فلسطین، اسرائیل تنازع غزہ پر اسرائیلی حملوں کا سلسلہ جاری، اقوامِ متحدہ کے نمائندے کی تشدد بند کرنے کی اپیل
اسرائیلی جنگی طیاروں کی جانب سے غزہ میں حملوں کا سلسلہ بدھ کو بھی جاری ہے اور فلسطینی محکمۂ صحت کے مطابق تین دن میں ان حملوں میں کم از کم 35 افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں خواتین اور دس بچے بھی شامل ہیں۔
اس عرصے میں فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کی جانب سے بھی ایک ہزار کے قریب راکٹ داغے گئے ہیں جن میں سے کئی اسرائیلی علاقے میں گرے جبکہ بیشتر اسرائیلی دفاعی نظام نے تباہ کر دیے۔ راکٹ گرنے سے اسرائیل میں اب تک پانچ افراد کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں۔
پیر کو حماس کی جانب سے بیت المقدس میں فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی پولیس کی کارروائی کے ردعمل میں اسرائیلی علاقوں پر راکٹ فائر کرنے سے شروع ہونے والا تنازع اب شدت اختیار کر چکا ہے۔ اقوامِ متحدہ اور عالمی برادری نے فریقین سے فوری طور پر کشیدگی کم کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا گیا ہے کہ صورتحال تیزی سے ایک بڑی جنگ کی جانب بڑھ رہی ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق بدھ کی صبح اسرائیلی جنگی طیاروں نے غزہ پر درجنوں فضائی حملے کیے جبکہ فلسطینی عسکریت پسندوں کی جانب سے تل ابیب اور بئرشیبا کے علاقوں پر متعدد راکٹ داغے گئے۔
یہ حماس اور اسرائیل کے مابین 2014 کے بعد ہونے والی شدید ترین لڑائی ہے اور عالمی سطح پر ان خدشات میں اضافہ ہو رہا ہے کہ خطے میں حالات تیزی سے بےقابو ہو سکتے ہیں۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ حماس نے برسوں میں پہلی مرتبہ یروشلم پر راکٹ فائر کر کے ’اپنی حد پار کی ہے۔‘ اس سے پہلے وہ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ حماس نے ’سرخ لکیر عبور کر لی ہے اور یہ تنازع کچھ عرصے تک جاری رہ سکتا ہے۔‘
منگل کو فوجی سربراہان سے ملاقات کے بعد نیتن یاہو نے خبردار کیا تھا کہ اسرائیل نے غزہ پر حملوں کی شدت اور تعداد بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے اور حماس کو مخاطب کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘اس پر ایسے حملے کیے جائیں گے جن کی انھیں توقع بھی نہیں ہو گی۔’
اس کے جواب میں حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ نے کہا ہے کہ ’اسرائیل نے بیت المقدس اور الاقصیٰ میں آگ لگائی جس کے شعلے غزہ تک پہنچ گئے ہیں اس لیے نتائج کا ذمہ دار وہ خود ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ قطر، مصر اور اقوامِ متحدہ نے ان سے رابطہ کیا ہے اور قیامِ امن کی اپیل کی ہے لیکن اسرائیل کے لیے حماس کا پیغام یہی ہے کہ ’اگر وہ بات بڑھانا چاہتے ہیں اور ہم تیار ہیں اور اگر وہ بات ختم کرنا چاہتے تو بھی ہم تیار ہیں۔‘
’غزہ میں جنگ کی قیمت تباہ کن ہے‘
