سینٹرل وسٹا انڈین وزیر اعظم کے لیے نئے گھر کی تعمیر، ’مودی کی خواہش‘ ہے یا ایک ضرورت
انڈین دارالحکومت نئی دہلی کے قلب میں واقع راج پتھ (جو پہلے کنگز ایوینیو کہلاتا تھا) دہلی والوں کے لیے ویسا ہی ہے جیسے نیویارک والوں کے لیے سینٹرل پارک یا پیرس والوں کے لیے شانزے لیزے۔
اس سڑک کے دونوں جانب اچھی تراش خراش والے وسیع و عریض لان دہلی والوں کے لیے سردیوں میں دھوپ سینکنے اور گرمیوں کی شاموں میں آئس کریم سے لطف اندوز ہونے کی جگہ ہے۔
لیکن تین کلومیٹر (1.8 میل) لمبی یہ سڑک، جو انڈین ایوان صدر سے انڈیا گیٹ اور جنگ کی ایک یادگار تک پھیلی ہوئی ہے، اب دھول اور مٹی سے اٹی پڑی ہے۔
اس سڑک پر جگہ جگہ کھدائی کی جا چکی ہے اور تھوڑے تھوڑے وقفے پر رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہیں تاکہ لوگ اس کے قریب نہ جا سکیں جبکہ اب یہاں تصویر لینا یا ویڈیو بنانا بھی ممنوع قرار دیا گیا ہے۔
یہ سب ’وسٹا پروجیکٹ‘ کا ایک حصہ ہے جو کہ ایک بڑا تعمیراتی منصوبہ ہے اور اس کے تحت ایک نئی پارلیمنٹ، نائب صدر اور وزیر اعظم کے لیے نئے مکانات اور کثیر المنزلہ دفاتر تیار کیے جانے ہیں۔ اس منصوبے پر 200 ارب روپے کی لاگت کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
اس منصوبے کا ستمبر سنہ 2019 میں اعلان ہوا تھا اور اس کے بعد سے ہی یہ تنازعات کا شکار رہا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ رقم لوگوں کی فلاح و بہبود پر یا دہلی کی ہوا صاف کرنے پر خرچ کی جا سکتی ہے جو کہ دنیا میں سب سے زیادہ آلودہ ہے۔
حکومت نے ان دلائل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’سینٹرل وسٹا‘ منصوبہ معیشت کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ شہری ترقی کے وزیر ہردیپ سنگھ پوری نے کہا ہے کہ اس سے ’بڑے پیمانے پر براہ راست اور بالواسطہ روزگار‘ کے مواقع پیدا ہوں گے اور اس سے تمام انڈین شہریوں کا سر ’فخر سے بلند‘ ہو گا۔
انڈیا کووڈ 19 کی دوسری تباہ کن لہر سے نبرد آزما ہے مگر اس دوران بھی اس منصوبے پر کام جاری و ساری ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس منصوبے کے ناقد اب اس پر مزید تنقید کر رہے ہیں۔
ناقدین نے وزیر اعظم نریندر مودی کی ترجیحات پر سوال اٹھاتے ہوئے اُن کا موازنہ ’روم کے بادشاہ نیرو‘ سے کیا ہے کہ جب ’روم جل رہا تھا تو نیرو بانسری بجا رہا تھا‘ (یعنی حالات کی سنگینی سے بے خبر تھا۔)
حزب اختلاف کے رہنما راہل گاندھی نے اسے ایک ’مجرمانہ بربادی‘ قرار دیا ہے اور مودی سے اپیل کی ہے کہ وہ وبائی مرض سے نمٹنے پر توجہ دیں۔ مودی کو لکھے گئے ایک کھلے خط میں سکالرز نے اس منصوبے کو وسائل کا نقصان کہا ہے اور کہا ہے کہ اس کا استعمال ‘زندگیوں کو بچانے کےلیے کیا جا سکتا ہے۔’
لیکن سب سے زیادہ تنقید وزیر اعظم کے گھر کی تعمیر پر ہو رہی ہے جسے دسمبر سنہ 2022 تک مکمل ہونا ہے اور یہ اسی منصوبے کا ایک حصہ ہے۔
تاریخ دان نارائنی گپتانے بی بی سی کو بتایا ’ایک ایسے وقت میں جب وبائی مرض میں ہزاروں افراد ہلاک ہو رہے ہیں، شمشان گھاٹ بھرے ہوئے ہیں، قبرستانوں میں جگہ ختم ہو چکی ہے مگر دوسری جانب حکومت ہوا میں قلعے بنا رہی ہے۔‘
وزیر اعظم فی الحال کہاں رہتے ہیں؟
دیکھا جائے تو ہر حساب سے نریندر مودی کی موجودہ رہائش گاہ بہت شاندار ہے۔
مودی کی موجودہ رہائش گاہ لوک کلیان مارگ (جسے پہلے ریس کورس روڈ کہا جاتا تھا) پر 12 ایکڑ کے رقبے پر محیط ہے جس میں پانچ بڑے بنگلے اور وسیع و عریض لانز ہیں۔ یہ صدارتی محل اور پارلیمنٹ سے صرف تین کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
وزیر اعظم کی رہائشی عمارت کے علاوہ اس احاطے میں مہمان خانہ، دفاتر، میٹنگ رومز، ایک تھیٹر اور ایک ہیلی پیڈ بھی ہے۔ کچھ سال پہلے اس کو قریب واقع ہوائی اڈے سے جوڑنے کے لیے ایک زیر زمین سرنگ بھی بنائی گئی تھی۔
دہلی میں مقیم آرکیٹیکٹ گوتم بھٹیا کہتے ہیں کہ ’انڈین وزیر اعظم کا تو برطانیہ کی ایک پوری سٹریٹ پر ہی تصرف ہے جس کے مقابلے میں 10 ڈاؤننگ سٹریٹ توصرف ایک نمبر والا دروازہ ہے۔‘
اس رہائش کا انتخاب سابق انڈین وزیر اعظم راجیو گاندھی نے سنہ 1984 میں کیا تھا۔ پہلے پہل اسے عارضی رہائش کے طور پر منتخب کیا گیا تھا لیکن اس کے بعد یہ تمام انڈین وزیر اعظم کی رہائش رہی ہے۔
وہاں کا دورہ کرتے رہنے والے سیاسی تجزیہ کار موہن گروسوامی کہتے ہیں ’راجیو گاندھی نے پانچ میں سے تین بنگلے استعمال کیے۔ چوتھے اور پانچویں کو بعد میں مزید عملے اور سکیورٹی اہلکاروں کی ضرورت کے لیے شامل کیا گیا۔‘
گوتم بھاٹیا کہتے ہیں کہ ’یہ نسبتاً ایک نئی تعمیر شدہ عمارت ہے۔ تاہم سرکاری خزانے کو استعمال کرتے ہوئے اس کی بار بار تزین و آرائش کی جاتی رہی ہے۔‘
حالیہ برسوں میں انڈیا کے شہریوں کو اس کے اندر کی جھلک اس وقت ملی جب مسٹر مودی کے دفتر نے ایک ویڈیو ریلیز کی جس میں انڈین وزیر اعظم موروں کو دانہ کھلاتے، یوگا کرتے اور اپنی والدہ کی وہیل چیئر کو لے جاتے دکھایا گیا۔
ہم نئی رہائش گاہ کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟
یہ دہلی کے پاور کوریڈور کے مرکز میں ہو گا جس کے ایک سرے پر راشٹرپتی بھون (ایوان صدر) اور دوسرے پر سپریم کورٹ ہو گا اور پارلیمنٹ تو وزیر اعظم کی رہائش کے سامنے سڑک کے پار ہی ہو گی۔
سرکاری دستاویزات کے مطابق وزیر اعظم ہاؤس چار منزلہ عمارت پر محیط ہو گا اور یہ 15 ایکڑ کے پلاٹ پر ایوان صدر اور ساؤتھ بلاک کے درمیان پھیلا ہو گا۔ خیال رہے کہ یہاں فی الحال پی ایم آفس اور وزارت دفاع کے دفاتر ہیں۔ سنہ 1940 کی دہائی میں جو بیرکس اور عمارتیں برٹش راج میں بنی تھیں انھیں زمیں بوس کر دیا جائے گا۔
بہرحال رہائش گاہ کے بارے میں مزید تفصیلات کم ہیں۔ سینٹرل وسٹا پراجیکٹ کے معمار بمل پٹیل کے دفتر نے بی بی سی کو ایک ای میل میں بتایا ہے کہ ’سکیورٹی وجوہ کی بنا پر ہم آپ کے ساتھ تفصیلات شیئر نہیں کر سکتے ہیں۔‘ اس منصوبے پر آنے والے اخراجات کی تفصیل بتانے سے بھی انکار کیا گیا ہے۔
ایک ارکیٹیکٹ انوج سریواستو نے کہا: ’وقتاً فوقتاً منصوبے کی نئی نئی تفصیلات سامنے آتی رہتی ہیں لہذا اس منصوبے میں کوئی شفافیت نہیں ہے۔‘
ایک دوسرے آرکیٹیکٹ مادھو رمن نے کہا: ا’یک محفوظ تاریخی عمارت ساؤتھ ایوینو کے ساتھ ’اتنی بڑی تعمیر‘ تشویش کا باعث ہے۔‘ واضح رہے کہ ساؤتھ ایوینو کو 20 ویں صدی کے سرکردہ برطانوی آرکیٹیکٹس ایڈون لوٹینز اور ہربرٹ بیکر نے ڈیزائن کیا تھا۔
’انڈیا کے آثار قدیمہ کے ضوابط کے مطابق نئی تعمیرات اور کسی بھی محفوظ تاریخی ورثہ کے ڈھانچے کے درمیان کم سے کم 300 میٹر کا فاصلہ ہونا چاہیے لیکن نیا وزیر اعظم ہاؤس محض 30 میٹر کی دوری پر ہو گا۔ پلاٹ پر بہت سے درخت بھی موجود ہیں، اُن کا کیا بنے گا؟‘
تو مسٹر مودی کیوں منتقل ہونا چاہتے ہیں؟
حکام کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کا موجودہ گھر ’اچھی جگہ پر واقع نہیں‘ ہے اور اس کی ’حفاظت کرنا مشکل‘ ہے اور اس کے لیے ’بہتر انفراسٹرکچر کی ضرورت ہے جو کہ آرام دہ، موثر، رکھ رکھاؤ میں آسان اور کم خرچ ہو۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ان کی رہائش کو ان کے دفتر کے قریب ہونا چاہیے کیونکہ ان کے سفر کے دوران سڑک بند ہونے سے ’شہر کی ٹریفک میں خلل پیدا ہوتا ہے۔‘
لیکن موہن گروسوامی کا خیال ہے کہ نئے گھر کا تعلق مسٹر مودی کی خواہش کے ساتھ زیادہ ہے۔
’تمام حقیقی فیصلہ سازی وزیر اعظم کے گھر پر ہوتی ہے۔ ان کے پاس سینکڑوں افراد پر مشتمل عملہ ہے اور وہ ایک دن میں 300 فائلیں کلیئر کرتے ہیں۔‘
’اقتدار ان ہاتھ میں مرکوز ہے۔ وہ صدارتی طرز کی حکومت تشکیل دے رہے ہیں اور اس کے لیے انھیں وائٹ ہاؤس یا کریملن جیسی ایک بڑی عمارت کی ضرورت ہے۔‘
مسٹر گروسوامی کا کہنا ہے کہ انڈین وزرائے اعظم ہمیشہ ’پچھلی عمارتوں‘ میں رہتے ہیں۔ لیکن اپنے نئے گھر کے ساتھ مسٹر مودی خود کو دہلی کے پاور کوریڈور کے مرکز میں لانا چاہتے ہیں۔
’وہ صرف نیا گھر نہیں بنا رہا ہے بلکہ وہ حکومت کے اداروں کو نئے سرے سے ترتیب دے رہے ہیں۔‘
راج پتھ کے علاقے کا کیا ہو گا؟
راج پتھ ایک عوامی جگہ ہے جو تفریح کے لیے بھی ہے اور احتجاج اور کینڈل لائٹ مارچ کے لیے بھی۔
اگرچہ حکومت اس بات پر زور دیتی ہے کہ وہ مستقبل میں بھی عوامی جگہ رہے گی لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ اس بات کا امکان نہیں ہے کیونکہ وزیر اعظم کے گھر سے قربت کی وجہ سے وہاں کسی بڑے اجتماع کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
مؤرخ نارائنی گپتا کا کہنا ہے کہ کثیر المنزلہ عمارتیں مشہور ثقافتی مراکز جیسا کہ اندرا گاندھی نیشنل سینٹر فار آرٹس، نیشنل میوزیم اور نیشنل آرکائیوز کی عمارتوں کی جگہ لے لیں گی اور یہ انڈیا گیٹ کی شوکت کو کم کر دیں گی اور وہاں سے لوگوں کو دور کر دیں گی۔‘
تھنک ٹینک سینٹر فار پالیسی ریسرچ کے کانچی کوہلی کا کہنا ہے کہ دہلی میں اراضی کو مخصوص مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور پہلے سے بتائے گئے لینڈ یوز میں تبدیلی نہیں لائی جا سکتی۔
دوسری جانب حکومت کا کہنا ہے کہ یہ 200 ارب روپے کا پراجیکٹ کئی برسوں میں مکمل ہو گا جبکہ دوسری جانب حکومت نے اس کی تقریبا دو گنا رقم ویکسینیشن کے لیے مختص کی ہے۔
ایک سینیئر بیوروکریٹ نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ حکومت ’ناقابل دفاع چیز کا دفاع‘ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
’مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ حتمی نتیجے کے طور پر ہر ہندوستانی کو اس پر فخر ہو گا لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ وقت پوری طرح سے غلط ہے۔ جب ہمارے آس پاس ہر طرف لوگ مر رہے ہیں تو ایک اور عمارت کھڑا کرنے کی اتنی جلدی کیا ہے؟