زرعی قوانین کیا مودی حکومت اب شہریت کے متنازع قانون سی اے اے اور این آر سی کو بھی واپس لے گی؟
رواں سال 12 جنوری کو انڈین سپریم کورٹ مودی حکومت کے تینوں زرعی قوانین کے آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت کر رہی تھی۔
سماعت کے دوران مودی حکومت کے اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال نے کہا تھا کہ دلی کی سرحدوں پر کسانوں کے احتجاج میں ’خالصتانیوں‘ نے اپنی جگہ بنا لی ہے۔
کے کے وینوگوپال نے سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس ایس اے بوبڈے کی سربراہی والی بنچ کے سامنے یہ بات کہی۔ وینوگوپال نے کہا کہ وہ آئی بی (انٹلیجنس بیورو) کی مدد سے اس معاملے میں حلف نامہ بھی داخل کریں گے۔
اٹارنی جنرل نے کسانوں کی تحریک میں کالعدم تنظیم ’سکھس فار جسٹس‘ کے ملوث ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔
گذشتہ سال یکم فروری کو دلی اسمبلی انتخابات کے لیے ایک ریلی میں اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا تھا کہ کشمیر میں دہشت گردوں کی حمایت کرنے والے شاہین باغ میں شہریت کے ترمیمی قانون کی مخالفت کر رہے ہیں۔
کسانوں کی تحریک گذشتہ ایک سال سے چل رہی ہے اور سی اے اے کے خلاف بھی کئی مہینوں تک تحریک چلی۔ کسانوں کی تحریک میں سکھ کسانوں کی شرکت نمایاں تھی جبکہ سی اے اے اور این آر سی کی مخالفت کرنے والوں میں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔
سکھوں کو خدشہ تھا کہ مودی حکومت کے تین نئے زرعی قوانین کے نتیجے میں فصلوں کو اونے پونے کم قیمت پر فروخت کرنا ہوگا اور مسلمانوں کو سی اے اے (سٹیزن شپ ایکٹ) اور این آر سی (نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز) سے خوف ہے کہ اس سے ان کی شہریت خطرے میں پڑ جائے گی۔
عدالت میں جس کسان تحریک میں مودی حکومت خالصتانیوں کی شمولیت کی بات کر رہی تھی، اسی تحریک کی وجہ سے جمعے کو وزیر اعظم مودی نے ملک سے اپنے خطاب میں تینوں زرعی قوانین کو واپس لینے کا اعلان کیا۔
انھوں نے اس اعلان کے لیے سکھ مذہب کے بانی گرو نانک کے یوم پیدائش کے دن کا انتخاب کیا۔
تینوں قوانین کو واپس لینے کا اعلان کرتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے کہا کہ ’ہماری کوششوں کے باوجود، ہم کچھ کسانوں کو راضی نہیں کر سکے۔ زرعی ماہرین، سائنس دانوں، ترقی پسند کسانوں نے بھی انھیں زرعی قوانین کی اہمیت کو سمجھانے کی پوری کوشش کی۔‘
کیا مودی حکومت سی اے اے اور این آر سی بھی واپس لے گی؟
زرعی قانون پر مودی حکومت کا یہ رویہ بالکل نیا ہے۔ اس سے پہلے وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر کہہ رہے تھے کہ مٹھی بھر کسان زراعت قانون کی مخالفت کر رہے ہیں جبکہ کسانوں کی بڑی تعداد اس کی حمایت میں ہے۔
لیکن وزیراعظم مودی کے اس اعلان سے ایسا نہیں لگتا کہ مٹھی بھر کسانوں کی سمجھ میں کمی کی وجہ سے تینوں قانون واپس لے لیے گئے ہیں۔
دوسری طرف مودی حکومت سی اے اے اور این آر سی مخالف تحریک کو لے کر سخت تھی۔
گذشتہ سال 3 جنوری کو سی اے اے ایجی ٹیشن کو مسترد کرتے ہوئے وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا تھا کہ ’اگر ساری اپوزیشن اکٹھی ہو جائے تو بھی حکومت سی اے اے پر ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹے گی۔‘
