سری لنکا کے مسلمان امتیازی سلوک اور ہراسانی کے باعث مسلمانوں کی زندگی اجیرن
اپنے چھوٹے سے بچے کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ، مریم خلیفہ کے دن کا زیادہ تر وقت اپنے شوہر کو گھر واپس لانے کے راستے تلاش کرنے کی کوششوں میں صرف ہوتا ہے۔
سری لنکا میں شہری حقوق کے معروف وکیل حجاز حزب اللہ تقریباً 20 ماہ سے انسدادِ دہشت گردی کے الزامات کے تحت جیل میں ہیں۔ استغاثہ نے ان پر نفرت انگیز تقریر اور فرقہ وارانہ انتشار پھیلانے کا الزام لگایا ہے۔
ان کا الزام ہے کہ حجاز حزب اللہ نے اپنی اس تقریر میں نوجوان مسلم لڑکوں کو عیسائی برادری کے خلاف اکسایا تھا۔
حزب اللہ کا تعلق اقلیتی مسلم برادری سے ہے۔ ان پر اپریل 2021 میں فرد جرم عائد کی گئی لیکن وہ اس سے ایک سال پہلے سے ہی ان الزامات کے تحت جیل میں ہیں۔ ان کے مقدمے کی سماعت رواں ماہ کے آخر میں شروع ہونے والی ہے۔ ان کی اہلیہ ان الزامات کو سختی سے مسترد کرتی ہے۔
انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ کھلے عام مسلمانوں کے حقوق اور اقلیتوں کے حقوق کے دفاع میں بہت سرگرم تھے۔‘ انھوں نے کہا کہ ان کے شوہر کے خلاف الزامات ’ہر اس شخص کے لیے ایک پیغام تھا جو نسل پرستی، امتیازی سلوک کے خلاف بولنا چاہتا ہے۔‘
حزب اللہ کو سب سے پہلے 2019 کے ایسٹر سنڈے پر ہونے والے تباہ کن خودکش بم دھماکوں کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا تھا، جو مقامی شدت پسندوں نے کیے تھے۔ ان حملوں میں ہوٹلوں اور گرجا گھروں کو نشانہ بنایا گیا جس میں 260 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
ابتدا میں ان پر ایک حملہ آور کے ساتھ روابط کا الزام تھا۔ ان کے وکلا کا کہنا ہے کہ استغاثہ نے بعد میں ان الزامات کو اس وقت خارج کر دیا جب انھوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ وہ صرف ان دو دیوانی مقدمات میں پیش ہوئے تھے جو حملہ آور کے والد (جو ایک مشہور مصالحہ جات کے تاجر ہیں) کی جائیداد کے تنازعات سے متعلق تھے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پچھلے سال حکومت کے سخت ناقد حزب اللہ کو ’ضمیر کا قیدی‘ قرار دیا تھا۔
انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ حزب اللہ کی گرفتاری اس ہراسانی کا حصہ ہے جس کا حالیہ برسوں میں اقلیتی برادری کو سامنا رہا ہے۔ سری لنکا میں نسلی بنیادوں پر تناؤ کی جڑیں بہت گہری ہیں، 22 کروڑ آبادی والے ملک میں مسلمان 10 فیصد سے بھی کم ہیں، اور اکثریت سنہالہ بدھ مت افراد کی ہے۔
ملک کی اقلیتی تامل برادری کے لیے الگ وطن حاصل کرنے کے لیے تامل ٹائیگر باغیوں کی تقریباً تین دہائیوں تک جاری رہنے والی جنگ کے دوران مسلمان حکومت کے اتحادی تھے۔
لیکن مسلم رہنماؤں کا کہنا ہے کہ مئی 2009 میں تامل ٹائیگرز کی شکست اور جنگ کے خاتمے کے بعد اکثریتی سنہالہ افراد کے ایک حصے کا رویہ ان کے ساتھ بدل گیا تھا۔
انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ ایسٹر سنڈے کے حملوں سے پہلے ہی مسلم مخالف فسادات شروع ہو چکے تھے جن میں سنہالا برادری سے تعلق رکھنے والے ہجوم نے مسلمانوں کے مکانات اور کاروبار کو نشانہ بنایا تھا۔
ایسٹر سنڈے کے بم دھماکے ایک اہم موڑ ثابت ہوئے۔ ان حملوں کے ہفتوں بعد، سنہالا ہجوم نے مسلمانوں کی املاک کو نقصان پہنچایا، مساجد میں توڑ پھوڑ کی اور سوشل میڈیا پر نفرت انگیز تقریریں وائرل ہو گئیں۔ مسلمان برادری کو بدنام کیا گیا اور سخت گیر سنہالا افراد نے مسلمانوں کی دکانوں کا بائیکاٹ کرنے کا مطالبہ کیا۔
موجودہ صدر، گوٹابایا راجا پکشے، جنھوں نے بطور سیکرٹری دفاع تامل باغیوں کے خلاف جنگی کوششوں کی قیادت کی تھی، نومبر 2019 میں سنہالا بدھ قوم پرستوں کی بھرپور حمایت کے ساتھ اقتدار میں آئے۔ انھوں نے اپنی الیکشن مہم میں قومی سلامتی کو پیش پیش رکھا۔
اس کے ایک سال بعد ان کے بڑے بھائی مہندا راجا پکشے نے بھی پارلیمانی انتخابات میں فتح حاصل کر لی اور خاندان نے اقتادر پر اپنی گرفت مزید مضبوط کر لی۔
سری لنکا کی مسلم کونسل سے تعلق رکھنے والے ہلمی احمد نے بی بی سی کو بتایا ’حکومت کے لیے یہ ایک ٹرمپ کارڈ ہے جسے وہ ووٹ حاصل کرنے کے لیے، یہ کہتے ہوئے استعمال کرتے رہتے ہیں کہ ملک کو اسلامی انتہا پسندوں سے خطرہ ہے۔‘
کووڈ 19 کی وبا کے دوران حکومت نے ابتدائی طور پر اقلیتی مسلم اور مسیحی برادریوں سے تعلق رکھنے والے کووڈ متاثرین کی لاشوں کو دفنانے کی اجازت نہیں دی تھی۔ ماہرین کا یہ کہنا تھا کہ مناسب حفاظتی اقدامات کے ساتھ لاشوں کو دفنایا جا سکتا ہے لیکن اس کے باوجود کئی لاشوں کو زبردستی جلایا گیا۔
اسلام میں لاشوں کو جلانا منع ہے مگر اس وقت حکام نے دلیل دی تھی کہ تدفین زمینی پانی کو آلودہ کر سکتی ہے۔
اقلیتوں اور انسانی حقوق کے گروپوں کے احتجاج کے بعد، حکومت نے بالآخر مشرقی سری لنکا میں کووِڈ کے متاثرین کی تدفین کے لیے ایک جگہ مختص کر دی تھی۔
حکومت نے گذشتہ سال قومی سلامتی کے خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے برقعہ پہننے اور چہرے کو ڈھانپنے پر پابندی لگانے کی تجویز بھی پیش کی تھی۔ ایک وزیر کا کہنا تھا کہ ’یہ مذہبی انتہا پسندی کی علامت ہے جو حال ہی میں سامنے آئی ہے۔‘
اس کے علاوہ ایک ہزار سے زائد اسلامی مذہبی سکولوں کو بند کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا گیا تھا، جس کے بارے میں حکومت کا کہنا تھا کہ وہ قومی تعلیمی پالیسی کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔
انسانی حقوق کی وکیل بھوانی فونسیکا کہتی ہیں کہ ’جنگ کے بعد کے دور میں اب مسلمان نئے دشمن ہیں‘۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ہم نے کئی ایسے واقعات دیکھے ہیں جہاں مسلم کمیونٹی پر حملہ ہوا ہے۔ میں کہوں گی کہ مسلم کمیونٹی محاصرے میں ہے۔‘
لیکن حکومت مسلم کمیونٹی کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک کے الزامات کو مسترد کرتی ہے۔
سری لنکا کی حکومت کے محکمہ اطلاعات کے ڈائریکٹر جنرل موہن سمارانائیکے نے بی بی سی کو بتایا ’کسی بھی کمیونٹی کے خلاف امتیازی سلوک کی کوئی ادارہ جاتی، منظم پالیسی نہیں ہے۔ لیکن میں اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہوں کہ سنہالا سمیت تمام کمیونٹیز کو مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔‘
مدارس کو بند کرنے کی تجویز کے حوالے سے، انھوں نے کہا ’یہ فیصلہ ایسٹر سنڈے کے بم دھماکوں کی تحقیقات کے بعد کیا گیا ہے جس میں معلوم ہوا کہ بعض تعلیمی اداروں کو مسلم نوجوانوں کو بنیاد پرست بنانے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔‘
حکومت نے تمام کمیونٹیز کے لیے یکساں قانون لانے والی حالیہ کوششوں سے کچھ تنازعات کو بھی جنم دیا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ صدر راجا پکشے کی جانب سے گذشتہ نومبر میں قانونی اصلاحات کی غرض سے متعارف کروائی گئی ’ملک کے لیے ایک ٹاسک فورس، ایک قانون‘ دراصلہ صرف اقلیتی برادریوں کے لیے ہے۔
ٹاسک فورس کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ اقلیتوں اور اکثریتی سنہالا کے لیے شادی اور وراثت سے متعلق خصوصی قوانین کو دیکھیں اور یکساں قوانین کے لیے سفارشات پیش کریں۔
کمیٹی کی سربراہی کے لیے بودھ راہب گالاگوڈا اتھے گناسارا کی تقرری نے بھی اقلیتوں میں غم و غصے کو جنم دیا ہے۔ گناسارا ایک متنازعہ بودھ راہب ہیں جن پر فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے اور مسلم مخالف بیان بازی کے الزامات ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے گناسارا نے کہا کہ قانونی اصلاحات طویل عرصے سے زیر التوا تھیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ صرف ملک کو درپیش اہم مسائل کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’اس ملک میں 500 سے زیادہ عیسائی گروپ مذہبی مسائل پیدا کرنے کے مقصد سے کام کر رہے ہیں۔ اور ایسے اسلامی گروہ ہیں جو وہابی، سلفی نظریات کو فروغ دے کر ملک کے نوجوانوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔‘
غیر ملکی زرمبادلہ کے کم ہوتے ذخائر کی وجہ سے سری لنکا کو پہلے ہی معاشی بحران کا سامنا ہے۔ درآمدی پابندیوں نے گذشتہ سال میں کچھ ضروری اشیا کی قیمتوں میں 30 فیصد تک اضافہ کیا ہے، جس کے بعد سے سنہالا بودھ برادری میں بھی حکومت غیر مقبول ہو گئی ہے۔
مسلم رہنما سمجھتے ہیں کہ موجودہ مالیاتی بحران نے ان کی برادری سے فی الحال توجہ ہٹا دی ہے۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ مزید مشکلات کو تب ہی روکا جا سکتا ہے جب بودھ قوم پرستی کو لگام دی جائے۔