لاہور پولیس نے مدرسے میں طالب علم کا مبینہ ریپ کرنے

لاہور پولیس نے مدرسے میں طالب علم کا مبینہ ریپ کرنے

لاہور پولیس نے مدرسے میں طالب علم کا مبینہ ریپ کرنے والے مفرور ملزم استاد کو میانوالی سے گرفتار کر لیا

لاہور میں پولیس نے ایک دینی مدرسے میں ایک طالب علم کو مبینہ ریپ کا نشانہ بنانے کے الزام میں مفرور استاد اور سابق مہتمم کو میانوالی سے گرفتار کر لیا ہے۔

حال ہی میں سوشل میڈیا پر طالب علم کے ساتھ مبینہ ریپ کی ویڈیوز منظرِ عام پر آنے کے بعد مفتی کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ تاہم پولیس کے مطابق گرفتاری سے بچنے کے لیے ملزم فرار ہو گئے تھے۔

سوشل میڈیا پر لوگوں کی طرف سے ان کی گرفتاری کا مسلسل مطالبہ کیا جا رہا تھا۔

لاہور کے کرمنل انویسٹیگیشن سیل ماڈل ٹاؤن کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس حسنین شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ پولیس نے ملزم اور ان کے تین بیٹوں کو میانوالی سے اتوار کے روز گرفتار کیا

‘وہ وہاں کسی عزیز کے ہاں چھپے ہوئے تھے۔ پولیس چھاپہ مار کر انھیں گرفتار کرنے میں کامیاب ہو گئی۔‘

پولیس کے مطابق انھیں پیر کے روز عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

یاد رہے کہ لاہور کے نارتھ کینٹ پولیس سٹیشن میں 17 جون کو اس وقت مقدمہ درج کیا گیا جب حال ہی میں سوشل میڈیا پر چند ویڈیوز سامنے آئیں جن میں ملزم کو ایک طالب علم کا ریپ کرتے ہوئے دیکھا گیا۔

لاہور کے تھانہ نارتھ کینٹ میں اس مدرسے کے ملزم استاد اور ان تین بیٹوں سمیت دو نامعلوم افراد کے خلاف ریپ اور جان سے مارنے کی دھمکیاں دینے پر مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ پولیس کے مطابق دفعہ 377 کے تحت درج کیے جانے والے ریپ کے مقدمے میں ملزم کی ضمانت نہیں ہو سکتی۔ تاہم جان سے مارنے کی دھمکیاں دینے کے مقدمہ میں عدالت ملزم کو ضمانت پر رہا کر سکتی ہے۔

واضح رہے کہ پولیس کو درج کروائی گئی شکایت میں طالب علم نے یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ یہ واقعہ منظرِ عام پر لانے کے بعد انھیں ملزم کے بیٹوں کی جانب سے جان سے مارنے کی دھمکیاں موصول ہو رہی ہیں۔ اُنھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ان کے بیٹوں نے چند نامعلوم افراد کے ساتھ ان کو نقصان پہنچانے کی غرض سے ان کا تعاقب بھی کیا تھا۔

موبائل

صوبہ پنجاب کے انسپکٹر جنرل آف پولیس انعام غنی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری ایک پیغام میں ملزم کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے لکھا کہ ‘پولیس ملزم کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ ہم اس کو ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر لیں گے، ان سے تفتیش کی جائے گی، پیشہ ورانہ طریقے سے سائنسی بنیادوں پر تحقیقات ہوں گی اور ان کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انھیں عدالت سے سزا دلوائیں گے۔‘

انھوں نے مزید لکھا کہ ’ہم اپنے بچوں کو جنسی استحصال کرنے والوں سے محفوظ رکھنا چاہتے اور اپنے مستقبل کے لیے اپنے معاشرے کو محفوظ بنانا چاہتے ہیں۔‘

یاد رہے کہ لاہور کے ایک مقامی مدرسے کی انتظامیہ اس سے قبل اس ملزم استاد کو نوکری سے برخاست کر چکی ہے جبکہ ان کی سابقہ سیاسی جماعت نے بھی ان کو جماعت سے نکالتے ہوئے ان کے ساتھ لا تعلقی کا اعلان کر رکھا ہے۔

