حدیں پار کرنے والی وہ شہزادی جس کی کتاب پہلی صلیبی جنگ کی اہم شہادت ہے
یہ تقریباً ایک ہزار سال پہلے سنہ 1081 کے قسطنطنیہ اور آج کے استنبول میں ایک خاندان کا ذکر ہے، جس کا نام آج بھی زندہ ہے۔ ایک رعب دار ماں، بیٹوں، بہوؤں اور دیگر افراد پر مشتمل اس خاندان نے اس سال اپریل کے مہینے میں مسیحی تہوار ایسٹر کے موقع پر فیصلہ کیا کہ وہ 40 روز تک صرف پانی اور باسی روٹی پر گزارا کریں گے، سروں میں خاک ڈال کر رہیں گے، زمین پر سوئیں گے اور اس دوران سب صرف انتہائی سادہ اور کھردرے موٹے کپڑے پہنیں گے۔
ایک خانقاہ میں راہبوں کے کسی خاندان کا اس طرح رہنا تو کسی بھی زمانے میں عام بات ہے، لیکن یہ کسی خانقاہ کا منظر تھا اور نہ ہی اس خاندان کے لوگ راہب تھے، کم سے کم ان دنوں میں تو نہیں تھے جہاں سے یہ بات شروع ہوئی ہے۔
ایسا رویہ کئی بار کسی گناہ یا غلطی کے کفارے کے طور پر اپنایا جاتا ہے اور 11ویں صدی میں دنیا کے ایک امیر ترین شہر قسطنطنیہ میں کومنینے خاندان بھی 40 دن کے لیے اپنے آپ کو تکلیف دے کر ایسا ہی کر رہا تھا۔
قصہ یہ ہے کہ اس خاندان کا دوسرا بیٹا بازنطینی سلطنت یا مشرقی رومی سلطنت کا شہنشاہ بن چکا تھا۔ لیکن شہنشائیت کی ایک خاندان سے دوسرے خاندان کو اس منتقلی کے دوران بڑی تعداد میں لوگ ہلاک ہوئے تھے اور نئے شاہی خاندان کے حامی فوجیوں نے سلطنت کے دارالحکومت قسطنطنیہ میں داخل ہوتے ہوئے عام لوگوں پر ظلم و تشدد بھی کیا تھا۔
مؤرخین کا خیال ہے کہ ایسٹر کے موقع پر اور اپنے بیٹے کی تخت نشینی کے موقع پر جشن اور تقریبات کی بجائے کفارے کا فیصلہ کومنینے خاندان کی سربراہ بوڑھی والدہ اینا دیلاسین کا تھا، جو نہیں چاہتی تھیں کہ ان کے بیٹے کے اقتدار کا آغاز، خدا یا قسطنطنیہ کی عوام، دونوں میں سے کسی کی بھی ناراضی سے ہو۔ یہی وجہ تھی کہ پہلے 40 دن ان کے بیٹے اور بازنطینی سلطنت کے نئے شہنشاہ الیکسیوس کے سر پر تاج کی بجائے خاک تھی۔
یہ وہ وقت تھا جب صدیوں پرانی بازنطینی سلطنت مشکل دور سے گزر رہی تھی اور بڑے پیمانے پر خانہ جنگی دیکھ چکی تھی۔ وہ ایک طاقتور اور تجربہ کار حکمران کی تلاش میں تھی۔ کومنینے خاندان سلطنت کے طاقتور خاندانوں میں سے ایک تھا، اس کے دو بیٹے الیکسیوس اور ان کے بھائی آئزک شاہی حلقوں میں اہمیت رکھتے تھے اور ان کا ایک رکن ماضی میں مختصر مدت کے لیے تخت پر بیٹھ چکا تھا۔
الیکسیوس جو 18 برس کی عمر میں جرنیل بن گئے تھے، ان کو ایک طرف اس دور کے شہنشاہ کا مقبول نہ ہونا اور کمزور داخلی صورتحال اور دوسری طرف فوج میں اپنی حیثیت تخت تک لے گئی۔ اس دور کے شہنشاہ کے خلاف الیکسیوس سے پہلے سات جرنیل بغاوت کر کے خود شہنشاہ بننے کی کوشش کر چکے تھے۔
شاہی محل کی آسائشوں کے بیچوں بیچ اس سلطنت کے نئے شہنشاہ اور ملکہ کی خاک نشینی کی یہ تصویر اس واقعے کے تقریباً 50 سال بعد 12ویں صدی میں لکھی گئی کتاب ’الیکسی ایڈ‘ میں درج ہے۔ اس کتاب کی مصنفہ شہزادی اینا کومنینے ہیں جو شہنشاہ الیکسیوس کی تخت نشینی کے تقریباً دو سال بعد پیدا ہوئیں اور ان کی پہلی اولاد تھیں۔ اینا کرومنینے کو آج قرون وسطیٰ کی ایک عظیم مؤرخہ کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔
اینا کی پیدائش کے وقت تک شاہی جوڑے کے ہاں اتنی دیر اولاد نہ ہونے کی وجہ سے محل میں سازشی قوتیں حرکت میں آ چکی تھیں۔ لیکن یکم دسمبر 1083 کو اینا کی پیدائش نے تمام چہ مگوئیاں دفن کر دیں۔ سب کو معلوم ہو گیا کہ شہنشاہ اور ملکہ کے تعلقات ٹھیک ہیں اور دوسری شادی کی گنجائش نہیں اور یہ کہ ان کے ہاں طبی طور پر بچہ بھی پیدا ہو سکتا ہے۔ اور اگر آج بیٹی ہوئی ہے تو کل کو بیٹے کی پیدائش بھی ممکن ہے۔ اینا کے بعد ان کے والدین کے ہاں آٹھ مزید بچوں کی پیدائش ہوئی۔
شہزادی کی پیدائش کے بعد اب لوگوں کی مصروفیت شہنشاہ کے لیے نئی ملکہ کے بجائے شہزادی کے لیے بازنطینی اشرافیہ میں مناسب رشتے کی تلاش تھی۔
یونانی نژاد مؤرخہ جولیا کولووو سنہ 2020 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ’اینا کومنینے اور الیکسی ایڈ: بازنطینی شہزادی اور پہلی صلیبی جنگ‘ ( Anna Komnene and the Alexiad: The Byzantine Princess and the First Crusade) میں بتاتی ہیں کہ قرون وسطیٰ کے یونانی معاشرے میں لڑکی کے لیے شادی کی عمر 12 برس اور لڑکے لیے 14 برس تھی۔ انھوں نے لکھا ہے کہ کہ اینا کے والد شہنشاہ الیکسیوس نے یہ عمر بڑھا کر 14 اور 15 سال کر دی تھی۔ لیکن اس کے باوجود سلطنت میں سن بلوغت سے پہلے بچوں کی شادیاں انہونی بات نہیں تھیں۔
کہانی میں آگے بڑھنے سے پہلے ایک اور بازنطینی شہزادی کا ذکر جن کی زندگی کو اس دور میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی ’سب سے بڑی مثال کے طور پیش کیا جاتا ہے۔‘ سیمیون پانچ برس کی تھی جب ان کے والد شہنشاہ اینڈرونیکس نے سربیا کے 50 سالہ بادشاہ سٹیفن سے ان کی شادی کر دی۔
کہا جاتا ہے کہ جب شہزادی کی عمر 7 برس تھی بادشاہ سٹیفن نے ان سے سیکس کی کوشش کی جس کے نتیجے میں وہ ہمیشہ کے لیے بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو گئی تھیں۔ اس کے بعد بھی ان کی پوری زندگی زیادتی کی مثال بنی رہی جس میں تاریخ پڑھیں تو ان کے والد ان کے شوہر کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔
شہزادی سیمیون کی شادی کا یہ واقعہ شہزادی اینا کرومنینے کی پیدائش سے تقریباً دو صدیوں بعد کا ہے۔
اینا کومنینے سات برس کی تھی جب وہ اپنے ہونے والے شوہر کے گھر بھیج دی گئی تھی۔ ان کے منگیتر کانسٹنٹائین ڈوکاس تھے جو ایک سابق شہنشاہ مائیکل ہفتم کے بیٹے تھے۔ یہ منگنی اینا کی پیدائش کے کچھ ہی عرصے بعد ہوئی تھی۔ دونوں بچوں کو منگنی کے وقت بازنطینی عوام کے سامنے پیش کیا گیا اور سب کی نظروں میں وہ مستقبل کے شہنشاہ اور ملکہ تھے۔ لیکن یہ صورتحال دیر تک قائم نہیں رہ سکی کیونکہ جب اینا چار برس کی تھی ان کے والدین ہاں بیٹے کی پیدائش ہو گئی۔ اس کے علاوہ کانسٹنٹائین کا بھی جلد انتقال ہو گیا۔
اینا 12 برس کی عمر میں اپنے گھر واپس آ گئیں۔
یہیں سے، شہزادی کی طرف سے تاریخ لکھنے کے فیصلے کے بعد، کہانی میں دلچسپی کا مرکز نصف صدی سے زیادہ عرصے تک دنیا کی ایک بڑی سلطنت کے شہنشاہ رہنے والے دو باپ بیٹے نہیں رہتے بلکہ تاریخ لکھنے کی جرات کرنے والی ایک شہزادی بن جاتی ہے۔ شہزادی جس کی اس معاشرے میں ذمہ داری زمانے کے تقاضوں کے مطابق لڑکی ہونے کے ناطے صرف شادی کرنا اور نبھانا ہونی چاہیے تھی۔
سنہ 1081 میں حکمران بننے کے بعد الیکسیوس تقریباً 40 برس تک اور پھر ان کے بیٹے جان 20 برس تک بازنطینی سلطنت کے شہنشاہ رہے۔ شہزادی اینا نے 15 جلدوں پر مشتمل اپنی کتاب ’الیکسی ایڈ‘ میں اپنے والد کے دور کا تفصیلی احوال پیش کیا ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے پہلی صلیبی جنگ کا بھی تفصیلی ذکر کیا ہے اور اسے اس جنگ کی ایک اہم دستاویز سمجھا جاتا ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ شہزادی اینا کے والد نے سلطنت کی مشرقی سرحدوں پر سلجوکوں کی صورت میں پیدا ہونے والے خطرے سے نمٹنے کے لیے پاپائے روم سے مدد طلب کی تھی جس کے جواب میں پاہائے روم نے صلیبی جنگ کا اعلان کر دیا۔ یہ بات الگ ہے کہ، مؤرخین کے مطابق، شہنشاہ الیکسیوس صلیبی جنگ کے اعلان سے حیران رہ گئے تھے اور وہ اس سے کچھ زیادہ خوش نہیں تھے، لیکن اس پر مزید بات آگے چل کر کریں گے۔
ایسا نہیں کہ شہزادی اینا میں ’تخت کے لالچ‘ کا ذکر نہیں ہوتا یا پہلی اولاد ہونے کے ناطے انھوں نے اس کی کوشش نہیں کی ہو گی۔ کچھ مؤرخین لکھتے ہیں انھوں نے اپنے والد کی موت کے بعد اپنے بھائی کے خلاف سازش کر کے اپنے شوہر کے ساتھ مل کر اقتدار حاصل کرنے کی ناکام کوشش کی تھی اور اسی پاداش میں انھیں اپنی زندگی کے آخری سال راہبہ کے طور پر ایک خانقاہ میں گزارنے پڑے جہاں انھوں نے اپنی کتاب ’الیکسی ایڈ‘ لکھی۔
خانقاہ اور راہبہ والی بات تو حقیقت ہے لیکن ان کو زبردستی وہاں بھیجنے والی بات پر سب مؤرخ متفق نہیں۔
اینا کومنینے کا بڑا کمال یہ نہیں تھا کہ انھوں نے 15 جلدوں پر مشتمل تاریخ کی کتاب لکھی بلکہ قرون وسطیٰ کے بازنطینی معاشرے میں اصل کمال اور انوکھی بات یہ تھی کہ انھوں نے یہ کتاب لڑکی ہونے کے باوجود لکھی۔ 11ویں صدی کی بازنطینی سلطنت کے ماحول کے پس منظر میں دیکھا جائے تو انھوں نے یہ کتاب لکھنے کے لیے وہ حدیں پار کیں جو ’اچھے‘ گھر کی لڑکیاں نہیں کرتی تھیں۔
کولووو لکھتی ہیں کہ بہترین اساتذہ کے ہوتے ہوئے بھی قسطنطنیہ میں کسی لڑکی کے لیے علم کے حصول میں بہت سی مشکلات تھیں۔ ’سب سے اہم بات یہ کہ عورت کا دانشور ہونے کا تصور ہی لوگوں کے لیے عجیب تھا، ایسی عورت کو کرشمہ سمجھا جاتا تھا یا بلا۔‘ روایتی سوچ کے مطابق علم کا حصول اور دانش مردانہ خصوصیات تھیں اور عورت اپنے ’جذباتی‘ مزاج کی وجہ یہ اس کی اہل نہیں تھی۔
مؤرخہ لیونورا نیول سنہ 2016 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ’اینا کومنینے: قرون وسطیٰ کی ایک مؤرخہ کی زندگی اور کام‘( Anna Komnene: The Life and Work of a Medieval Historian) میں لکھتی ہیں کہ شہزادی اینا کی پیدائش صدیوں سے چلی آ رہی روایت کے مطابق اور کسی بھی اور رومی شہزادی کی طرح سنگ سماق (پورفری ماربل) سے سجے اس خصوصی کمرے میں ہوئے جو ڈلیوری کے مخصوص تھا۔ اس کمرے میں شہزادوں اور شہزادیوں کی پیدائش کی اس روایت کی جڑیں قدیم رومی سلطنت کے دارالحکومت روم میں ملتی ہیں۔
بلکہ جب رومی سلطنت کے مغربی حصے کے زوال کے بعد اس کا دارالحکومت روم سے مشرق میں قسطنطنیہ منتقل ہوا تو یہ کمرہ صدیوں پرانے پتھروں کے ساتھ جوں کا توں وہاں لایا گیا۔ مؤرخ کہتے ہیں دنیا کی تمام دولت اس جیسا یا اس سے بھی قیمتی پتھروں کا نیا کمرہ تو بنوا سکتی تھی لیکن اس کمرے میں پیدائش کا اعزاز سب کے لیے نہیں تھا۔
لیکن اینا کو اس طرح کی شان و شوکت سے زیادہ علم میں دلچسپی تھی۔ مؤرخہ نیول لکھتی ہیں کہ، شہزادی اینا اپنے دور کی بڑی دانشور اور قرون وسطیٰ کی نامور مؤرخ تھیں۔ ایسا نہیں کہ شہنشاہوں کی بیٹیاں پڑھی لکھی نہیں ہوتی تھیں بلکہ کچھ کو کلاسیکل علوم پر دسترس بھی ہوتی تھی، لیکن ’اینا کی تعلیم کا معیار بہت بلند تھا۔‘ اینا کی کامیابی کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے اس ماحول اور لڑکیوں کے بارے میں معاشرے کے نظریات کو سمجھنا ضروری ہے جس میں انھوں نے تعلیم حاصل کرنے کی جرات کی۔
’لڑکی کے کان اور آنکھیں کنواری ہونے کا تقاضہ اور تاریخ نویسی کا شوق
لڑکیوں کے بارے میں معاشرے کے نظریات کے ذکر سے پہلے مؤرخ کولووو کی کتاب میں دی گئی ایک مثال کا ذکر کرتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’11ویں صدی کے بازنطینی جنرل اور زمیندار کیکامینوس نےاپنے بیٹے کو نصیحت کی تھی کہ اگر بیٹیوں کو گھر میں مجرموں کی طرح قید کر کے نہ رکھا جائے تو وہ خاندان کی عزت کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں۔‘ تاہم کولوو لکھتی ہیں کہ ’یہ باتیں ہوتی ضرور تھیں لیکن ضروری نہیں کہ حقیقت میں ایسی ہی سختی ہو۔‘
اب مؤرخہ لیونورا نیول کی کتاب سے چند اقتسابات جن میں قرون وسطیٰ کی بازنطینی سلطنت میں عورتوں کے بارے میں نظریات کی ایک جھلک پیش کی گئی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ بازنطینی کلچر میں یہ خیال حاوی تھا کہ مرد کی بالا دستی ہونی چاہیے اور عورت کو مکمل طور پر تابعدار ہونا چاہیے۔
ان کے مطابق عورتوں کا مردوں کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے کو بدی سے تعبیر کیا جاتا تھا۔
’مرد مصنفین کی طرف سے عورتوں کے بارے میں خطرے کا اظہار کیا جاتا تھا کہ وہ مردوں کو جنسی طور پر نہ اکسا دیں جس کے بعد مرد اپنے اوپر کنٹرول کھو دیں۔‘
’قرون وسطیٰ کے یونانی معاشرے میں اپنے جذبات پر کنٹرول مردانگی کا اہم پہلو سمجھا جاتا تھا۔ مردوں میں سیکس کے جذبات ابھار کر شہوت انگیز عورتیں سماجی نظام کو خطرے میں ڈالتی تھیں۔‘
’عورت کی گفتار سیکس کے جذبات ابھارنے کا بڑا ذریعہ بن سکتی ہے، اس لیے باکردار عورتیں وہ سمجھی جاتی تھیں جن کو اپنی گفتار پر کنٹرول تھا، اپنی نظر پر کنٹرول تھا اور اپنے پورے جسم کی حرکت پر کنٹرول تھا۔ باکردار عورتیں اس بات کا دھیان رکھتی تھیں کہ ان کے جسم کی کوئی حرکت یا دوسروں کو دیکھنے کا انداز جنسی جذبات ابھارنے والا نہ ہو۔‘
’عورتوں کا مکمل پردہ اور مردوں کے لیے انھیں دیکھنے کے مواقع ختم کرنا بہترین سمجھا تھا۔‘
’کسی عورت کے لیے کتنا اچھا رشتہ آئے گا، اس کا انحصار اس بات پر ہوتا تھا کہ اس عورت کو پبلک میں کتنا کم دیکھا گیا تھا۔‘
’بازنطینی معاشرے کی نظروں میں اچھے سماج کا یہ تصور کہ با کردار عورت نظروں سے اوجھل رہے اور کم گو ہو دراصل قدیم یونانی معاشرے کی اقدار کا ایک تسلسل تھا۔‘
’قرون وسطیٰ کے یہ رویے بازنطینی کلچر کا اہم ستون تھے۔ پھر عیسائی اخلاقی تھیولوجی نے، جن میں عورتوں کو مردوں کی گمراہی کا ذریعہ کہا گیا ہے، ان پرانے رویوں کو مزید طاقت بخش دی تھی۔‘
ایک شہنشاہ نے عورت کی حاضر جوابی کی وجہ سے منگنی توڑ دی
یہ اینا کی پیدائش سے بہت پرانی بات ہے۔ مؤرخ کولووو نے نویں صدی کی ایک روایت کا ذکر کیا ہے۔ شہنشاہ تھیوفیلس کے سامنے ان کی ملکہ بننے کی امیدواروں کی فہرست پیش کی گئی۔ بازنطینی معاشرے میں اچھے کردار کی ایک اہم نشانی نشانی خوبصورت نظرا آنا بھی تھی اور یہ لڑکیاں اسی بنیاد پر منتخب کی گئی تھیں۔
شہنشاہ کے سامنے پیش کی گئی فہرست میں کاسیہ نامی بازنطینی شاعرہ اپنی خوبصورتی کی وجہ سے سر فہرست تھی۔
شہنشاہ تھیوفیلوس نے اسے مزید پرکھنے کے لیے سوال کیا کہ ’عورت تمام برائیوں کی جڑ ہے۔‘
کاسیہ نے بغیر تعمل کہ جواب دیا کہ ’لیکن عورت تمام اچھائیوں کا ذریعہ بھی ہے۔‘
اس حاضر جوابی کا نتیجہ یہ نکلا کہ شہنشاہ نے اس کے لیے پسند کی گئی خواتین کی فہرست میں ایک اور عورت تھیوڈورا کو اہنی ملکہ بنا لیا۔ اور کاسیہ کی زندگی ایک خانقاہ میں گزری۔ یہ سزا یا خود ساختہ تنہائی نہیں تھی بلکہ کولووو لکھتی ہیں کہ ’ایک دانشور عورت کے لیے یہی جگہ ہو سکتی تھی تھی جہاں وہ خاندان اور بچوں کی ذمہ داریوں سے آزاد ہو کراپنے شوق پورے کر سکتی تھی۔ کئی صدیوں بعد آج بھی کاسیہ کی لکھی نظم ’فالن ویمن‘ ہر سال مقدس موقع پر یونانی آرتھوڈوکس گرجا گھروں اور دنیا بھر کی خانقاہوں میں گائی جاتی ہے۔
کاسیہ خوبصورت تو تھی لیکن عورت کے لیے تابعداری اور عاجزی بھی اہم تھی اور اس طرح کی حاضر جوابی کی اس معاشرے میں گنجائش نہیں تھی۔
عورت جس کے ’کان اور آنکھیں بھی کنوارے‘ ہوں وہ تاریخ کیسے لکھے گی؟
’نیول لکھتی ہیں کہ آسان الفاظ میں تاریخ نویسی عورتوں کے لیے نامناسب تھی۔‘
تاریخ بتاتی ہے کہ قدیم زمانے اور قرون وسطیٰ کے یونانی مؤرخین کا انحصار اہم واقعات اپنی آنکھوں سے دیکھنے پر تھا۔ ’قابل اعتبار سمجھا جانے کے لیے ضروری تھا کہ مؤرخ کی بات ان الفاظ سے شروع ہو کہ ’میں نے دیکھا‘۔
اگر کسی نے کوئی واقعہ خود نہیں دیکھا تو اس کے لیے ضروری تھا کہ وہ ان لوگوں سے بات کرے جنھوں نے وہ واقعہ دیکھا ہو۔ اب اگر کوئی لڑکی غیر مردوں سے بھی نہیں ملے گی اور باہر بھی نہیں جائے گی تو وہ اچی مؤرخ کیسے بن سکتی ہے۔
اسی وجہ سے، نیول لکھتی ہیں کہ، کئی جگہوں پر اینا کومنینے کی تحریر اچانک غیر روایتی ہو جاتی ہے۔ ’ممکنہ اعتراضات سے بچنے کے لیے وہ اپنے آپ کو اس طرح پیش کرتی ہیں جس سے اس زمانے کے معیار کے مطابق نسوانیت کی تصویر سامنے آتی ہے۔‘
نیول بتاتی ہیں کہ اینا کی تاریخ کو ’عجیب‘ سی تاریخ بھی کہا گیا ہے لیکن یہ کہتے ہوئے لوگوں نے اس بات پر غور کرنے کی کوشش نہیں کہ یہ ’عجیب‘ کیوں تھی؟ انھوں نے اس کا جواب دیا کہ یونانی روایت میں تاریخ لکھنا مردوں کا کام رہا ہے اور اینا کا چیلنج یہ تھا کہ وہ ’اچھی لڑکی‘ ہونے کے تقاضے پورے کرتے ہوئے مردوں کے اس میدان میں قسمت آزمائیں۔
مؤرخ کہتے ہیں کہ اینا کا کئی مقامات پر غیر ضروری طور پر جذباتی انداز اپنانا بھی اسی حکمت عملی کا حصہ معلوم ہوتا ہے اور اسی طرح کئی بار وہ شوہر کی موت کے بعد اپنے آپ کو تنہا اور مظلوم عورت بنا کر بھی پیش کرتی ہیں۔‘
لوگوں کا اعتبار حاصل کرنے کے لیے انھوں نے بڑے پیمانے پر اپنی تاریخ نویسی میں دستاویزات کا سہارا لیا ہے اور ان کا ذکر بھی بار بار کیا ہے۔ اور نیول کے مطابق ان پر اپنے ذرائع کا ذکر کرنے کا دباؤ کسی مرد مؤرخ سے زیادہ نظر آتا ہے۔
وہ تسلیم کرتی ہیں کہ معاشرے کے تقاضے جو بھی تھے اور پر مکمل طور پر عمل نھیں کیا جا سکتا اور یہ کہ اسی ماحول میں کئی خواتین نے انتہائی آزادی سے کام کیا۔ ’ہم انھیں تاجروں، کاروباری شخصیات، زمینداروں اور خانقاہوں کی لیڈروں کے طور پر دیکھتے ہیں۔ سلطنت کی ملکاؤں کا بازنطین کی مشہور ترین شحضیات میں شمار ہوتا ہے۔‘
’ایسا نہیں ہے کہ کوئی کمرے میں گھس کر اینا سے قلم چھین سکتا تھا، لیکن ان کی تحریر ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ ان پر اپنے آپ کو ایسی اچھی عورت ثابت کرنے کا کتنا دباؤ تھا جو کلچر کے عورتوں سے متوقع معیار کے مطابق زندگی گزار رہی ہے۔‘
نیول کہتی ہیں کہ بازنطینی عورتیں اپنے سماج کے نظریات کے مطابق چلتے ہوئے خودمختاری کے اظہار کے راستے تلاش کرتی تھیں۔ ’اینا نے اپنی کتاب الیکسی ایڈ میں یہ تمام طریقے اپنائے ہیں۔۔۔۔ اس طریقے سے انھیں آزادی بھی مل جاتی تھی لیکن ساتھ ہی ان اقدار کو نئی زندگی بھی۔‘
نیول بتاتی ہیں کہ اینا کو ریاضی، فلکیات کے ساتھ ساتھ طب سے بھی اتنی آگاہی ضرور تھی کہ وہ اپنے والد کے ڈاکٹروں سے اس موضوع پر زوردار بحث کر سکتی تھیں۔ انھیں کلاسیکل ادب سے بھی خوب واقفیت تھی۔
نیول لکھتی ہیں کہ ’الیکسی ایڈ تاریخ نویسی کا ایک شاہکار ہے جو 12ویں صدی میں مشرقی بحیرہ روم کی تاریخ اور سیاست کے بارے میں ہماری معلومات کا اہم ذریعہ ہے۔‘
اینا کا چھپ چھپ کر راتوں کو خواجہ سراؤں سے ملنا
کولووو لکھتی ہیں کہ اپنے پہلے منگیتر کی موت کے بعد گھر واپس آ کر غیر شادی شدہ لڑکیوں کی طرح اینا کا زیادہ تر وقت اپنی والدہ کے ساتھ گزرتا۔ وہ صرف رات کو سونے سے پہلے ایک دوسرے سے الگ ہوتیں۔
کولووو اس زمانے کے مصنف اور اینا کے دوست بشپ جارج ٹورنیکوس کے حوالے سے بتاتی ہیں کہ اینا کے والدین علم کے شوقین تھے خاص طور پر مذہبی کتب سے حاصل ہونے والا علم لیکن وہ اپنی بیٹیوں کے لیے ’غیر ضروری‘ علم کے حق میں نہیں تھے جس سے مراد مسیحیت سے پہلے زمانے کی کلاسیکل تعلیم۔
’ان کے خیال میں وہ کہانیاں تو مردوں کے لیے بھی مناسب نہیں کنواری لڑکیاں کیسے پڑھ سکتی ہیں۔‘ ان والدین کی نظر میں ’لڑکیوں کے کان اور آنکھیں بھی کنواری رہنی چاہیں۔‘ لیکن اینا نے نہ صرف یہ کہانیاں اور علوم پڑھے بلکہ والدین سے اس بات کو پوشیدہ رکھنے کی بھی کوشش کی۔
جارج ٹارنیکس لکھتے ہیں کہ ہر شام والدہ کے سونے کے لیے جاتے ہی اینا پڑھائی لکھائی میں لگ جاتیں اور ان کے استاد تھے شاہی محل کے پرانے عہدیدار اور خواجہ سرا۔ وہ واضح کرتے ہیں کہ اینا نے اس بات کی یقین دہانی کی کہ وہ انجان مردوں کو اہنے گرد جمع کر کے اپنی اور والدین کی عزت پر حرف نہیں آنے دیں گی۔ ’اینا نے کسی معشوق کے لیے نہیں بلکہ علم کے لیے اپنے والدین کو دھوکہ دیا۔‘
والدین کی طرف سے مناسب رشتے کی تلاش تک اینا کو دنیا کی نظروں سے دور اپنے والدین کی ہناہ میں رہنا تھا۔ کم سے کم تھیوری میں ایسا ہی تھا۔
اینا کومنینے کا منگیتر اس کے لیے ’خدا کا انعام تھا‘
اینا کی چودہ سال کی عمر میں دوسری بار منگنی ایک طاقتور گھرانے کے سترہ سالہ بیٹے نائیکیفورس برائینیوس سے ہو گئی۔
برائیونیوس خاندان اینا کے خاندان سے اس لحاظ سےکم تر تھا کہ ان میں کوئی شہنشاہ نہیں گزرا تھا۔ اور جب ایک بار نائیکیفورس کے دادا نے بغاوت کر کے تخت حاصل کرنے کی کوشش تو یہ اینا کے والد اور اب شہنشاہ الیکسیوس ہی تھے جنہوں نے اس بغاوت کو کچلا تھا۔
الیکسیوس خود اس وقت شہنشاہ کی فوج میں جرنیل تھے۔ الیکسیوس جب بغاوت کو ناکام بنانے کے بعد نائیکیفورس کے دادا کو قیدی بنا کر لے جا رہے تھے تو راستے میں ایک جگہ آرام کرتے ہوئے ان کی آنکھ لگ گئی اور ان کی تلوار بھی ان سے دور تھی۔
مؤرخ بتاتے ہیں نائیکیفورس کے دادا کے لیے یہ اچھا موقع تھا ’برائیونس کے دل میں اسے مارنے کا خیال بھی آیا، لیکن انھوں نے اپنی شکست کو خدا کا فیصلہ سمجھا کہ وہ شہنشاہ نہیں بن سکتے اور قتل کا خیال جھٹک کر درخت کے نیچے بیٹھ کر الیکسیوس کے جاگنے کا انتظار کیا۔‘
برائیونس کی اس وقت کے شہنشاہ کے حکم پر آنکھیں نکال دی گئی تھیں۔ اب اسی برائیونس کا پوتا ان کی بغاوت ناکام بنانے والے شہنشاہ الیکسیوس کا داماد بن رہا تھا۔
نائیکیفورس برائیونس شہزادی اینا کے لیے خدا کا انعام تھے۔ کم سے کم اینا کے دوست اور مصنف بشپ ٹورنیکس کا یہی خیال ہے۔
اینا کے شوہر اور ان کی ’خوبصورتی‘
اینا نے اپنی تحریروں میں نائیکیوفورس کا موازنہ کلاسیکل یونانی کہانیوں کے ہیرو سے کیا ہے۔ ان کی خوبصورتی، وجاہت اور عسکری مہارت کے قصے بھی درج ہیں۔
لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان کو بھی پڑھائی لکھائی کا اینا کی طرح شوق تھا۔ ایک شادی شدہ عورت کی حیثیت میں انھیں چھپ کر پڑھنے کی مجبوری ختم ہو گئی تھی۔ وہ بہترین سے بہترین استادوں کی خدمات حاصل کر سکتی تھیں۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ اب انھیں پڑھنے لکھنے کے معاملے میں اپنے والدین کی مکمل حمایت حاصل تھی ’کیونکہ ان کے شوہر کو ان باتوں پر اعتراض نہیں تھا۔‘
اینا کا کمال صرف حصول علم نہیں تھا بلکہ ٹورنیکس بتاتے ہیں، انھوں نے بیوی اور سات بچوں کی ماں کے طور بھی اپنا پورا کردار نبھایا۔ ان پر ایک الزام یہ بھی لگا کہ وہ ایک سخت دل عورت تھیں جنھوں نے اپنی کتاب میں اپنے بچوں کا ذکر نہیں کیا۔ لیکن دوسری طرف کولووو لکھتی ہیں اگر وہ ایسا کرتی تو پھر کہنے والوں نے کہنا تھا کہ یہ تو جذباتی عورت ہے اور اس لیے تاریخ نویسی جیسا کام اس کے بس کا نہیں۔
الیکسی ایڈ اور پہلی صلیبی جنگ
بدھ 27 نومبر 1095 کو پاپائے روم اربن دوم نے فرانس کے شہر کلیرمون میں ایک بہت بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے،عمر اور رتبے سے قطع نظر، ہر مسیحی کو مقامات مقدسہ کو آزاد کروانے کے لیے مشرق میں اپنے مسیحی برادران کی مدد کو جانے کی اپیل کی۔
ان کا یہ پیغام ہر مرد و عورت امیر اور غریب کے لیے تھا۔ کولووو لکھتی ہیں کہ وہ خاص طور پر ان نائٹس اور ان بااختیار افراد سے مخاطب تھے جن کا پر تشدد رویہ معاشرے کے لیے مسئلہ بنا ہوا تھا کہ اگر وہ اس مشن پر جائیں گے تو ان کے گناہ دھل جائیں گے۔
