محمد حفیظ میچ فکسرز کے خلاف کھڑا ہوا تو جواب ملا

محمد حفیظ میچ فکسرز کے خلاف کھڑا ہوا تو جواب ملا

محمد حفیظ میچ فکسرز کے خلاف کھڑا ہوا تو جواب ملا آپ نے کھیلنا ہے تو کھیلیں، وہ تو کھیلیں گے

کرکٹ کی دنیا میں ’پروفیسر‘ کے نام سے پہچانے جانے والے پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور آل راؤنڈر محمد حفیظ نے بالآخر بین الاقوامی کرکٹ کو خیرباد کہہ دیا ہے۔ اس طرح 41 سال کے محمد حفیظ کی ریٹائرمنٹ کا مرحلہ وار عمل تکمیل کو پہنچا۔

کرکٹ کے تینوں شعبوں یعنی بیٹنگ، بولنگ اور فیلڈنگ میں نمایاں نظر آنے والے محمد حفیظ نے سنہ 2018 میں ٹیسٹ کرکٹ کو خیرباد کہہ دیا تھا جبکہ ان کا بین الاقوامی ون ڈے کریئر 2019 کے عالمی کپ کے بعد اس وقت اختتام کو پہنچا تھا جب سلیکٹرز نے مستقبل کو ذہن میں رکھتے ہوئے انھیں مزید سلیکٹ نہیں کیا تھا۔

محمد حفیظ نے یہ کہہ رکھا تھا کہ وہ اپنے بین الاقوامی کریئر کا اختتام 2020 کا ٹی ٹوئنٹی عالمی کپ کھیل کر کرنا چاہتے ہیں لیکن یہ ٹورنامنٹ کووڈ کی وجہ سے ایک سال آگے بڑھا دیا گیا تھا یوں گذشتہ سال متحدہ عرب امارات میں ہونے والا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ محمد حفیظ کے انٹرنیشنل کریئر کا آخری ایونٹ ثابت ہوا۔

محمد حفیظ کا ریٹائرمنٹ کا فیصلہ غیرمتوقع نہیں۔ پاکستانی ٹیم میں نئے کھلاڑیوں کی آمد کے ساتھ شعیب ملک اور محمد حفیظ کے مستقبل کے بارے میں کافی دن سے باتیں ہو رہی تھیں۔

محمد حفیظ نے بنگلہ دیش کے خلاف حالیہ سیریز میں یہ کہہ کر حصہ نہیں لیا تھا کہ وہ نوجوان کھلاڑیوں کو موقع دینا چاہتے ہیں تاہم دوسری جانب چیف سلیکٹر کی طرف سے یہ باتیں بھی سُننے میں آ رہی تھیں کہ یہ دونوں کھلاڑی اپنی مرضی کے بجائے بورڈ کی مرضی کے مطابق کھیلیں گے۔

متاثرکن اور ہنگامہ خیز کریئر

یہ اپریل 2003 کی بات ہے جب پاکستانی کرکٹ ٹیم ورلڈ کپ کی مایوس کن کارکردگی کے بعد تشکیل نو کے عمل سے گزر رہی تھی اور ٹیم سے وسیم اکرم، وقاریونس، انضمام الحق اور سعید انور ڈراپ کر دیے گئے تھے۔ کپتانی راشد لطیف کے سپرد کر دی گئی تھی اور ٹیم میں متعدد نئے کھلاڑیوں کو شامل کیا گیا تھا۔

انہی میں ایک محمد حفیظ بھی تھے جنھوں نے شارجہ کرکٹ گراؤنڈ میں سری لنکا کے خلاف اپنے دوسرے ہی میچ میں نصف سنچری بنائی تھی۔

محمد حفیظ

انھوں نے دمبولا کے اگلے تین قومی ٹورنامنٹ میں سری لنکا ہی کے خلاف ایک اور نصف سنچری سکور کی لیکن وہ اس وقت شہ سرخیوں میں آئے جب انھوں نے انگلینڈ کے خلاف اولڈ ٹریفرڈ کے ون ڈے میں 69 رن کی عمدہ اننگز کھیلی اور پلیئر آف دی میچ کا ایوارڈ حاصل کیا جس کے بارے میں وہ انگلینڈ جاتے وقت اپنے ساتھیوں کو یقین سے کہہ گئے تھے کہ وہ یہ ضرور کر کے دکھائیں گے۔

محمد حفیظ نے اسی اعتماد کے ساتھ کرکٹ کھیلی۔ سنہ 2003 میں ہی انھوں نے ٹیسٹ کیپ حاصل کی لیکن ٹیسٹ کرکٹ میں آمد کے فوراً بعد ہی وہ ٹیم میں جگہ برقرار نہ رکھ سکے اور انھیں واپسی کے لیے کافی تگ و دو کرنی پڑی۔

وہ خود کہتے ہیں کہ ان کی تکنیک اور اعتماد کی بحالی میں نیشنل کرکٹ اکیڈمی اور کوچ شاہد اسلم نے اہم کردار ادا کیا۔

محمد حفیظ کی ٹیسٹ کرکٹ میں واپسی سنہ 2006 میں انگلینڈ کے خلاف اوول کے اس ٹیسٹ میں ہوئی جو انضمام الحق اور ڈیرل ہیئر کے تنازع کی وجہ سے یاد رکھا جاتا ہے۔

اس میچ میں محمد حفیظ نے95 رن کی اننگز کھیلی تھی لیکن انھیں ٹیسٹ اور ون ڈے دونوں فارمیٹس میں پہلی بین الاقوامی سنچری کے لیے سنہ 2011 تک انتظار کرنا پڑا تھا۔

محمد حفیظ کے انٹرنیشنل کریئر پر نظر ڈالی جائے تو انھوں نے 55 ٹیسٹ میچوں میں 10 سنچریوں اور 12 نصف سنچریوں کی مدد سے 3652 رن سکور کیے اور اپنی آف سپن بولنگ کے ذریعے 53 وکٹیں حاصل کیں۔

انھوں نے 218 ون ڈے انٹرنیشنل میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے 11 سنچریوں اور 38 نصف سنچریوں کی مدد سے 6614 رن بنائے اور 139 وکٹیں حاصل کیں۔

119 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچوں میں حفیظ نے 14 نصف سنچریوں کی مدد سے 2514 رن سکور کرنے کے علاوہ 61 وکٹیں بھی حاصل کیں۔ اس طرح انھوں نے مجموعی طور پر 392 انٹرنیشنل میچوں میں 12780 رنز بنائے اور 253 وکٹیں حاصل کیں۔

محمد حفیظ

محمد حفیظ نے مختلف اوقات میں تینوں فارمیٹس میں پاکستانی ٹیم کی قیادت بھی کی۔

وہ آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی جیتنے والی پاکستانی ٹیم کا حصہ بھی تھے۔ انھوں نے تین ورلڈ کپ اور چھ ٹی ٹوئنٹی عالمی کپ میں بھی پاکستان کی نمائندگی کی۔

وہ آئی سی سی کی ون ڈے بولنگ اور آل راؤنڈر رینکنگ میں پہلے نمبر پر بھی رہے اور آئی سی سی کی ٹی ٹوئنٹی آل راؤنڈر رینکنگ میں بھی پہلی پوزیشن پر رہے۔

محمد حفیظ کو اپنے کریئر میں ایک سے زائد بار اپنے بولنگ ایکشن کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور اس کی درستگی کے لیے آئی سی سی کی منظور شدہ بائیو مکینک لیب کا رخ کرنا پڑا۔

کرکٹ بورڈ کے ساتھ اختلافات

محمد حفیظ اپنے کریئر میں ایک ایسے کھلاڑی کے طور پر مشہور رہے جو کرکٹ اسٹیبلشمنٹ کے پسندیدہ نہیں کہے جاتے۔

