سائفر کا مبینہ متن منظرِ عام پر تبصرے کو سیاق و سباق سے ہٹ کر سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا
امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ سائفر کی بنیاد بننے والی پاکستانی سفیر سے امریکی وزارتِ خارجہ کے افسر کی گفتگو میں امریکی اہلکار کی باتوں کو سیاق و سباق سے ہٹ کر سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔
مارچ 2022 میں امریکہ میں پاکستان کے سفیر کی جانب سے بھیجے گئے سائفر کی تحریر کے بارے میں انٹرسیپٹ نامی امریکی نیوز ویب سائٹ پر ایک خبر شائع کی گئی ہے جس میں اس سفارتی مراسلے کا مبینہ متن شامل ہے جسے اسد مجید نے امریکی معاون وزیر خارجہ برائے وسط اور جنوبی ایشیا ڈونلڈ لو سے ہونے والی گفتگو کے بعد تحریر کیا تھا۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کی ترجمان سے جب افشا ہونے والے متن کی تصدیق کے لیے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ دفتر خارجہ مبینہ طور پر افشا کی جانے والی معلومات پر تبصرہ نہیں کرتا۔
ادھر واشنگٹن میں بی بی سی کی پروڈیوسر نخبت ملک کے مطابق نو اگست کو محکمۂ خارجہ کی بریفنگ کے دوران اس دستاویز اور اس کے متن کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے ترجمان میتھیو ملر کا کہنا تھا کہ ’میں اس دستاویز کے مصدقہ ہونے پر بات نہیں کر سکتا۔ میں جو کہہ سکتا ہوں وہ یہ کہ اگر جن باتوں کے بارے میں رپورٹ کی گئی وہ سو فیصد بھی درست تھیں اور میں نہیں جانتا کہ ایسا ہے، وہ کسی بھی طرح سے یہ ظاہر نہیں کرتیں کہ امریکہ نے یہ موقف اختیار کیا ہو کہ پاکستان میں قیادت کس رہنما کے پاس ہونی چاہیے۔‘
میتھیو ملر کا کہنا تھا کہ ’امریکہ نے پاکستان کے ساتھ نجی اور سرکاری سطح پر عمران خان کی جانب سے روس کی یوکرین پر چڑھائی کے دن ماسکو کا دورہ کرنے پر اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا لیکن جیسے کہ اس وقت امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر کہہ چکے ہیں کہ یہ الزامات درست نہیں کہ امریکہ نے ملک کی قیادت کے حوالے سے پاکستان کے داخلی فیصلوں میں دخل اندازی کی اور ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ الزامات غلط ہیں۔‘
دفترِ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ’اس مراسلے میں موجود باتوں کو اگر سیاق و سباق کے ساتھ دیکھا جائے تو ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی حکومت پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے پالیسی کے حوالے سے انتخاب پر اپنے خدشے کا اظہار کر رہی ہے نہ کہ وہ اس بارے میں اپنی ترجیح بیان کر رہی ہے کہ پاکستان کا لیڈر کسے ہونا چاہیے۔‘
ترجمان کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں ’بہت سے لوگوں نے (امریکی اہلکار) کے تبصرے کو سیاق و سباق سے ہٹ کر سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ آیا یہ دانستہ کوشش تھی یا نہیں اس بارے میں وہ تبصرہ نہیں کر سکتے۔ ’میں کسی کی نیت پر بات نہیں کر سکتا لیکن میرے خیال میں ایسا ہی ہوا ہے‘۔
اس سوال پر کہ جب امریکہ جیسا ملک اس طریقے سے بھی بات کرتا ہے تو دوسرے ممالک ایسا سوچ سکتے ہیں کہ اس طرح سے وہ ایک پوزیشن لے رہا ہے، میتھیو ملر نے کہا کہ ’میں یہ کہوں گا کہ پہلی بات کہ کس طرح سیاق و سباق سے ہٹ کر مطلب نکالا جا سکتا ہے اور دوسری بات کہ کچھ لوگوں کی خواہش ہو سکتی ہے کہ اسے سیاق و سباق سے ہٹ کر کسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کریں۔‘
’مذموم اور فتنہ انگیز عمل‘
ادھر انٹرسیپٹ کی خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے نو اگست کو ختم ہونے والی پاکستان کی وفاقی حکومت میں وزیرِ داخلہ رہنے والے مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ ’اگرچہ اس کہانی میں کچھ نیا نہیں ہے، ان معلومات اور ان کی بنیاد بننے والی دستاویز کی صداقت کے بارے میں تحقیقات کی ضرورت ہے۔ ممکنہ طور پر، یہ ایک بہت ہی مذموم اور فتنہ انگیز عمل ہے۔‘
ٹوئٹر پر اپنے سلسلہ وار پیغامات میں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ عمران خان نیازی کے پاس سائفر کی ایک کاپی موجود تھی، جسے انھوں نے واپس نہیں کیا اور آن ریکارڈ قبول کیا ہے کہ وہ ان سے گم گئی ہے‘۔
سابق وزیرِ داخلہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’اگر قصوروار ثابت ہوں تو عمران خان پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا جانا چاہیے‘۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ رانا ثنا اللہ نے اس معاملے میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمے کی بات کی ہے۔ گذشتہ ماہ سائفر کے معاملے پر عمران خان کے پرنسپل سیکریٹری کے عہدے پر کام کرنے والے سابق بیورو کریٹ اعظم خان کے بیان کے بعد بھی انھوں نے کہا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا تاہم ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی لیگل ڈیپارٹمنٹ کی رائے کے بعد کی جائے گی۔
وزیرِ داخلہ کا کہنا تھا کہ عمران خان کے سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نے سائفر سے متعلق اپنا بیان مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ کروایا ہے، جس میں انھوں نے کہا ہے کہ سابق وزیر اعظم نے سیاسی مقاصد کے لیے سائفر کا ڈرامہ رچایا تھا۔
سائفر کا معاملہ ہے کیا؟
خیال رہے کہ عمران خان نے 27 مارچ 2022 کو اپنی حکومت کے خاتمے سے چند دن قبل اسلام آباد میں ایک بڑے جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے جیب سے ایک خط نکال کر لہراتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ بیرونِ ملک سے ان کی حکومت گرانے کی سازش ہو رہی ہے اور انھیں ‘تحریری دھمکی دی گئی ہے’۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کے خلاف آنے والی تحریکِ عدم اعتماد کا تعلق بھی اسی ‘دھمکی آمیز خط’ سے ہے۔ اس عدم اعتماد کے نتیجے میں اپریل 2022 میں عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا تھا۔
اس جلسے میں عمران خان نے امریکہ کا نام نہیں لیا تھا تاہم بعدازاں انھوں نے نام لے کر امریکہ کو اپنی حکومت کے خاتمے کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔
ستمبر 2022 میں پاکستانی میڈیا اور سوشل میڈیا پر ایک آڈیو سامنے آئی جس میں عمران خان اور ان کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کو امریکی ‘دھمکی’ سے متعلق مراسلے کے معاملے پر گفتگو کرتے سنا جا سکتا تھا۔
اس آڈیو کا آغاز عمران خان کی آواز سے ہو رہا تھا اور وہ کہہ رہے تھے کہ ‘اچھا اب ہم نے صرف کھیلنا ہے، نام نہیں لینا امریکہ کا۔۔۔ بس صرف کھیلنا ہے اس کے اُوپر کہ یہ تاریخ پہلے سے تھی۔’
اس آڈیو لیک کے بارے میں عمران خان نے صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو میں کہا تھا کہ ‘یہ انھوں نے ہی لیک کی ہے، شہباز شریف نے ہی لیک کی ہے۔ بہت اچھا ہوا کہ لیک کی ہے۔ پورا سائفر ہی لیک ہو جائے، سب کے سامنے آ جائے تاکہ سب کو پتا چلے کہ کتنی بڑی بیرونی سازش ہوئی ہے۔’
جب ان سے سوال کیا گیا کہ وہ اس بیان کا دفاع کیسے کریں گے تو انھوں نے کہا کہ ‘اس کے اوپر تو میں کھیلا ہی نہیں ابھی، اب یہ ایکسپوز کریں گے تو کھیلیں گے اس کے اوپر۔’
یہ امر بھی دلچسپ ہے کہ امریکہ کو اپنی حکومت کے خاتمے کی سازش کا ذمہ دار قرار دینے کا بیانیہ پیش کرنے کے قریباً ایک برس بعد عمران خان نے اس سازش کا اصل کردار امریکہ کے بجائے اپنے دورِ حکومت میں فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو قرار دے دیا تھا۔
فروری 2023 میں وائس آف امریکہ کو دیے گئے انٹرویو میں عمران خان کا کہنا تھا کہ وقت کے ساتھ یہ بات سامنے آئی ہے ان کے خلاف سازش امریکہ نے نہیں کی بلکہ جنرل (ر) قمر باجوہ نے امریکہ کو بتایا تھا کہ وہ (عمران خان) امریکہ مخالف ہیں۔
اسی انٹرویو میں انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ’سائفر ایک حقیقت ہے لیکن ہمیں چیزوں کو بھول کر آگے بڑھنا چاہیے‘۔