لیکن، کولووو لکھتی ہیں کہ، اب زیادہ تر سکالر اس بات پر متفق ہیں کہ پاپائے روم دراصل بازنطینی سلطنت کے شہنشاہ الیکسیوس کی مدد کی اپیل کا جواب دے رہے تھے جس میں انھوں نے مشرق سے سلجوک ترکوں کی آمد کے بعد مشرقی رومی سلطنت کو پیش آنے والی مشکلات کا ذکر کیا تھا۔
’الیکسیوس نے فوجی امداد مانگی تھی جس کے جواب میں وہ اچھے تربیت یافتہ فوجیوں کی آمد کی توقع کر رہے تھے۔‘ اس جنگ کے کئی دہائیوں بعد اینا کومنینے نے خانقاہ کی خاموشی میں اپنی کتاب لکھتے ہوئے یاد کیا کہ کیسے انھیں اس وقت لگا تھا کہ پورا یورپ ہی ان کی سلطنت میں چلا آ رہا ہے اور ان کی تعداد ’ریت کے ذرات اور آسمان پر ستاروں‘ سے زیادہ تھی۔
ان کے والد نےمسلح تربیت یافتہ فوجیوں کی توقع کی تھی لیکن بدلے میں مسلح اور غیر مسلح فوجی اور غیر فوجی سبھی چلے آ رہے تھے اور ان کے پاس صرف ’ایمان‘ تھا۔
سنہ 1096 میں صلیبیوں کی پہلی لہر یروشلم کے راستے میں قسطنطنیہ پہنچی۔ اینا کے مطابق یہ صلیبی تقریباً 80 ہزار پیدل افراد اور ایک لاکھ گھڑ سواروں پر مشتمل تھے۔ تاہم مؤرخین کا خیال ہے کہ اصل تعداد اس سے کم تھی۔ تاہم کولووو لکھتی ہیں ان کی تعداد اتنی ضرور تھی کہ قسطنطنیہ کی حکومت میں تشویش پھیل گئی۔ وہ لکھتی ہیں کہ ان میں زیادہ تر غریب لوگ تھے جن کا گزارا ان کے امیر ہمسفروں کی سخاوت پر تھا جو اپنی آخرت سنوارنے کے لیے ان کی مدد کر رہے تھے۔
زیادہ تر راستے کے سامان کے لیے شہنشاہ کی طرف دیکھ رہے تھے اور ان کی ’لالچی نظریں ان کی دولت پر بھی تھیں۔‘
الیکسیوس اس ہجوم کو جلد سے جلد اپنے دارالحکومت سے دور دیکھنا چاہتے تھے۔ کولووو لکھتی ہیں کہ وہ خود فوجی تھے اور اچھی طرح جانتے تھے کہ بھوکا ہجوم بہت جلد مسیحی اور مسیحی کا فرق بھول سکتا ہے اور انھیں یہ بھی معلوم تھا کہ اس ہجوم میں بہت سے لوگ مذہبی جذبے سے نھیں بلکہ بہتر امکانات کی تلاش میں یا مہم جوئی کے شوق میں گھر سے نکلے تھے۔
کولووو لکھتی ہیں کہ بعد میں ان صلیبیوں کے ہاتھوں یہودیوں کے قتل عام سمیت جو ظلم و تشدد ہوا جس کی تفصیلات مغربی دستاویزات میں ملتی ہیں، اسے دیکھ کر شہنشاہ الیکسیوس کی تشویش جائز معلوم ہوتی ہے۔
انھوں نے اینا کومنینے کے حوالے سے بتایا کہ شہنشاہ نے ان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بازار قائم کیے اور اپنے حکام کو ہدایت کی صلیبیوں کے ساتھ اچھی طرح پیش آئیں لیکن ان پر گہری نظر رکھیں۔
15 اگست سنہ 1096 کو صلیبیوں کی دوسری لہر یورپ سے روانہ ہوئی اور اینا کے مطابق اس ان کی تعداد تقریباً 80 ہزار تھی اور ان میں زیادہ تر فوجی تھے جن کے جنگ میں استعمال ہونے والے گھوڑے دیکھ کر لوگ حیران رہ گئے۔
ان میں بڑی تعداد میں صاحب حیثیت لوگ تھے جن کا مقصد ترکوں سے ان کے علاقے حاصل کر کے اپنے لیے جاگیریں بنانا تھا۔ اینا کا خیال تھا کہ ’جہاں تک صاحب حیثیت صلیبیوں کا تعلق تھا یہی ان کا واحد اور اصل ارادہ تھا۔ مقامات مقدسہ کی آزادی تو بہانہ تھا جس کے پیچھے ان کی چالاکی چھپی ہوئی تھی۔‘
مؤرخ لکھتے ہیں کہ صلیبیوں کی اس دوسری لہر کا یروشلم کے طویل سفر کے دوران راستے میں وہ استقبال نہیں ہوا جو پہلی لہر میں جانے والوں کا ہوا تھا اور اس کی وجہ ان کے ہاتھوں راستے میں ہونے والی تباہی اور تشدد تھا۔
انھوں نے صلیبی فوج کی آمد کے ان مہینوں کے کئی واقعات درج کیے ہیں جس سے اس زمانے کی تصویر بنائی جا سکتی ہے۔ کولووو نے اینا کے حوالے سے لکھا ہے کہ وہ’ موضوع سے ہٹ کر لکھتی ہیں کہ لاطینی پادری بالکل یونانی آرتھوڈوکس پادریوں کی طرح نہیں تھے جو اصل تعلیمات پر عمل کرتے ہیں، اسلحہ لے کر نہیں چلتے، جنگوں میں حصہ نہیں لیتے، جبکہ لاطینی پادریوں کے لیے جنگ بھی اتنی ہی اہم ہے جتنا مذہب، وہ وحشی جو ہیں۔‘
پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ سردی اور بھوک سے ستائے یورپ سے آئے ان صلیبیوں نے قسطنطنیہ پر بھی حملہ کیا۔ اینا لکھتی ہیں کہ شہر کے دروازوں سے دھواں اٹھتا دیکھ کر قسطنطنیہ کے باسیوں میں خوف کی لہر دوڑ گئی۔ ان حملوں میں شہر کی دیوار کے باہر گرجا گھر بھی محفوظ نہ رہے۔
مجبوراً شہنشاہ کو اپنے داماد نائیکوفورس کو روانہ کرنا پڑا لیکن انھیں حکم تھا کہ وہ تیر برسائیں لیکن اس بات کو یقینی بنائیں کے ہلاکتیں نہ ہوں۔ لیکن اس صورتحال میں خون کا نہ بہنا ممکن نہیں تھا۔ کولووو لکھتی یں کہ اینا نے جس طرح اس لڑائی کو بیان کیا اس سے یونانی کہانی ’ہومر‘ کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔
’پہلی صلیبی جنگ اور اینا کرومنینے کی کتاب الیکسی ایڈ‘
حیران کن طور پر یورشلم کی فتح یا آزادی جس طرح ادب میں بیان کی جاتی ہے، کولووو کے مطابق، بازنطینی سلطنت کے لیے زیادہ اہم نہیں تھی۔ ’اینا نے اس باب کو چند سطروں میں نمٹا دیا ہے جو کہ پہلی صلیبی جنگ کا مرکزی نقطہ تھا۔‘
’وہاں پہنچنے پر انھوں نے شہر کا محاصرہ کیا اور اسے ایک مہینے میں فتح کر لیا جس دوران بڑی تعداد میں مسلمان اور یہودی شہری ہلاک ہوئے۔‘
کولووو لکھتی ہیں کہ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ اینا کی صلیبی جنگ میں دلچسپی اس جنگ کے ان کی دنیا پر، ان کے شہنشاہ والد اور ان کی سلطنت پر پڑنے والے اثرات کی وجہ سے تھی۔
اینا کو احساس ہے کہ بہت سے سادہ لوگ مسیحیت کے مقدس مقامات میں عبادت کے جذبے سے اس میں شامل ہوئے تھے لیکن وہ یہ نہیں سمجھتیں ان کی لیڈر بھی اس میں اسی لیے شامل ہوئے تھے۔ ’ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انھیں(اینا کو) یقین تھا کہ وہ اپنے لالچ اور ذاتی فائدے کے لیے اس میں شامل ہوئے تھے۔‘
کولووو کہتی ہیں کہ ’ایلیکسی ایڈ‘ کی پہلے صلیبی جنگ کو سمجھنے میں اہمیت کے بارے میں اچھا اور برا بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ ’الیکسی ایڈ کا تجزیہ بھی اسی مغربی تعصب کا شکار ہوا ہے جس کا اس وقت سامنا الیکسیوس اور بازنطینیوں کو خود تھا جب یہ واقعات ہو رہے تھے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ اینا کی کتاب کو اہمیت دینے والے مؤرخین کی نظر میں یہ کتاب پہلی صلیبی جنگ کے بارے میں بڑی تعداد میں مغربی یورپ کی دستاویزات کے سامنے واحد بازنطینی دستاویز ہے۔
ایک راہبہ کی موت
کومنینے خاندان کے اقتدار کے زمانے میں ایک سادہ راہب کی حالت میں آنے والی موت بہترین موت سمجھی جاتی تھی۔ شہزادی اینا بھی اپنی زندگی کے آخری برسوں میں اپنی دادی اور ماں کے نقش قدموں پر چلتے ہوئے راہبہ بن گئی تھیں۔ ان والد کے چچا جو ماضی میں کچھ دیر کے لیے بازنطینی سلطنت کے شہنشاہ بنے تھے ایک خانقاہ میں راہب بن کر قلی کا کام کرتے ہوئے دنیا سے گئے۔ اینا کے بعد ان کا ایک بھتیجہ شہنشاہ میونویل بھی زندگی کے آخری حصے میں راہب بن گیا تھا۔
’تاریخ وقت کے کبھی نہ رکنے والے دھارے کے سامنے بند باندھ کر ماضی کو بچا لیتی ہے‘
اینا کومنینے تاریخ کیوں لکھنا چاہتی تھیں اور ان کی نظر میں اس کی کیا اہمیت تھی اس کا اندازہ ان کی کتاب کے اس ایک اقتساب سے لگایا جا سکتا ہے۔
’بغیر کسی روک ٹوک، ہر دم رواں رہنے والا وقت اپنے سامنے آنے والی ہر اس چیز کو جس نے دن کی روشنی دیکھی ہو بہا کر لے جاتا ہے۔ چاہے وہ چیز معمولی ہو یا یاد رکھے جانے کے قابل ۔۔۔۔ لیکن تاریخ نویسی کی سائنس وقت کے اس دھارے کے سامنے عظیم بند بن جاتی ہے۔ وہ اس کے منہ زور ریلے کو روک دیتی ہے۔ وہ جس چیز کو چاہتی ہے وقت کے ریلے کی سطح سے اپنی گرفت میں لے کر گمنامی میں جانے سے بچا لیتی ہے۔‘