سندھ کی نجی جیلیں لڑکی خوبصورت ہوتی تو منشی اس پر ہاتھ رکھ کر کہتا یہ زمین کا کام نہیں اور کام کرے گی
مجھے دو تین بار اغوا کیا گیا، مارا پیٹا گیا، رحیم یار خان اور جامشورو میں بھی اغوا ہوئی، زمینداروں نے بہت مارا لیکن میں نے کہہ دیا کسانوں سے دستبردار نہیں ہوں گی، انھیں آزاد ضرور کروائیں گے۔‘
یہ ہیں لالی کولھی جو پہلے خود نجی جیل میں قید تھیں اور اب دیگر کسانوں کی رہائی کے لیے سرگرم عمل ہیں۔
بلوچستان کے علاقے بارکھان میں مبینہ طور پر نجی جیل کی موجودگی اور ایک خاندان کی بازیابی نے پاکستان میں زمینداروں، جاگیرداروں اور سرداروں کی نجی جیلوں کی موجودگی کی بحث کو زندہ کر دیا ہے۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ نجی جیلوں کا کیا یہ پہلا انکشاف ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔
دو دہائی قبل صوبہ سندھ میں سینکڑوں کسان نجی جیلوں سے ہتھکڑیوں اور بیڑیوں سمیت رہا ہوئے تھے، جن میں لالی کولھی بھی شامل تھیں۔
زمیندار نے بہن سے ناجائز تعلق بنا لیا
لالی کولھی اور ان کا خاندان عمرکوٹ کے ایک زمیندار کے پاس بائیس سال جبری مشقت کرتا رہا۔ بقول ان کے زمیندار کے بیٹے نے ان کی بہن سے ناجائز تعلق قائم کر لیا اور بھائیوں اور والد پر سختیاں بڑھا دیں اور کہا کہ یہ لڑکی اس کے حوالے کرو۔
’وہ دن رات کام لیتا، گھر آنے نہیں دیتا تھا کسی کی شادی بیاہ اور فوتگی تک میں نہیں جاتے تھے۔ چار پانچ منشی ہوتے تھے، خواتین کا منشی الگ اور مردوں کا الگ، جو جانے نہیں دیتے تھے۔‘
منو بھیل سانگھڑ کے زمیندار کے پاس کسان تھے جہاں سے بعد میں وہ بھاگ نکلے۔
وہ بتاتے ہیں کہ اگر کسی کسان کی لڑکی خوبصورت ہوتی تو منشی اس پر ہاتھ رکھ لیتا اور کہتا کہ یہ زمین کا کام نہیں کرے گی بلکہ اور کام کرے گی۔
’عزت محفوظ نہیں تھی، لڑکی کی نہ گھر والوں اور نہ ہی ماں کی۔ کوئی نہیں تھا جو انصاف کرے اس صورتحال میں کسان بھاگے گا ہی نہ۔‘
پیروں میں آدھے من کی کڑیاں
لالی کولھی کے مطابق یہ ’سنہ 1996 کی بات ہے جب انھیں پورے خاندان کے لیے ایک من آٹا اور سولہ روپے مزدوری دی جاتی تھی۔
’پیروں میں آدھے من کی زنجیر باندھی جاتی تھی، بالآخر ایک کسان بھاگ نکلا اور اس نے عدالتوں سے رجوع کیا اور لالی کولھی کے خاندان سمیت 60 کسان رہا ہوئے۔‘
منو بھیل کے مطابق ’ان سے لوہے کی بیس کلو وزنی زنجیر لگا کر کام کروایا جاتا، صبح فجر سے لے کر رات کو دس گیارہ بجے تک کام لیا جاتا تھا۔‘
’ہم وہاں دو سال رہے اس عرصے میں برادری کا کوئی بندہ ہمارے پاس نہیں آتا تھا اگر کوئی آتا تو اس کو بھی پکڑ کر کام پر لگا دیتے تھے۔‘
