مفتی تقی عثمانی پر ’قاتلانہ حملہ پہلے چاکلیٹ اور پھر چاقو ’تحفہ دینے کے لیے نکالا تھا
کراچی کی دینی درسگاہ دارالعلوم کورنگی میں جمعرات کی صبح 34 برس کے ایک مشبہ شخص کی جیب سے چاقو برآمد ہونے کے بعد مقامی انتظامیہ نے اسے حراست میں لے لیا تھا۔
اس کے بعد پاکستان کے ٹی وی چینلز پر دن بھر مفتی تقی عثمانی پر قاتلانہ حملے کی خبریں شہ سرخیوں میں رہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے بھی مفتی تقی عثمانی سے رابطہ کر کے ان کی خیریت دریافت کی تھی۔
اس شخص نے مفتی تقی عثمانی سے ملاقات کے وقت چھوٹے سائز کا یہ چاقو اپنی جیب سے نکالا تھا جس کے بعد مشتبہ شخص کو پولیس کے حوالے کر دیا گیا اور پولیس نے اس پر حملے کا مقدمہ دائر کیا ہے۔
کراچی میں عالم دین مفتی تقی عثمانی پر مبینہ حملے کے الزام میں گرفتار شخص اپنی بیوی سے عیلحدگی کے مسئلے پر مفتی تقی سے رائے لینے گیا تھا اور دارالعلوم اور پولیس نے اس بیان کی تصدیق بھی کی ہے۔
مفتی تقی عثمانی نے ایک آڈیو بیان میں کہا ہے کہ ایک صاحب آئے تھے جنھوں نے علیحدگی میں بات کرنے کا کہا لیکن وہ بات کرنے کے لیے اٹھ کر اس شخص کے قریب گئے ہی تھے کہ اس نے اپنی جیب سے یکدم چاقو نکالا لیکن ان کے ساتھیوں نے اسے پکڑ لیا۔ مفتی تقی عثمانی کا کہنا تھا کہ ’اللہ کا شکر ہے کوئی تکلیف نہیں پہنچی۔‘
مشتبہ شخص کا تعلق کراچی کے گلستان جوہر سے ہے۔ فیس بک اکاؤنٹ کے مطابق اس شخص نے کراچی یونیورسٹی سے شعبہ بین الاقوامی تعلقات عامہ میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے اور وہ ریئل سٹیٹ کے کام سے وابستہ ہے۔
’اپنے اور اپنی بیگم کے درمیان فیملی معاملے کے بارے میں پوچھنا تھا‘
اپنے دو صفحوں پر مشتمل بیان میں اس شخص نے بتایا ہے کہ ان کا دارالعلوم آنے کا مقصد مفتی تقی عثمانی سے اپنے اور اپنی بیگم کے درمیان فیملی معاملے کے بارے میں پوچھنا تھا اور یہ کہ وہ اس سے پہلے بھی دو بار وہاں جا چکے تھے۔
بیان میں یہ شخص مزید کہتا ہے کہ ’ہمارے معاشرے میں طلاق اور خلع بہت معیوب سمجھی جاتی ہیں اسی طرح صدیقی برداری میں خلا ایک ایسا لفظ ہے جو کہ مرد پر بھی لگے تو اسے معیوب سمجھا جاتا ہے‘۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ پچھلے چھ ماہ یعنی جنوری سے بہت پریشان ہیں اور اس وجہ سے مفتی تقی عثمانی سے اپنے مسئلے کا کوئی شرعی حل تلاش کرنے آئے تھے۔
بیان میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس سے قبل جب وہ دوسری بار وہاں گئے تھے تو کینٹین سے نکلتے ہوئے ایک شاگرد سے پوچھا تھا کہ مفتی تقی عثمانی سے آسانی سے پانچ یا چھ منٹ کیسے ملاقات ہو سکتی ہے تو شاگرد نے بتایا تھا کہ صبح فجر کی اذان کے وقت آ جائیں، نماز کے بعد مفتی تقی سے صحن میں ملاقات ہو سکتی ہے اور اسی بنا پر وہ صبح مفتی صاحب کے پاس گئے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’نماز کی ادائیگی کے بعد مفتی صاحب کے پاس گیا کہ مجھے چند منٹ آپ سے ذاتی زندگی کے متعلق بات کرنی ہے تو مفتی صاحب نے بعد میں آنے کا کہا۔ میں نے معذرت کر لی اور بعد میں آنے کا کہا، لیکن جاتے ہوئے میرے ذہن میں آیا کہ مفتی صاحب کو چاکلیٹ گفٹ کر دوں جو کہ میں اپنی بیوی کے لیے لایا تھا لیکن انھوں نے منع کر دیا۔ پھر ذہن میں یکدم آیا کہ اپنا چاقو جو میں نے اپنے دفتر میں سیب اور انار کاٹنے کے لیے لیا تھا یہ گفٹ کردوں، جیسے ہی میں نے جیب سے چاقو نکالا تو وہ غلطی سے کھل گیا اور اسی وقت سکیورٹی گارڈ نے مجھ سے چاقو لے کر پکڑ لیا۔‘
