سمیع چوہدری کا کالم یہ کلین سویپ کسی ’لیجنڈ‘ سے کم نہیں
کہانی وہی یادگار ہوتی ہے جو کلائمیکس کے عین قریب آ کر بھی اپنی چال واضح نہ کرے۔ جو کبھی ایک طرف پلڑا جھکائے تو پھر اگلے ہی لمحے سر کے بل گھوم کر سارے اندازے غلط کر ڈالے۔ ایسی شاہکار، عہد ساز داستانیں ’لیجنڈ‘ کہلاتی ہیں۔
راولپنڈی کے اس ٹیسٹ میچ کی کہانی بھی کسی لیجنڈ سے کم نہیں۔
جنوبی افریقی ٹیم بہت پر امید تھی کہ وہ ڈٹ کر مقابلہ کرے گی اور کراچی ٹیسٹ کی شکست کا بدلہ لے کر حساب بیباک کرے گی۔
ہم اکثر کہتے ہیں کہ موجودہ وقتوں میں ٹیسٹ ٹیموں کے غیر ملکی دورے بہت ’ظالم‘ ہوتے ہیں۔ یہ کئی کریئرز کو فل سٹاپ لگا دینے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں
کراچی ٹیسٹ میں شکست کے بعد کوئنٹن ڈی کوک کی ٹیسٹ کپتانی کے کرئیر کو فُل سٹاپ لگ گیا۔ راولپنڈی ٹیسٹ اس قابل بلے باز کا بطور کپتان آخری میچ تھا اور پوری ٹیم نے گویا اسے یادگار بنانے کا فیصلہ کیا۔
کسی بھی کپتان کی کارکردگی کا تجزیہ زیادہ تر اس کے بولنگ یونٹ کی پرفارمنس کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ ڈی کوک کے بولنگ یونٹ نے انھیں بالکل بھی مایوس نہیں کیا اور دونوں اننگز میں پاکستان کو 300 کا ہندسہ نہیں چھونے دیا۔
مسئلہ صرف ان کے بیٹنگ یونٹ میں تھا جو ان پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے کہ وہ لوئر آرڈر کے ساتھ پارٹنر شپس لگا کر سکوربورڈ کا خسارہ دور کریں۔ جنوبی افریقی ٹیم کی پچھلے چند برسوں میں کئی کامیابیاں انھی کے کلیدی رنز کی مرہونِ منت رہی ہیں۔
پاکستان کی ٹیسٹ کرکٹ میں نشاطِ ثانیہ بننے والی اس جیت میں بھی بڑا کردار دراصل چھٹے نمبر کے بلے باز محمد رضوان کی کاوشوں کا ہے۔ یہ وہ جگہ ہے کہ جہاں سے اسد شفیق کے بعد، پاکستان کے رنز آنا بند ہو چکے تھے۔
مگر ڈی کوک نے اپنی توقیر کی بحالی کے لئے جو طریقہ اپنایا اور جیسی جوابی جارحیت دکھائی، وہ ایشین وکٹوں پر مؤثر ثابت نہیں ہو سکتی۔ یہاں جارحیت سے پہلے دفاع ضروری ہے، حالات سے موافقت حاصل کرنے کے لئے صبر بنیادی شرط ہے۔ وہی صبر جو ایڈن مارکرم کی اننگز کا خاصہ رہا۔
یہاں وکٹ پر رکنا پڑتا ہے۔ جب تک آپ وکٹ کی رفتار اور باؤنس سے ہم آہنگ نہ ہو جائیں تب تک کوئی بھی جارحانہ شاٹ کھیلنا عموماً خودکشی کے مترادف ثابت ہوتا ہے۔ ڈی کوک نے دونوں اننگز میں خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری۔
حالانکہ کراچی ٹیسٹ کے برعکس پنڈی سٹیڈیم نے ڈی کوک کی ٹیم کو وہ وکٹ فراہم کی جہاں وہ غیر معمولی سپن اور دھیمے باؤنس کے خوف سے محفوظ تھے اور نورکیہ و ربادا جیسے بولرز کو بھی بھرپور مدد میسر تھی۔ امید یہی تھی کہ جیسے اس وکٹ نے جنوبی افریقی بولرز کے حوصلے بڑھائے، ویسے ہی ان کے بلے بازوں کی بھی ہمت افزائی کرے گی۔
مارکرم اور ڈسن نے جس عزم سے اننگز کا آغاز کیا، وہ چوتھی اننگز میں بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ اتوار کی شام تک یہ میچ جنوبی افریقہ کے حق میں جھکتا دکھائی دے رہا تھا۔ شاہین شاہ آفریدی فارم میں نہیں نظر آ رہے تھے اور حسن علی کا پہلا سپیل بھی خاصا مہنگا ثابت ہوا تھا۔
وکٹ کی چال بھی بہرحال خاصی حد تک ناقابلِ فہم رہی۔ تیسرے دن شام کے سیشن میں گیند نے ٹرن لینا شروع کیا مگر چوتھے روز وکٹ پھر بیٹنگ کے لئے سازگار ہو گئی اور اسی رجحان میں اضافے کو مدِنظر رکھتے ہوئے جنوبی افریقہ ایک تاریخی فتح کی توقع کر رہا تھا۔
مگر حسن علی ایسے بولر ہیں کہ جب ردھم میں آ جائیں تو ایک ایک گیند کو اپنی مرضی سے گھما لیتے ہیں۔ بہت مدت کے بعد ہمیں حسن علی کی یہ فارم دیکھنے کو ملی ہے جو چیمپئینز ٹرافی میں پاکستان کی جیت کی بنیاد بنی تھی۔
لنچ کے وقفے تک جنوبی افریقی اننگز مضبوطی سے اپنے راہ چل رہی تھی مگر لنچ کے ذرا بعد ہی بابر اعظم نے دوسرا نیا گیند لینے کا فیصلہ کیا اور اس کے بعد ایک ایسا ہیجان بپا ہوا کہ کوئی سمجھ ہی نہ پایا کہ یہاں ہو کیا رہا ہے۔
حسن علی بلے کے کناروں کو جھکائی دینے میں مہارت رکھتے ہیں۔ انھوں نے اس اننگز کے انہدام کا آغاز کیا اور جب ساتھ میں شاہین شاہ آفریدی کی برق رفتاری بھی شامل ہوئی تو ایک ایک لمحہ یوں پاکستان کے حق میں پلٹا کہ آخری سات وکٹیں اوسطاً پانچ رنز بھی نہ جوڑ پائیں۔
اتوار کی شام سے پیر کی دوپہر تک بابر اعظم کے لیے کئی پریشان کن لمحے آئے مگر میچ کے آخری سیشن نے سبھی دکھ دور کر کے پاکستانی ڈریسنگ روم میں مسکراہٹیں بکھیر دیں۔ جتنی ہزیمت اس ڈریسنگ روم نے پچھلے دورے پر اٹھائی تھی، اسے بھلانے کو یہ جیت اور یہ مسکراہٹیں بہت ضروری تھیں۔