عمران خان کا جج سے مکالمہ میرے جرم میں یہ بھی شامل کر لیں کہ میں نے ملکی اور غیرملکی اسٹیبلشمنٹ کو بےنقاب کیا
تحریکِ انصاف کے بانی عمران خان ماضی میں اس بات کا شکوہ کرتے رہے ہیں کہ ان کے خلاف اتنے مقدمات بنائے گئے ہیں جن کی پیروی کے لیے انھیں ایک ہی دن میں کئی عدالتوں کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں لیکن بدھ کو تین مختلف عدالتوں سے متعلقہ جج اور افسران ان کے خلاف مقدمات کی سماعت کے لیے اڈیالہ جیل میں موجود تھے۔
تین میں سے دو مقدمات یعنی سائفر کیس اور الیکشن کمیشن کی توہین اور چیف الیکشن کمشنر کے خلاف نازیبا زبان استعمال کرنے کے مقدمے میں تو عمران خان پر فرد جرم عائد ہونی تھی مگر اس کے ساتھ ساتھ۔ توشہ خانہ کیس میں ان کی ضمانت کی درخواست کی سماعت بھی اسی کمرۂ عدالت میں طے تھی۔
الیکشن کمیشن کے رکن نثار درانی کی سربراہی میں الیکشن کمیشن کے چار ارکان نے عمران خان اور فواد چوہدری کے خلاف توہین الیکشن کمیشن کے مقدمے میں ملزمان پر فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی شروع کرنی تھی۔
جیل ذرائع نے بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک کو بتایا کہ عمران خان اور فواد چوہدری کو سماعت شروع ہونے سے پہلے ہی کمرہ عدالت پہنچا دیا گیا جہاں ان کی حاضری لگی۔
واضح رہے کہ تحریک انصاف چھوڑنے کے بعد فواد چوہدری کی عمران خان سے یہ پہلی ملاقات تھی۔
سماعت شروع ہوئی تو فواد چوہدری کے وکیل فیصل چوہدری کی جانب سے فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی موخر کرنے کی درخواست کی گئی جو منظور کر لی گئی اور اب یہ عمل 19 دسمبر کو ہو گا۔
اس مختصر سماعت کے بعد الیکشن کمیشن کے چاروں ارکان تو کمرۂ عدالت سے اٹھ کر چلے گئے لیکن ملزم عمران خان وہیں پر موجود رہے تاہم ان کے ساتھی ملزم کی جگہ شاہ محمود قریشی نے لے لی کیونکہ دوسری سماعت سائفرسے متعلق مقدمے کی تھی جس میں ان دونوں پر فرد جرم عائد ہونا تھی۔
جیل کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس مقدمے کی سماعت کا وقت ہوا تو خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کرسی سنبھال لی۔
گذشتہ سماعت کی طرح اس بار بھی چند صحافیوں اور ’مخصوص افراد‘ کو کمرۂ عدالت میں موجودگی کی اجازت ملی۔ اس موقع پرعمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور ان کی بہنوں کے علاوہ شاہ محمود قریشی کے اہلخانہ بھی موجود تھے۔
صحافی رضوان قاضی ان چند صحافیوں میں سے ایک ہیں جو بدھ کو بھی اڈیالہ جیل میں قائم خصوصی عدالت میں موجود تھے۔ انھوں نے بی بی سی اردو کے نامہ نگار شہزاد ملک کو بتایا کہ عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو فردِ جرم عائد کرنے کے لیے جج کے سامنے روسٹرم پر بلا کر کھڑا کر دیا گیا جس کے بعد عدالت کی طرف سے جو چارج شیٹ پڑھ کر سنائی گئی اس کے تحت ملزمان پر تین الزامات عائد کیے گئے۔
الزام نمبر 1: عمران خان نے بطور وزیر اعظم اور شاہ محمود قریشی نے بطور وزیر خارجہ سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کی اور ملزمان کے غیر قانونی اقدام سے ملکی تشخص، سکیورٹی اور خارجہ معاملات کو نقصان پہنچا۔
الزام نمبر 2: 27 مارچ سنہ 2022 کو خفیہ دستاویز کو عوامی ریلی میں لہرایا گیا۔
الزام نمبر تین: ملزمان نے جان بوجھ کر ذاتی مفاد کے لیے سائفر کو استعمال کیا۔
اس سے قبل کہ متعلقہ عدالت کے جج مزید کچھ کہتے، سابق وزیراعظم اور مقدمے کے مرکزی ملزم عمران خان نے انھیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’میرے جرم میں یہ بھی شامل کر لیں کہ میں نے ملکی اور غیرملکی اسٹیبلشمنٹ کو بےنقاب کیا۔‘
عمران خان نے مزید کہا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جس کی حکومت گرائی گئی ہو اس کو ملزم قرار دیا جائے۔
