ننگے پاؤں کھیلنے کی اجازت نا ملنا یا پیسوں کی کمی: جب انڈیا نے فٹبال ورلڈ کپ کھیلنے کا نادر موقع ضائع کیا
فٹبال ورلڈ کپ 20 نومبر سے قطر میں شروع ہونے جا رہا ہے۔ دنیا بھر میں فٹبال کھیلنے والی 32 بہترین ٹیموں کے درمیان ہونے والے اس مقابلے کے بعد یہ فیصلہ ہو گا کہ فٹبال کی دنیا کا بادشاہ کون ہے۔
پوری دنیا میں فٹ بال کے کھیل کے انتظام کو چلانے والی تنظیم ’فیفا‘ کے مطابق 20 نومبر سے شروع ہونے والے اس ورلڈ کپ کو تقریباً پانچ ارب لوگ براہ راست اور بذریعہ سکرین دیکھیں گے۔
یہ تعداد 2018 کے ورلڈ کپ کے ناظرین سے ایک ارب زیادہ ہو گی۔
قطر میں ہونے والا ورلڈ کپ مجموعی طور پر 22 واں ورلڈ کپ فٹبال ایونٹ ہے۔ لیکن انڈیا کے کھیلوں کے شائقین میں اس کھیل کو لے کر کوئی جوش و خروش نہیں ہے، کیونکہ اب تک انڈیا بھی پاکستان کی طرح ایک بار بھی اس ٹورنامنٹ میں حصہ نہیں بن سکا ہے۔
اگرچہ انڈیا فٹبال ورلڈ کپ میں کبھی شرکت نہیں کر سکا لیکن اس کھیل سے محبت کرنے والے بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ ایک وقت تھا جب انڈیا فٹبال ورلڈ کپ میں شرکت کر سکتا تھا۔
یقین کرنا مشکل ہو گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ انڈین فٹبال ٹیم 72 سال قبل 1950 میں برازیل میں کھیلے جانے والے ورلڈ کپ میں شرکت کرنے والی تھی لیکن بوجوہ ٹیم اس میں شرکت نہیں کر سکی۔
انڈیا کو ورلڈکپ میں شرکت کا موقع کیسے ملا؟
دراصل دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے 1942 اور 1946 میں ورلڈ کپ فٹبال کا انعقاد نہیں ہو سکا تھا۔ سنہ 1950 میں ورلڈ کپ 12 سال کے انتظار کے بعد ہونے والا تھا۔ صرف 33 ممالک نے برازیل میں ہونے والے ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائنگ راؤنڈ کھیلنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔
انڈیا کو برما (میانمار) اور فلپائن کے ساتھ کوالیفائنگ گروپ 10 میں جگہ ملی۔ لیکن برما اور فلپائن نے کوالیفائنگ راؤنڈ سے اپنے نام واپس لے لیے تھے۔
یعنی انڈیا نے بغیر کھیلے ہی ورلڈ کپ مقابلوں کے لیے کوالیفائی کر لیا تھا۔ ورلڈ کپ مقابلوں کے شروع ہونے کی تاریخ زیادہ دور نہیں تھی اور انڈین ٹیم کو پہلی بار فٹبال ورلڈ کپ میں اپنے کارنامے دکھانے کا موقع ملنے والا تھا۔
1950 کے ورلڈ کپ میں انڈیا کا گروپ
جب 1950 کے ورلڈ کپ فٹبال کے فائنل راؤنڈ کا ڈرافٹ تیار کیا گیا تو انڈیا کو سوئیڈن، اٹلی اور پیراگوئے کے ساتھ تیسرے پول میں جگہ ملی تھی۔
اگر انڈیا اس ٹورنامنٹ میں شریک ہوتا تو اس کا کیا حال ہوتا؟
اس حوالے سے آنجہانی فٹبال صحافی نووی کپاڈیہ نے ورلڈ کپ فٹبال کی گائیڈ بک میں لکھا ہے کہ ’اس وقت پیراگوئے کی ٹیم زیادہ مضبوط نہیں تھی، اٹلی نے اپنے آٹھ اہم کھلاڑیوں کو ڈسپلن کی وجہ سے ٹیم میں شامل نہیں کیا تھا۔ ٹیم کی اتنی بری حالت تھی کہ کوچ وٹوریو پوزو نے برازیل پہنچ کر استعفیٰ دے دیا تھا۔‘
