عصمت چغتائی بےباک ادیبہ جو موت کے بعد بھی دنیا کو چونکانے سے باز نہ آ سکیں
24 اکتوبر 1991 کو اس خبر نے پوری اُردو دنیا کو اداس کر دیا کہ اُردو کی بے باک اور صاحب طرز ادیبہ عصمت چغتائی ممبئی میں وفات پا گئی ہیں۔ اس خبر کے ساتھ ہی ایک اور اطلاع بھی آئی جس نے عصمت چغتائی سے محبت کرنے والوں کو مزید دکھ میں مبتلا کیا اور وہ یہ کہ ان کی میت کو اُن کی وصیت کے مطابق سپرد خاک کرنے کی بجائے نذرِآتش کر دیا گیا ہے۔
عصمت چغتائی 21 اگست 1915 کو اتر پردیش کے قصبہ بدایوں کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد مرزا قسیم بیگ چغتائی ڈپٹی کلکٹر کے عہدے پر فائز تھے۔ وہ اپنے دس بہن بھائیوں میں نویں نمبر پر تھیں۔ عصمت نے ہوش سنبھالا تو ان کے بڑے بھائی عظیم بیگ چغتائی ادب کے میدان میں جھنڈے گاڑ چکے تھے۔ چنانچہ جب انھوں نے لکھنا لکھانا شروع کیا تو اپنے ادبی پس منظر کی وجہ سے قدم جمانے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔
جس وقت عصمت چغتائی نے ادبی دنیا میں قدم رکھا وہ اُردو کی ترقی پسند ادبی تحریک کا نقطہ آغاز تھا۔ پریم چند رخصت ہو چکے تھے اور منٹو، کرشن چندر، بیدی، غلام عباس، خواجہ احمد عباس اور کئی دوسرے اپنی نگارشات سے اردو ادب کو مالامال کر رہے تھے۔
عصمت چغتائی کے گھرانے میں لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کا کوئی رجحان نہ تھا مگر عصمت کی ضد اور تعلیم میں ان کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے ان کے والد نے انھیں علی گڑھ اور بعدازاں لکھنؤ سے تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دے دی۔ یہی وہ زمانہ تھا جب ان کی تحریریں ادبی جریدوں میں شائع ہونا شروع ہوئیں۔
عصمت چغتائی سے پہلے کئی خواتین ادبی دنیا میں قدم رکھ چکی تھیں مگر عصمت کے بے باک قلم نے بہت جلد پوری ادبی دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا لی۔ عصمت چغتائی کو زبان و بیان پر غیر معمولی دسترس تھی۔ انھوں نے نثر کی ہر صنف میں اپنے نقوش ثبت کیے جن میں افسانہ، ناول، ڈرامہ، خاکہ، مضامین، سفرنامہ، آپ بیتی اور رپورتاژ شامل ہیں۔
عصمت چغتائی اردو کی ترقی پسند ادبی تحریک کے ہراول دستے میں شامل تھیں۔ وہ غالباً اُردو کی پہلی ادیبہ تھیں جن کی کسی تحریر پر پابندی عائد ہوئی اور ان پر فحاشی کے الزام میں باقاعدہ مقدمہ چلا۔ یہ افسانہ ’لحاف‘ تھا جو بقول عصمت چغتائی کے ایک سچے واقعے پر مشتمل تھا۔ عصمت چغتائی نے اس مقدمے کا سامنا کیا اور عدالت نے انھیں باعزت بری کیا۔
