22 ماہ کی عمر میں خاندان سے بچھڑنے والی خاتون کی 51 برس کے بعد والدین سے ملاقات
میلیسا ہائی سمتھ صرف 22 ماہ کی تھیں جب 1971 میں وہ اچانک پراسرار طور پر غائب ہو گئی تھیں۔
50 سال بعد یہ پراسرار معمہ ایک ڈی این اے ٹیسٹ کی مدد سے حل ہو گیا جس نے میلیسا کو اپنے بچھڑے ہوئے خاندان سے ملوا دیا۔
ان کے خاندان نے ان کو تلاش کرنے کی بہت کوشش کی لیکن ان کو کامیابی نہیں ملی۔ تاہم حال ہی میں انھوں نے ایک ویب سائٹ کو ڈی این اے بھجوایا تھا جس سے میلیسا کا پتہ چلا۔
اس دوران میلیسا، جو اپنا نام بھی بھول چکی تھیں، میلانی کے نام سے جانی جاتی رہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب وہ اپنا نام تبدیل کر لیں گی۔
میلیسا کی گمشدگی کا یہ واقعہ اس وقت پیش آیا تھا جب امریکہ کی ریاست ٹیکساس کے فورٹ ورتھ میں میلیسا کی والدہ نے اخبار میں اشتہار دیا تھا کہ اپنی بیٹی کا خیال رکھنے کے لیے اجرت پر ملازمہ کی ضرورت ہے۔
اس ملازمہ نے، جس کے بارے میں خاندان کو شک ہے کہ اس نے ہی میلیسا کو اغوا کیا تھا، وعدہ کیا کہ وہ میلیسا کا اپنے گھر پر خیال رکھے گی۔
تاہم پھر وہ اور میلیسا دونوں غائب ہو گئے جس کے بعد خاندان نے تلاش کا آغاز کیا جو دہائیوں پر محیط رہی۔ اس دوران انھوں نے پولیس اور وفاقی حکام سے بھی مدد طلب کی۔
انھوں نے اس تلاش کے دوران امید نہیں چھوڑی۔ رواں سال ستمبر کے مہینے میں بھی انھوں نے یہ تلاش جاری رکھی ہوئی تھی جب ان کو معلوم ہوا کہ میلیسا کو جنوبی کیرولینا میں دیکھا گیا ہے۔
اس دوران میلیسا لاعلم تھی کہ ان کو کوئی تلاش کر رہا ہے۔ جب ان کے خاندان نے ان سے رابطہ کرنے کے لیے فیس بک کا استعمال کیا تو ان کو لگا کوئی ان سے دھوکہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
تاہم چھ نومبر کو ’23 اینڈ می‘ نامی ویب سائٹ نے ڈی این اے ٹیسٹ کا نتیجہ دیا تو میلیسا کے بچوں کا ان کے خاندان سے رابطہ ممکن ہوا جس کے بعد ایک ماہر نے ان کو ٹیسٹ کے نتائج کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کیا۔
میلیسا کے خاندان نے فیس بک پر بیان جاری کیا کہ ’میلیسا کی تلاش صرف اور صرف ڈی این اے ٹیسٹ کی مدد سے ممکن ہوئی۔ پولیس، ایف بی آئی یا نجی تفتیش کاروں اور افواہوں کی وجہ سے نہیں۔‘
میلیسا اور ان کے والدین کی 50 سال بعد پہلی ملاقات 26 نومبر کو ہوئی جس کے بعد خاندان کی جانب سے کہا گیا کہ انھوں نے مذید ڈی این اے ٹیسٹنگ قانونی طور پر کروائی اور اس خبر کو جھٹلانے والوں کے لیے سرکاری تصدیق کا انتظار کیا جا رہا ہے۔
میلیسا نے بی بی سی کے امریکی پارٹنر نشریاتی ادارے سی بی ایس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ انتہائی جذباتی موقع تھا۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ دنیا کا بہترین احساس بھی تھا۔‘
میلیسا کی والدہ، ایپاٹینکو، نے کہا کہ ان کو یقین نہیں آ رہا کہ ان کا خاندان اتنے سال بعد اکھٹا ہوا گیا۔ ’مجھے لگا تھا میں اسے کبھی نہیں دیکھ سکوں گی۔‘
اب تک میلیسا کے مبینہ اغوا سے متعلق کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔ میلیسا کے مطابق جب اس ملازمہ سے حال ہی میں سوال کیا گیا تو اس نے صرف اتنی تصدیق کی کہ میلیسا ہی وہ بچی ہیں جو غائب ہو گئی تھیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اتنی مدت کے بعد اغوا کا الزام ثابت کرنا قانونی طور پر مشکل ہے تاہم پولیس کے مطابق اس وقت تفتیش جاری ہے تاکہ اصل حقائق کی تہہ تک پہنچا جا سکے۔
فی الحال میلیسا اور ان کا خاندان ایک دوسرے کو جاننے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس وقت کا ازالہ کر رہے ہیں جو انھوں نے ایک دوسرے سے جدا رہ کر گزارا۔
میلیسا کی بہنوں نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ اب میلیسا سوچ رہی ہیں کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ شادی کی رسم ایک بار سے ادا کریں تاکہ ان کے اصل والد ان کا ہاتھ تھام کر ان کو رخصت کر سکیں۔
انھوں نے سی بی ایس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میرا دل اس وقت جذبات سے بھرا ہوا ہے۔ میں بہت زیادہ خوش ہوں۔‘