’سویڈن کی ٹیم انڈیا کے خلاف بہت اچھی پوزیشن میں تھی، اس لحاظ سے انڈیا گروپ میں دوسرے نمبر پر آ سکتا تھا لیکن اس کے لیے ضروری تھا کہ ٹیم اس بہترین موقع کا فائدہ اٹھائے۔‘
انڈین فٹبال ٹیم کی کیا حالت تھی؟
1950 کی دہائی میں انڈین فٹبال کی ٹیم بین الاقوامی سطح پر زیادہ میچ نہیں کھیلی تھی لیکن انڈین ٹیم کی اچھا کھیلنے والی ٹیم کے طور پر شہرت رکھتی تھی۔
اس کی ایک جھلک انڈین ٹیم نے 1948 کے لندن اولمپک گیمز میں بھی دکھائی تھی۔ انڈیا فرانس جیسی مضبوط ٹیم سے محض 1-2 کے فرق سے ہار گیا تھا۔
اس دور میں ٹیم کے فارورڈ اور ڈریبلر کے کھیل کی وجہ سے انڈین فٹبال ٹیم اپنی شناخت بنانے کی کوشش کر رہی تھی۔ احمد خان، ایس رمن، ایم اے ستار اور ایس میوال جیسے کھلاڑی کھیل کے شیدائی تھے۔
انڈیا کے یہ تمام کھلاڑی لندن اولمپکس میں ننگے پاؤں فٹبال کھیلنے آئے تھے۔ تاہم دائیں جانب پیچھے کھیلنے والے تاج محمد جوتے پہن کر کھیلے تھے۔
برازیل ورلڈ کپ میں ٹیم کیوں شرکت نہیں کر سکی؟
انڈین فٹ بال ٹیم نے 1950 کے ورلڈ کپ میں شرکت کیوں نہیں کی اس کا کوئی واضح جواب نہیں ہے۔
تاہم، آل انڈیا فٹبال فیڈریشن (اے آئی ایف ایف) کی طرف سے دی گئی سرکاری وجہ کے مطابق ٹیم کے انتخاب میں اختلاف اور پریکٹس کے لیے ناکافی وقت کی وجہ سے ٹیم دستبردار ہو گئی تھی۔
لیکن برسوں سے اس بارے میں بہت سے مباحثے ہوتے رہے ہیں جن میں سب سے زیادہ بات یہ تھی کہ انڈین کھلاڑی ننگے پاؤں فٹبال کھیلنا چاہتے تھے اور فیفا نے اسے منظور نہیں کیا تھا۔
لیکن نووی کپاڈیہ کے علاوہ، سینیئر سپورٹس صحافی جیدیپ باسو کی حالیہ کتاب بھی اس وجہ کو زیادہ معتبر نہیں مانتی۔
جے دیپ باسو کی ایڈٹ کردہ کتاب ’باکس ٹو باکس: 75 یئرز آف دی انڈین فٹبال ٹیم‘ میں لکھا ہے کہ ’فیفا کی جانب سے انڈین کھلاڑیوں کے ننگے پاؤں کھیلنے پر اعتراض کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔‘
لندن اولمپکس میں حصہ لینے والے سات آٹھ کھلاڑیوں کا حوالہ دیتے ہوئے، جیدیپ باسو نے لکھا کہ ’اس ٹیم کے سات آٹھ کھلاڑیوں کے سفری بیگ میں سپائک بوٹ تھے اور یہ کھلاڑیوں کے انتخاب کا معاملہ تھا۔‘
درحقیقت یہ وہ دور تھا جب فٹ بال کھلاڑی اپنے پیروں پر موٹی پٹیاں باندھ کر کھیلنے کو ترجیح دیتے تھے اور 1954 تک یہ رجحان دنیا کے کئی دوسرے ممالک میں بھی موجود تھا۔
کیا وجہ پیسے کی کمی تھی؟
انڈیا کے فٹبال ورلڈ کپ میں شرکت نہ کرنے کی ایک وجہ معاشی بھی سمجھی جاتی ہے۔ لیکن یہ دعویٰ بھی درست معلوم نہیں ہوتا۔
جیدیپ باسو نے اپنی کتاب میں بتایا ہے کہ ٹیم کے برازیل پہنچنے کے لیے اخراجات کا مسئلہ تھا، لیکن اسے حل کر لیا گیا تھا۔
انھوں نے لکھا ہے کہ اس وقت انڈیا کی تین ریاستی سطح کی فٹبال ایسوسی ایشنوں نے اخراجات میں حصہ لینے کی یقین دہانی کرائی تھی۔
یہی نہیں نووی کپاڈیہ نے اپنی کتاب میں بتایا ہے کہ مارچ اور اپریل کے مہینوں میں برازیل نے انڈین فٹبال ایسوسی ایشن سے رابطہ کیا اور ٹیم کے زیادہ تر اخراجات ادا کرنے کی یقین دہانی کرائی۔
نووی کپاڈیہ کی کتاب کے مطابق برازیل کے اعتماد کی دو وجوہات تھیں، ایک سکاٹ لینڈ، فرانس، ترکی اور چیکوسلواکیہ کی ٹیموں نے بھی فٹبال ورلڈ کپ سے اپنے نام واپس لے لیے تھے۔
اور دوسری یہ کہ برازیل کو مہاتما گاندھی اور جواہر لعل نہرو کی یادگاروں کی خواہش تھی۔
جے دیپ باسو کی کتاب کے مطابق انڈیا نے 16 مئی 1950 کو ورلڈ کپ میں جانے والی ٹیم کا اعلان کیا۔ انڈیا کے مجوزہ شیڈول کے مطابق انڈین ٹیم 15 جون کو برازیل کے لیے روانہ ہو گی اور انڈیا کا پہلا میچ 25 جون کو پیراگوئے کے ساتھ کھیلا جانا تھا۔
لیکن اس کے بعد کیا ہوا، جے دیپ باسو اسے انڈین فٹبال کی دنیا کا سب سے بڑا معمہ قرار دیتے ہیں، جس کا کوئی حل نہیں نکل سکا۔
تاہم، نووی کپاڈیہ اور جے دیپ باسو کی کتابوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نہ تو انڈین فٹبال کھلاڑی اور نہ ہی اس دور کے فٹبال حکام اس موقع کی اہمیت کو سمجھ سکے۔
درحقیقت اس وقت انڈین ہاکی ٹیم اولمپک گیمز کی چیمپئن ٹیم بن چکی تھی اور ہر کھلاڑی کی مقبولیت کا آخری پیمانہ ایک ہی تھا۔
ایسے میں انڈین فٹبال ٹیم میں کھیلنے والے اور کھیل کو چلانے والے دونوں لوگوں کے لیے اولمپک کھیلوں میں بہتر کارکردگی پر زیادہ توجہ دی گئی۔
اس کے علاوہ 1951 کے ایشین گیمز بھی دہلی میں ہونے والے تھے۔ میزبان ٹیم کی حیثیت سے انڈیا کا مقصد اس میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنا تھا۔
یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ 1950 تک فٹبال ورلڈ کپ کی دنیا میں اتنی مقبولیت نہیں تھی جتنی بعد کے سالوں میں ہوئی تھی۔ پھر یہ گلیمر سے عاری کھیلوں کا ٹورنامنٹ تھا۔
قوانین کی لاعلمی
ایسا بھی معلوم ہوتا ہے کہ قواعد کی معلومات نہ ہونے کی وجہ سے بھی انڈین فٹبال حکام نے ایسا فیصلہ کیا ہو گا۔
درحقیقت فٹبال ورلڈ کپ میں حصہ لینے والے کھلاڑیوں کو اس وقت پیشہ ور کھلاڑیوں کا ٹیگ مل جاتا تھا۔ کھلاڑیوں کے پروفیشنلز ہونے کا مطلب یہ تھا کہ انھیں اولمپکس اور ایشین گیمز میں شرکت کی اجازت نہیں دی جاتی۔ کیونکہ ان دنوں ان ٹورنامنٹس میں حصہ لینے والے کھلاڑیوں کو امیچرز کہا جاتا تھا۔
اگرچہ اس قاعدے سے خامیاں تھیں، جیسا کہ ہنگری، روس اور دیگر سوشلسٹ ممالک نے یہ دعویٰ کیا کہ فٹبال ورلڈ کپ میں حصہ لینے والے کھلاڑی فوج کے رکن ہیں، یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ فوج کے ارکان پیشہ ور نہیں ہو سکتے۔
لیکن غالباً انڈین فٹ بال کے عہدیداروں کو اس وقت اتنا علم نہیں تھا۔
ممکن ہے کہ انڈین فٹبال ایسوسی ایشن نے ایشین گیمز اور اولمپک گیمز میں شرکت سے ہٹائے جانے کے خوف سے 1950 کے ورلڈ کپ میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہو۔
لیکن یہ فیصلہ ایک ایسی غلطی ثابت ہوا، جس کی کاٹ انڈیا کے کھیلوں کے شائقین کو گذشتہ 72 برسوں سے ستا رہی ہے۔