’کوئی شدید بیمار بھی ہو جائے تو ڈاکٹر آ کر دوائی دے جاتا لیکن باہر جانے کی اجازت نہیں تھی۔‘
منو بھیل سنہ 1996 میں جیل سے بھاگ کر پاکستان انسانی حقوق کمیشن کے دفتر پہنچے اور مدد کی اپیل کی۔
ایچ آر سی پی کی حیدرآباد میں ان دنوں میں خصوصی ٹاسک فورس موجود تھی۔ اس کے ایک سابق رکن اور سینئر صحافی ناز سہتو بتاتے ہیں کہ ’منو بھیل کے ساتھ وہ روانہ ہوئے لیکن اس سے پہلے مقامی سطح پر معلومات لی گئیں۔ یہ اس طرح سے کیا گیا تاکہ پولیس کو معلوم نہ ہو سکے۔‘
’جب ہم چھپتے چھپاتے زمینوں پر پہنچے تو ہمیں جھٹکا لگا۔ لوگوں کے پیروں میں اور ہاتھوں میں زنجیریں پڑی ہوئی تھیں۔ پہرے پر تین چار گارڈ موجود تھے۔ اس دوران زمیندار بھی پہنچ گئے اور تکرار شروع ہو گئی، ہمارے ہاتھ خالی تھے وہ ہوائی فائرنگ کر رہے تھے لیکن ہم کسانوں کو رہا کروا کے ڈی سی آفس پہنچ گئے اور پولیس مدد کے لیے طلب کر لی۔‘
ہر گھر میں ظلم و ستم کی داستان
انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے مطابق پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں ’جدید غلامی‘ موجود ہے یعنی مزدوری میں ناانصافی، کسانوں کو قرضے میں جکڑے رکھنا، ان کو قید و بند میں رکھنا۔
سنہ 2020 سے جنوری 2023 تک صرف صوبہ سندھ میں پانچ ہزار سے زیادہ کسان جبری مشقت سے رہائی حاصل کر چکے ہیں۔
کوٹری، حیدرآباد اور عمرکوٹ میں ایسے چار ہاری کیمپس ہیں جہاں نجی جیلوں سے رہا ہونے والے کسان رہتے ہیں۔ ان بستیوں کے ہر گھر میں قید و بند اور ظلم و ستم کی داستان ہے۔
آشو کولھی کا خاندان گذشتہ سال رہا ہوا اور ان کے حصے میں چند برتن اور چارپائیاں آئیں۔
وہ ہمت نگر نامی کسان کیمپ میں ایک جھونپڑی میں رہتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’زمیندار مار پیٹ کرتا تھا ہمارے بچے تنگ تھے اور ہم بھی تنگ تھے۔
زمیندار ہمارے پیسے کھا گیا اس نے بہت رلایا تنگ کیا، ہم پولیس کے پاس بھی گئے لیکن ہماری کسی نے نہیں سنی بس یہاں آ کر بیٹھے ہیں۔‘
منو بھیل کی قانونی جنگ
منو بھیل کا خاندان ابھی آزادی کی سانس بھی نہیں لے سکا تھا کہ اس کو دوبارہ اغوا کر لیا گیا۔ منو بھیل کے مطابق آزادی کے دو سال کے بعد ان کے خاندان کو کوٹ غلام محمد سے ایک زمیندار کے پاس سے اغوا کیا گیا تھا جہاں وہ گندم کی کٹائی کر رہے تھے۔
زمیندار کے لوگ آئے ان کے والد، والدہ، بھائی، بیوی، دو بیٹیوں ایک بیٹے کو اغوا کر کے لے گئے۔ وہ اس روز گھر موجود نہیں تھے، کام سے تھر گئے ہوئے تھے، پھر آٹھ روز بعد واپس آئے تو پتا چلا۔
منو بھیل کئی سال تک حیدرآباد پریس کلب کے باہر علامتی بھوک ہڑتال پر بیٹھے رہے۔ اس کے بعد ہائیکورٹ اور اس کے بعد سپریم کورٹ تک معاملہ گیا۔
عدالت کے یہ ریمارکس بھی آئے کہ ’ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے‘ لیکن اس کے باوجود منو بھیل کے اہلخانہ بازیاب نہیں ہوئے۔
منو بھیل کے مطابق ’میرے بیٹے کانجی کی عمر اس وقت سات سال تھی۔ بیٹی کی عمر تین سال تھی، میرا بیٹا جوان ہوگیا ہو گا۔‘
’میرے والد کی عمر اس وقت ستر سال تھی میری والدہ ساٹھ سال کی تھی، کوئی حادثہ ہوتا ہے تو اس میں لاش مل جاتی ہے لیکن یہ تو حادثہ بھی نہیں اگر ایک آدمی بھی مجھے مل گیا تو میری کہانی سچی ہوجائے گی اور جب تک میں زندہ ہوں یہ شور کرتا رہوں گا کہ میرے ساتھ ناانصافی کی گئی۔‘
منو بھیل کوٹڑی میں واقعے ہاری کیمپ میں رہتے ہیں۔ پچھلے دنوں روڈ حادثے میں ان کی ریڑھ کی ہڈی متاثر ہوئی تھی لیکن انھیں ابھی تک عدالتوں سے نوٹس آتے ہیں اور ان کے پاس کل اثاثہ ایک فائل ہے جس میں اخباروں کی درجنوں کٹنگز موجود ہیں جو ان کی جدوجہد پر مبنی ہیں۔
لالی کا کسانوں کی رہائی کا مشن
کیا آپ نے امریکی سیاہ فاموں کی غلامی پر مشتمل نیٹ فلکس کی فلم ہیریئٹ (Harriet) دیکھی ہے؟
حقیقی کہانی پر مشتمل اس فلم میں ایک خاتون فرار ہوتی ہے اور اس کے بعد وہ اپنے رشتے داروں اور دیگر سیاہ فام افراد کو رہا کرواتی ہے۔ لالی کولھی بھی ایک ایسا ہی کردار ہیں۔
لالی کولھی بتاتی ہیں کہ ’ہم جبری مشقت کی شکایت عدالت میں کرتے ہیں پھر عدالت رہائی کی اجازت دیتی ہے اور ہم مدد کے لیے تھانے جاتے ہیں لیکن پولیس زمینداروں کے ساتھ مل جاتی ہے اس لیے انھیں پہلے سے آگاہ کر دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں متعدد بار اغوا کیا گیا اور مارا پیٹا گیا۔‘
وہ مزید بتاتی ہیں کہ ’ہم بسوں میں سفر کرتے ہیں، اسی طرح عدالتوں میں اور تھانوں میں پہنچتے ہیں۔ زمیندار بااثر ہوتے ہیں، ہمیں بس سٹاپ سے اٹھا لیا جاتا ہے یا سڑک سے لیکن ہم نے کبھی شکست قبول نہیں کی، ہم کولھی اور بھیل کمیونٹی کے لوگوں کے لیے رات ہے اور سویرا ہوا ہی نہیں۔‘
آئین پاکستان کی شق 11 غلامی اور جبری مشقت کی ممانعت کرتی ہے تاہم کسانوں کو قید بند رکھنے پر آج تک کسی زمیندار یا سردار کو سزا نہیں ہوئی۔
ان میں سے کئی زمینداروں کو سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی بھی حاصل رہی ہے۔ بارکھان جیسے واقعات پر ایوانوں اور سڑکوں پر خوب شور مچتا ہے، کمیٹیاں تشکیل دی جاتی ہیں اور پھر یہ معاملہ سرد خانے کا شکار ہو جاتا ہے۔
کراچی میں ناظم جوکھیو کا قتل کیس ایک تازہ مثال ہے جس کی موت ایک سردار کی نجی قید میں ہوئی لیکن بعد میں لواحقین نے سمجھوتہ کر لیا۔