رضوان قاضی کے بقول ’جب عمران خان بول رہے تھے تو ان کا لہجہ سخت تھا جس پر جج نے عمران خان کو روکتے ہوئے کہا کہ آپ کا لہجہ مناسب نہیں۔‘
عمران خان خاموش ہوئے تو ان کے ساتھی ملزم شاہ محمود قریشی نے بولنا شروع کر دیا اور کہا کہ بطور وزیرِ خارجہ انھوں نے سینکڑوں سائفر دیکھے لیکن یہ سائفر منفرد تھا۔
انھوں نے کہا کہ وزیر خارجہ کو دنیا بھر میں چیف ڈپلومیٹ کہا جاتا ہے اور یہ ایک ایسا مراسلہ آتا ہے جو ان کی نظر سے نہیں گزرتا تو کوئی تو وجہ ہو گی کہ اس سائفر کو ان کی نظروں سے اوجھل رکھا گیا۔
شاہ محمود قریشی نے جج سے ساتھ مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ چیزوں کو خفیہ رکھ کر یکطرفہ ٹرائل نہ چلایا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’دو محب وطن شہریوں کو اس مقدمے میں پھنسایا جا رہا ہے۔‘
رضوان قاضی کے مطابق شاہ محمود قریشی نے جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر عدالت نے تمام چیزوں کو نہیں دیکھنا تو’لکھا لکھایا فیصلہ لے آئیں اور سزا سنا دیں۔‘
شاہ محمود قریشی کی اس تقریر پر ابوالحسنات ذوالقرنین نے انھیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’میں یہ مقدمہ سن رہا ہوں اور آپ متوازن بات کیا کریں۔‘
رضوان قاضی کا کہنا تھا کہ جس وقت عدالت کی طرف سے ملزمان کو چارج شیٹ پڑھ کر سنائی جارہی تھی تو اس وقت پاکستان تحریک انصاف کے نومنتحب چیئرمین بیرسٹر گوہر بھی روسٹرم پر موجود تھے۔
ملزمان کے وکلا نے فرد جرم کی کارروائی اس وقت تک موخر کرنے کی استدعا کی جب تک انھیں اس مقدمے سے متعلق تمام نقول فراہم نہ کردی جائیں تاہم اس مقدمے کے پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ تمام دستاویزات اس مقدمے کے چالان کی صورت میں ملزمان کو فراہم کر دی گئی ہیں، اس لیے اس مقدمے کی عدالتی کارروائی کو آگے بڑھانے کے لیے مزید تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔
عدالت نے سماعت کے دوران استغاثہ کو حکم دیا کہ وہ جمعرات کو تین گواہان کے بیانات قلمبند کروائیں جبکہ ملزمان کے وکلا کا کہنا ہے کہ وہ اس عدالتی کارروائی کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کریں گے۔
یہ عدالتی سماعت ختم ہوئی تو صحافیوں اوروہاں موجود ’عوام‘ کو کمرہ عدالت سے نکال دیا گیا۔
خصوصی عدالت کے جج اپنی سماعت مکمل کر کے روانہ ہوئے تو ان کی جگہ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے لے لی لیکن ملزم عمران خان اپنی جگہ پر ہی موجود رہے۔ نیب کے پراسیکیوٹر مظفر عباسی کے مطابق توشہ خانہ کیس میں عدالت نے عمران خان کو جو عبوری ضمانت دی تھی، وہ مسترد کر دی گئی۔
ان سماعتوں کے بعد عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان نے اڈیالہ جیل کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جیل کے اندر قائم کمرۂ عدالت میں ڈبے بنا دیے گئے۔
انھوں نے کہا کہ ساری فیملی کمرہ عدالت کے اندر تھی اور باہر سے تالہ لگا دیا گیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ سائفر مقدمے کی سماعت کے دوران جو کچھ ہو رہا ہے ہمیں انصاف ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔
اس ضمن میں جب بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک نے جیل حکام سے رابطہ کیا تو انھوں نے بتایا کہ کمرۂ عدالت کے دروازے سکیورٹی وجوہات کی بنا پر بند کیے جاتے ہیں تاہم جیل حکام کا کہنا تھا کہ اس مقدمے کی سماعت کرنے والے جج جس دروازے سے کمرۂ عدالت میں جاتے ہیں اسے بند نہیں کیا جاتا۔
جیل حکام کا کہنا ہے کہ بدھ کے روز چونکہ تین مقدمات کی سماعت ہونا تھی، اس لیے سکیورٹی اور پروٹوکول کے خصوصی انتظامات کیے گئے تھے۔