نریندر مودی انڈیا کے وزیر اعظم کی سکیورٹی میں 15 منٹ

نریندر مودی انڈیا کے وزیر اعظم کی سکیورٹی میں 15 منٹ

نریندر مودی انڈیا کے وزیر اعظم کی سکیورٹی میں 15 منٹ کی کوتاہی اور انڈین سوشل میڈیا پر پاکستان اور نواز شریف کی بازگشت

انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی پنجاب میں ایک فلائی اوور پر قریباً 15 سے 20 منٹ تک پھنسے رہے اور انڈیا میں اس واقعے کو سکیورٹی کی ایک ’سنگین کوتاہی‘ قرار دیا جا رہا ہے۔

شیڈول کے مطابق نریندر مودی کو شمالی ریاست میں ایک یادگار کا دورۂ کرنا تھا مگر اسی راستے پر کسان احتجاج کر رہے تھے اور ٹریفک آمد و رفت کے لیے بند تھی۔

یہ مظاہرین وہاں کابینہ کے اس وزیر کے استعفے کا مطالبہ کر رہے تھے جن کے بیٹے پر کسانوں کے قتل کا الزام ہے۔

وفاقی وزارت داخلہ نے ایک بیان میں اسے ’وزیر اعظم کی سکیورٹی میں بڑی کوتاہی‘ قرار دیا ہے۔

نریندر مودی نے ریاستی انتخابات سے قبل فیروزپور شہر میں ایک جلسے سے بھی خطاب کرنا تھا۔ لیکن وزارت داخلہ نے بتایا ہے کہ سکیورٹی کی اس کوتاہی کی وجہ سے مودی کا قافلہ ایئرپورٹ واپس لوٹ گیا۔

مظاہرین جونیئر ہوم منسٹر آجے مشرا کے استعفے کا مطالبہ کر رہے تھے کیونکہ اُن کے بیٹے پر الزام ہے کہ انھوں نے اکتوبر کے کسانوں کے احتجاج کے دوران اپنی گاڑی سے کچل کر کئی افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔

یاد رہے کہ آجے مشرا کی ملکیت ایک کار ریاست اترپردیش میں کسانوں کے احتجاج میں اچانک گھس گئی تھی اور اس سے چار لوگ مارے گئے تھے۔ کسانوں کا الزام ہے کہ اس حملے کے پیچھے وزیر کے بیٹے اشیش مشرا تھے۔ تاہم انھوں نے اس الزام کی تردید کی ہے۔

انڈین وزیر اعظم بدھ کی صبح بھٹنڈہ ایئرپورٹ پہنچے تھے اور شیڈول کے تحت انھیں قومی شہدا کی یادگار جانا تھا اور اس کے بعد ایک ہیلی کاپٹر میں روانہ ہو کر جلسے سے خطاب کرنا تھا۔

مگر یہ دورۂ خراب موسم کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوا تھا۔ جب حد نگاہ بہتر نہ ہوئی تو ان کا قافلہ سڑک کے راستے روانہ ہوا۔ یہ یادگار سے قریب 30 کلومیٹر دور مظاہرین کی وجہ سے پھنس گیا۔

انڈین وزارت داخلہ نے کہا ہے کہ انھوں نے پنجاب حکومت سے ’سکیورٹی میں بڑی کوتاہی‘ پر تفصیلی رپورٹ طلب کی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ طریقۂ کار کے تحت انھیں سکیورٹی اور ہنگامی حالات کے منصوبے سمیت ضروری انتظامات کرنا تھے۔

وزیر اعظم مودی کی زندگی کو خطرے میں ڈالا گیا؟

اس واقعے کے بعد انڈیا میں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتی دکھائی دے رہی ہیں۔ مرکزی حکمراں جماعت بی جے پی نے اس کا الزام ریاست میں کانگریس جماعت کی حکومت پر لگایا ہے۔

جبکہ کانگریس کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ مودی کی ریلی میں کرسیاں خالی تھیں اس لیے انھوں نے سکیورٹی کا بہانہ بنا کر براستہ سڑک واپس جانا بہتر سمجھا۔

سابق آئی پی ایس افسر یشو وردھن آزاد کا ماننا ہے کہ وزیر اعظم کے قافلے کا سرحدی علاقے میں تقریباً 15 منٹ تک رہنا سکیورٹی کی ایک بہت بڑی کوتاہی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ’یہ بڑی غلطی اس لیے ہوئی ہے کہ ایک سرحدی ریاست میں اگر وزیر اعظم کا قافلہ کسی پُل پر 15-20 منٹ تک قیدی کی طرح کھڑا رہتا ہے تو یہ سکیورٹی کے نقطہ نظر سے ایک سنگین معاملہ ہے۔‘

’اس لیے کہ وزیر اعظم جہاں بھی جاتے ہیں، وہاں کی ذمہ داری ایس پی جی (سپیشل پروٹیکشن گروپ) کی ہوتی ہے، لیکن سکیورٹی کی مجموعی ذمہ داری ریاستی حکومت کی ہوتی ہے۔‘آزاد کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کی حفاظت کو بہت زیادہ خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ اس لیے ان کا ایسی صورتحال میں صرف بُلٹ پروف کار کے اندر رہنا بہت بڑی غلطی ہے۔

نریندر مودی، سکیورٹی، ایس پی جی، فائل فوٹو

ایک سابق سینیئر پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ کسی ریاست میں امن و امان کی ذمہ داری پولیس پر عائد ہوتی ہے۔ لیکن جب وزیر اعظم کی بات آتی ہے تو ان کی سکیورٹی میں ایس پی جی کو بھی تعینات کیا جاتا ہے۔

ان کے مطابق ’ایس پی جی کی ٹیمیں وزیر اعظم کے کسی بھی دورے میں سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے پیشگی جاتی ہیں۔ مقامی انٹیلیجنس حکام سے ملاقاتیں کرتی ہیں۔ کہاں کیا انتظام ہونا چاہیے، روٹ کیا ہونا چاہیے، وہ سب کچھ طے کرتے ہیں۔ باہری دائرے میں پولیس اور اندرونی دائرے میں ایس پی جی سکیورٹی فراہم کرتی ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کے دورے سے پہلے ریاستی حکومت کو مطلع کیا جاتا ہے اور وزیر اعظم کی سکیورٹی کے نقطہ نظر سے ہر طرح کی تیاری کی جاتی ہے۔

وہ اسے ایک غلطی قرار دینے کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ تحقیقاتی رپورٹ آنے تک انتظار کرنا چاہیے۔

آزاد کا کہنا ہے کہ ’بٹھنڈہ سے فیروزپور کا فاصلہ تقریباً 110 کلومیٹر ہے۔ بھٹنڈہ ایئرپورٹ پر پہنچنے کے بعد وزیر اعظم کو آگے جانا پڑا لیکن موسم خراب تھا۔ وہاں کچھ دیر رُک کر موسم کے بہتر ہونے کا انتظار کیا گیا۔ لیکن اس کے بعد سڑک کے راستے سے جانے کا فیصلہ کیا گیا۔ ایسے میں ریاستی حکومت کی جانب سے ہنگامی تیاری بھی کی جاتی ہے، ویسے بھی وزیر اعظم کے دورے کے لیے متبادل راستے بھی تیار ہوتے ہیں۔‘

وہ سمجھتے ہیں کہ ’جب وزیر اعظم کے راستے کو سڑک سے جانے کے لیے کلیئرنس دی گئی تو یہ واضح ہو گا کہ پولیس نے کہا ہو گا کہ وہ اس راستے کو صاف کر دے گی۔ جب وزیر اعظم کا قافلہ چلے گا، ریاستی پولیس آگے بڑھے گی۔‘

نریندر مودی، سکیورٹی

آزاد کا یہ بھی ماننا ہے کہ پورے 110 کلومیٹر طویل راستے پر ہر جگہ پولیس کو تعینات نہیں کیا جا سکتا، لیکن وزیر اعظم کی سکیورٹی کے لیے مکمل انتظامات ہوتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’کچھ لوگوں نے ان کا راستہ بلاک کیا۔ یعنی وزیر اعظم کا قافلہ کس سڑک سے جا رہا تھا یہ معلومات لیک ہوئیں۔ موبائل فون کے دور میں اور 110 کلومیٹر طویل روٹ پر یہ غلطی نہیں۔ یہ معلومات عام ہو سکتی تھی۔ مگر لوگ وہاں جمع ہوئے، یہ غلطی تھی۔ وہ کسان تھے اور انھوں نے سڑک بلاک کر رکھی تھی۔ پولیس کے ایڈوانس یونٹ نے وزیر اعظم کی کار پیچھے رکھی اور وہ آگے مذاکرات کرنے چلے گئے۔‘

آزاد کہتے ہیں کہ اس دوران جو کچھ ہوا، پولیس نے جو طریقہ اپنایا، وہ وزیر اعظم کی سکیورٹی کے لحاظ سے بہت خطرناک تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’آپ عام دنوں میں مظاہرین سے بات کر سکتے ہیں لیکن وزیر اعظم کے قافلے کے راستے میں نہیں۔ پولیس کو فوراً راستہ صاف کر دینا چاہیے تھا۔ چاہے وہ زبردستی ہی کیوں نہ ہو۔‘

پولیس کی جانب سے طاقت کا استعمال نہ کرنے کے پیچھے وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ آج کل جو کارروائی کوئی کرتا ہے، وہی کارروائی مخالف طرف سے بھی کی جاتی ہے۔

انڈیا کے وزیر اعظم کی سکیورٹی کا کیا پروٹوکول ہے؟

آزاد بتاتے ہیں کہ انڈیا کے وزیر اعظم کے کسی دورے سے پہلے بہت وسیع سطح پر تیاریاں کی جاتی ہیں۔

ان کے بقول اگر وزیراعظم کسی انتخابی جلسے میں جاتے ہیں تو مختلف تیاریاں کی جاتی ہیں۔ اگر وہ کسی پروگرام میں یا ریلی میں جاتے ہیں تو اس کی تیاری مختلف ہوتی ہے لیکن اس کی تیاری میں ہر قدم کا خیال رکھا جاتا ہے۔

پی ٹی آئی بھاشا کے مدیر اور طویل عرصے تک پی ایم او کی کوریج کرنے والے صحافی نرمل پاٹھک کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کی سکیورٹی میں ایسی کوتاہی بہت بڑی بات ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم سے پہلے اس جگہ ایس پی جی کی ٹیم جاتی ہے اور یہاں کی ریکی کرتی ہے۔ ایس پی جی دستہ یہاں تعینات کیا جاتا ہے۔ انڈیا میں انٹیلیجنس بیورو (آئی بی) کا ادارۂ بھی ان سے مسلسل رابطے میں ہوتا ہے۔

نریندر مودی، سکیورٹی

انڈیا میں وزرا اعظم کو سکیورٹی فراہم کرنے والا ادارہ ایس پی جی

سپیشل سکیورٹی گروپ یا سپیشل پروٹیکشن ٹیم سال 1985 میں قائم کی گئی تھی جس کا مقصد انڈیا میں وزیراعظم، سابق وزرا اعظم اور ان کے قریبی افراد کو سکیورٹی فراہم کرنا ہے۔

اسے 1984 میں اندرا گاندھی کے قتل کے چند سال بعد 1988 میں مکمل طور پر تشکیل دیا گیا تھا۔

ایس پی جی کا سالانہ بجٹ 375 کروڑ روپے سے زیادہ ہے اور اسے ملک کا سب سے مہنگا اور مضبوط سکیورٹی سسٹم سمجھا جاتا ہے۔

ریاستی حکومت کی جانب سے الزامات کی تردید

پنجاب کے وزیر اعلیٰ چرنجیت سنگھ چنی نے بدھ کی شام تقریباً چھ بجے اس معاملے پر پریس کانفرنس کی۔ چنی نے کہا کہ یہ ’سکیورٹی لیپس‘ کا معاملہ نہیں لیکن انھیں وزیر اعظم کی واپسی پر افسوس ہے۔

چنی نے کہا کہ وزیر داخلہ کا فون آیا تھا جس میں انھوں نے کہا کہ وہاں کچھ غلط ہوا ہے اور وزیراعظم واپس آرہے ہیں۔ ’میں نے کہا میری طرف سے کوئی غلطی نہیں ہے۔‘

چنی نے کہا کہ وزیراعظم کی سکیورٹی کے لیے تمام انتظامات کیے گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اس میں سکیورٹی کا کوئی مسئلہ نہیں تھا کیونکہ انھیں مشتعل افراد نے روکا اور وہ چلے گئے۔ ’میں اب یہ کہوں گا کہ آئندہ مزید اچھے انتظامات کیے جائیں گے۔‘

سمریتی ایرانی
مرکزی وزیر اور بی جے پی رہنما سمریتی ایرانی

اسی دوران مرکزی وزیر اور بی جے پی رہنما سمریتی ایرانی نے بھی اس معاملے پر پریس کانفرنس کی ہے۔

انھوں نے الزام لگایا کہ وزیر اعظم کی جان کو خطرے میں ڈال دیا گیا اور پنجاب پولیس خاموش تماشائی بنی رہی۔

انھوں نے الزام لگایا کہ ’کانگریس کے خونی ارادے ناکام ہو گئے، ہم نے کئی بار کہا ہے کہ کانگریس مودی سے نفرت کرتی ہے لیکن انڈیا کے وزیر اعظم سے حساب مت کرو۔ کانگریس کو آج جواب دینا پڑے گا۔‘

مرکزی وزیر نے سوالات اٹھائے کہ کیا ’وزیر اعظم کے سکیورٹی سکواڈ نے جان بوجھ کر جھوٹ بولا؟ پی ایم کے پورے قافلے کو روکنے کی کوشش کی گئی، پی ایم کی سکیورٹی 20 منٹ تک خراب ہوئی، ان لوگوں کو وہاں کون لے گیا؟‘

وزیر اعظم کے دورے میں سکیورٹی میں کوتاہی سے متعلق الزامات کا جواب دیتے ہوئے کانگریس کے ترجمان رندیپ سنگھ سرجے والا نے کہا کہ وہ سب کے وزیر اعظم ہیں اور اس معاملے پر کوئی سیاست نہیں ہونی چاہیے۔

خیال رہے کہ وزارت داخلہ نے پنجاب حکومت سے اس حوالے سے تفصیلی رپورٹ طلب کی ہے۔

انڈین سوشل میڈیا پر ردعمل

وزیر اعظم مودی کی سکیورٹی میں کوتاہی پر سوشل میڈیا صارفین بھی طرح طرح کے تبصرے کر رہے ہیں۔

ایک صارف نے اس معاملے پر تنقیدی ٹویٹ کرتے ہوئے انڈین نیوز چینل کا ایک کلپ شیئر کیا اور لکھا کہ ’ہم سے بہتر تو پاکستان نکلا، اِن لوگوں کا کوئی بھروسہ نہیں۔‘

انھوں نے ہندو دائیں بازو کے حامی سمجھے جانے والے صحافی سدھیر چودھری کے پروگرام کا ایک کلپ شیئر کیا جس میں سکیورٹی میں کوتاہی کے معاملے پر تنقید کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ’پنجاب پولیس نے پردھان منتری کو ایک سٹرک پر 20 منٹ تک کے لیے دنیا سے کاٹ کر رکھ دیا گیا تھا اور ان 20 منٹوں میں کچھ بھی ہو سکتا تھا۔‘

اسی کلپ میں آگے چل کر وہ کہتے ہیں کہ سنہ 2015 میں مودی نے اچانک پاکستان جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ ‘مودی پاکستان چلے گئے، وہاں لینڈ کر گئے اور نواز شریف کے گھر چلے گئے۔ پاکستان میں انھیں آنے جانے میں کہیں کوئی مسئلہ نہیں ہوا، کہیں سکیورٹی کی کوتاہی نہیں ہوئی۔۔۔ ہم سے تو پاکستان بہتر نکلا۔’

اس موقع پر گاندھی خاندان کی اٹلی میں رشتہ داری کا حوالہ دیتے ہوئے ایک صارف نے لکھا کہ ‘یہاں تک کہ نواز شریف نے بھی پی ایم مودی کو اطالوی پارٹی سے بہتر سیکورٹی فراہم کی۔’

مودی

ٹوئٹر پر ہونے والی اسی نوعیت کی بحث پر تنقید کرتے ہوئے ایک صارف نے لکھا کہ ‘گُلو میڈیا [مودی حامی میڈیا] بتا رہا ہے کہ وزیر اعظم مودی پاکستان والے پنجاب میں زیادہ محفوظ محسوس کرتے ہیں، اس لیے کیا انھیں لاہور بھیج دینا چاہیے؟‘

انڈین نیوز ایجنسی اے این آئی کے مطابق اس واقعے کے بعد بھٹنڈا ہوائی اڈے پر واپس پہنچنے کے بعد وزیر اعظم مودی نے وہاں کے افسران سے کہا کہ ‘اپنے (پنچاب کے) وزیراعلیٰ کو شکریہ کہنا کہ میں بھٹنڈا ہوائی اڈے تک زندہ لوٹ پایا۔’

وزیر اعظم کے اس تبصرے پر تنقید کرتے ہوئے ایک کانگریسی رہنما نے حزب اختلاف کے رہنما راہل گاندھی کی عوام میں موجود ہونے اور مودی کے کار میں بیٹھے رہنے کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ‘راہل گاندھی جی بغیر ایس پی جی سیکورٹی کے، مودی جی بلٹ پروف کار اور ایس پی جی سیکورٹی کے ساتھ۔ اب بتاؤ کس کی جان خطرے میں ہے؟‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *