شہباز شریف کے سرکاری دفاتر میں ہفتے میں ایک دن چھٹی کے اعلان پر سوشل میڈیا پر تبصرے
یہ تو خیر نہ ختم ہونے والی بحث ہے کہ آخر ایک ہفتے میں کتنی چھٹیاں ہونی چاہییں۔
مختلف مارکیٹیں، مراکز، سکول اور دفاتر اپنے طور پر بھی اس کا فیصلہ کر لیتے ہیں۔ اب تو بعض یورپی کمپنیوں میں ہفتے میں تین چھٹیوں کے بھی تجربات کیے جا رہے ہیں، یہ جاننے کے لیے کہ آیا ایسا کرنے سے ملازمین کی کام کرنے کی صلاحیت پر مثبت اثر پڑتا ہے۔
مگر ہوشیار باش۔۔۔ اب وزیراعظم شہباز شریف ہیں، جو ہفتے میں بمشکل ایک چھٹی پر یقین رکھتے ہیں اور وقت سے پہلے دفتر پہنچنے کی شہرت بھی۔
مشہور محاورہ ہے کہ اسے چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا۔ اب یہ تو معلوم نہیں ہے کہ کسی شاعر نے مکتب عشق کے نرالے دستور کو دیکھ کر پہلے یہ کہا تھا یا پھر کسی اور مکتب کے مشاہدے کے بعد یہ نتیجہ نکالا۔
شہباز شریف تو خود بھی شعر و شاعری کے دلدادہ ہیں اور وہ عوامی جلسوں میں گنگنا کر بھی کلام سناتے ہیں۔ مگر شاید ان پر سب سے زیادہ اثر بانی پاکستان محمد علی جناح کے اس قول نے کیا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ کام، کام اور بس کام۔
اور یوں انھوں نے حلف اٹھانے کے بعد پہلے دن ہی ہفتے میں دو سرکاری تعطیلات ختم کر کے صرف ایک چھٹی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ وزیراعظم آفس سے جاری بیان کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کے احکامات کے بعد اب سرکاری دفاتر میں ہفتے میں صرف ایک چھٹی ہوگی۔
’جس نے پانچ دن کوئی کام نہیں کرنا وہ چھٹے دن کون سے پہاڑ توڑے گا’
مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے اپنے چچا وزیراعظم کے کام کے بارے میں لکھا کہ ’ان سے پہلے والا دوپہر سے پہلے دفتر نہیں آتا تھا اور اکثر تو آتا ہی نہیں تھا۔‘
عاصم سعید نامی صارف نے لکھا کہ ’چاچُو نے کام شروع کر دیا، ہفتے میں صرف ایک چھٹی ہو گی، دفاتر صبح آٹھ بجے کُھلا کریں گے۔‘
ایک صارف نے نئے وزیراعظم شہباز شریف کی طرف سے ایک چھٹی کے اعلان پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنے غم و غصے کا اظہار کچھ اس طرح کیا کہ ’اور وہ آتے ہی تین گھنٹے کی نیند بھی کھا گیا اور اب آٹھ بجے آنے کا کہہ دیا ہے‘۔
یاد رہے کہ ایسی خبریں ہیں کہ اپنی وزارت عظمیٰ کے پہلے دن وزیراعظم شہباز شریف مقررہ سرکاری دفتری اوقات سے پہلے ہی صبح 8 بجے دفتر پہنچ گئے تھے اور انھوں نے دفتری اوقات 8 بجے کر دیے ہیں جبکہ رمضان میں سرکاری دفاتر کھلنے کا وقت صبح 10 بجے ہے۔
صارف جاوید حسین نے تبصرہ کیا کہ ’وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کر کے ایک چھٹی کاٹ لی۔‘
صحافی عابد ملک اس اعلان سے کوئی زیادہ خوش نظر نہیں آئے۔ ان کے خیال میں ’جس نے پانچ دن کوئی کام نہیں کرنا وہ چھٹے دن کون سے پہاڑ توڑے گا۔‘
کبیر نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’ہم دیہاتیوں نے تو کبھی دو دن چھٹی نہیں دیکھی، یہ کون سے سرکاری لوگ تھے جن کو ہفتے میں دو دن چھٹیاں تھیں۔‘
صارف امبر علی نے لکھا کہ ’ہماری ویسے بھی ایک ہی چھٹی ہوتی ہے ہفتے میں، سرکاری ادارے والوں کی موجیں ختم۔‘
صارف بشیر چوہدری نے لکھا کہ ’میرا بیٹا سکول سے گھر پہنچا تو اس کی ماں نے بتایا کہ شہباز شریف نے دو چھٹیاں ختم کر دی ہیں۔۔۔ اس نے برجستہ جواب دیا کہ یہ بھی کسی کام کا نہیں نکلا اس کو بھی اتار دینا چاہیے۔‘
خیال رہے کہ اس سے قبل جب کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے اکثر تعلیمی ادارے بند رہتے تھے تو سوشل میڈیا پر متعدد صارفین کی طرف سے اس وقت کے وزیر تعلیم شفقت محمود کو بچوں کا وزیراعظم قرار دیا گیا تھا، جیسے وہ ان کے دل کی مرادوں کو پورا کرنے کے لیے یہ سب کر رہے تھے۔
تاہم یہاں یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے اعلان میں ابھی صرف سرکاری دفاتر کا ذکر ہے۔
قمر عباس نامی صارف نے اپنی تحقیق شئیر کرتے ہوئے لکھا کہ ’دنیا میں بارہ ایسے ممالک ہیں جہاں ہفتے میں ایک دن چھٹی ہوتی ہے۔‘
پاکستان میں ہفتے میں چھٹیوں کی تاریخ
پاکستان میں ہفتے میں چھٹی کا تصور دلچسپ رہا ہے۔ پاکستان کے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے تو جمعے کو چھٹی کرنے اعلان کیا تھا۔ جہاں وہ اپنی تقریروں میں پاکستان میں اسلام کی خدمت میں اٹھائے جانے والے اپنے مشہور اقدامات پر بات کرتے تھے وہیں وہ اس بات کا بھی اکثر ذکر کرتے تھے کہ انھوں جمعے کے دن کو چھٹی کے لیے مختص کیا۔
یہ بحث اس وقت دلچسپ مرحلے میں داخل ہوئی جب نواز شریف نے اپنے دوسرے دور اقتدار میں جمعے کی چھٹی کو اتوار کی چھٹی سے بدل دیا۔ انھوں نے یہ کہا کہ کیونکہ باقی دنیا میں اتوار کو چھٹی ہوتی ہے تو اس وجہ سے جمعے کو چھٹی کرنے سے ملک کو معاشی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ ان کے اس فیصلے پر تنقید بھی کی گئی۔
نواز شریف کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد فوجی صدر پرویز مشرف نے بالآخر پاکستان میں دو چھٹیوں کا تصور متعارف کرایا۔ انھوں نے ہفتے میں سنیچر اور اتوار کو چھٹی کا دن قرار دیا۔ سابق صدر مشرف کے دور میں اس کی بڑی وجہ توانائی کی بچت اور عالمی منڈی کے معیار پر پورا اترنے کو قرار دیا گیا تھا۔
خیال رہے کہ کہ اس سے قبل مختلف مارکیٹیں، نجی دفاتر اور تعلیمی ادارے ہفتے کے مخصوص دنوں کو چھٹی کے لیے خود ہی مختص کرتے رہے ہیں۔