وزیر اعظم مودی کے اعلان کے بعد سوشل میڈیا پر لوگ پوچھ رہے ہیں کہ اب کس کی باری ہے؟ کیا آرٹیکل 370 بھی واپس ہو گا؟
ٹائمز ناؤ کی ایڈیٹر نویکا کمار نے ٹویٹ میں پوچھا کہ ’زرعی قوانین واپس لے لیے گئے ہیں۔ سی اے اے اور این آر سی سرد خانے میں ہیں۔ یکساں سول کوڈ کا اتا پتا نہیں۔ اب آگے کیا منصوبے ہیں؟‘
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے صدر اور حیدرآباد (دکن) سے رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے لکھا کہ ’آنے والے انتخابات اور احتجاج نے وزیر اعظم کو سوچنے پر مجبور کر دیا، وہ عوامی تحریکوں کو ختم نہیں کر سکے لیکن مظاہرین کو ہراساں کر رہے ہیں۔‘
’سی اے اے مخالف مظاہروں کی وجہ سے این آر سی کو سرد خانے میں ڈالنا پڑا۔ سی اے اے ہونا ابھی باقی ہے۔ کسانوں کی تحریک کسانوں کی ضد اور ان کے عزم کی وجہ سے کامیاب ہوئی ہے۔‘
منموہن سنگھ حکومت میں وزیر خزانہ رہنے والے پی چدمبرم نے لکھا کہ’ تینوں زرعی قوانین کو واپس لینا پالیسی کی تبدیلی یا دل کی تبدیلی کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ انتخابات کا خوف ہے۔‘
پی چدمبرم نے مزید لکھا کہ ’اگر اگلے الیکشن میں شکست کا خدشہ ہو تو وزیر اعظم یہ تسلیم کریں گے کہ نوٹ بندی ایک بڑی غلطی تھی۔ جی ایس ٹی قانون بہت خراب ڈھنگ سے بنایا گیا اور اسے زبردستی نافذ کیا گیا تھا۔‘
‘وزیراعظم کو یہ قبول کرنا ہو گا کہ چینی فوجی انڈیا کے علاقے میں داخل ہوئی اور ہماری زمین پر قبضہ کر لیا۔ وزیر اعظم قبول کریں گے کہ سی اے اے قانون مکمل طور پر متعصبانہ ہے۔ یہ ماننا پڑے گا کہ رافیل سودے میں بے ایمانی ہوئی اور اس کی تحقیقات بھی کی جائیں گی۔‘
گجرات سینٹرل یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر گورانگ جانی کہتے ہیں کہ ’نریندر مودی کی قیادت والی بی جے پی کا اب ہندوتوا والا بارود ختم ہو چکا ہے۔ کوئی ایسا کام نہیں کیا جس سے یہ کہہ سکیں کہ لوگوں کے معیار زندگی کو بہتر ہوا۔ انھوں نے اکثریت کی بنیاد پر غلط پالیسیاں بنائیں اور اب کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا۔‘
‘انھوں نے سکھوں سے ٹکر لی۔ اگر انھیں سکھوں کی تاریخ معلوم ہوتی تو وہ ایسا نہ کرتے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ سی اے اے مخالف تحریک کی طرح اسے بھی ختم کر دیں گے۔ اس تحریک نے مودی حکومت کو زمینی حقیقت سے روشناس کرا دیا۔‘
گورانگ جانی کہتے ہیں کہ ’ان کی بے چینی واضح ہے۔ تیزی سے وزیر اعلیٰ بدلے جا رہے ہیں۔ اپنی کابینہ میں علامتی طور پر دلتوں اور پسماندہ ذاتوں کو شامل کر رہے ہیں لیکن انھیں یہ سمجھ نہیں کہ گیس مہنگی ہو رہی ہے، پٹرول مہنگا ہو رہا ہے۔ روزگار نہیں، بھوک اور بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔‘
’بھوک کے انڈیکس میں پاکستان سے بھی پیچھے ہو گئے ہیں۔ آنے والے وقت میں انھیں سی اے اے اور این آر سی سے بھی پیچھے ہٹنا پڑے گا۔ مغربی بنگال میں 30 فیصد مسلمان ہیں اور وہاں بھی انھیں سی اے اے کا فائدہ نہیں ملا۔ نوٹ بندی، جی ایس ٹی اور چین کا جارحانہ رویہ، وہ ہر محاذ پر ناکام ہو چکے ہیں۔‘
اٹل بہاری حکومت میں وزیر مملکت برائے زراعت سومپال شاستری نے بی بی سی کو بتایا کہ مودی حکومت نے اتر پردیش میں شکست کے خوف سے تینوں زرعی قوانین کو واپس لینے کا فیصلہ کیا۔
شاستری کہتے ہیں کہ ’مودی حکومت نے اس قانون کو واپس لینے میں بہت زیادہ وقت لگا دیا۔ اب اس کا کوئی فائدہ نہیں ہونے والا۔ انھوں نے اس اعلان کے لیے گرو نانک کی یوم پیدائش کا انتخاب کیا۔ وہ مذہب کی سیاست کرنے سے کبھی باز نہیں آتے۔‘
’انھیں اب احساس ہو گیا ہے کہ وہ اقتدار میں جذباتی مسائل سے تو آ سکتے ہی، لیکن اس کی عمر صرف جذبات کے ابھار تک ہی ہوگی، یہ سچ ہے کہ اب ان کے پاس بارود نہیں بچا۔‘
انڈیا کی انتخابی سیاست شاذ و نادر ہی پیشہ ورانہ شناخت سے متاثر ہونے کا ذریعہ بنتی ہے۔ ذات پات کی شناخت ہی ہمیشہ غالب رہتی ہے۔ انڈیا میں زراعت جیسا بڑا مسئلہ بھی انتخابات میں ذات پات کی شناخت میں گم ہو جاتا ہے۔
کسانوں نے گذشتہ سات برسوں میں جس طرح نریندر مودی حکومت کو چیلنج کیا، اس کا نتیجہ سامنے ہے۔ حکومت کو جھکنا پڑا۔ اگر پیشہ ورانہ شناخت کا مسئلہ حاوی ہو گیا تو کسی بھی حکومت کے لیے جذباتی مسائل کی بنیاد پر آسانی سے الیکشن جیتنا مشکل ہو جائے گا۔
جدید انڈیا میں زراعت اب بھی خدا کے بھروسے چھوڑی ہوئی چیز ہے۔ ہر سال معیشت میں زراعت کا حصہ کم ہوتا گیا اور کسان بھی کاشتکاری سے دور ہوتے گئے۔
ورلڈ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق دیہی انڈیا میں غربت کی شرح 25 فیصد جبکہ شہری علاقوں میں یہ 14 فیصد ہے۔
زیادہ تر کسان بنیادی طریقوں پر انحصار کرتے ہیں اور ان کے پاس چھوٹی کاشتکاریاں ہیں۔ بعض اوقات وہ اپنی فصلیں لاگت سے کم قیمت پر بیچنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ مرکزی حکومت اناج خریدتی ہے لیکن یہ زیادہ کامیاب نہیں۔ ایسے میں کسانوں کو اپنی پیداوار اونے پونے داموں بیچنا پڑتی ہے۔
مودی حکومت کسانوں کو ناراض کر کے الیکشن نہیں جیت سکتی تاہم بی جے پی سنہ 2024 تک اقتدار میں رہے گی اور ابھی تک اسے کوئی خطرہ نہیں۔
اتر پردیش انڈیا کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست ہے اور وہاں انتخابات ہونے والے ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ مودی انتخابات میں شکست سے خوفزدہ ہیں اس لیے انھوں نے اپنی ضد چھوڑ کر زرعی قوانین واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
بی جے پی نے گذشتہ چند مہینوں میں چار وزرائے اعلیٰ کو تبدیل کیا۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی آبائی ریاست گجرات کی پوری کابینہ کو تبدیل کر دیا گیا۔ بی جے پی کے ان فیصلوں سے ایسا لگتا ہے کہ پارٹی کو آئندہ انتخابات میں جیت کا بھروسہ نہیں۔
اب مودی نے ان تینوں زرعی قوانین کو واپس لینے کا فیصلہ کیا جنھیں ان کی حکومت پہلے انقلابی قرار دے رہی تھی۔
مودی نے زرعی قوانین کو واپس لینے کی یہ دلیل دی ہے کہ وہ کچھ کسانوں کو راضی نہیں کر سکے تاہم لکھیم پور کھیری میں ریاستی وزیر داخلہ اجے مشرا، جن کے بیٹے پر کسانوں کو کچلنے کا الزام ہے، کو ابھی تک کابینہ سے نہیں ہٹایا گیا۔