عمران خان کی تحریک انصاف کا ’ممکنہ لانگ مارچ‘: تحریک انصاف میں پس پردہ کیا چل رہا ہے؟
پاکستان کے سیاسی حالات ہر گزرتے دن کے ساتھ نئے تنازعات جن میں نئے انتخابات، سائفر، عمران خان کی آرمی چیف کے ساتھ ایوان صدر میں مبینہ ملاقات سے لے کر عمران خان کے وارنٹ گرفتاری تک، کی وجہ سے پیچیدہ ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف تقریباً گذشتہ چھ ماہ سے مسلسل احتجاج کے موڈ میں ہے اور ’بیرونی سازش کے نتیجے میں بننے والی‘ مخلوط حکومت پر دباؤ بڑھا رہی ہے کہ جلد نئے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا جائے۔
تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ صرف ’عوام کی منتخب کردہ حکومت‘ ہی ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام لا سکتی ہے۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اب تک 50 سے زیادہ عوامی جلسے کر چکے ہیں اور مسلسل مقتدر حلقوں کو باور کروا رہے ہیں کہ ان کی پارٹی کے اعتراضات کو دور کیے بغیر صاف اور شفاف انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہے۔
عمران خان نے ایک اور بیانیہ بنایا ہے کہ موجودہ بیرونی سازش سے آئی حکومت ملک کے اہم فیصلے جن میں نومبر میں نئے آرمی چیف کی تعیناتی شامل ہے، نہیں کر سکتی۔ اس کے لیے انھوں نے ایک تجویز بھی دی تھی کہ انتخابات کے بعد نئی حکومت بننے تک یہ اہم تعیناتی ملتوی کر دی جائے۔
عمران خان گذشتہ کچھ ہفتوں سے حتمی احتجاجی تحریک کی کال دینے سے احتراز کر رہے تھے تاہم ٹیکسلا جلسے میں اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کے لیے انھوں نے اپنی تیاری کا اعلان کیا ہے اور اس کے ساتھ ہی عمران خان نے پارٹی کے ضلعی صدور اور جنرل سیکٹریز کا اجلاس اسلام آباد میں طلب کیا ہے۔
اِس اجلاس میں خاص طور پر جی ٹی روڈ کے اردگرد کے ضلعی عہدیداروں کو مدعو کیا گیا ہے۔ عمران خان نے کہا ہے کہ وہ جلد حکومت کو ’سرپرائز‘ دیں گے۔ انھوں نے کہا کہ ’جب فائنل کال دوں گا تو پھر انتخابات کے شیڈول کے اعلان کے بغیر واپسی نہیں ہو گی۔‘
تحریک انصاف کے چیئرمین کی طرف سے اس نوعیت کے اعلانات اور پس پردہ جاری تیاریوں کے تناظر میں منگل کے روز وفاقی وزیر داخلہ کی زیر صدارت اسلام آباد میں ایک اجلاس ہوا جس میں پی ٹی آئی کے ’ممکنہ مارچ‘ کے تناظر میں چند اہم فیصلے کیے گئے۔
سکیورٹی کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ وزارت داخلہ کے اہلکاروں کی جانب سے بتایا گیا کہ اس اجلاس میں واضح کیا گیا کہ کسی کو بھی احتجاج کی غرض سے اسلام آباد داخل نہیں ہونے دیا جائے گا۔
پی ٹی آئی کے متعدد رہنما اس بات کے قائل نظر آتے ہیں کہ عمران خان عوامی ردعمل کو دیکھ کر بہت ’پُرجوش‘ ہیں اور اگر اب نئے انتخابات صاف اور شفاف طریقے سے ہو جاتے ہیں تو وہ آسانی سے ملک میں حکومت بنا سکتے ہیں۔
تحریک انصاف پنجاب کے سابق صدر اور سینیٹر اعجاز چوہدری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ابھی تک عمران خان کے 53 جلسوں میں لوگ لاکھوں کی تعداد میں شریک ہوئے ہیں اور اتنی عوامی پذیرائی کسی بھی احتجاجی تحریک کی کامیابی کے لیے کافی ہے۔
