طالبان کے ساتھ جھڑپیں، افغان فوجیوں کی ’اپنی جان بچانے‘ کے لیے تاجکستان میں پناہ
تاجکستان کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ افغان طالبان کی جانب سے سرحدی علاقوں میں افغان فورسز پر حملوں اور پُرتشدد کارروائیوں کی وجہ سے افغان حکومتی فورسز کے ایک ہزار سے زیادہ اہلکار سرحد پار کر کے تاجکستان میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق تاجکستان کی قومی سلامتی کمیٹی کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ افغانستان اور تاجکستان کے سرحدی علاقوں میں افغان فورسز اور طالبان میں ہونے والی جھڑپوں کے بعد فورسز کے اہلکار ’جانیں بچانے کے لیے‘ پسپائی اختیار کر کے سرحد پار تاجکستان میں داخل ہوگئے ہیں۔
اے ایف پی کے مطابق افغان طالبان نے سرحدی صوبے بدخشاں کی مرکزی سرحدی راہداری کے علاوہ متعدد علاقوں کا کنٹرول حاصل کر لیا ہے جبکہ دوسری جانب تاجک انتظامیہ افغان پناہ گزینوں کی مُمکنہ آمد کے لیے تیاریاں کر رہی ہے۔
افغان طالبان کی جانب سے پُرتشدد کاروائیوں میں آنے والی تیزی نے ان خدشات کو تقویت دی ہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کے مکمل انخلا کے بعد افغان سیکورٹی فورسز کی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
پاکستان میں افغانستان کے سابق سفیر ڈاکٹر عمر زاخیلوال نے بی بی سی کے پروگرام ’نیوز ڈے‘ میں بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ایک ضلعے کے بعد دوسرا ضلع طالبان کے کنٹرول میں جاتا جا رہا ہے اور بظاہر ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے کوئی منصوبہ ہی نہیں بنایا گیا تھا کیونکہ معاملات بگاڑ کا شکار لگ رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ افغانوں کی توقعات تھیں کہ امریکہ کے مکمل انخلا سے قبل امریکہ افغانستان میں امن کو یقینی بنائے گا لیکن ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ طالبان کے بارے ابھی کچھ حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا، فی الحال وہ بغیر کسی مزاحمت کے ان ضلعوں پر قبضہ کرتے جا رہے ہیں جہاں وہ پہلے ہی طاقتورتھے، سکیورٹی فورسز کے حوصلے پست ہو گئے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’یہ صرف چند ضلعوں کی بات نہیں طالبان کا خوف شہروں تک آ چکا ہے، سکیورٹی فورسز کا مورال گر چکا ہے اور وہ بغیر کسی مزاحمت کے سرنڈر کر رہے ہیں۔‘
’مقررہ تاریخ تک غیرملکی فوجوں کو افغانستان سے جانا ہو گا‘
اس سے قبل طالبان نے کہا تھا کہ اگر ستمبر میں نیٹو افواج کے انخلا کی آخری تاریخ کے بعد افغانستان میں کسی بھی غیر ملکی فوج کے کوئی اہلکار یہاں رہ جائے گا تو انھیں خطرہ ہو گا۔
طالبان کی جانب سے یہ بیان ان اطلاعات کے بعد سامنے آیا ہے جن کے مطابق ایک ہزار امریکی فوجی اپنے سفارتی مشن اور کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کی حفاظت کے لیے افغانستان میں رہ سکتے ہیں۔
افغانستان میں نیٹو کا 20 سال جاری رہنے والا فوجی مشن اب ختم ہو رہا ہے لیکن ملک میں تشدد میں بدستور اضافہ ہوتا جا رہا ہے جبکہ طالبان نے مزید علاقے اپنے قبضے میں بھی لے لیے ہیں۔
افغانستان کی فورسز تنہا سکیورٹی کا چارج سنبھالنے کی تیاری کر رہی ہیں لیکن کابل کے مستقبل کے بارے میں تشویش بڑھتی جا رہی ہے۔
قطر میں طالبان کے دفتر سے بات کرتے ہوئے ترجمان سہیل شاہین نے کہا ہے کہ انخلا کے مکمل ہونے کے بعد کوئی غیر ملکی افواج، جن میں فوجی کانٹریکٹر بھی شامل ہیں، ملک میں نہیں رہنے چاہیے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اگر وہ دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنی افواج کو پیچھے چھوڑتے ہیں تو اس صورت میں یہ ہماری قیادت کا فیصلہ ہو گا کہ ہم کس طرح آگے بڑھیں۔‘
’ہم اس پر ردعمل دیں گے اور حتمی فیصلہ ہماری قیادت کا ہو گا۔‘
سہیل شاہین نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ سفارت کاروں، غیر سرکاری تنظیموں اور دیگر غیر ملکیوں کو نشانہ نہیں بنایا جائے گا لہذا ملک میں کسی بھی حفاظتی فورس کی ضرورت نہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’ہم غیر ملکی فوجی قوتوں کے خلاف ہیں لیکن سفارت کاروں، این جی اوز، سفارتخانے اور ان میں کام کرنے والے والوں کے خلاف نہیں کیونکہ ان کی ہمارے لوگوں کو ضرورت ہے۔ ہم ان کے لیے کوئی خطرہ نہیں بنیں گے۔‘
سہیل شاہین نے گذشتہ ہفتے افغانستان میں امریکہ کے سب سے بڑے فوجی اڈے بگرام ایئر بیس سے غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کو ’تاریخی لمحے‘ کے طور پر بیان کیا۔
یاد رہے کہ امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں نے طالبان کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت اس وعدے کے بدلے تمام فوجیں واپس بلانے پر اتفاق کیا ہے کہ طالبان اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں القاعدہ یا کسی اور شدت پسند گروہ کو کارروائیاں نہیں کرنے دیں گے۔
ایک افغان رکن پارلیمان نے کہا ہے کہ غیر ملکی فوجیوں کا انخلا غیر ذمہ داری کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔
رکن پارلیمان رضوان مراد نے بی بی سی کو بتایا کہ حکومت مذاکرات اور جنگ بندی کے لیے تیار ہے اور طالبان کو اب یہ ثابت کرنا ہو گا کہ وہ امن کے پابند ہیں۔
سہیل شاہین نے اس سے بھی انکار کیا کہ ملک میں جاری حالیہ تشدد میں طالبان کا کوئی کردار ہے۔
انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ افغان فوجیوں کے لڑنے سے انکار کے بعد بہت سارے اضلاع ثالثی کے ذریعے طالبان کے کنٹرول میں آئے۔
واضح رہے کہ اتوار کے روز طالبان نے جنوبی صوبہ قندھار کے ایک اور علاقے پر قبضہ کر لیا ہے۔ عسکریت پسندوں کا کہنا ہے کہ اب وہ ملک کے تقریباً 400 اضلاع میں سے ایک چوتھائی حصہ کنٹرول کرتے ہیں۔
سہیل شاہین نے یہ بھی بتایا کہ طالبان اور افغان حکومت کے مابین جاری مذاکرات میں ابھی تک انتخابات کا معاملہ زیر بحث نہیں آیا۔
یاد رہے کہ اکتوبر سنہ 2001 میں امریکی فورسز نے طالبان کو اقتدار سے بے دخل کر دیا تھا۔ یہ گروپ اسامہ بن لادن اور القاعدہ کے ان دیگر افراد کو پناہ دے رہا تھا جو امریکہ میں ہونے والے نائن الیون کے حملوں میں ملوث تھے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ امریکی افواج نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ افغانستان ایک بار پھر غیر ملکی جہادیوں کا مغرب کے خلاف سازشوں کا اڈہ نہیں بن سکتا۔
دوسری جانب افغانستان کے صدر اشرف غنی کا اصرار ہے کہ ملک کی سکیورٹی فورسز باغیوں کو قابو میں رکھنے کی پوری قابلیت رکھتی ہیں لیکن بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ غیر ملکی افواج کے انخلا سے ملک پر دوبارہ طالبان کا کنٹرول ہو سکتا ہے۔