مراکش میں زلزلے سے ہلاکتوں کی تعداد دو ہزار سے تجاوز کر گئی، تین روزہ قومی سوگ کا اعلان
مراکش میں زلزلے سے ہلاکتوں کی تعداد دو ہزار سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ اتنی ہی تعداد اس وقت زخمی افراد کی بھی ہو گئی ہے۔ وزارت داخلہ کے مطابق 1400 سے زائد افراد شدید زخمی ہیں اور اس زلزلے کے باعث مراکش کے جنوبی صوبوں میں زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں۔
مراکش کے بادشاہ محمد ششم نے تین دن قومی سوگ کا اعلان کیا ہے اور امدادی کارروائیوں میں تیزی لانے کا بھی حکم دیا ہے۔
بہت سے لوگ دوسری رات بھی کھلے آسمان تلے گزارنے پر مجبور ہیں۔
مراکش کی وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ وسطی مراکش میں 6.8 شدت کے زلزلے سے زیادہ تباہی پہاڑی علاقوں میں ہوئی ہے، جہاں پہنچنا مشکل ہے۔
ایک فرانسیسی شخص مائیکل بزٹ نے اے ایف پی نیوز ایجنسی کو بتایا کہ وہ اپنے بستر میں تھے جب یہ تباہی آئی۔ مجھے لگا کہ میرا بیڈ اڑ رہا ہے، میں دوڑ کر نیم برہنہ ہی باہر نکل آیا اور میں فوراً اپنے ریڈز یعنی روایتی مراکش گھروں کو دیکھنے چلا گیا۔ ہر طرف افراتفری، تباہی اور پاگل پن کا عروج تھا۔‘
ایک خاتون دلیلا فہیم نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ’خوشقسمتی سے میں اس وقت تک نہیں سوئی تھی۔‘ ان کے مطابق ان کو گھر کو اس زلزلے میں نقصان پہنچا ہے۔
مراکش کی سرکاری نیوز ایجنسی کے مطابق نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف جیو فزکس کے مطابق جمعے کی رات دیر گئے ملک کے وسط میں واقع صوبہ الحوز میں ریکٹر سکیل پر 7 کی شدت کا زلزلہ ریکارڈ کیا گیا۔
امریکی جیولوجیکل سروے نے بتایا ہے کہ زلزلے کا مرکز مراکش کے جنوب مغرب میں 71 کلومیٹر ’ہائی اٹلس ماؤنٹینز‘ پہاڑوں میں تھا۔ اس زلزلے کی گہرائی 18.5 کلومیٹر تھی۔
زلزلہ مقامی وقت کے مطابق رات 11:11 منٹ پر آیا۔ اس زلزلے کے 19 منٹ بعد 4.9 کی شدت کا آفٹر شاک آیا۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف جیو فزکس نے اشارہ کیا کہ مراکش میں آنے والے زلزلے کے بعد آنے والے آفٹر شاکس جاری رہ سکتے ہیں۔
وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ مراکش اور جنوب میں کئی علاقوں میں لوگ ہلاک ہوئے۔
ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر غیر تصدیق شدہ ویڈیو کلپس میں تباہ شدہ عمارتوں اور گلیوں سے ملبے کو دیکھا جا سکتا ہے۔ کچھ ویڈیوز میں لرزتی ہوئی عمارتوں کی بھی عکس بندی کی گئی ہے، جس کے بعد لوگ زندگی بچانے کے لیے دھول میں محفوظ مقام کی طرف بھاگتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
زلزلے کے مرکز کے قریب اسنا کے پہاڑی گاؤں کے رہائشی مونتاسر ایتری نے بتایا کہ وہاں زیادہ تر مکانات کو نقصان پہنچا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’ہمارے پڑوسی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں اور لوگ گاؤں میں دستیاب ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے انھیں بچانے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق آفٹر شاکس کے خطرات کی وجہ سے مقامی لوگوں نے اپنے گھروں سے باہر رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مراکش کی فوج نے آفٹر شاکس کے خطرے کے پیش نظر شہریوں کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے اور محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کی ہدایت بھی کی ہے۔
اس تاریخی شہر کے ایک رہائشی نے اس شدید زلزلے میں عمارتوں کو منہدم ہوتے دیکھنے والے اپنے احساسات بیان کیے۔
عبدلحاک العمرانی نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’سب لوگ صدمے اور خوف میں مبتلا تھے۔ بچے رو رہے تھے اور والدین پریشان تھے۔‘
انھوں نے کہا کہ دس منٹ تک بجلی اور فون لائنیں بند تھیں۔
اے ایف پی کے مطابق ایک گھر کے منہدم ہونے والے ملبے میں ایک خاندان پھنسا ہوا ہے۔۔۔ اور شہر میں بہت سے لوگوں کو ہسپتال لے جایا گیا ہے۔
ہائی اٹلس پہاڑوں کے ایک دور دراز علاقے میں زلزلے کا مرکز نسبتاً کم تھا۔ اطلاعات کے مطابق طور دارالحکومت رباط، کاسابلانکا اور ایشوئیورا میں بھی زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے ہیں۔
مراکش میں آنے والے شدید زلزلے کی وجہ کیا بنی؟
بی بی سی کے نامہ نگار برائے سائنس جانتھن ایموس کے مطابق وسطی مراکش میں آنے والا 6.8 شدت کا زلزلہ 1900 سے پہلے اس علاقے میں آنے والا سب سے خطرناک زلزلہ ہے۔
جمعہ کو مقامی وقت کے مطابق رات 11 بج کر 11 منٹ پر آنے والے اس زلزلے میں ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ ہلاکتوں میں مزید اضافے کا خدشہ بھی پایا جا رہا ہے۔
امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق زلزلے کا مرکز ماراکیش کے جنوب مغرب میں 71 کلومیٹر (44 میل) بلند اٹلس پہاڑوں میں 18.5 کلومیٹر کی گہرائی میں تھا۔
اس زلزلہ کی وجہ اُن پلیٹس کے درمیان ہونے والا تصادم تھا جو یورپی اور افریقی براعظموں کے نیچے پائی جاتی ہیں۔
تاہم مراکش واقعی وہ جگہ نہیں ہے جہاں اتنے طاقتور زلزلے آتے ہیں۔
اس سست (4 ملی میٹر/سال) ارضیاتی تصادم سے زیادہ تر زلزلے کی سرگرمی بحیرہ روم میں مزید مشرق میں، اٹلی، یونان اور ترکی کی جانب جاتی محسوس ہو رہی ہے۔
اگر تاریخ پر نظر ڈالی جائے 1900 کے بعد سے، 6.0 کی شدت جیسا کوئی زلزلہ جس کا مرکز 500 کلومیٹر (300 میل) کے اندر ہو محسوس نہیں کیا گیا۔
اس ناواقفیت کی وجہ سے اس حد تک خطرناک نتائج کا آج سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ لوگوں کی یاداشت میں نا تو کوئی ایسا واقعہ ہے اور نا ہی اُن کی اس حوالے سے کوئی تیاری ہے۔
اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ رات کو آنے والے زلزلوں میں مرنے والوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے، کیونکہ گرنے والی عمارتوں کے اندر لوگوں کے ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
امریکی جیولوجیکل سروے ایک ایسے ماڈل پر کام کرنے کی کوشش میں ہے کہ جو ہلاکتوں اور معاشی نقصانات کے ممکنہ پیمانے کا تخمینہ لگاتا ہے۔ اس واقعے کے مطابق لگائے جانے والے تخمینے کی مطابق ہلاکتوں کی تعدد چند ہزار ہو سکتی ہے۔
اس لیے موجودہ تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے اور آفٹر شاکس کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ ایسے میں یہ توقع بھی کی جا رہی ہے کہ عین مُمکن ہے کہ آفٹر شاکس میں کوئی جھٹکا حالیہ زلزلے سے تقریباً ایک درجہ شدت سے کم بھی ہو۔
لیکن اس سے بھی چھوٹے جھٹکے پہلے سے تباہ شدہ عمارتوں کو گرانے کا زیادہ خطرہ رکھتے ہیں۔
مراکش میں گذشتہ دہائیوں میں آنے والے خطرناک زلزلے
مراکش اس حالیہ زلزلے سے قبل بھی چند شدید زلزوں کا سامنا کر چُکا ہے، جن میں سے ایک سنہ 2004 کا زلزلہ بھی شامل ہے۔
اس کے بعد مراکش کے شمال مشرق میں الحوسیمہ میں زلزلہ آیا جس میں دستیاب اعدادو شمار کے مطابق 628 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اور سنہ 1960 میں اگادیر کے زلزلے میں 12 ہزار افراد ہلاک ہوئے۔
مراکش میں زلزلے کی تاریخ اور ہونے والی جانی نقصان کو دیکھ کر اس مرتبہ ہونے والے نقصان کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
گزشتہ رات آنے والے زلزلے کا مرکز اٹلس پہاڑوں میں تھا۔ بہت سے دور دراز دیہاتوں میں اب بھی پہنچنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ اس بڑی تباہی کے پیمانے کے بارے میں جاننے میں کئی دن لگ سکتے ہیں۔
’یوں لگا جیسے ساتھ والے کمرے کی دیواروں کو کوئی زور دار طریقے سے پیٹ رہا ہے‘
مراکش میں چھٹیاں گزارنے کے لیے آنے والی ایک برطانوی سیاح لوریلا پامر نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ ’اچانک سے کمرہ ہلنے لگا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یوں لگ رہا تھا کہ جیسے ساتھ والے کمرے کی دیواروں کو کوئی انتہائی زور دار طریقے سے پیٹ رہا ہے جیسے گرانے کی کوشش کر رہا ہے۔‘
لوریلا پامر نے مزید کہا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ ایسی صورتحال میں ایک دم سے اندازہ نہیں ہوتا کہ کیا ہو رہا ہے تب تک کہ آپ کے ارد گرد لگی تصاویر کے فریمز پہلے ہلنا اور پھر گرنا شروع ہو جائیں اور آپ کا بیڈ خطرناک انداز میں ہلنا شروع ہو نہ جائے۔‘
ہیمپشائر سے تعلق رکھنے والی 21 برس کی کیمیکل انجینئرنگ کی طالبہ کلارا بینیٹ اپنے والدین اور بھائی کے ساتھ مراکش میں چھٹیوں پر ہیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ ’میں ابھی اپنے دانت صاف کر رہی تھی کہ پورا فرش ہلنے لگا۔ اس کی بہت خوفناک آواز بھی تھی۔‘
خوش قسمتی سے، ریاد (ایک روایتی گھر) جہاں وہ ٹھہرے ہوئے تھے کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ہم سڑک پر نکل آئے۔ ہمارے اردگرد موجود عمارتیں گر چکی تھیں۔‘
پرانے شہر سے باہر نکلنے کے لیے جہاں تمام عمارتیں ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں، ’انھیں کھلی جگہ میں جانے کے لیے گلیوں اور تنگ راستوں سے گزرنا اور ملبے کے اوپر سے ہو کر جانا پڑا۔‘
وہ مزید کہتی ہیں، ’جب ہم نے اس بات کا یقین کر لیا کہ یہ عمارت محفوظ ہے تو ہم واپس آ گئے۔‘
انھوں نے کہا ’وہاں سب سب لوگ ایک جان ہو کر رہتے ہیں اس بات کا احساس تب ہوا جب لوگ معذور افراد کو لے کر جا رہے تھے، ساتھ ہی پانی اور کھانا فراہم کررہے تھے۔‘
اگرچہ وہ سب شدید ذہنی تناؤ کا شکار ہوئے مگر اب بدھ کو اُن کی واپسی ہے۔
وہ اس بارے میں جاننے کی کوشش کر رہی ہیں کہ ’ہم نے واپس جانے کے لیے پروازوں کے بارے میں جاننے کی کوشش کی ہے لیکن سب کچھ مکمل طور پر بک ہے۔
’ہم جاننا چاہیں گے کہ آگے کیا کرنا ہے اور ہمیں کیا مدد مل سکتی ہے۔‘
مراکش کے زلزلے پر بین الاقوامی ردعمل کیا ہے؟
پاکستان کے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹویٹر) پر لکھا کہ ’مراکش میں آنے والے حالیہ شدید زلزلے سے متاثر ہونے والوں کے لیے ہمارے دل دکھی ہیں۔ پاکستان اس مشکل وقت میں مراکش کی مدد کے لیے تیار ہے۔‘
برطانیہ کے وزیر خارجہ جیمز کلیورلی نے کہا، کہ ’ہم اپنے مراکش کے بھائیوں کی ہر ممکن مدد کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘
امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ وہ ’جانوں کے ضیاع اور تباہی سے بہت غمزدہ ہیں۔‘