عصمت چغتائی نے اپنی خودنوشت، سوانح عمری ’کاغذی ہےپیرہن‘ میں لکھا۔ ’لحاف نے مجھے بڑے جوتے کھلوائے۔ اس کہانی پر میری اور (میرے شوہر ) شاہد (لطیف) کی اتنی لڑائیاں ہوئیں کہ زندگی جنگ کا میدان بن گئی۔ مگر مجھے لحاف کی بہت بڑی قیمت ملی۔ ساری کوفت مٹ گئی۔ بہت دن بعد علی گڑھ گئی، وہ بیگم جن پر میں نے کہانی لکھی تھی، ان کے خیال سے رونگٹے کھڑے ہونے لگے۔ لوگوں نے انھیں بتا دیا تھا کہ لحاف ان پر لکھی گئی ہے۔‘
’ایک دعوت میں ان سے سامنا ہو گیا۔ میرے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی۔ انھوں نے اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے میری طرف دیکھا اور پھول کی طرح کھل اٹھیں۔ بھیڑ چیرتی ہوئی لپکیں اور مجھے گلے لگا لیا۔ مجھے ایک طرف لے گئیں اور بولیں۔ پتہ ہے، میں نے طلاق لے کر دوسری شادی کر لی ہے۔ ماشااللہ میرا چاند سا بیٹا ہے۔‘
’میرا جی چاہا کسی سے لپٹ کر زور زور سے روؤں۔ آنسو روکے نہ رُکے مگر میں قہقہے لگا رہی تھی۔ انھوں نے میری بڑی شاندار دعوت کی، میں مالا مال ہو گئی۔ ان کا پھول سا بچہ دیکھ کر مجھے ایسا لگا وہ میرا بھی کوئی ہے۔ میرے دماغ کا ٹکڑا۔ میرے ذہن کی جیتی جاگتی اولاد۔ میرے قلم کا بچہ! اور میں نے جان لیا کہ چٹان میں بھی پھول کھل سکتے ہیں۔ خون جگر سے سینچنے کی شرط ہے۔‘
عصمت چغتائی نے اپنے بڑے بھائی عظیم بیگ چغتائی کی وفات پر ’دوزخی‘ کے عنوان سے ایک شاندار خاکہ تحریر کیا۔
ادب کے ناقدین نے اس خاکے کا بھرپور خیر مقدم کیا اور یہ اردو ادب کا ایک شاہکار ادب پارہ قرار پایا۔ نثار احمد فاروقی کے الفاظ میں ’یہ سکیچ عصمت نے اپنے بھائی عظیم بیگ چغتائی پر لکھا ہے۔ مختصر ہونے کے باوصف، اس کی خوبی یہ ہے کہ زبان بہت سادہ اور دل میں اتر جانے والی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس کے لفظ لفظ میں خون کے آنسو جم گئے ہیں۔‘
’صاف اور سہل زبان، دل کو ہلا دینے والا لب و لہجہ اور رونگٹے کھڑے کر دینے والی سنسنی۔ عصمت نے جو تاثر پیدا کرنا چاہا ہے اس میں وہ اپنے منشا سے زیادہ کامیاب ہوئی ہیں۔ اچھے خاکوں کی کتنی ہی مختصر فہرست بنائی جائے، دوزخی اگر اس میں شامل نہیں تو فہرست یقینا نامکمل رہے گی۔‘
اس خاکے کا حوالہ منٹو کے اس خاکے میں بھی موجود ہے جو انھوں نے عصمت چغتائی پر لکھا تھا۔
منٹو لکھتے ہیں: ’ساقی میں دوزخی چھپا، میری بہن نے پڑھا اور مجھ سے کہا سعادت یہ عصمت کیسی بیہودہ عورت ہے کہ اپنے موئے بھائی کو بھی نہیں چھوڑا۔ کم بخت نے کیسی کیسی فضول باتیں لکھی ہیں، تو میں نے کہا اقبال! اگر تم مجھ پر ایسا ہی مضمون لکھنے کا وعدہ کرو تو میں ابھی مرنے کے لیے تیار ہوں۔‘
بقول جگدیش چندر ودھاون ’اس سے بڑا خراج تحسین کوئی فن کار اپنے ہم عصر کو نہیں دے سکتا۔‘
