شہداد کوٹ کا ہندو خاندان جو دہائیوں سے اپنی زمینوں کا قبضہ حاصل کرنے کا منتظر ہے
’سارا سندھ جانتا ہے کہ ہم جدی پشتی زمیندار ہیں۔ قمبر شہداد کوٹ میں ہماری زمینیں ہیں۔ جن پر سنہ 1963 میں قبضہ کر لیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ تک سے کیس جیت چکے ہیں۔ مگر ہمیں ہماری زمینیں واپس نہیں مل رہی ہیں۔ کہتے ہیں کہ تم ہندو ہو۔ خاموشی اختیار کر لو ورنہ حالات کے ذمہ دار خود ہو گے۔‘
یہ کہنا تھا کہ صوبہ سندھ کے ضلع قمبر شہزاد سے تعلق رکھنے والی خاتون سوری بی کا جو پیپلز پارٹی کے لانگ مارچ کے موقع پر اپنے خاندان کے ہمراہ اسلام آباد پہنچ کر احتجاج کر رہی تھیں۔ اس احتجاج میں ان کا بیٹا کیلاش کمار بھی ان کے ساتھ شامل تھا۔
سوری بی کہتی ہیں کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت نے ’ہمارے حق میں ایک بار نہیں دو بار فیصلہ دے کر کہا کہ ہماری زمنیں ہمیں دی جائیں۔ مگر جب میں اپنے بیٹوں اور دیور کے ساتھ زمینوں پر جاتی ہوں تو وہاں پر حکام کہتے ہیں قبضہ لینے کے کاغذات پر دستخط کر دو اس کے بعد بندوق بردار ہمیں وہاں سے دھمکیاں دے کر نکال دیتے ہیں۔
کیلاش کمار اور ان کی والدہ سوری بی دہائیوں سے اپنی زمینوں کا قبضہ حاصل کرنے کے منتظر ہیں لیکن تاحال انھیں اس حوالے سے کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی۔
’ہمارے آباؤاجداد نے تقسیم برصغیر کے وقت ہندو ہونے کے باوجود پاکستان اور سندھ دھرتی کو چھوڑ کر جانا گوارہ نہیں کیا تھا۔ اس کی ہمیں اتنی بڑی سزا مل رہی ہے کہ میرے بچے دربدر ہونے کے علاوہ پیسے پیسے کو محتاج ہو چکے ہیں۔ جان کے خطرے کے پیش نظر کبھی ایک علاقے اور کبھی دوسرے علاقے میں چھپتے ہیں۔‘
سوری بی کی مخالف پارٹی امتیاز بروہی کا دعویٰ ہے کہ یہ زمین ان لوگوں نے کیلاش کے دادا اور دادی سے ایک معاہدے کے تحت حاصل کی تھی۔ اس پر پچاس ساٹھ سال سے ان کا قبضہ ہے اور ’اس پر ہمارا حق ہے نہ کہ کیلاش کمار وغیرہ کا۔‘
وہ اس الزام کی تردید کرتے ہیں کہ انھیں ہندو ہونے کی بنا پر نفرت اور تعصب کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ’قمبر کوٹ شہداد میں ہندو بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ ہمارے ان کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں، ہم ان کی عزت کرتے ہیں۔ کیلاش وغیرہ صرف الزام تراشی کر رہے ہیں۔ پاکستان میں ہندؤوں سمیت سب کے حقوق محفوظ ہیں۔‘
زمین کا یہ تنازعہ کیا ہے؟
سوری بی کے بڑے بیٹے کیلاش کمار کہتے ہیں کہ’ یہ سب کچھ ہماری پیدائش سے بھی پہلے کا قصہ ہے۔ ضلع قمبر کے علاقے میں ہماری کوئی 238 ایکٹر زرعی زمینیں ہیں۔ اس زمین پر اس وقت ہمارے دادا کے مزارعوں نے دھوکہ دہی سے قبضہ کر لیا تھا۔ ہم اقلیت اور کمزور تھے۔ ہمارے دادا کو نہ صرف ڈرایا دھمکایا گیا بلکہ کوئی جعلی کاغذات وغیرہ بنا کر سول عدالت میں مقدمہ بھی کر دیا گیا۔‘
کیلاش کمار کہتے ہیں کہ ’اس مقدمے کا فیصلہ سنہ 1980 میں ہمارے حق میں آیا۔ جس پر ہماری مخالف پارٹی نے سیشن کورٹ میں اپیل کر دی۔ سیشن کورٹ میں ان کی اپیل پر فیصلہ ان کے حق میں 1999 میں آیا۔ جس پر ہم لوگ ہائی کورٹ چلے گئے۔ سنہ 2000 میں ہائی کورٹ سے فیصلہ ہمارے حق میں آیا تو وہ سپریم کورٹ میں چلے گے۔‘
کیلاش کمار کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے سنہ 2015 میں ان کے حق میں فیصلہ سنایا تھا۔ ’جس کے بعد ہمیں محکمہ مال میں فیصلے کے مطابق کاغذات کو درست کرنے اور اپنے نام پر انتقال وغیرہ کروانے میں دو سال لگ گئے تھے۔ دو سال بعد زمینوں پر قبضہ لینے گئے تو وہاں پر مسلح لوگ موجود تھے۔ جنھوں نے ہمیں ڈرایا دھمکایا۔‘
کیلاش کمار کا دعویٰ ہے کہ صورتحال یہاں تک پہنچ گئی کہ انھیں اپنا آبائی ضلع بھی چھوڑنا پڑا جبکہ ’میرے چچا جواہر لعل کو پاکستان چھوڑ کر جانا پڑا۔ سال 2018 میں اس وقت کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے ہندؤوں کی زمینوں پر قبضے پر سو موٹو ایکش لیا تھا۔ سال 2019 میں سپریم کورٹ نے ہمیں زمینوں کا قبضہ دلانے کا حکم دیا تھا۔
وہ کہتے ہیں ’ہمیں انتظامیہ اور پولیس وہاں لے کر گئی، زمینوں کا قبضہ دلایا گیا۔ ہم سے انتظامیہ نے قبضہ لینے کے کاغذات پر دستخط کروائے۔ مگر چند دن بعد ایک بار پھر ہمیں زبردستی زمینوں سے باہر کر کے زمینوں پر قبضہ کر کے عدالت میں کوئی اور مقدمہ کر دیا گیا۔‘
کیلاش کمار دعویٰ کرتے ہیں کہ ’ہم نے اپنے تحفظ اور دھمکیوں کے خلاف درخواستیں دیں، مگر کوئی شنوائی نہیں ہوئی‘۔
سال 2018 میں سندھ پولیس کو دی گئی ایک درخواست پر پولیس کی جانب سے کی گئی تحقیقات پر کہا گیا ہے کہ قمبر شہداد کوٹ کی پولیس نے عدالتی حکم کے باوجود مناسب انداز میں قانون پر عمل در آمد نہیں کروایا۔
تحقیقات میں سفارش کی گئی تھی کہ اس وقت کے ڈی ایس پی اور ایس ایچ او کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ سفارشات میں کہا گیا تھا کہ ضلعے کے پولیس افسران کو ہدایت کی جانی چاہیے کہ وہ متاثرہ خاندان کے ساتھ رابطہ قائم کر کے ان کو ہر قسم کی قانونی مدد اور تحفظ فراہم کریں۔ تحقیقات میں کہا گیا تھا کہ متاثرہ خاندان کی شکایات پر مناسب انداز میں کارروائی نہیں ہوئی تھی۔
ایس ایس پی قمبر شہداد کوٹ سے رابطہ قائم کیا گیا۔ انھیں پیغام بھی چھوڑا گیا مگر انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
امتیاز بروہی دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ ساری کہانی ہی غلط بتائی جا رہی ہے۔ ’ہم نے کبھی کسی کو دھمکیاں نہیں دی ہیں۔ ہم نے عدالت سے رجوع کر رکھا ہے۔ کیلاش کمار الزامات لگانے کی بجائے عدالت کے فیصلے کا انتطار کریں۔ یہ زمین ہمارے باپ دادا نے معاہدے کے تحت کیلاش کمار کے دادا اور دادی سے خریدی تھی۔‘
انتظامیہ کیا کہتی ہے؟
ڈپٹی کمشنر قمبر شہزاد جاوید نبی کھوسہ کے مطابق انتظامیہ سارے معاملے کو انتہائی سنجیدگی سے دیکھ رہی ہے۔ ’انتظامیہ نے سپریم کورٹ کے حکم پر کیلاش کمار کے خاندان کو زمینوں کا قبضہ دلا دیا تھا۔ اس کے بعد دوسری پارٹی نے سیشن جج کی عدالت میں قبضے کا کوئی مقدمہ کر دیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ عدالت سے فیصلے تک ان زمینوں کا قبضہ حکومت اپنے کنٹرول میں لینے جارہی ہے۔ ان پر جو بھی فصل وغیرہ ہے وہ حکومت کے کنٹرول میں ہوگی۔ اس وقت تک جب تک سیشن جج کی عدالت سے اس کا فیصلہ نہیں آ جاتا ہے۔‘
جاوید نبی کھوسہ کہتے ہیں کہ پولیس نے کیلاش کمار کے خاندان کو سکیورٹی بھی فراہم کر رکھی ہے۔ ’اگر انھیں لگتا ہے کہ دی گئی سکیورٹی کم ہے تو اس بارے میں وہ درخواست دے سکتے ہیں، ہم ان کی سکیورٹی بڑھانے کو تیار ہیں۔ قانون میں جو مدد ان کو چاہیے ہوگی، وہ ان کو ملے گی۔‘
کیلاش کمار کے چچا جواہر لعل کہتے ہیں کہ ’زمیندار ہونے کے باوجود ہندو ہونا ہمارا جرم ٹھہرا ہے۔ ہم ہاتھ جوڑ کر کہتے ہیں کہ ہمارے حال پر رحم کرو۔ ہم بہت سزا بھگت چکے ہیں۔ اب اس سے زیادہ تکالیف برداشت کرنا ہمارے بس میں نہیں ہے۔‘
امتیاز بروہی کہتے ہیں کہ ’ہمارے ضلعے میں کسی کو بھی ہندو ہونے کی بنا پر کسی قسم کے تعصب کا سامنا نہیں ہے۔ ہم ایسا سوچ بھی نہیں سکتے ہیں اور ہم پر امن اور مذہبی رواداری پر یقین رکھنے والے لوگ ہیں۔‘
’چادر اٹھا اٹھا کر کہتی ہوں کہ ہمارے حال پر رحم کرو‘
کیلاش کمار کہتے ہیں کہ ’سپریم کورٹ سے ہمارے حق میں فیصلہ آنا ہمارے لیے مزید مسائل کا سبب بن چکا تھا۔
قمبر شہداد کوٹ شہر میں ہمارا جو مکان وغیرہ تھا وہ تو ہم مقدمے کے اخراجات وغیرہ پورا کرنے کے لیے پہلے ہی فروخت کر چکے ہیں۔ پہلے جیکب آباد اور پھر لاڑکانہ منتقل ہوئے مگر وہاں پر بھی دھمکیوں کا سلسلہ ختم نہ ہوا تو ہمیں کراچی منتقل ہونا پڑا۔‘
ان کا دعویٰ ہے کہ ان کی زمینوں کی سالانہ آمدن محتاط ترین اندازے کے مطابق تین کروڑ ہے۔ ’میں خود مجبوری کے عالم میں تیس ہزار روپے ماہوار پر استاد ہوں۔
’چھوٹے دو بھائیوں کو ایک فیکٹری میں بارہ اور دس ہزار روپے ماہوار پر ملازم رکھوایا ہوا ہے۔ ان کی تعلیم کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے۔‘
کیلاش کمار کہتے ہیں کہ ان کے لیے ملازمت جاری رکھنا ممکن نہیں ہے۔ ’ہمیں سر عام دھمکیاں ملتی ہیں۔ ہمیں کہا جاتا ہے کہ ہم ہندو ہیں، ہم کسی کا کچھ نہیں کر سکتے۔ میں جواب میں کہتا ہوں کہ میں پاکستانی اور سندھی بھی ہوں۔ اپنے ملک اور زمین سے محبت بھی کرتا ہوں۔‘
جواہر لعل کہتے ہیں کہ ’مجھے اتنی دھمکیاں دی گئیں کہ میں پاکستان چھوڑنے پر مبجور ہوا۔ پاکستان چھوڑ کر مزید ذلیل و رسوا ہوا، جب سپریم کورٹ سے فیصلہ آیا تو امید بر آئی کہ شاید اب تکلیفیں دور ہو جائیں گی۔ مگر ہمیں ہماری زمین دکھائی گئی اور پھر واپس لے لی گئی۔ ہم اب بھی اس زمین کے لیے لڑ رہے ہیں۔‘
سوری بی کہتی ہیں کہ ’میں چادر اٹھا اٹھا کر کہتی ہوں کہ ہمارے حال پر رحم کرو۔ ہمارے ساتھ انصاف کرو۔ ہمارا کوئی جرم نہیں ہے۔ ماسوائے اس کے کہ ہم ہندو ہیں۔ ہندو ہونا ہمارے لیے جرم بنا دیا گیا ہے۔‘
امتیاز بروہی کہتے ہیں کہ مظلوم بن کر ہماری خریدی ہوئی زمین کو ہتھیانے کی کوشش نہ کی جائے۔ ’ہندوؤں کے ساتھ ہمارے علاقے میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ یہ علاقے کی طاقتور کمیونٹی میں شمار ہوتے ہیں، مظلوم بننے کی کوشش کرنے کی جگہ ان کو قانونی جنگ لڑنی چاہیے۔