ہر روز منظرعام پر آتے تنازعات میں تحریک انصاف کے سینیئر رہنما اسحاق خاکوانی نے یہ بات کر کے اضافہ کیا کہ عمران خان کی آرمی چیف قمر جاوید باجوہ سے صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کی موجودگی میں ایوان صدر میں ملاقات ہوئی۔
جس پر ردعمل دیتے ہوئے عمران خان نے خود کہا کہ ’وہ جھوٹ بولنا نہیں چاہتے اور سچ وہ بتا نہیں سکتے۔‘ اس کے بعد سے پارٹی رہنما اس ملاقات پر مزید بات نہیں کرنا چاہتے۔ لیکن سینیٹر اعجاز چوہدری نے کہا کہ اگر عمران خان کی آرمی چیف کے ساتھ ملاقات ہوئی بھی ہے تو اس کی کوئی اہمیت نہیں کہ جب وہ کوئی بھی مقصد پورا نہ کر رہی ہو۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’پارٹی کی سطح پر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں۔ کوئی بیک ڈور ڈپلومیسی نہیں ہو رہی اور یہ کہ اگر کچھ لوگ اپنے طور پر کام کر رہے ہیں تو یہ ملک تو سب کا ہے۔ سب سنجیدہ حلقے اس پر سوچتے ہیں۔‘
ان سب تنازعات کے درمیان عمران خان اپنی ’عوامی آگاہی مہم‘ تیز کر رہے ہیں اور انھوں نے جلد ہی فائنل احتجاج کا اعلان کیا ہے۔
سینیٹر اعجاز چوہدری کا کہنا ہے کہ بات 15، 16 اکتوبر سے آگے نہیں جائے گی۔ اب احتجاج کی تیاریاں نقطہ عروج پر پہنچ چکی ہیں اور کسی بھی وقت کال دی جا سکتی ہے۔
’تحریک انصاف کی صرف ایک ڈیمانڈ ہے کہ عام انتخابات کا اعلان کیا جائے اور پھر وہ تمام سیاسی پارٹیوں کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنے کو تیار ہے۔‘
اسی دوران، انھوں نے کہا کہ شہباز شریف کی حکومت نے دو دفعہ عمران خان کو گرفتار کرنے کا کہا لیکن وہ ہمت نہ کر سکی کیونکہ تحریک انصاف کے کارکنان ایک بڑی تعداد میں بنی گالا پہنچے اور خبردار کیا کہ ’عمران خان ہماری ریڈ لائن ہے‘ اور عمران خان کو گرفتار کرنا حکومت کی سب سے بڑی غلطی ہو گی۔
جیسا کہ صورتحال سے واضح ہے کہ تحریک انصاف کسی صورت موجودہ حکومت کو اگلے ماہ یعنی نومبر میں آرمی چیف تعینات نہیں کرنے دینا چاہتی اور فوری الیکشن چاہتی ہے، تو احتجاج کی کال زیادہ دور نہیں۔
تحریک انصاف کے سینیئر رہنماؤں کا کہنا ہے کہ پارٹی نے احتجاج کا لائحہ عمل بنا لیا ہے لیکن وہ ابھی اپنے مکمل کارڈز شو نہیں کرنا چاہتے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف لانگ مارچ کے علاوہ بطور احتجاجی تحریک ملک میں تمام شاہراہوں کو بند کر سکتی ہے، پہیہ جام اور شٹرڈاؤن کی کال بھی دے سکتی ہے۔
اس کے علاوہ تحریک انصاف اپنی پنجاب اور خیبر پختونخوا صوبوں کی حکومتوں سے استعفے دینے کے بارے میں بھی غور کر رہی تھی۔ لیکن تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ تحریک انصاف اپنی حکومتوں کو ختم نہیں کرے گی کیونکہ اس سے ان کا اثر و رسوخ کم ہو جائے گا اور 25 مئی والی صورتحال دوبارہ بن سکتی ہے۔
سابق گورنر پنجاب اور پی ٹی آئی رہنما عمر چیمہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی 26 سال سے ملک میں جدوجہد کر رہی ہے اور اس کا احتجاج اور دھرنے کے لائحہ عمل بنانے کا کافی تجربہ ہو گیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ این آر او ٹو سے فائدہ اٹھانے والے اب ایسے حالات پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ ’سیاسی شہید‘ بن سکیں۔
انھوں نے کہا کہ ’ہم جمہوریت کو ہرگز نقصان نہیں پہنچانا چاہتے لیکن عوام کے حقوق کے لیے، مہنگائی کے خاتمے کے لیے، غیر معمولی بجلی کے بل اور جلد نئے الیکشن کے لیے احتجاج کرنے باہر نکلیں گے۔‘
عمر چیمہ نے کہا کہ ’اس دفعہ ہم ایک مؤثر لائحہ عمل کے ساتھ احتجاج کریں گے اور اس کرپٹ اور نااہل امپورٹڈ حکومت کو ناک آؤٹ کریں گے۔‘
اعجاز چوہدری نے کہا کہ پی ڈی ایم کی حکومت عوامی مسائل حل نہیں کر رہی۔ سندھ میں سیلاب کے باوجود وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری پچھلے دو ہفتوں سے ملک سے باہر ہیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری بھی کہیں سیاسی منظر پر نظر نہیں آ رہے۔
ملکی سیاست میں دوسرے تنازعات کی طرف دیکھا جائے تو پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان امریکا میں پاکستانی سفیر کی طرف سے بھیجے جانے والے سائفر کو شہباز شریف کی حکومت کے خلاف بیرونی سازش کے طور پر استعمال کر رہے تھے لیکن عمران خان کی اپنے قریبی ساتھیوں کے ساتھ گفتگو کی آڈیو لیکس نے ملکی سیاست کو ایک نیا رُخ دیا ہے۔
شہباز شریف کی کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ عمران خان، پارٹی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی، سیکریٹری جنرل اسد عمر اور سابق وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کے خلاف ایف آئی اے کے ذریعے تحقیقات اور قانونی چارہ جوئی کی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک سپیشل کمیٹی بھی بنائی گئی ہے کہ وہ وزیر اعظم کے دفتر سے سائفر کی کاپی ’غائب‘ ہونے کی تحقیقات کرے۔
تحریک انصاف کابینہ کے اس فیصلے کو ایک اور نظر سے دیکھ رہی ہے کہ یہ فیصلہ ثابت کرتا ہے کہ سائفر سات مارچ کو لکھا گیا تھا۔
سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ سائفر لکھنے کے اگلے ہی دن 8 مارچ کو قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی اور حکومت گرائی گئی۔ ’آڈیو لیکس بھی یہ بات ثابت کرتی ہے کہ سائفر کی بنیاد پر ہماری حکومت کے خلاف بیرونی سازش ہوئی۔‘
سائفر کی کاپی وزیر اعظم کے دفتر سے غائب ہونے کے بارے میں تحریک انصاف کے سینیئر رہنما فواد چوہدری نے کہا ہے کہ یہ کاپی چیف جسٹس آف پاکستان کے پاس موجود ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اصل سائفر وزارت خارجہ میں موجود ہے اور اس کی کاپیاں صدر پاکستان اور قومی اسمبلی کے سپیکر کے پاس بھی موجود ہیں۔
سینیٹر اعجاز چودھری نے کہا سائفر کی کاپی کی گمشدگی پر تحقیقات کروانا سوائے ’جہالت‘ کے کچھ نہیں۔
سابق پنجاب گورنر اور صوبے کے اطلاعات کے انچارج عمر سرفراز چیمہ نے پوچھا ہے کہ ’یہ نااہل حکومت سائفر کے یوز اور مس یوز پر انکوائری کروا رہی ہے، یہ سائفر کے مندرجات پر تحقیقات کیوں نہیں کرواتے؟‘
مسلم لیگ (ن) کی وائس چیئر پرسن مریم نواز کی ٹویٹ کہ ’سائفر ریاست پاکستان کی امانت ہے اور امانت میں خیانت کرنے والے کو نشان عبرت بنانا چاہیے‘ کے جواب میں فواد چودھری نے کہا ہے کہ وہ امید کرتے ہیں کہ مریم نواز اب اپنی پوزیشن نہیں بدلیں گی اور سائفر کی ایک آزاد کمیشن سے تحقیقات کروائی جائیں گی۔