یہ عصمت چغتائی کی ابتدا تھی۔ اس کے بعد انھوں نے سینکڑوں افسانے، ڈرامے اور چند ناول اور ناولٹ تحریر کیے۔ ان کی خود نوشت سوانح عمری بھی ’کاغذی ہےپیرہن‘ کے عنوان سے منظرعام پر آئی۔ زندگی تو زندگی عصمت چغتائی اپنی موت کے بعد بھی دنیا کو چونکانے سے باز نہ آ سکیں اور ان کی وفات کے بعد انھیں سپرد خاک کرنے کی بجائے سپرد آتش کرنے کا فیصلہ ادبی دنیا میں موضوع بحث بن گیا۔
مشہور ادیبہ قرۃ العین حیدر نے جمیل اختر کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ‘عصمت آپا کے لیے یہ مشہور ہے کہ ان کی وصیت کے مطابق ان کو نذر آتش کیا گیا۔ یہ بالکل غلط ہے۔ جب ان کی کوئی عزیزہ (ان کی بھتیجی مدحت) پاکستان سے آئی تھیں تو فاتحہ خوانی کے لیے عصمت آپا بڑی بہن کے مزار پر گئی تھیں۔ عصمت آپا نے ایک طرف اشارہ کر کے ان سے کہا تھا، دیکھو یہ جگہ میں نے اپنے لیے محفوظ کر لی ہے۔‘
’اصل واقعہ یہ تھا کہ ان کی بیٹی سیما نے ایک ہندو نوجوان سے سول میرج کر لی تھی۔ اس کا بیٹا عصمت آپا کو بےحد عزیز تھا اور وہ بھی اپنی نانی سے بہت محبت کرتا تھا۔ وہ لڑکا اپنے آپ کو اپنے باپ کے سماج کا ایک فرد گردانتا تھا چنانچہ جب عصمت آپا کا انتقال ہوا تو اس نے ان کو شمشان گھر پہنچا دیا لیکن یہ ان کی بدقسمتی ہے کہ وہ بیچاری زندگی میں بھی کچھ لوگوں کی طرف سے ملامت کا شکار رہیں اور مرنے کے بعد بھی۔‘
مگر یہی قرۃ العین حیدر، عصمت چغتائی پر لکھے گئے اپنے خاکے ‘لیڈی چنگیز خان’ میں لکھتی ہیں: ’عصمت آپا اکثر کہتی تھیں، بھئی مجھے تو قبر سے بہت ڈر لگتا ہے، مٹی میں توپ دیتے ہیں، دم گھٹ جائے گا۔ ایک بار میں نے کہا، دم ہوتا ہی کہاں ہے جو گھٹ جائے گا۔ کہنے لگیں نہیں بھئی کیا پتہ کس وقت واپس آ جائے، بھئی میں تو اپنے آپ کو جلواؤں گی۔ عصمت کا کمال یہ تھا کہ جو کہتی تھیں کر بھی دکھاتی تھیں۔ مثال کے طور پر جب مجروح سلطان پوری وغیرہ ان کے انتقال کی خبر سن کر سیدھے چندن واڑی قبرستان پہنچے تو معلوم ہوا کہ ان کو ان کی وصیت کے مطابق سپرد برق کیا جا چکا ہے۔ انھوں نے یہ کہہ رکھا تھا کہ’جب میں مروں تو کسی کو اطلاع نہ دینا اور مجھے فوراً کریمیٹوریم میں پہنچا دینا۔‘
جگدیش چندر ودھاون نے اپنی کتاب ‘عصمت چغتائی، شخصیت اور فن’ میں لکھا ہے کہ ‘جنازے میں شامل ہونے والوں میں ان کی بیٹیوں اور نواسے کے علاوہ ڈاکٹر دھرم ویر بھارتی، پدما سچدیو کے شوہر سریندر سنگھ، نوٹیال اور وشوناتھ سچدیو تھے اور بس۔ عصمت کی وصیت کے مطابق گیٹ وے آف انڈیا میں ذرا دور گہرے سمندر میں ان کی بیٹی سیما نے ایک کشتی پر ان کے پھول رکھے اور ان کے نواسے نے انھیں سمندر کی نذر کر دیا۔‘
جگدیش چندر ودھاون نے مزید لکھا ہے کہ ‘عصمت چغتائی موت کے بعد بھی ایک ہنگامے کا موجب بن گئیں اور ایک شدید قسم کی بحث چھڑ گئی۔ یہ ایک جذباتی قسم کی بحث تھی جس کی شدت و حدت آج بھی محسوس ہوتی ہے۔ ان کے فیصلے پر انگلی اٹھانے والوں نے جذبات سے مغلوب ہوکر بہت کچھ کہہ ڈالا، اور کچھ ایسے بھی تھے جنھوں نے ان کے فیصلے کو قطعاً ان کا ذاتی معاملہ گردانا اور اسے خارج از بحث ٹھہرایا۔‘
عصمت چغتائی کے انتقال کے دو ماہ بعد جنوری 1992 میں دہلی سے شائع ہونے والے مشہور ادبی جریدے ‘بیسویں صدی‘ نے عصمت چغتائی کی یاد میں ایک خصوصی گوشہ شائع کیا جس میں ان کی وفات پر اردو کے صف اول کے ادیبوں کے تاثرات شامل کیے گئے۔ ان تمام ادیبوں نے عصمت چغتائی کے جسد خاکی کو جلائے جانے پر مختلف آرا کااظہار کیا۔
مجروح سلطان پوری نے کہا کہ ‘یہ ایک بہت ہی احمقانہ خواہش تھی، یہ کیسا سیکولر ازم ہے، دفنانے کے بجائے جلا دینا، کلچرل ویلیوز کو توڑنے کے لیے، نہ وہاں پر کوئی پوجا تھی نہ نماز، میں ان کی نعش سوزی میں نہیں گیا۔‘
سلمیٰ صدیقی نے جو عصمت کی جگری دوست تھیں اپنے جذبات یوں پیش کیے۔ ’میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتی، کیونکہ میں سوچتی ہوں کہ انسان کا اپنی روایات سے جڑا رہنا ہی بہتر ہوتا ہے۔ جب بھی ان سے مذہب کے متعلق بات کی تو انھوں نے یہی کہا کہ وہ جل جانا پسند کریں گی۔ وہ سیکولر تھیں مگر مذہب کے بارے میں خاص طور پر موت کے بعد کی زندگی کے بارے میں ان کے خیالات بہت گنجلک تھے۔‘
اس کے برعکس ڈاکٹر راہی معصوم رضا نے عصمت کے فیصلے کے حق میں آواز بلند کی اور ان کے باغیانہ کردار کو سراہا۔ انھوں نے کہا ’یہ عصمت کی ذاتی خواہش تھی، اس سے کسی کو کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے کہ ان کی خواہش پر کوئی اعتراض کرے۔ وہ بہبود بشر کی قائل تھیں، میں انھیں سلام کرتا ہوں۔‘
مسرور جہاں نے کہا کہ ’سچ تو یہ ہے کہ وہ جاتے جاتے بھی ایک دھماکہ کر گئیں۔ لوگ خفا ہوتے ہیں تو ہوتے رہیں۔ مذہب کے ٹھیکیدار انھیں بے دین اور مشرک کہتے ہیں، کہتے رہیں، انھوں نے قبر کے گوشہ عافیت کو آباد کرنے کی بجائے اپنا فانی جسم برقی مٹی کے سپرد کرنا پسند کیا اور مرتے مرتے بھی دوسروں کو جلانے کا سامان کر گئیں۔‘
عصمت کی بیٹی سیما ساہنی نے ان کے فیصلے پس پشت جو جذبہ کارفرما تھا اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ’انھیں مرنے کے بعد دوبارہ پیدا ہونے کے نظریے (آواگون) میں پورا یقین تھا، خود کو نہ دفنانے کا فیصلہ اسلام کی بےحرمتی کرنا نہیں تھا۔ وہ سوچتی تھیں کہ اسلام عظیم اور اچھا مذہب ہے لیکن اس نے بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ خود کو تبدیل نہیں کیا ہے۔ وہ ہندو ازم میں بھی بہت یقین رکھتی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک عظیم فلاسفی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہندو ازم طویل عرصے سے زندہ ہے۔‘
20ویں صدی کے اسی شمارے میں عصمت چغتائی کا ایک ایسا خط بھی شائع کیا گیا جس میں انھوں نے اپنی لاش کو جلائے جانے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ انھوں نے یہ خط شری گنگادھرجی کے نام تحریر کیا تھا۔ جن کی کتاب ’ستی‘ انہیں بہت ناگوار گزری تھی۔ اس کتاب میں شری گنگا دھرجی نے ستی کی رسم کی حمایت کی تھی اور لکھا تھا کہ اس کی ترویج ہونی چاہیے۔‘
عصمت چغتائی نے اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے گنگا دھرجی کو ایک طویل خط تحریر کیا جس میں انھوں نے ستی کی رسم کی مخالفت کرنے کے بعد لکھا تھا: ’مجھے قبر سے خوف آتا ہے میں تو بھسم ہونے کی وصیت کر چکی ہوں۔ یہ میرا جسم ہے میرا دل و دماغ ہے۔ میں جو چاہوں گی وہی ہو گا۔ میں تین یار روس جا چکی ہوں، یورپ بھی گھوما ہے بس امریکہ نہیں گئی ہوں۔ چین میں چار مہینے گھوم آئی ہوں۔ یورپ بھی خوب سیر کی مگر میں تو چڑیا کی ستی بھی برداشت نہیں کرسکتی۔ چور قاتل کو بھی زندہ جلانا برداشت نہیں کروں گی۔ آپ اپنی بیٹی بہو جلائیں گے تو میں بے بسی سے سہوں گی۔ آپ کو دعائیں نہیں دوں گی’۔
عصمت چغتائی کے انتقال سے کچھ عرصے پہلے 20ویں صدی کی مدیرہ شمع افروز زیدی نے ان کا ایک طویل انٹرویو کیا جو خصوصی شمارے میں شائع ہوا۔ اس انٹرویو کے آخر میں شمع افروز زیدی نے لکھا کہ ‘بات چیت کے دوران عصمت آپا نے مجھ پر ایک جگہ یہ منکشف کیا تھا کہ انھیں قبر کے اندھیروں سے بڑا خوف آتا ہے اور غالباً یہی وجہ تھی کہ ان کی وصیت کے مطابق ان کے جسد خاکی کو سپرد خاک کرنے کے بجائے آگ کے روشن شعلوں کی نذر کرکے راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا گیا۔ تاہم اخباری خبر کے مطابق ان کے نواسے آشیش کا یہ بیان بڑا تکلیف دہ تھا کہ ‘نانی بڑی سیکولر تھیں اور اسی لیے انہوں نے اپنی نعش کو چتا میں جلا دینے کی خواہش کا اظہار کیا تھا‘ اور میں سوچنے لگی کہ ہندوستان جیسے سیکولر ملک میں کیا ہر شخص کو اپنے سیکولر ازم کا ثبوت فراہم کرنے کے لیے بعد از مرگ خود کو چتا کے شعلوں کی نذر کرنا پڑے گا؟’
قرۃ العین حیدر نے اپنی کتاب ’دامان باغباں‘ میں ایک اور تحریر میں عصمت چغتائی کی لاش کو جلائے جانے کا تقابل ن م راشد کی لاش کے جلائے جانے سے کیا اور لکھا کہ ‘لندن میں ان کی وفات کے بعد ان کی انگریز بیوی نے ان بیچارے کو جلوا دیا۔ اس معاملہ میں نہ عصمت آپا قصووار ہیں نہ راشد صاحب۔ یہ مردہ بدست زندہ کی دوالمناک مثالیں تھیں’۔ حالانکہ شمع افروز زیدی کو دیے گئے عصمت چغتائی کے انٹرویو اور شری گنگا دھرجی کو تحریر کیے گئے خط سے بالکل واضح ہوتا ہے کہ عصمت چغتائی کی لاش کا جلایا جانا ان کی ذاتی خواہش کی تکمیل تھی نہ کہ مردہ بدست زندہ کی مثال۔