مرغی کی قیمتوں میں اضافہ کیا شادی سیزن بازار میں چکن کی قلّت کا باعث بنا؟
کراچی کے علاقے کیماڑی میں ہارون بحریہ کالونی میں چکن شاپ کے مالک سے جب ایک کلو مرغی کے گوشت کی قیمت کے بارے میں پوچھا تو انطوں نے کہا 480 روپے فی کلو میں ملے گی۔
ان سے جب پوچھا گیا کہ اتنی زیادہ قیمت کیوں؟ تو انھوں نے فوراً جواب دیا کہ ’صاحب جی! ہم کیا کریں، جس سپلائر سے وہ گوشت لیتے ہیں وہ انھیں زیادہ قیمت پر فارم کی مرغی فراہم کر رہا ہے۔‘ چکن شاپ کے مالک نے مزید بتایا کہ مرغی کی سپلائی بھی کم ہو رہی ہے جس کی وجہ سے قیمتیں بڑھی ہوئی ہیں۔
دوسری جانب ایک نجی کمپنی میں کام کرنے والے محمد اعظم چکن کی قیمتوں میں اضافے سے پریشان ہیں۔ انھوں نے کہا مٹن بارہ تیرہ سو روپے کلو ہونے کی وجہ سے قوت خرید سے باہر ہو چکا ہے تو دوسری جانب بیف کی قیمت بھی بہت زیادہ ہے۔ ایک لے دے کے مرغی کا گوشت بچا تھا کہ جو ایک عام آدمی کھا سکتا تھا تاہم وہ بھی اب پہنچ سے باہر ہو رہا ہے۔
چکن کی قیمتوں میں حالیہ تیزی سے اضافے نے اس کالونی کے صارفین کو ہی متاثر نہیں کیا بلکہ کراچی اور پورے ملک میں چکن کی قمیتوں میں حالیہ ہفتوں میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔
سرکاری ادارے محکمہ شماریات نے بھی اپنے تازہ ترین ہفتہ وار اعداد و شمار میں چکن کی قیمتوں میں اضافے کے بارے میں بتایا جو کہ ہفتہ وار بنیاد پر پانچ فیصد سے زیادہ بڑھیں۔
ملک کے مختلف شہروں میں اس کی قیمتوں کے بارے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو زندہ مرغی کی ملک میں اوسطاً قیمت پونے تین سو اور تین سو درمیان ظاہر کی گئی ہیں۔ تاہم ملک کے بڑے شہروں میں زندہ مرغی فی کلو چار سو روپوں سے زائد میں بک رہی ہے تو مرغی کا گوشت چار سو اسی اور پانچ سو روپے فی کلو کے درمیان بک رہا ہے۔
چکن کی قمیتوں میں اضافے کے بارے میں پولٹری کے شعبے سے وابستہ افراد اسے رسد و طلب کے نظام سے جوڑتے ہیں۔ ان کے بقول اس وقت سپلائی سائیڈ پر کچھ مسائل ہیں جس کی وجہ سے اس کی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس کے ساتھ وہ پولٹری کے شعبے میں کاروباری لاگت کو بھی اضافے کا سبب بتاتے ہیں۔
دوسری جانب صارفین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے پاکستان کنزیومر ایسوسی ایشن کے مطابق پولٹری کا شعبہ ناجائز منافع خوری کے لیے اس کی قیمتوں کو بڑھا رہا ہے۔
پاکستان کنزیومر ایسوسی ایشن نے اس سلسلے میں سوشل میڈیا پر ایک مہم بھی شروع کی ہے جس میں صارفین سے دس روز کے لیے چکن خریدنے اور کھانے کے لیے اپیل کی گئی ہے۔ چکن کی قیمت میں بے تحاشا اضافے کی وجہ سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ‘بائیکاٹ چکن‘ کا ہیش ٹیگ پاکستان میں ٹاپ ٹرینڈز میں شامل رہا جس میں لوگوں کو چکن نہ خریدنے کی ترغیب دی گئی ہے۔
چکن کی قیمتوں میں اضافہ کیوں ہوا؟
حالیہ دنوں میں چکن کی قیمتوں میں اضافے کے سلسلے میں جب پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن سے رابطہ کیا گیا تو ایسوسی ایشن کے ترجمان معروف صدیقی نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ یہ اضافہ رسد اور طلب کی وجہ سے ہوا ہے۔