متعدد بار وہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے کرتا دھرتا افراد کے سامنے نظر آئے۔ مصباح الحق اور اظہر علی کے ساتھ وزیراعظم عمران خان سے ان کی ملاقات پاکستان کرکٹ بورڈ کو قطعاً نہیں بھائی لیکن چونکہ وہ سینٹرل کنٹریکٹ کا حصہ نہیں تھے اس لیے کسی کارروائی سے بچ گئے۔

اسی طرح کچھ عرصہ قبل وہ سابق ٹیسٹ کرکٹر اور پی سی بی کے موجودہ چیئرمین رمیز راجہ کے ایک بیان پر کھل کر ان پر تنقید کرتے ہوئے دکھائی دیے تھے۔ رمیز راجہ نے اپنے یوٹیوب چینل پر محمد حفیظ اور شعیب ملک کا نام لے کر کہا تھا کہ یہ دونوں اڑتیس سال کے ہو جانے کے باوجود ابھی تک کھیل رہے ہیں حالانکہ ان دونوں نے اپنی بہترین کرکٹ کھیل لی ہے۔

محمد حفیظ نے رمیز راجہ کو طنزیہ جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’میرے بیٹے کی کرکٹ کی سمجھ رمیز راجہ سے زیادہ ہے۔‘ محمد حفیظ نے اس جواب میں یہ بات بھی واضح کی تھی کہ وہ کسی ایک شخص کے کہنے پر اپنی کرکٹ ختم نہیں کریں گے۔

گذشتہ سال ٹی ٹین لیگ میں شرکت کے معاملے پر بھی پاکستان کرکٹ بورڈ اور محمد حفیظ کے درمیان اختلافات سامنے آئے تھے۔

محمد حفیظ

محمد حفیظ کو جب سری لنکا کے خلاف سیریز میں ڈراپ کیا گیا تھا تو انھوں نے سلیکٹرز سے اس کی وجہ معلوم کی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ان کی ضرورت نہیں رہی تو انھیں صاف صاف بتا دیا جائے تاکہ وہ آسانی کے ساتھ دنیا بھر میں ہونے والی لیگز کھیل سکیں، اگر سینیئر کھلاڑیوں کے بارے میں کرکٹ بورڈ کی کوئی پالیسی ہے تو اس پر بات ہونی چاہیے دراصل بہتر رابطہ بہت ضروری ہے۔

محمد حفیظ اور سابق کپتان سرفراز احمد کے درمیان ٹوئٹر پر نوک جھونک بھی لوگ نہیں بھولے ہیں جب محمد حفیظ نے محمد رضوان کی سنچری پر ٹویٹ کی تھی۔

حفیظ نے ٹویٹ میں لکھا تھا ’رضوان کو ٹی ٹوئنٹی میں سنچری کرنے پر مبارکباد، تم ایک چمکتا ستارہ ہو لیکن مجھے کئی مرتبہ خیال آتا ہے کہ تمہیں کب تک یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ تم پاکستان کے لیے تمام فارمیٹس میں نمبر ون وکٹ کیپر بیٹسمین ہو؟ جسٹ آسکنگ (صرف پوچھ رہا ہوں)۔‘

محمد حفیظ کی یہ ٹویٹ سرفراز احمد کو اچھی نہیں لگی تھی اور انھوں نے اس کا جواب فوری طور پر دیا تھا۔

سرفراز نے اپنی ٹویٹ میں لکھا: ’محمد حفیظ صاحب پاکستان کے لیے کھیلنے والے سارے ہی وکٹ کیپرز نمبر ون ہیں اور قابلِ احترام بھی۔ چاہے وہ وسیم باری ہوں یا تسلیم عارف، امتیاز احمد ہوں یا سلیم یوسف، راشد لطیف ہوں معین خان ہوں یا کامران اکمل۔ یا آج کل رضوان۔

کریئر پر اطمینان

محمد حفیظ نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کرتے وقت یہ کہا ہے کہ وہ اپنے کریئر سے مطمئن اور خوش ہیں۔

انھوں نے کہا کہ وہ خود کو اس لحاظ سے خوش قسمت تصور کرتے ہیں کہ انھوں نے ’اٹھارہ سال تک پاکستانی کرکٹ کی شرٹ زیب تن کی۔‘

محمد حفیظ کے مطابق انھیں اپنے کریئر میں اتار چڑھاؤ کا سامنا بھی رہا تاہم انھیں خوشی ہے کہ انھوں نے اپنے دور کے بہترین کھلاڑیوں کے ساتھ کرکٹ کھیلی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’تکلیف کا لمحہ میرا خیال جو سب سے زیادہ مجھے تکلیف ہوئی تھی، وہ تب ہوئی تھی جب میں نے ایک اصولی مؤقف اختیار کیا تھا، جو میرا پہلے بھی تھا، ہے اور رہے گا، کہ کوئی بھی ایسا شخص جو پاکستان کا نام بدنام کر دے کیونکہ ہم سب کو ایک جیسا موقع ملتا ہے تو اگر کسی نے بھی اس کا نام بدنام کیا ہے تو انھیں دوبارہ یہ موقع نہیں ملنا چاہیے۔‘

’جب میں نے یہ بیان دیا اور اس کے ساتھ احتجاج بھی کیا تو مجھے اس وقت کے چیئرمین کی جانب سے جواب ملا کہ اگر آپ نے کھیلنا ہے تو آپ کھیل لیں، وہ لوگ تو کھیلیں گے۔ یہ میرے کریئر کا سب سے تاریک لمحہ تھا۔‘

سوشل میڈیا پر ردعمل

محمد حفیظ کے ریٹائرمنٹ کے اعلان کے بعد ٹوئٹر پر ان کا نام ٹرینڈ کرنے لگا اور شائقین کرکٹ نے اپنی ٹویٹس میں قومی کرکٹر کو الوداعی پیغامات بھیجے۔

صحافی وجاہت کاظمی نے لکھا: ’بلاشبہ محمد حفیظ پاکستان کے بہترین آل راؤنڈر تھے۔ ہم پی ایس ایل اور دوسری لیگز میں پروفیسر کو ہمیں لطف و اندوز کرتے ہوئے دیکھیں گے۔ لو یو محمد حفیظ۔‘

ڈان نیوز میں سپورٹس انچارج عبد الغفار نے لکھا: ’پروفیسر نے بہت زیادہ وقار کے ساتھ خدا خافظ کہہ دیا۔ اس کھیل کے تمام شاگروں کو پروفیسر سے سبق سیکھنا چاہیے۔‘

ٹویٹ

محمد حفیظ کو پاکستان کرکٹ ٹیم کے ڈریسنگ روم میں ’پروفیسر‘ کے لقب سے بھی پکارا جاتا تھا اور شائقین کرکٹ بھی اکثر ان کا ذکر اسی لقب سے کرتے ہیں۔

صارف ساجد احمد صفی نے لکھا: ’گرین شرٹ میں لیجنڈ محمد حفیظ کو یاد کیا جائے گا۔‘

ٹویٹ

صارف اسامہ نے لکھا: ’ریٹائرمنٹ مبارک ہو محمد حفیظ۔ آپ ہمیشہ سے ایک قیمتی کھلاڑی تھے، جنھوں نے پاکستان کو میچ جیتنے کے لیے لا تعداد پرفارمنس دیں۔‘

ایک صارف نے لکھا: ’بائیں ہاتھ سے کھیلنے والوں کو اب کوئی خطرہ نہیں کیونکہ پروفیسر نے خیرآباد کہہ دیا۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *