کی میراث کے بارے میں تقریر کریں گے۔
فرانسیسی صدر کی سرکاری رہائش گاہ الیزے پیلس سے بیان میں کہا گیا کہ یہ خوشگوار یادگار یا واقعات کا انکار، یا غلطیوں کی معافی نہیں ہو گی، بلکہ یہ بتائے گا کہ فرانس نے شہنشاہ کی میراث کا بہترین حصہ لیا ہے اور اسے بدترین سے علیحدہ کر دیا ہے۔
پرانی یادوں کی طاقت
لیکن بائیں بازو کی جماعت فرانس انسومیس سے تعلق رکھنے والے الیکسس کوربیئر جیسے سیاست دانوں کا خیال ہے کہ ریاست اور خاص طور پر صدر کو نپولین برسی نہیں منانی چاہیے۔
الیکسس کوربیئر نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘وہ تاریخ کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور یہ میرے لیے پریشان کن ہے۔’ وہ مزید کہتے ہیں کہ ‘یہ موجودہ فرانسیسی ماحول میں تشویشناک ہے جہاں جمہوریت کے بارے میں بڑے پیمانے پر شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں اور کچھ فرانسیسی شہری شاید ایک طاقتور آمرانہ رہنما کی امید کر رہے ہیں۔‘
ریناؤ بلن لوئل جو نپولیئن دور کی جنگوں کی ڈرامائی پیشکش کرنے والے ایک گروپ کو چلاتے ہیں کہتے ہیں کہ سنہ 1800 کے اوائل کے فرانسیسی آمریت پسند رہنما کی یاد آج بھی فرانس کے ہمسایہ ممالک کے ذہنوں میں نقش ہے۔‘
انھوں نے مجھے بتایا کہ ’ہمارے پاس مقامی طور پر کوئی دشمن نہیں ہے جن کے خلاف وہ لڑ سکیں۔ لہذا ہم یورپی ممالک کے دوستوں کو مدعو کرتے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ‘جب ہم سپین جاتے ہیں تو ہم دشمن ہوتے ہیں۔ ہم وہاں اپنا سر نگوں رکھتے ہیں کیونکہ وہاں یہ ابھی بھی ایک بہت ہی نازک موضوع ہے، بالکل اسی طرح جیسے برطانوی لوگ فرانس میں اس دور کی یاد میں ڈرامائی پیشکش کرنے آتے ہیں تو قدم پھونک پھونک کر رکھتے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ 500 کلومیٹر (311 میل) دور اٹلی میں ردعمل بالکل مختلف ہوتا ہے۔
ہمیں ہیروز کی طرح خوش آمدید کہا جاتا ہے کیونکہ فرانسیسی فوج نے انھیں آسٹریا سے بچایا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘ایک بار ڈرامائی لڑائی کی پیشکش کے بعد ہم میلان میں سڑکوں پر چل رہے تھے تو وہاں کیفیز میں بیٹھے لوگ کھڑے ہو گئےاور ‘ویوا لا فرانس!’ کا نعرہ لگاتے ہوئے ہماری تعریف کرنے لگے۔ میں نے اس سے پہلے ایسا کبھی نہیں دیکھا تھا۔‘
ایک ایسا نام جو آج بھی گونجتا ہے
اندرون اور بیرون ملک نپولین کوئی ایسا نام نہیں ہے جس کے سائے تلے جینا آسان ہو۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ فرانس میں بہت کم لوگوں نے اپنے بچوں کو یہ نام دیا۔
نپولین نوآن ایک نام ہے جسے استسثنا حاصل ہے۔
فرانسیسی فضائیہ میں شامل ریزرو آفیسر نپولین کا نام فرانسیسی شہنشاہ کے نام پر اس ملک کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے رکھا گیا تھا کیونکہ ان کے والدین کو ویتنام جنگ کے بعد فرانس میں پناہ دی گئی تھی۔
انھوں نے مجھے بتایا کہ ’اسکول میں نپولین کے بارے میں جاننا بہت پریشان کن تھا۔‘
وہ مزید بتاتے ہیں کہ ’میں بہت شرمیلا بچہ تھا لیکن یہ جاننا ضروری تھا کہ یہ نام کہاں سے آیا۔ مجھے لگتا ہے کہ انھوں نے فرانس کے لیے برے کاموں سے کہیں زیادہ اچھے کام کیے ہیں۔ اور میں اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ میرا نام مثال کے طور پر اٹیلا جیسی کسی اور متنازعہ شخصیت کا نام پر نہیں رکھا گیا۔‘
ان کے فضائیہ کے ایک ساتھی نے انھیں بتایا کہ یہ اُن کا خواب تھا کہ ان کا نام نپولین کے نام پر رکھا جائے۔
‘میں یہ بات زیادہ اونچی آواز میں نہیں کہنا چاہتا۔‘ نپولین نے اعتراف کرتے ہوئے کہا ‘لیکن میں درحقیقت بیٹل آف بریٹن کے بارے میں زیادہ جذباتی ہوں۔‘
نپولین بونا پارٹ ایک ایسی شخصیت تھے جو عوام کے تصورات میں ہونے کی طاقت کو جانتے تھے۔
ان کی پسندیدہ تصویروں میں سے ایک میں انھیں ایلپس پہاڑی سلسلے کے پار ایک شاندار گھوڑے پر اپنی فوج کی رہنمائی کرتے دکھایا گیا۔ مگر حقیقت میں وہ خچر پر سوار تھے۔
دو صدیوں بعد یہاں ان کی شبیہہ زیادہ متوازن مگر متنازع ہے۔ لیکن فرانس سے ان کا رشتہ ہمیشہ پیچیدہ رہا ہے۔ وہ فوجی شکست کی شرمندگی کے بعد جلاوطنی میں مرنے والے ایک شخص تھے، جنھیں اعزاز کے ساتھ ایک سنہری گنبد تلے سپرد خاک کیا گیا۔