واضح رہے کہ ملزم لاہور کے مدرسے جامعہ منظور الاسلامیہ میں معلم تھے اور ان پر ریپ کا الزام عائد کرنے والے طالب علم اسی مدرسے میں زیرِ تعلیم تھے۔

تھانے میں درج مقدمے میں طالب علم نے دعوٰی کیا ہے کہ ملزم ‘گذشتہ کچھ عرصہ سے انھیں بلیک میل کر کے مسلسل ریپ کا نشانہ بناتا رہا ہے۔’ ان کا کہنا تھا کہ مدرسے کی انتظامیہ کے سامنے ملزم کی شکایت کرنے کے بعد ثبوت کے طور پر انھیں ویڈیوز بنانی پڑی تھیں۔

سوشل میڈیا پر ویڈیوز سامنے آنے کے بعد پولیس ملزم سے پوچھ تاچھ کرنے کے لیے ان کے مدرسے پر گئی تھی تاہم وہ اس سے قبل مدرسہ چھوڑ کر جا چکے تھے۔

مدرسہ انتظامیہ نے پولیس کو بتایا کہ ‘محلے کے چند افراد کی جانب سے ان ویڈیوز کی طرف توجہ مبذول کروانے پر مدرسہ انتظامیہ نے ملزم کو نوکری سے فارغ کر دیا تھا۔جس کے بعد وہ مدرسہ چھوڑ کر جا چکے تھے۔‘

سوشل میڈیا ہی پر جاری ہونے والے ایک بیان میں ملزم کی طرف سے چند متضاد بیانات سامنے آئے تھے۔ ایک بیان میں ان کا دعویٰ تھا کہ اُنھیں ‘کوئی نشہ آور چیز دے کر یہ ویڈیوز بنائی گئی تھیں اور وہ جو حرکات کر رہے تھے وہ نشہ آور شے کے زیرِ اثر کر رہے تھے۔‘

ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ ویڈیو چند برس پرانی ہے۔ تاہم انھوں نے پولیس کے سامنے پیش ہو کر تاحال کوئی بیان نہیں دیا۔

طالبِ علم نے پولیس کو کیا بتایا؟

تھانہ نارتھ کینٹ لاہور میں درج مقدمہ میں مبینہ طور پر ریپ کا نشانہ بننے والے طالب علم نے پولیس کو بتایا کہ انھوں نے سنہ 2013 کے لگ بھگ مدرسہ منظور الاسلامیہ میں داخلہ لیا تھا اور مسلسل وہیں تعلیم حاصل کرتے رہے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب وہ درجہ رابعہ یعنی چہارم میں پہنچے تو امتحانات کے دوران اس وقت کے نگران مفتی نے ایک اور طالب علم سمیت ان پر امتحانات میں نقل کا الزام عائد کرتے ہوئے تین برس کے لیے ان کے وفاق المدارس کے امتحانات پر بیٹھنے پر پابندی عائد کر دی۔

انھوں نے پولیس کو بتایا کہ ’مفتی نے الزام عائد کیا تھا کہ میں نے امتحانات میں اپنی جگہ کسی اور لڑکے کو بٹھایا تھا۔ میں نے مفتی صاحب کی بہت منت سماجت کی مگر وہ نہ مانے۔ انھوں نے کہا کہ اگر تم میرے ساتھ بدکاری کرو اور مجھے خوش کر دیا کرو تو میں کچھ سوچ سکتا ہوں۔’

بچوں سے زیادتی

تین سال تک جنسی استحصال کیا گیا

طالب علم نے پولیس کو مزید بتایا کہ مفتی نے ان سے کہا کہ اگر ‘وہ انھیں خوش کر دیا کریں گے تو میں وفاق المدارس والی پابندی بھی ہٹوا دوں گا اور امتحانات میں بھی پاس کروا دوں گا۔’

طالب علم کے مطابق اس طرح وہ ‘با امرِ مجبوری مفتی کی چال اور ریپ کا نشانہ بنتے رہے۔ تین سال تک ریپ کا نشانہ بنانے اور جنسی استحصال کرنے کے باوجود مفتی نے اپنی بات پوری نہ کی بلکہ مزید ملیک میل کرتا رہا۔’

تین سال تک بلیک میل ہونے کے بعد تنگ آ کر طالب علم نے مدرسہ انتظامیہ کو آگاہ کرنے کا فیصلہ کیا اور مفتی کے خلاف شکایت کی۔