مشرقِ وسطیٰ میں قیامِ امن کے لیے اقوامِ متحدہ کے نمائندے ٹور وینزلینڈ نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں فریقین سے فوجی فائر بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہم تیزی سے ایک مکمل جنگ کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ فریقین کے رہنماؤں کو کشیدگی میں کمی کی ذمہ داری لینی چاہیے۔‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’غزہ میں جنگ کی قیمت تباہ کن ہے اور عام شہری یہ قیمت ادا کر رہے ہیں۔‘ ٹور وینزلینڈ کا کہنا تھا کہ اقوامِ متحدہ فریقین کے ساتھ مل کر امن کی بحالی کے لیے کوشاں ہے اور تشدد بند ہونا چاہیے۔
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے بھی اس حوالے سے ٹوئٹر پر ایک پیغام جاری کیا ہے جس میں انھوں نے کہا کہ ‘میں وزیراعظم پاکستان ہوں اور ہم غزہ و فلسطین کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘
عرب ممالک کی تنظیم عرب لیگ نے بھی اسرائیل پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ غزہ میں ’بلاامتیاز اور غیر ذمہ دارانہ‘ حملے کر رہا ہے اور یہ کہ اسرائیل ہی بیت المقدس میں حالات خراب ہونے کا ذمہ دار تھا۔
مشرق وسطیٰ کے مذاکرات کروانے والے امریکہ، یورپی یونین، روس اور اقوام متحدہ نے بھی ان پُرتشدد واقعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور تمام فریقوں کی جانب سے تحمل کے مظاہرے پر زور دیا ہے۔
امریکہ کے صدر کے دفتر کی جانب سے منگل کو ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ راکٹ حملوں سے اپنا تحفظ کرنا اسرائیل کا جائز حق ہے لیکن بیت المقدس بقائے باہمی کا مقام ہونا چاہیے۔
اسرائیلی شہر میں ہنگامی حالت کا نفاذ
ادھر اسرائیلی حکام نے ملک کے وسطی شہر لُد میں ہنگاموں کے بعد وہاں ہنگامی حالت کے نفاذ کا اعلان کیا ہے۔ لُد ہی میں دو اسرائیلی عرب بھی اس وقت ہلاک ہوئے ہیں جب غزہ سے داغا جانے والا راکٹ ان کی گاڑی پر لگا۔
اسرائیل میں مقیم عرب شہریوں کی جانب سے تل ابیب کے قریب واقع شہر میں احتجاج منگل کو ہنگامہ آرائی کے دوران مرنے والے ایک شخص کے جنازے کے بعد شروع ہوا۔ اس دوران مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ کیا جس کا جواب دستی بموں سے دیا گیا۔
اسرائیلی اخبار ہارٹیز کے مطابق ان جھڑپوں میں کم از کم 12 افراد زخمی ہوئے۔
اسرائیلی پولیس کے مطابق منگل کی شب لد میں صورتحال مزید خراب ہو گئی اور اسرائیلی میڈیا کے مطابق یہودیوں کی عبادت گاہوں اور متعدد دکانوں کو نذر آتش کر دیا گیا جبکہ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یہودیوں کی جانب سے ایک کار پر پتھراؤ کیا گیا جسے ایک عرب باشندہ چلا رہا تھا۔
اس صورتحال میں رات گئے اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو نے شہر میں حالت ہنگامی حالت نافذ کرنے کا اعلان کیا۔
اس سے قبل منگل کو اسرائیلی طیاروں نے غزہ میں ایک 12 منزلہ رہائشی عمارت کو بھی بمباری کر کے منہدم کر دیا تھا جس کے بعد حماس کی جانب سے تل ابیب پر 130 راکٹ فائر کیے گئے تھے۔
خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق ہنادی ٹاور نامی عمارت کے رہائشیوں کو عمارت خالی کرنے کی تنبیہ کے ڈیڑھ گھنٹے بعد اس پر حملہ کیا گیا جس سے وہ زمین بوس ہو گئی۔ طبی حکام کے مطابق اس واقعے میں عام شہری بھی ہلاک ہوئے ہیں۔
اسرائیل کی فوج کا کہنا ہے کہ وہ یروشلم اور دیگر علاقوں پر راکٹ حملوں کے جواب میں غزہ میں عسکریت پسندوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔
اسرائیلی حکام کے مطابق اب تک کی کارروائیوں میں شدت پسند فلسطینی گروپوں کے 16 ارکان کو ہلاک کیا گیا ہے تاہم فلسطین کے طبی حکام کے مطابق مرنے والوں میں سے بیشتر عام شہری تھے جن میں دس بچے بھی شامل ہیں۔
حماس کا کہنا ہے کہ وہ یہ کارروائی بیت المقدس میں مسلمانوں کی مقدس مسجد اقصیٰ پر ’اسرائیل کی جارحیت اور دہشت گردی‘ کے دفاع میں کر رہا ہے۔ بیت المقدس میں اسرائیلی پولیس اور فلسطینی شہریوں میں تازہ جھڑپوں کی ابتدا اس وقت ہوئی تھی جب مشرقی بیت المقدس میں یہودی آبادکاروں کی جانب سے وہاں بسنے والے چند فلسطینی خاندانوں کو بیدخل کرنے کی کوشش کی گئی۔
مسلمانوں کا تیسرا مقدس ترین مقام مسجدِ اقصیٰ اور اس کا قریبی علاقہ رمضان کے مہینے میں پرتشدد جھڑپوں کا مرکز رہا ہے۔ یہاں سنہ 2017 کے بعد سے بدترین تشدد دیکھا گیا ہے۔ ہلال احمر کے مطابق یہاں گذشتہ چند دنوں کے دوران 700 سے زیادہ فلسطینی زخمی ہوئے تھے
یہ جھڑپیں اس تشدد کا تسلسل ہیں جو مشرقی بیت المقدس کے علاقے شیخ جراح میں کئی دن سے جاری تھا۔ شیخ جراح میں آباد فلسطینی خاندانوں کو یہودی آبادکاروں کی جانب سے جبری بےدخلی کا سامنا ہے اور اسی وجہ سے علاقے میں حالات کشیدہ ہیں۔
اسرائیل کی عدالت عظمیٰ شیخ جراح میں ایک یہودی آباد کار تنظیم کے حق میں بےدخلی کے حکم کے خلاف 70 سے زیادہ افراد کی اپیل پر پیر کے روز سماعت کرنے والی تھی لیکن اسے ملتوی کر دیا گیا۔
تشدد کو کون سی چیز ہوا دے رہی ہے؟
اپریل کے وسط میں رمضان المبارک کے آغاز کے بعد سے تناؤ بڑھتا چلا گیا ہے اور اس سلسلے میں سلسلہ وار طور پر کئی واقعات ہوئے جسے بدامنی پھیلتی رہی۔
رمضان کے آغاز کے ساتھ ہی دمشق گیٹ کے باہر کھڑی کی جانے والی سکیورٹی رکاوٹوں کے خلاف مظاہرہ کرنے والے فلسطینیوں اور پولیس کے درمیان رات کے وقت جھڑپیں ہونے لگیں کیونکہ ان رکاوٹوں کی وجہ سے وہ شام کے وقت وہاں یکجا نہیں ہو پا رہے تھے۔
اسی علاقے کے قریب انتہاپسند قوم پرست یہودیوں کے مارچ سے غصے میں مزید اضافہ ہوا۔
یہ مظاہرہ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیو کے نتیجے میں ہوا تھا جس میں فلسطینیوں نے شہر میں قدامت پسند یہودیوں پر حملے اور پھر یہودی انتہا پسندوں کے ذریعے فلسطینیوں پر حملے کو دکھایا گیا تھا۔
مشرقی بیت المقدس اسرائیل اور فلسطین تنازع میں مرکزی اہمیت رکھتا ہے۔ دونوں فریق اس پر اپنے حق کا دعویٰ کرتے ہیں۔
اسرائیل نے سنہ 1967 میں ہونے والی چھ روزہ جنگ کے بعد سے مشرقی بیت المقدس پر قبضہ حاصل کر لیا ہے اور تاہم اسرائیل کے اس اقدام کو عالمی برادری کی اکثریت نے تسلیم نہیں کیا ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادیں بھی اس عمل کو غیر قانونی قرار دیتی ہیں تاہم اسرائیل پورے شہر کو اپنا دارالحکومت کہتا ہے۔
دوسری جانب فلسطینیوں کا دعویٰ ہے کہ مشرقی بیت المقدس ان کی ایک ‘متوقع آزاد ریاست’ کا مستقبل کا دارالحکومت ہے۔