’اس کے بعد بہت ہی مودبانہ انداز میں مجھے سکیورٹی روم میں لے آئے، ذاتی معلومات لیں اور آرام کرنے کا کہا، اس کے بعد میں نے یہ بیان لکھا۔‘
’بیان میں بتائی گئی باتیں درست معلوم ہوئی ہیں‘
ایس ایس پی کورنگی شاہجہان نے بی بی سی کو بتایا کہ دارالعلوم نے یہ بیان پولیس کے حوالے کیا ہے۔
’ابتدائی تحقیقات میں اس بیان میں بتائی گئی باتیں درست معلوم ہوئی ہیں اور یہ بھی پتہ چلا ہے کہ مشبہ شخص کی ذہنی صحت درست نہیں۔‘
ان کے مطابق اس مشتبہ شخص کو دارالعلوم نے پولیس کے حوالے کیا اور سرکار کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
پولیس کے بیان کے مطابق مفتی تقی عثمانی نمازیوں سے ملاقات کر رہے تھے کہ اچانک ایک شخص آیا جس کو مشتبہ و مشکوک جانتے ہوئے پکڑا گیا اور دوران تلاشی اس سے سیاہ رنگ کا ایک عدد چاقو برآمد ہوا۔
ایس ایس پی کورنگی سے جب معلوم کیا گیا کہ کیا مقدمہ واپس لیا جائے گا تو ان کا کہنا تھا کہ تحقیقات کی روشنی میں قانون کے مطابق پیروی کی جائیگی۔
دارالعلوم کے ترجمان طحہٰ رحمان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس بیان کی تصدیق کی ہے کہ دارالعلوم نے اپنے طور پر بھی اس مشتبہ شخص کے فراہم کیے گئے پتے سے معلومات حاصل کی ہیں اور اس نے جو بیان دیا وہ درست ہے۔
یاد رہے کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد مذہبی درس گاہوں میں علمائے دین سے ذاتی طور پر ملاقات کر کے یا آن لائن تحریری طور پر رابطہ کر کے اپنی ذاتی زندگی، رشتوں، کاروبار سمیت دیگر معاملات میں مذہبی رہنمائی اور فتویٰ حاصل کرتے ہیں۔
مفتی تقی عثمانی کون ہیں؟
مفتی تقی عثمانی تحریک پاکستان کے رکن مولانا شفیع عثمانی کے بیٹے ہیں جو دیوبند کے ان علما میں سے تھے جنھوں نے قیام پاکستان کی حمایت کی تھی۔
مولانا شفیع عثمانی، محمد علی جناح کے رفیق مولانا شبیر عثمانی کے قریبی رشتہ دار تھے۔ انھوں نے کورنگی میں دارالعلوم کراچی کی بنیاد رکھی جس کے موجودہ مہتمم رفیع عثمانی ہیں جو تقی عثمانی کے بڑے بھائی ہیں اور انھیں ’مفتی اعظم‘ کا منصب بھی حاصل ہے۔
تقی عثمانی کی پیدائش اکتوبر سنہ 1943 میں ہوئی تھی۔ انھوں نے پنجاب بورڈ سے فاضل عربی کی تعلیم حاصل کی اور درس نظامی سے فارغ ہونے کے بعد کراچی یونیورسٹی سے ایل ایل بی اور پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے عربی کی سند حاصل کی۔ آج کل وہ دارالعلوم کراچی میں حدیث اور فقہ پڑھا رہے ہیں۔
تقی عثمانی 44 سے زائد کتابوں کے مصنف اور ’البلاغ‘ نامی جریدے کے مدیر بھی ہیں جو اردو اور انگریزی میں شائع ہوتا رہا ہے۔
سنہ 1981 میں وہ فیڈرل شریعت کورٹ میں جج تعینات ہوئے اور ایک بڑے عرصے تک اس منصب پر فائز رہنے کے بعد جنرل مشرف کی حکومت میں انھیں اس عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔
پاکستان میں اسلامی بینکنگ کا نظام متعارف کرانے میں بھی ان کا بنیادی کردار رہا ہے۔ شریعت کورٹ میں انھوں نے ایک فیصلے میں بینکوں میں سود کو اسلامی نظام کے خلاف قرار دیا تھا۔
امریکہ اور اتحادیوں نے جب افغانستان پر حملہ کیا تو انھوں نے اپنی تقریر اور تحریر میں کھل کر اس کی مخالفت کی تھی۔
مفتی تقی عثمانی کا خاندان سیاست سے دور رہا جبکہ مذہبی طور پر ان کی پاکستان، افغانستان اور انڈیا میں پذیرائی کی جاتی ہے۔
ملا عمر سے مذاکرات کے لیے جب حکومت پاکستان نے علما کا وفد بھیجا تھا تو اس میں تقی عثمانی کے بھائی رفیع عثمانی بھی شامل تھے جبکہ لال مسجد آپریشن سے قبل جب حکومت نے لال مسجد انتظامیہ سے مذاکرات کے لیے وفد بھیجا تو ان میں تقی عثمانی بھی شامل تھے۔