مایوس ہو کر اس واقعے کی خود خفیہ ویڈیوز بنائیں

طالب علم نے پولیس کو بتایا کہ مدرسہ انتظامیہ نے ان کی بات پر یقین نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مفتی صاحب بزرگ اور نیک آدمی ہیں وہ ایسا فعل نہیں کر سکتے اور طالب علم جھوٹ بول رہا ہے۔

طالبِ علم کے مطابق اس پر ‘مایوس ہو کر میں نے خود اس واقع کی ویڈیوز چوری چھپے بنانی شروع کیں۔’

انھوں نے پولیس کو بتایا کہ یہ ثبوت انھوں نے وفاق المدارس العربیہ کے ناظم مولانا حنیف جالندھری کو بھی پیش کیے۔

تاہم اُن کے مطابق اس بات کا علم ہونے پر مفتی نے انھیں قتل کروانے کی دھمکیاں دینا شروع کر دی تھیں۔ چند روز قبل جب ان کی ویڈیو سوشل میڈیا پر لیک ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ وہ خوفزدہ ہو گئے۔ اس پر انھوں نے ‘خود کو نقصان پہنچانے کی ویڈیو ریکارڈ کروائی۔’

ویڈیوز سامنے آنے کے بعد کیا ہوا؟

طالب علم نے پولیس کو بتایا کہ مفتی ہر جمعے کے روز تقریباً 10 یا 11 بجے انھیں طلب کرتے تھے اور ان کے ساتھ بد کاری کرتے تھے۔

انھوں نے پولیس کو چند آڈیو کالز کی ریکارڈنگ بھی ثبوت کے طور پر فراہم کی جن سے یہ ثابت ہوتا تھا کہ کس طرح مفتی نے مسلسل ریپ کا نشانہ بنایا۔

یہ تمام شواہد سامنے آنے کے بعد مدرسہ کی انتظامیہ نے واقعات کا نوٹس لیا اور مدرسہ کے مہتمم نے مفتی کو نوکری سے برخاست کر دیا۔

تاہم طالب علم نے پولیس کو بتایا کہ اس پر مفتی نے سخت غصے کا اظہار کیا اور ان کے بیٹوں نے طالب علم کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔

’میری جان کو سخت خطرہ ہے‘

طالب علم نے پولیس کو بتایا کہ اُنھیں مفتی اور ان کے بیٹوں کی طرف سے جان کا خطرہ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ جس روز مفتی کو مدرسہ سے فارغ کیا گیا اس کے اگلے روز جب وہ کسی کام سے مدرسے سے نکلے تو مفتی کے تین بیٹوں اور چند نامعلوم افراد نے ان کا تعاقب کیا۔

طالبِ علم کے مطابق انھوں نے ان کا تعاقب کرنے والے افراد کو جب یہ کہتے سنا کہ ‘پکڑو اس کو بھاگنے نہ پائے آج اس کا قصہ تمام کرتے ہیں’ تو خوف زدہ ہو کر انھوں نے وہاں سے دوڑ لگا دی اور اپنی جان بچائی۔

مدرسہ

مفتی کون ہیں؟

مفتی لاہور کے رہائشی ہیں اور گذشتہ تقریباً 25 سال سے مدرسہ منظور الاسلامیہ میں بطور معلم کام کرتے رہے تھے۔ اس کا ساتھ ہی وہ مذہبی جماعت جمیعت علما اسلام کے لاہور سے رکن بھی تھے۔

تاہم جمیعت علما اسلام نے طالب علم کے ساتھ ریپ کا واقعہ سامنے آنے کے بعد مفتی سے لاتعلقی کا اعلان کیا تھا۔ جماعت کی طرف سے جاری کیے جانے والے ایک اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ مفتی کی بنیادی رکنیت واقعے کی تحقیقات مکمل ہونے تک معطل کر دی گئی ہے۔

‘جب تک تحقیقات مکمل نہیں ہو جاتیں اس وقت تک انھیں ضلع لاہور کی ہر سطح کی ذمہ داری سے بھی سبکدوش کر دیا گیا ہے۔ ان کے کسی قول اور فعل کی جمیعت علما اسلام ذمہ دار نہ ہو گی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *