سپری رپورٹ اسلحے کے بڑے آرڈرز سے پاکستانی فضائیہ، بحریہ اور بری فوجی کی صلاحیت میں کیا بہتری آئے گی؟
حکومت پاکستان نے سنہ 2016 سے 2020 کے دوران پانچ مختلف ممالک سے آٹھ کے قریب اسلحہ یا ہتھیاروں کے بڑے نظام کی درآمد کی ہے تا کہ ملک کی بحریہ اور فضائیہ کی صلاحیت کو بہتر اور زیادہ طاقتور بنایا جائے۔
یہ بات سویڈن میں قائم تھنک ٹینک ‘سپری’ (ایس آئی پی آر آئی SIPRI-) نے بتائی ہے اور یہ تمام دفاعی نظام خریدنے کے بعد پاکستان کا نام ایشیا پیسیفک خطے میں عالمی منڈی سے ہتھیار درآمد کرنے والے ممالک میں سرفہرست آ گیا ہے۔
اسلحے کے حصول کے لیے پاکستان نے سب سے زیادہ انحصار اپنے قریبی دوست چین پر کیا ہے جس نے اسلام آباد کو جے ایف 17 کے دو مختلف اقسام کے لڑاکا طیارے دیے ہیں جبکہ جے ایف 17 تھنڈر/ ایف سی۔1 قسم کے 50 لڑاکا طیارے پاکستان نے چین کے لائسنس کے تحت مقامی طور پر تیار کیے ہیں۔
پاکستان نے چین کی جنگی صنعت سے ٹائپ 041 / یوآن آبدوزیں اور ٹائپ 054-اے جنگی بحری جہاز (فریگیٹس) حاصل کی ہیں اور یہ دونوں جنگی نظام مقامی طور پر تیار کیے جا رہے ہیں۔ تاہم اس جنگی سازوسامان کے لیے ضروری فاضل پرزے اور ڈھانچے چین سے ہی درآمد کیے جا رہے ہیں۔
چین کے علاوہ پاکستان نے ترکی سے ‘ملجم’ (MilGem) بحری جنگی جہاز بھی درآمد کیے ہیں اور یہ بھی پاکستان کی دفاعی صنعت مقامی طور پر تیار کر رہی ہے۔
خیال رہے کہ گزرے برسوں کے دوران پاکستانی ملٹری صنعتی کمپلیکس نے کراچی ڈاک یارڈ اور ایروناٹیکل کمپلیکس کامرہ میں مقامی سطح پر بحری جنگی جہاز، آبدوزیں، لڑاکا طیارے اور ہیلی کاپٹر تیار کرنے کی صلاحیت حاصل کر لی ہے۔
پاکستان آرڈیننس فیکٹری واہ کے نام سے پاکستان کی ایک اور صنعت کے پاس یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ چھوٹے ہتھیار اور بم بارود بناسکتی ہے۔
‘سپری’ کی دستاویز کے مطابق پاکستان نے لڑاکا طیارے، جنگی ہیلی کاپٹر، آبدوزیں اور جنگی بحری جہاز بیرون ممالک سے منگوائے ہیں لیکن پھر انھیں مقامی طور پر تیار کیا ہے۔ باالفاظ دیگر یہ کہا جاسکتا ہے کہ تیاری میں زیادہ تر استعمال ہونے والے حصے باہر سے منگوائے گئے ہیں لیکن اسلحہ کا حتمی نظام مقامی طور پر ہی بنایا گیا ہے۔
پاکستان نے بڑی دلچسپی کے ساتھ مصر سے استعمال شدہ مراج (Mirage-5) طیارے اس حقیقت کے باوجود بھی درآمد کئے ہیں کہ پاکستان کی فضائیہ پہلے ہی فرانس کے طیارے استعمال کر رہی ہے۔
پاکستان کی حکومت نے بری فوج کے لئے اٹلی سے ‘اے۔ڈبلیو 139’ اور روس سے ‘ایم۔آئی 35 ایم’ ہیلی کاپٹرز درآمد کیے ہیں اور خیال کیا جاتا ہے کہ روس سے ایک ٹرانسپورٹ طیارہ بھی درآمد کیا جا رہا ہے۔
‘سپری’ کی معلومات کے مطابق پاکستان نے چین سے بحری جہاز تباہ کرنے والے تین مختلف قسم کے زمین سے فضا میں مار کرنے والے اور ٹینک شکن میزائل بھی درآمد کیے ہیں۔
سنہ 2018 میں پاکستان نے ترکی سے 1.5 ارب ڈالر مالیت کے 30 ‘ٹی۔129’ لڑاکا ہیلی کاپٹر منگوانے کا آرڈر دیا تھا تاہم ترکی کی اسلحہ ساز صنعت پر پاکستان کو ہتھیار فروخت کرنے پر امریکی پابندیوں کے نفاذ کی وجہ سے یہ ڈیل منسوخ ہوگئی۔
‘سپری’ کے ڈیٹا بیس میں دی گئی فہرست کے مطابق اس عرصے کے دوران پاکستان نے بڑی مقدار میں چھوٹے ہتھیار درآمد کیے ہیں جن میں نیول گنز، بم، بارود، ٹینک اور بحری جہاز شکن اور زمین سے فضاءمیں مار کرنے والے میزائل شامل ہیں۔
اسلحہ درآمد کرنے والوں کی فہرست میں پاکستان کا نام کیسے شامل ہوا؟
سٹاک ہوم میں قائم عالمی امن کے تحقیقی مرکز (سپری) کی شائع کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2016 سے 2020 کے دوران پاکستان سب سے زیادہ اسلحہ خریدنے والے ایشیا اور اوشینیا کے ممالک میں شامل ہے جبکہ 2.7 فیصد کے ساتھ بڑے اسلحہ درآمد کرنے والوں کی عالمی درجہ بندی میں اس کا دسواں نمبر ہے۔
اس مدت کے دوران بنیادی طور پر چین پاکستان کو اسلحہ فراہم کرتا رہا ہے جو ملکی درآمد کا 74 فیصد بنتا ہے، اس کے بعد بالترتیب روس (6.6 فیصد) اور اٹلی (5.9 فیصد) کا نمبرآتا ہے۔ ماضی سے موازنہ کریں تو پاکستان کی اسلحہ کی درآمد میں 23 فیصد کمی آئی ہے۔
موازنہ کرنے سے یہ امر بھی سامنے آتا ہے کہ اسی مدت کے دوران بھارت کو بنیادی طورپر اسلحہ روس نے (49 فیصد) فراہم کیا جبکہ فرانس (18 فیصد) اور اسرائیل (13 فیصد) کے ساتھ اس فہرست میں دوسرے اور تیسرے نمبر پرآتا ہے۔
2016 سے 2020 کے دوران ہمسایہ ممالک کے اسلحہ کی درآمد میں بھی رواں دہائی کے اولین پانچ سال کی نسبت 33 فیصد کمی دیکھی گئی ہے۔ امریکہ سے انڈیا کی اسلحہ کی درآمد میں ایک اور قابل ذکر تبدیلی بھی دیکھی گئی ہے۔
رواں دہائی کے اولین پانچ سال میں امریکہ انڈیا کو اسلحہ فراہم کرنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک تھا لیکن اس کی برآمدات میں 46 فیصد کمی کے بعد اس کا نمبر نیچے گر کر چوتھا ہوگیا ہے۔ اسی مدت کے دوران فرانس سے انڈیا کی اسلحہ کی درآمد میں 709 فیصد اضافہ ہوا جبکہ اسرائیل سے اسلحہ کی درآمد 82 فیصد بڑھی۔
‘سپری’ کی رپورٹ کے مطابق اسی اثنا پاکستان کے متعدد اسلحہ کے زیر التوا بڑے آرڈرز کی 2028 تک تکمیل ہونا ہے جن میں چین سے 50 لڑاکا طیارے، 8 آبدوزیں اور 4 جنگی بحری جہاز (فریگیٹس) جبکہ ترکی سے 4 جنگی بحری جہازوں کا حصول شامل ہے۔
‘سپری’ کے سینئر تحقیق کار سائمن ویزمین نے بتایا کہ بڑے اسلحہ کے سودوں اور ان کی فراہمی کے لحاظ سے پاکستان کی دسویں بڑے اسلحہ کی درآمد کرنے والے ملک کے طورپر نشاندہی کی گئی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’سپری کی طرف سے آج شائع ہونے والی معلومات اور بڑے اسلحہ کے دسویں درآمدی ملک کے طورپر پاکستان کی پوزیشن 2016 سے 2020 کے پانچ سال کے دوران بڑے اسلحہ کی حقیقی فراہمی کی بنیاد پر ہے، یہ دستخط شدہ معاہدوں پر مبنی نہیں۔ اگرچہ پاکستان نے 2016 سے 2020 کے دوران بڑے معاہدوں پر دستخط بھی کئے ہیں جس کے نتیجے میں 2016 سے 2020 میں اسے اسلحہ کی فراہمی بھی ہوئی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا ’مثال کے طورپر 38 جے ایف 17 لڑاکا طیاروں کے دو معاہدے پر 2017 اور 2018 میں دستخط ہوئے تھے اور یہ سب 2020 کے آخر تک فراہم کئے گئے۔ ان میں سے زیادہ تر ‘ڈیلیوریز'(فراہمی) 2016 سے پہلے دستخط شدہ معاہدوں کے تحت ہوئیں، مثال کے طورپر 34 مزید جے ایف 17 طیاروں کی فراہمی 2012 میں ہونے والے معاہدے کے تحت ہوئی تھی۔ جبکہ بہت ساری ‘ڈیلیوریز’ چھوٹی متعدد مقدار میں معمول کے ان معاہدات کے تحت ہوئیں جن پر 2016 یا اس کے بھی بعد دستخط ہوئے تھے۔‘
پاکستانی حکام اور ماہرین ‘سپری’ کی رپورٹ کو کیسے دیکھتے ہیں؟
طاقت کے ایوانوں سے ‘سپری’ کی رپورٹ پر کوئی باضابطہ ردعمل تو ابھی تک سامنے نہیں آیا تاہم پاکستان کی ابتر معاشی واقتصادی صورتحال کے پیش نظر خیال کیاجاتا ہے کہ پاکستانی فوج کے حکام اور ماہرین اس رپورٹ اور پاکستان نے جو اسلحہ خریدا ہے، اس کی تفصیل منکشف کرنے پر خوش نہیں۔
سابق ائیر وائس مارشل شہزاد چوہدری نے ‘سپری’ کی رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ’یہ جعلی (بوگس) رپورٹ ہے۔ امریکیوں نے ‘ٹی۔129’ لڑاکا ہیلی کاپٹروں کی ڈیل منسوخ کر دی تھی جو فہرست میں ایک بڑی اہم چیز کے طور پر موجود تھی۔ باقی بم، میزائل اور بارود تھا جس کی لاگت زیادہ نہیں۔‘
حکومت اس رپورٹ سے متعلق کسی سوال کا جواب دینے پر آمادہ نہیں۔
اگر حاصل شدہ اسلحہ کے بارے میں کوئی خبر شائع ہوئی بھی تو اس کی لاگت پاکستانی میڈیا میں کبھی کبھار ہی شائع ہوتی ہے۔ پاکستانی دفاعی اسٹیبلشمنٹ کا یہ وطیرہ محض ملک کے اندر تک محدود نہیں۔
‘سپری’ کے اسلحہ اور فوجی اخراجات کے پروگرام سے متعلق سینئر محقق سائمن ویزمین نے اس نمائندے کو بتایا کہ اسلحہ کے سودوں کے مالی معاملات کے بارے میںپاکستانی کبھی نہیں بتاتے۔
سائمن ویزمین نے بتایا ’پاکستان سمیت درآمد کنندگان شاذونادر ہی اپنی درآمدات کی مالیت کے بارے میں کوئی معلومات شائع کرتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ‘سپری’ کی رپورٹ میں شامل ڈیٹا گذشتہ پیر کو شائع ہوا تھا جس میں بڑے اسلحہ کے سودوں یا ترسیل شدہ سامان کی مقدار کا جائزہ پیش کیا گیا تھا۔ ساز وسامان کی مقدار کا مالیت کے لحاظ سے تعین نہیں کیا گیا تھا لیکن فوجی سازوسان کی خام صلاحیت کی مناسبت سے اسے دیکھا اور جانچا گیا ہے۔
بہت سارے ماہرین (پانچ بڑے برآمد کنندگان میں سے تمام نہیں، البتہ چین کچھ بھی شائع نہیں کرتا) نے آج اپنے اسلحہ کی برآمد کے مالی پہلو کا کچھ سالانہ جائزہ شائع کیا ہے۔ تاہم اکثر کے نزدیک مالی پہلو کا جائزہ لینے کا اندازہ مختلف ہے۔
کچھ ایکسپورٹ لائسنسز کو اہمیت دیتے ہیں جس کے نتیجے میں شاید درحقیقت اسلحہ کی منتقلی شامل ہو یا نہ ہو۔ فہرست میں شامل اسلحہ کی درجہ بندی میں اکثر فرق ہوتا ہے اور کچھ میں تمام ‘ٹرانسفرز’ شامل نہیں ہوتیں۔
کچھ مجموعی مقدار کا بیان کرتے ہیں جس میں وصول کنندہ کی جزئیات شامل نہیں ہوتیں۔ اس کے نتیجے میں اکثر شائع شدہ معلومات سے ریاستوں کے مابین موازنہ نہیں ہوپاتا کیونکہ ان کا ڈیٹا مختلف ہوسکتا ہے جبکہ اکثر اوقات ہر ملک کا دستیاب ڈیٹا بھی مختلف ہوسکتا ہے۔