طیب اردوغان ایک بار پھر ترکی کے صدر منتخب یہ سلطنتِ عثمانیہ جیسا ’ٹرننگ پوائنٹ‘ ہے، مل کر اسے ترکی کی صدی بنائیں گے
ترکی کی سپریم الیکشن کونسل (وائے ایس کے) کے سربراہ نے تصدیق کی ہے کہ رجب طیب اردوغان نے صدارتی انتخاب میں کامیابی حاصل کر لی ہے اور اب وہ دوبارہ ترکی کے صدر منتخب ہو گئے ہیں۔
وائے ایس کے چیئرمین احمت یینیر نے باضابطہ طور پر الیکشن کے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ اردوغان 52.16 فیصد ووٹ حاصل کر کے صدر منتخب ہو گئے ہیں۔ یہ کل دو کروڑ 77 لاکھ ووٹ بنتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’اگر باقی تمام ووٹ جو ابھی تک سسٹم میں ڈالے نہیں گئے وہ سارے بھی اگر کسی ایک امیدوار کو چلے جائیں تو بھی حتمی نتائج پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
انھوں نے بتایا کہ 99.43 فیصد بیلٹ باکسز کھولنے کے بعد اردوغان کے حریف کلچداروگلو کو 47.86 فیصد ووٹ ملے۔
صدر اردوغان فتح کے بعد دارالحکومت انقرہ پہنچے جہاں وہ صدارتی محل کے باہر جمع اپنے حامیوں سے مخاطب ہوئے۔ انھوں نے اپنی تقریر کا آغاز ایک ترک گانے سے کیا اور پھر کہا کہ ’ہم ترکی سے بہت محبت کرتے ہیں۔‘
اردوغان نے اپنی تقریر کے آغاز میں دعویٰ کیا کہ صدارتی محل کے باہر ان کے تین لاکھ بیس ہزار حامی موجود ہیں۔ انھوں نے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ نے ہمیں دوبارہ یہ ذمہ داری دی ہے۔ ہم سب مل کر اسے ترکی کی صدی بنائیں گے۔‘
طیب اردوغان کی جانب سے اپنے فتح کا اعلان کچھ گھنٹے پہلے ہی کر دیا گیا تھا جس کے بعد سے دنیا بھر کے رہنماؤں نے انھیں صدر منتخب ہونے پر مبارکباد دی ہے۔
ان کی جماعت اب گذشتہ گذشتہ لگ بھگ 21 سال سے اقتدار میں ہے، وہ سنہ 2003 میں ترکی کے وزیرِ اعظم منتخب ہوئے تھے جبکہ 2014 میں ملک کے صدر بنے تھے۔ یوں اب ان کا دورِ اقتدار تیسری دہائی میں داخل ہو گیا ہے۔
اس سال ترکی جدید جمہوریہ ترکی کے 100 سالہ سالگرہ منا رہا ہے۔ اردوغان نے صدارتی محل سے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ’ترک تاریخ کے سب سے اہم انتخابات میں سے ایک میں آپ نے ترکی کی صدی کا چناؤ کیا۔ یہ وقت متحد اور اکٹھے ہونے کا ہے۔ اب یہ کام کرنے کا وقت ہے۔‘
’ہماری اولین ذمہ داری ان شہروں کی آبادکاری ہے جو چھ فروری کے زلزلے میں تباہ ہوئے تھے اور اس کے ساتھ لوگوں کو بہتر زندگیاں حاصل کرنے میں مدد کرنا ہے۔‘
انھوں نے اپنی تقریر کے دوران مہنگائی کم کرنے کا بھی اعادہ کیا۔
انھوں نے اپوزیشن جماعت کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ انھوں نے 2018 میں 146 سیٹیں حاصل کی تھیں لیکن سنہ 2023 میں 169 اس لیے حاصل کیں کیونکہ انھوں نے باقی جماعتوں سے اتحاد کیے، ’اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ مضبوط ہوئے۔‘
اردوغان نے یاد کروایا کہ پیر کو سلطنتِ عثمانیہ کو استنبول فتح کیے ہوئے 570 برس ہو جائیں گے۔
’وہ ہماری تاریخ میں ایک ٹرننگ پوائنٹ تھا جس نے ایک صدی کو ختم اور ایک نئے باب کا آغاز کیا تھا۔ مجھے امید ہے کہ یہ الیکشن بھی ویسا ہی ایک ٹرننگ پوائنٹ ہے۔‘
حریف اردوغان کے ہرانے کے قریب تو آئے لیکن انھیں ہرا نہ پائے
انقرہ میں بی بی سی کے لیے یورپ کے ڈیجیٹل ایڈیٹر پال کربی بتاتے ہیں کہ انھیں کسی نے کہا تھا کہ اگر اردوغان کے حریف کو ان کی پچیس لاکھ ووٹوں کی برتری کو ختم کرنا ہے تو انھیں ایک معجزے کی ضرورت ہو گی۔
وہ معجزہ نہیں ہو سکا اور اب اردوغان اگلے پانچ سال کے لیے بھی صدر رہیں گے اور حالانکہ ان کی پارلیمان میں پوزیشن کمزور ہوئی ہے لیکن اب بھی اپنے وسیع اختیارات کے باعث ان کی گرفت مضبوط ہے۔
اگر سچ پوچھا جائے تو اردوغان کے حریف کلچداروگلو کے اتحادیوں کو بھی اس بات کا یقین نہیں تھا کہ وہ اردوغان کو ہرا سکیں گے۔ تاہم اس کے باوجود حزبِ اختلاف کے رہنما نے یقینی شکست نظر آنے کے باوجود ہار تسلیم نہیں کی۔
اردوغان کے حریفوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ صدر اردوغان کی اے کے پارٹی اب 21 برس سے اقتدار میں ہے اور اس نے ریاست کی باگ دوڑ اپنے ہاتھ میں لے لی ہے تاکہ صدر کی حمایت کی جا سکے۔
وہ اس مرتبہ صدر اردوغان کی جماعت کے بہت قریب آ گئے لیکن پھر انھیں ہرانے سے قاصر رہے۔
پال کربی کے مطابق ترک صدر اپنے ملک میں تو ایک طاقتور رہنما ہیں ہی لیکن وہ بین الاقوامی سطح پر بھی ایک اہم رہنما کے طور پر جانے جاتے ہیں جو ویسے تو مغرب کے نیٹو اتحاد کا حصہ ہیں لیکن ان کی نظریں وقت کے ساتھ مشرق کی طرف ہیں۔
روس اور یوکرین دونوں کے رہنماؤں نے انھیں فتح پر فوری طور پر مبارکباد پیش کی ہے کیونکہ اردوغان نے اس جنگ میں ثالث کا کردار ادا کیا ہے اور وہ گذشتہ برس بحیرہ اسود سے گندم کی تجارت برقرار رکھنے کے حوالے سے مذاکرات میں کلیدی کردار ادا کر چکے ہیں۔
وہ اکثر ایک مشکل نیٹو اتحادی کے طور پر جانے جاتے ہیں کیونکہ وہ سویڈن کے اتحاد کا حصہ بننے کے خلاف ایک رکاوٹ بنے رہے کیونکہ ان کا دعویٰ تھا کہ سویڈن کرد عسکریت پسندوں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ سویڈن کے وزیرِ اعظم الف کرسٹیرسن نے اردوغان کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ ’ہماری مشترکہ سکیورٹی مستقبل میں ترجیح رہے گی۔‘
اردوغان کی جانب سے روسی میزائل ڈیفنس سسٹم خریدنے کا فیصلہ بھی ان کے نیٹو اتحادیوں کے لیے ہضم کرنا مشکل تھا۔
یہ بات ان کی اہمیت کا مظہر ہے کہ انھیں برطانیہ، فرانس، اور یورپی یونین کے ساتھ ساتھ مشرقِ وسطیٰ کے تمام ممالک سے ہی مبارکباد موصول ہوئی ہے۔
تاہم انھیں اپنے ہی ملک میں سب سے زیادہ تقسیم کا سامنا ہے جو موجود معاشی بحران اور ایک مشکل الیکشن مہم کے بعد مزید بڑھ سکتی ہے۔
کمال اتاترک کے بعد ترکی کے سب سے طاقتور رہنما
سلطنتِ عثمانیہ کی فوج کے سابق کمانڈر مصطفیٰ کمال اتاترک نے جمہوریہ ترکی کی بنیاد 1923 میں رکھی تھی اور اس میں سیکولر طرزِ حکومت کی شروعات ہوئی تھیں جو ایک روایتی طور پر قدامت پسند معاشرے میں کرنا مشکل تھا۔
اس کے بعد سے ملک کی فوج نے چار مختلف حکومتوں کو گرایا جو ان کے نزدیک سیکولرازم کے نظریے کے لیے خطرہ تھیں۔ کئی دہائیوں سے معاشرے کا قدامت پسند حصے کو اس بات کا احساس رہتا تھا کہ اسے ریاست کی جانب سے جبر کا سامنا ہے۔
رجب طیب اردوغان جو خود 1999 میں اس لیے جیل گئے تھے کیونکہ انھوں نے سیکولر ریاست پر تنقید کی تھی نے سنہ 2003 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے یہ سخت گیر سیکولر طرز حکمرانی میں تبدیلی لائی ہے۔ اس کے باعث انھیں معاشرے کے قدامت پسند حلقوں سے غیر مشروط حمایت حاصل ہو گئی ہے۔
وقت کے ساتھ انھوں نے اپنی پوزیشن مضبوط کرتے ہوئے مزید مذہبی قوانین لاگو کیے اور اپنے اتھارٹی میں اضافہ کرتے گئے۔ وہ پہلے ملک کے وزیرِ اعظم تھے تاہم وہ سنہ 2014 میں صدر بن گئے۔ سنہ 2016 کی ناکام بغاوت کے بعد انھوں نے اپنے اختیارات میں ڈرامائی انداز میں اضافہ کر لیا۔