ان کے مطابق اس وقت سپلائی کم ہے اور اس کی طلب زیادہ ہے جو اس کے اضافے کا سبب بنی ہے۔ ان کے مطابق پاکستان میں کورونا وائرس کی وجہ سے بہت سارے پولٹری فارمز بند ہو گئے تھے اور جب کورونا وائرس میں کمی کے بعد لاک ڈاون اٹھا تو طلب میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔
معروف صدیقی کہتے ہیں کہ پاکستان میں رجب اور شعبان کے مہینے شادیوں کے مہینے ہوتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ حالیہ ہفتوں میں شادی کی بے پناہ تقریبات منعقد ہوئی ہیں اور ابھی تک جاری ہیں۔ انھوں نے کہا اس کا ثبوت رات کے علاوہ دن کے اوقات میں بھی ولیمے کے تقریبات سے لگایا جا سکتا ہے۔ ’ان تقریبات کی وجہ سے چکن کی طلب میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا اور طلب تو زیادہ ہوئی لیکن کورونا وائرس کے لاک ڈاون میں بند ہو جانے والے پولٹری فارمز کی وجہ سے رسد اس طلب کو پورا نہیں کر پا رہا۔‘
پولٹری فارمر ملک محمد حنیف سے جب اس سلسلے میں بات کی گئی تو انھوں نے رسد و طلب میں گیپ کے علاوہ پولٹری کے شعبے کی کاروباری لاگت میں اضافے کو بھی قیمتوں میں اضافے کا سبب قرار دیا۔ ان کے مطابق چکن فیڈ کی قیمت میں دو ڈھائی سال کے دوران بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ ‘پچاس کلو گرام چکن فیڈ جو دو ڈھائی سال پہلے سترہ سو روپے کا آتا تھا اب 3700 روپے کا ہو رہا ہے۔ اسی طرح مرغیوں کی دوائیں بھی بہت مہنگی ہو چکی ہیں۔‘
کیا چکن کی قیمتوں میں اضافہ مصنوعی ہے؟
پاکستان کنزیومر ایسوسی ایشن کے چیئرمین کوکب اقبال چکن کی قیمتوں میں اضافے کو طلب و رسد میں فرق کے تاثر کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ جواز اس شعبے کے افراد نے اپنی ناجائز منافع خوری کو چھپانے کے لیے گھڑا ہے۔
ان کے مطابق طلب و رسد میں انتا بڑا فرق کیسے آگیا کہ کچھ دنوں میں چکن کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں۔ ان کے مطابق یہ اس شعبے کے افراد کی ملی بھگت ہے اور ان کی زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی کوشش ہے۔ کوکب اقبال نے کہا کہ ملک میں ہر دوسرے شعبے کی طرح پولٹری میں بھی ایک مافیا کام کر رہا ہے جو اپنی مرضی سے قیمتیں بڑھا دیتا ہے اور پھر اسے طلب و رسد میں فرق سے جوڑتا ہے۔
کوکب اقبال نے کہا کہ اگر یہ طلب و رسد کا ہی مسئلہ ہے تو پھر ضلعی حکومتیں کیوں سرکاری لسٹوں میں اپنے نرخ جاری کرتی ہیں۔
کمشنر کراچی کے دفتر سے جاری کردہ نرخوں کے مطابق برائلر مرغی کی قیمت 138 روپے فی کلو ہے تو برائلر مرغی کی گوشت کی قیمت 214 روپے فی کلو ہے۔
کوکب اقبال نے انتظامیہ کی کمزوری کو بھی قیمتوں میں اضافے پر مورد الزام ٹھہرایا۔ انھوں نے کہا کہ صرف سرکاری نرخ جاری کر دینا انتظامی مشینری کا کام نہیں ہے بلکہ اس پر عملدرآمد کرانا ان کی اصل ذمہ داری ہے جو انتظامیہ ادا نہیں کر رہی۔
‘بایئکاٹ چکن‘ مہم
چکن کی قیمتوں میں بے پناہ اضافے کے بعد سماجی رابطے کی ویب سائٹوں پر چکن کی خریداری کا بائیکاٹ کرنے کے پیغامات کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر یہ پانچ ٹاپ ٹرینڈز میں شامل ہو گیا تھا۔
کوکب اقبال نے کہا ان کی ایسوسی ایشن کی جانب سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹوں پر ‘بائیکاٹ چکن‘ کے پیغامات چلائے گئے جسے بہت میں سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں نے آگے بڑھایا۔
ان کے مطابق سوشل میڈیا پر اس مہم نے زور پکڑا ہے اور لوگوں کو ترغیب دی گئی ہے کہ وہ زیادہ نہیں تو صرف دس دن کے لیے برائلر مرغی کا استعمال اور اس کا خریدنا بند کر دیں تو اس کی قیمتیں نیچے آ جائیں گی۔ انھوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ اس مہم کے نتیجے میں لوگ چکن کا بائیکاٹ کر کے اس شعبے میں ناجائز منافع خوری کرنے والے عناصر کے ارادوں کو نقصان پہنچانے میں کامیاب ہوں گے۔
تاہم پولٹری فارمر ملک حنیف نے کہا کہ اس مہم کا کوئی اثر ابھی تک ظاہر نہیں ہوا اور چکن کی ڈیمانڈ ابھی تک برقرار ہے۔ انھوں نے کہا جب پولٹری کے شعبے میں لاگت بڑھی تو اس وقت کسی نے نہیں پوچھا کہ وہ کس طرح کاروبار کر رہے ہیں۔
معروف صدیقی نے ‘بائیکاٹ چکن‘ کی مہم پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہر انسان کا حق ہے کہ وہ کیا چیز خریدنا چاہتا ہے اور کیا نہیں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اگر لوگ مرغی کھانا چھوڑ دیں تو وہ گوشت کی ضروریات کیسے پوری کریں گے۔ انھوں نے کہا کہ روزانہ ایک کروڑ کلوگرام چکن کی جگہ اگر مٹن اور بیف کھایا جانے لگے تو تصور کریں کہ کتنی گائے اور بکریاں ذبح کرنی پڑیں گی۔
کنزیومر ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین کوکب اقبال نے کہا پاکستان میں صارفین کے حقوق کے تحفظ کے لیے قوانین موجود ہیں جن کا نفاذ 2005 سے ہونا شروع ہوا تاہم ان کے مطابق ان قوانین کا اطلاق قیمتوں پر کنٹرول پر نہیں ہوتا۔
انھوں نے بتایا کہ یہ قوانین مصنوعات کے معیار، خصوصیات اور اس میں کسی قسم کی خامی سے متعلق امور پر حرکت میں آتے ہیں۔
کوکب اقبال نے کہا قیمتوں کا ایشو فی الحال ان قوانین کے تحت نہیں آتا۔ انھوں نے کہا بتایا کہ قیمتوں کے سلسلے میں ملک کی عدالتوں میں رجوع کیا جا سکتا ہے اور وقتاً فوقتاً انفرادی اور تنظیموں کی جانب سے ہائی کورٹس میں کیس فائل کیے گئے ہیں۔
پاکستان میں چکن کی پیداوار کی پیداوار کتنی ہے؟
ملک میں پولٹری کے شعبے میں چکن کی پیداوار کے سلسلے میں پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن کے ترجمان معروف صدیقی نے کہا کہ ملک میں روزانہ کی بنیادوں پر نوے لاکھ سے ایک کروڑ برائلر مرغی کی سپلائی ہوتی ہے جو گوشت کی صورت میں ایک کروڑ بیس لاکھ سے تیس لاکھ کلو گرام بنتا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ملک میں چکن کی ستر فیصد کھپت کمرشل شعبے میں ہوتی ہے اور تیس فیصد لوگ گھروں میں استعمال کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا ان دنوں چکن کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ یہی ہے کہ ڈیمانڈ تو اپنی جگہ موجود ہے لیکن اس وقت روزانہ کی بنیادوں پر ستر سے اسی لاکھ زندہ مرغی سپلائی ہو رہی ہے۔
پولٹری فارمر ملک حنیف نے بتایا کہ کراچی میں ہر روز چھ لاکھ برائلر مرغی سپلائی کی جاتی ہے اور کراچی سے باہر گڈاپ کے علاوہ ٹھٹھہ، بدین اور عمر کوٹ میں واقع پولٹری فارمز سے یہ مرغی کراچی پہنچتی ہے۔
پاکستان میں پولٹری میٹ کی سالانہ فی کس کھپت 9 کلوگرام ہے۔ پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن کی ویب سائٹ کے مطابق ترقی یافتہ ملکوں اس گوشت کی فی کس کھپت بہت زیادہ ہے جو امریکہ میں فی کس 48 کلو گرام تو برطانیہ اور آسٹریلیا میں 44 کلو گرام ہے۔